مکرم عبدالسمیع عارف صاحب کے ساتھ مکالمہ

ہمارے قارئین نے یقیناً جلسہ ہائے سالانہ جرمنی کے اسٹیج پر مختلف خوبصورت مصنوعات دیکھی ہوں گی، مثلاً ڈائس، میز، منارۃالمسیح اور اسی طرح کی اور تزئینی اشیاء۔ خاص طور پر وہ منارۃالمسیح کا ماڈل جس سے حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ نے صد سالہ جوبلی کے موقع پر جلسہ سالانہ جرمنی سے خطاب فرمایا تھا۔ آج ہم آپ کا تعارف اس شخصیت سے کرانا چاہتے ہیں جس کا دستِ ہنر یہ نمونے تخلیق کرتا ہے۔ ہماری مراد مکرم عبدالسمیع عارف صاحب سے ہے، جو اس وقت گروس گیراؤ میں مقیم ہیں۔

آپ کے دادا حضرت محمد دین صاحبؓ پنجاب کے ایک گاؤں بھوئے سے تعلق رکھتے تھے۔ جب آپ کو خبر ہوئی کہ قادیان میں ایک شخص نے امام مہدی ہونے کا دعویٰ کیا ہے تو آپ اپنے گاؤں سے پیدل چلے اور کچھ دن پیدل راستہ طے کرکے قادیان پہنچے۔ چند دن قادیان میں قیام کرنے کے بعد آپ نے بیعت کا شرف حاصل کیا اور کچھ برس بعد آپؓ قادیان ہی میں آ بسے۔ حضرت محمد دین صاحبؓ کی وفات 95 سال کی عمر میں ربوہ میں ہوئی۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اعلیٰ علیین میں جگہ دے۔ آمین۔ عبدالسمیع صاحب کے والد صاحب کا نام ٹھیکےدار عبدالرحیم صاحب تھا اور ”ٹال والے“ کے نام سے معروف تھے۔

تقسیمِ ہند کے بعد یہ خاندان ربوہ میں آباد ہو گیا۔ مکرم عبدالسمیع عارف صاحب 14 اگست 1948ء کو ربوہ میں پیدا ہوئے۔ آپ نے ابتدائی تعلیم ربوہ سے ہی حاصل کی اور میٹرک کے بعد لاہور آباد ہوگئے۔ لاہور میں آپ نے اپنی پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز کیا۔

جرمنی میں عبدالسمیع عارف صاحب جماعتی خدمات میں پیش پیش رہے، چاہے وہ مصنوعات کی تیاری ہو یا مساجد اور دفاتر میں وقارِعمل۔ بالخصوص صنعتی کاموں میں آپ نے بہت محنت کے ساتھ کام کیا مثلاً مختلف مساجد کی لائبریریز، لکڑی کی بنی ہوئی دیدہ زیب محرابیں، ڈائس اور میز، جلسہ ہائےسالانہ کے لیے جوتے رکھنے کے شیلف، حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ اور حضرت خلیفۃالمسیح الخامس کے استعمال میں آنے والی لکڑی کی قیمتی کرسیاں، میز اور ڈائس، دفاتر کی تیاریاں، ناصرباغ میں وقارِعمل اور ایم ٹی اے جرمنی کے اسٹوڈیوز کی تیاری۔ اب آپ کی خدمت میں ہم عبدالسمیع عارف صاحب سے کیے گئے مکالمے کے چیدہ ٹکڑے پیش کرتے ہیں۔

اخبار: ربوہ کے دور کی آپ کے ذہن میں کچھ یادیں ہوں گی۔ کچھ اس کا ذکر فرمائیں۔
عبدالسمیع صاحب: مجھے دو ایک بہت دل چسپ واقعات بہت اچھی طرح یاد ہیں۔
ربوہ میں ابتدائی طور پر زمین خریدنے والوں میں میرے والد صاحب بھی تھے۔ ہم لاہور میں مقیم تھے۔ جب حضور (حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ) نے اعلان کیا کہ مَیں نے خواب میں جگہ دیکھی ہےکہ پہاڑیوں کے درمیان ایک جگہ ہے اور وہاں ہم اپنا مرکز بنائیں گے۔ تو ابا جی کہتے ہیں کہ اسی وقت مَیں پچاس روپے نکالے اور حضور سے عرض کی کہ یہ میری طرف سے آبادی میں رکھ لیں۔ تو حضورؓ نے اسی وقت سیکرٹری آبادی سے کہا کہ مستری عبدالرحیم کی رسید کاٹ دیں۔ یوں جو تیسرا پلاٹ ربوہ میں الاٹ ہوا وہ ہمارے ابا جی کا پلاٹ تھا۔ میرے ابا جی کافی عرصہ امورِعامہ کے سیکرٹری رہے ربوہ میں۔ اور پھر لاہور گئے تو وہاں امام مسجد بھی رہے۔

ایک اور لطف کی بات ہے۔ کہ جب میں چار یا پانچ سال کا تھا تو میں نے حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کے ساتھ ایک وقارِعمل میں شرکت کی تھی۔ ربوہ کے سٹیشن کی دوسری طرف، جو لیڈیز کالج ہے، وہاں ہر سال بارشوں سے بڑی بڑی کھائیاں بن جایا کرتی تھیں۔ میرے ابا جی مجھے بھی انگلی پکڑ کے لے گئے۔ میں چھوٹا سا تھا۔ تو میں نے دیکھا کہ حضور بھی تشریف لائے ہیں اور آپ نے اپنی پگڑی اتاری اور فرمایا ”مَیں بھی ٹوکری اُٹھاؤں گا“۔ لوگ کہنے لگے کہ حضور! آپ ٹوکری نہ اُٹھائیں، ہم اُٹھائیں گے۔ تو حضورؓ نے فرمایا کہ “اگر میں نہیں اُٹھاؤں گا تو میرے ناظر کیسے اٹھائیں گے’’۔ یہ الفاظ مجھے آج بھی اس طرح یاد ہیں، جیسے میں نے ابھی سنے ہوں۔

اخبار: اب کچھ اپنی تعلیمی اور عملی زندگی کے بارے میں بتائیے۔
سمیع صاحب:1965ء میں مَیں نے ربوہ سے میٹرک پاس کیا اور 66 ءمیں لاہور چلا گیا۔ اور 1966ء میں ہی شادی ہوگئی۔ لاہور میں مَیں نے لکڑی کا کام کیا۔ اپنے والد صاحب سے یہ کام سیکھا تھا۔ 1976ء میں سعودیہ (عرب) چلا گیا۔ وہاں بھی یہی کام کرتا رہا۔

اخبار: پھر آپ کے جرمنی آنے کا کیا سبب بنا؟
سمیع صاحب: جب میں 84ء میں عرب سے واپس پاکستان آیا تو اس وقت ایک دوست اور ان کی والدہ کے قائل کرنے پر مَیں نے دوستوں کے ساتھ سویڈن جانے کا ارادہ کرلیا۔ سویڈن میں اصول یہ تھا کہ چھ سے آٹھ ہفتے میں وہ فیصلہ کر دیتے تھے کہ رکھنا ہے یا واپس بھیجنا ہے۔ ہمارے آٹھ نو مہینے گزر گئے۔ حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ نے بھی تحقیق کروانی شروع کی۔ معلوم یہ ہوا کہ سکینڈینوین چرچ احمدیوں کے کیسز کو روکنے کی کوشش کر رہا تھا۔ ہم نے کچھ کوششیں کیں اور اس کے بعد حضورؒ کا ارشاد ہوا کہ اب جرمنی چلے جاؤ۔ تو ہم جرمنی آ گئے۔ Malmo سے ایک فیری کے ذریعے ڈنمارک پہنچے اور بذریعہ ہوائی جہاز جرمنی پہنچ گئے۔ اس وقت میرا بیٹا ساتھ تھا، خالد ندیم عارف۔ ہم ہمبرگ مسجد پہنچے۔ اس وقت لئیق احمد منیر صاحب وہاں امام اور مربی سلسلہ تھے۔ انہوں نے ہماری بہت خاطر تواضع کی۔ ہم زیادہ تر ان دنوں مسجد میں رہا کرتے تھے۔ کچھ نہ کچھ کام کر لیا کرتے تھے۔ دو تین ماہ کا وقت تھا۔

اخبار: پھر اسائلم کا کیس Soltau میں مقرر ہوا۔ اور آپ وہاں منتقل ہوگئے۔ اور وہیں آپ کا روزگار اور جماعتی خدمت کے سلسلے کا بھی آغاز ہوگیا؟
سمیع صاحب: جی، بچے اور اہلیہ بھی آگئے ایک سال بعد۔ Soltau شہر میں ہمارا قیام ہو گیا۔ یہ شہر ہمبرگ اور ہانوور کے درمیان ہے۔ وہاں میں نے ایک کمپنی میں کام کرنا شروع کیا جو دروازے اور کھڑکیاں بناتی تھی۔ وہیں ایک دن میں نے ایک مشین کے لیے ایک ایسا پرزہ بنایا جس کی مدد سے دروازے کی چوکھٹیں کاٹنے کا کام جو پہلے آدھ گھنٹے میں ہوتا تھا، اب دو منٹ میں ہونے لگ گیا۔ ناصر باغ کے دروازے اور کھڑکیاں بھی میں نے وہیں سے بنوائے تھے۔ جس پر مجھے کمپنی نے خاص رعایت دی اور وہاں سے لا کے کھڑکیاں اور دروازے میں نے خود یہاں لگائے۔

اخبار: پھر صد سالہ جوبلی کے لیے آپ نے منارۃالمسیح بنایا تھا۔ تو اس کی تفصیل بتائیے۔
1989ء میں مجھے اللہ تعالیٰ نے توفیق دی منارۃالمسیح بنانے کی۔ اس سے حضورؒ نے جلسے سے خطاب فرمایا تھا۔ تین سال تک وہ جلسہ سالانہ کے لیے استعمال ہوتا رہا۔ مجھے 45 دن ملے تھے اسے بنانے کے لیے۔ میں دن رات اس پر کام کرتا رہا۔ میری بچی اور بیٹوں نے بھی اس میں میری بہت مدد کی۔ اور الحمدللہ وہ بن گیا۔ اس وقت ایک ٹرک ڈرائیور تھے جن کا نام مقصود صاحب تھا، وہ Soltau لینے کے لیے آئے۔ نیند کے باوجود انہوں نے ٹرک چلایا اور ہم یہاں پہنچ گئے۔ یہ منارہ خاصا وزنی تھا، تین چار آدمی اسے کھڑا کر رہے تھے۔ اسی دوران حضورؒ معائنے کے لیے تشریف لے آئے۔ حضورؒ نے منارہ دیکھ کر خوشی کے اظہار کے ساتھ ”ویل ڈن، ویل ڈن، ویل ڈن“ کہتے ہوئے میری کمر پہ دو تین بار تھپکی دی۔ پھر فرمایا: اس سال بہت سے لوگوں نے منارے بنائے ہیں لیکن یہ منارہ، منارۃالمسیح کے قریب ترین ہے۔ اس بڑے منارے کے ساتھ مَیں نے چار چھوٹے منارے بھی بنائے تھے۔ وہ تقریباً سوا میٹر کے تھے۔ ان میں سے ایک مَیں نے حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کو تحفے میں پیش کیا۔ اس وقت میری گود میں میری چھوٹی بچی تھی، چار پانچ سال کی تھی،تب حضورؒ نے خود ایک غبارہ صد سالہ تقریب کی خوشی کا، اس کو پُھلا کے دیا۔ وہ اس نے آج بھی سنبھالا ہوا ہے۔

اخبار: حضرت خلیفہ رابعؒ کے ساتھ آپ کی کوئی یادیں وابستہ ہوں گی۔
سمیع صاحب: ابھی 1989ء کے جلسے کے ہی دن تھے۔ تو مَیں وقارِعمل کے لیے یہیں تھا، تب مکرم چودھری شریف خالد صاحب نے یہ خوش خبری سنائی کہ حضورؒ ہمبرگ تشریف لے جاتے ہوئے آپ کے گھر ٹھہریں گے اور دوپہر کا کھانا تناول فرمائیں گے۔ مَیں اسی وقت فرانکفرٹ سے دوڑا۔ اور گھر پہنچ کر انتظامات شروع کردیے۔ حضور تشریف لائے، آپؒ نے دوپہر کا کھانا تناول فرمایا، دو گھنٹے ہمارے گھر کو برکت بخشتے رہے۔ یہ ہمارے سارے خاندان کے لیے ایک بہت ہی انمول یاد ہے۔
اس سے ایک بات یاد آئی۔ میرے چاروں بیٹے Taekwondo سیکھ رہے تھے۔ ہمبرگ میں قیام کے دوران حضورؒ کو کسی طرح علم ہوا تو حضورؒ نے میرے بچوں کو بلا کر اس فن کا مظاہرہ کرنے کو کہا۔ اس طرح دو تین سال میرے بچے حضورؒ کی خدمت میں Taekwondo کرکے دکھاتے رہے۔

اخبار: پھر گروس گیراؤ آپ کب منتقل ہوئے؟
سنہ 1992ء میں ہمیں ویزا ملا تو کمپنی چھوڑ کر ہم گروس گیراؤ آگئے، تا کہ ہم مرکز کے قریب ہوں۔

اخبار: اس سے پہلے کہ ہم منارۃالمسیح کا جو تازہ ماڈل آپ نے بنایا ہے، اس پر بات کریں۔ چند ایک اپنی ایسی خدمات کا ذکر کیجیے جو آپ کو خاص یاد آتی ہیں۔
سمیع صاحب: سنہ 2000ء میں ہم نے مسجدِ اقصٰی کا Front بنایا تھا۔ تصویر میں بالکل ایسا ہی لگتا تھا کہ مسجدِاقصٰی کھڑی ہوئی ہے۔ یہ ہماری پوری ٹیم ہے۔ اس میں ناصر محمود صاحب ہیں، داؤد سیال صاحب، رشید چیمہ صاحب ہیں، مبشر صاحب ہیں Hanau سے۔ اس کے علاوہ اور بھی دوستوں نے کام کیا ہے۔ 2000ء سے ہم نے بطور ٹیم کام کرنا شروع کیا۔

پھربہت سی مساجد ہیں جن کے لیے بہت سی لکڑی کی چیزیں تیار کرنے کی توفیق ملی۔ اس میں Pfungstadt, Offenbach اور Hanau یاد آ رہی ہیں۔ ان مسجدوں کے لیے شیلف، ڈائس، کتابوں کی الماریاں اور میز وغیرہ بنانے کی توفیق ملی۔

شروع شروع میں جو جماعت نے دفاتر کرائے پر لیے تھے ان میں بہت سا کام کرنے کی توفیق ملی۔ وہاں دفاتر کے لیے دیواریں کھڑی کیں، نماز کے لیے کمرے تیار کیے۔ ان سب کاموں میں بہت باقاعدگی سے کئی ماہ کام کرتا رہا میں کچھ دوستوں کے ساتھ۔

اخبار: ماشاءاللہ۔ اب جلسہ سالانہ جرمنی 2023ء کے موقع پر تیار کئے جانے والے منارۃالمسیح کے ماڈل کی کچھ تفصیل بتائیے۔ ساری دنیا نے اسے دیکھا ہے اور سبھی یہ جاننا چاہیں گے کہ یہ کیسے تیار ہوا۔
یہ ساڑھے سات میٹر اونچا ہے۔ اس کی ڈیزائننگ ہم نے منارۃالمسیح کے ایک چوتھائی کے تناسب سے کی ہے۔ ہر چیز اصل منارۃالمسیح کا ایک چوتھائی ہے۔ اور کوشش کی ہے کہ ڈیزائن تبدیل نہ ہو۔ جیسا اصلی ہے ویسا ہی ہم بھی بنائیں۔ تو ہم نے اس کی تصاویر لے کے بنایا۔ عمران بھٹی صاحب ہیں، انہوں نے ان تصاویر سے ڈیزائن نکالے اور سائز نکال کے دیے اور بہت محنت سے انہوں نے اس پہ کام کیا۔ نقشہ سائز سمیت ہمیں مل گیا تھا۔ لیکن بھٹی صاحب کو اس کے علاوہ بھی تصاویر دیکھ کے پیمائش کرنی پڑی۔ اتفاقاً ہماری ٹیم کے ممبر، ناصر صاحب ان دنوں پاکستان گئے تھے، تو انہوں نے بڑی ہمت کی۔ انہوں نے جالیاں ڈیزائن کے ساتھ بنوائیں اور کٹوا لیں۔ پھر جو نوک ہے منارے کی، وہ بھی وہاں سے بنوائی۔ اور منارے کے سر پہ ایک پھول کا سا ڈیزائن ہے۔ وہ بھی وہاں سے بنوا کے لائے۔ ہم نے منارے کے ساتھ چار ڈائس بھی بنائے جن میں سے ایک بیت السبوح میں ہے۔ ایک ڈائس سوئٹزرلینڈ کے لیے تھا، ایک ناصرباغ اور ایک Karben کی مسجد کے لیے۔

اخبار: منارۃالمسیح کی تیاری کے بارہ میں کچھ جاننا چاہتا ہوں۔ اسے بنانے میں آپ کو کتنا وقت لگا؟
اس کی تیاری میں ہمیں دو مہینے لگے۔ اس میں ڈائس اور MTA کا جلسہ سالانہ کے موقع پر تیار کیا جانے والا سٹوڈیو بھی شامل ہے۔ منارہ ہم نے یہیں ناصرباغ کے تہ خانہ میں بنایا۔ اسے ہم نے چار حصوں میں بنایا ہے۔ جلسے میں تو اس کو پھر Crane سے اٹھا کے جوڑا تھا۔ اور اس کے اندر بھی ہم نے سیڑھیاں بنا دی ہیں، کہ ایک Forklift سے بھی اٹھا کے اس کو جوڑا جا سکتا ہے۔ مکرم شہزاد صاحب یہاں گروس گیراؤ میں رہتے ہیں، انہوں نے اور مکرم طارق منیرالدین صاحب نے اس کی لائٹس پہ کام کیا ہے۔ اس پہ کام کرنے کے لیے صبح نو دس بجے سے رات 10 بجے عشاء کی نماز تک روزانہ ہم کام کرتے تھے۔

اخبار: یہ کام بہت ہی باریک ہے، تو اس کے لیے کیا حکمتِ عملی آپ نے اپنائی؟
سمیع صاحب: جی، بہت باریک کام ہے۔ اور اس کے آٹھ پہلو ہیں۔ اس لیے اس کی ہر لکڑی کو اس حساب سے بہت توجہ سے کاٹنا پڑتا تھا۔ پھر اس کا زاویہ بھی ہے۔ منارۃالمسیح نیچے سے اوپر کی طرف پتلا ہوتا جاتا ہے۔ اس کا ریڈیس نیچے سے 1.4 میٹر ہے اور اوپر سے تقریباً 0.9 میٹر ہے۔ تو اصلی بھی ایسا ہی ہے، اس لیے ہمیں اسے شیپ دینی پڑی کاٹتے ہوئے۔ تو ہم نے ایسا بنایا کہ نیچے والا پیس زمین پہ کھڑا ہو جاتا ہے لیکن باہر سے پاؤں نظر آتے ہیں اس کے۔ اور اوپر والا حصہ اس کے اوپر چڑھ جاتا ہے اور یوں Fix ہو جاتا ہے۔ سارے پیس اس طرح Fix ہو جاتے ہیں۔ تو اس کو کسی پیچ سے نہیں جوڑنا پڑتا۔

پہلے ہم نے چار بڑی لکڑیوں سےاس کا بیرونی ڈھانچا تیار کیا۔ اس کے بعد اس کی گیلریز بنائیں۔ وہ بھی بہت اچھی بن گئیں، الحمدللہ۔ اس کا سر بنانے میں ہمیں دو تین دن لگ گئے۔ تین مرتبہ بنایا پھر ایسا بنا ہے۔

اخبار: اس منارے پر اندازاً خرچ کتنا آیا ہے؟
سمیع صاحب: یہ تقریباً ڈھائی سے تین ہزار یورو میں پورا بنا ہے اور اس پر جماعتی خرچ نہیں آیا۔ ہم نے ذاتی طور پہ تحریک کرکے رقم جمع کرکے بنایا ہے۔

اخبار: ماشاءاللہ۔ اللہ تعالیٰ آپ کی ان تمام خدمات کو قبول فرمائے، آمین۔ خداتعالیٰ نے آپ کو دو نسلیں دکھائی ہیں۔
سمیع صاحب: جی الحمدللہ چار بیٹے اور دو بیٹیاں اللہ نے دی۔ میرے الحمدللہ متعدد نواسے نواسیاں اور پوتے پوتیاں ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے والدین کی بھی خدمت کی توفیق دی۔ مجھے ان کو گھر بنا کے دینے کی بھی توفیق ملی، الحمدللہ علیٰ ذالک۔

(اخبار احمدیہ جرمنی شمارہ اگست 2024ء صفحہ 31)

متعلقہ مضمون

  • جلسہ گاہ میں ایک تعارفی پروگرام

  • پہلا جلسہ سالانہ جرمنی

  • جماعتی سرگرمیاں