میرے والدین تحصیل بٹالہ ضلع گورداسپورکے رہنے والے تھے اور وہیں 25 مارچ 1930ء کو میری پیدائش ہوئی۔ میرے دادا جان دیندار تھے اور حضرت مسیح موعود سے حسنِ ظن رکھتے تھے۔ قادیان جا کر ملاقات بھی کی اور حضرت مسیح موعود کے دستر خوان پر مسجد مبارک میں آپ کی معیت میں کھانا بھی کھایا۔ آپ روایت کرتے تھے کہ جب دستر خوان پر کھانا کھانے کے لیے حضرت مسیح موعود کی معیت میں بیٹھے تو ڈاکیا ایک بیرنگ خط لے کر آ گیا۔ اسے پیسے دے کر خط لیا گیا۔ کھول کر پڑھا گیا تو سارا خط گالیوں سے پُر تھا۔ اس پر حضرت مسیح موعود نے فرمایا کہ نبی لادو ہوتا ہے جتنا چاہیں دنیا والے بوجھ ڈال دیں، ایک تو پیسے دیے دوسرے گالیاں ملیں۔ ایک بار حضرت مسیح موعود بٹالہ تشریف لائے ہوئے تھے۔ آپ گاؤں کے ایک اہل حدیث بزرگ جنہیں میاں موحد کہا جاتا تھا، کے ہمراہ بٹالہ گئے۔ حضرت مسیح موعود سے شرف ملاقات بھی پایا اور ہاتھ بھی دھلوائے لیکن بیعت کرنے کی سعادت آپ نے خلافت اولیٰ میں پائی۔
جلسہ سالانہ میں پہلی بار
ہمارا گاؤں قادیان سے 22 میل کے فاصلہ پر تھا۔ ابا جان مکرم احمد علی صاحب مرحوم مجھے بچپن سے ہی جلسوں پر ساتھ لے کر جاتے تھے۔ ایک مرتبہ مجھے یاد ہے کہ میری عمر شاید 10 سال ہوگی۔ مَیں اپنے ابا جان کے ساتھ قادیان جلسہ سالانہ میں بیٹھا تھا اور غالباً حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کی تقریر جاری تھی۔ اسی دوران مَیں نے ابّا جان سے کہا کہ مجھے بھوک لگی ہے تو انہوں نے اپنی جیب میں سے ایک اُبلا انڈا نکال کر دیا اور ساتھ کہا کہ ایسی تقاریر چھوڑ کر بھلا کہیں جایا جاتا ہے؟ ابا جان کی دنیاوی تعلیم تو زیادہ نہیں تھی لیکن علمی ذوق تھا۔ اس وجہ سے بھی وہ ان تقاریرکو بڑے انہماک سے سنتے تھے۔ اپنے اسی علمی ذوق کو اپنی نسل میں منتقل کرنے کے لیے مجھے جلسوں میں بہت بچپن سے ساتھ لے جایا کرتے تھے۔ ان کی ہی شدید خواہش کے نتیجہ میں میرے دل میں بھی وقف کرنے کا جذبہ پیدا ہوا۔ جلسہ سالانہ کی برکات میں سے ایک برکت یہ بھی ہے جو مجھے ملی، الحمدللہ۔
پاکستان میں جلسے
اللہ تعالیٰ کے فضل سے خاکسار کو پاکستان میں ہونے والے اوّلین جلسوں 1948ء میں بمقام لاہور اور 1949ء میں بمقام ربوہ میں شرکت کی توفیق ملی، الحمدللہ۔ ربوہ کے پہلے جلسہ میں تو نہ صرف شمولیت کی سعادت حاصل پائی بلکہ مہمان نوازی کے شعبہ میں ڈیوٹی بھی دی۔ اس سال انتظامات کے لحاظ سے شدید مشکلات کا سامنا تھا۔ عقب ہسپتال والی پہاڑی کے پاس لنگرخانہ تھا اور مہمانوں کی قیام گاہیں جلسہ گاہ کے قریب تھیں جو اس وقت آج کے گرلز ہائی سکول کی جگہ تھی۔ ٹرک پر کھانا آتا تھا جس پر مٹی پڑ جاتی تھی۔ ایک دن رات گئے تک مہمانوں کو کھانا نہ مل سکا اور نہ مَیں نے خود کھایا کہ جب تک مہمانوں کو نہیں ملے گا مَیں بھی نہیں کھاؤں گا حالانکہ مَیں اپنے کھانے کا انتظام کر سکتا تھا۔ اس سال پینے کے پانی کی بھی بڑی دِقّت تھی کیونکہ ربوہ کا پانی پینے کے قابل نہ تھا۔ حضورؓ نے جلسہ سالانہ کے آغاز میں ایک بار پھر حضرت ابراہیم کی تعمیر کعبہ کے وقت کی جانے والی پُر سوز دعائیں نہایت رِقّت آمیز رنگ میں پڑھیں۔ یہ جلسہ 15 تا 17 اپریل 1949ء ہوا تھا۔ گرمی کی شدّت میں اضافہ ہو رہا تھا لیکن عشاق ایسی مشکلات کو کب خاطر میں لاتے ہیں۔ کسی بھی فرد کی زبان سے کوئی شکوہ نہیں سنا۔ بلکہ سب شاداں و فرحان نئے مرکز میں ہونے والے پہلے جلسہ میں شمولیت کی سعادت ملنے پر بےحد مسرور تھے۔ مَیں خود بھی ایسے احباب میں شامل تھا۔ کھانے پینے اور آرام کی پروا کیے بغیرعشاق احمدیت جلسے کی برکات سے مستفیض ہوئے اور اپنی جھولیاں ان روحانی زر و جواہر سے بھرتے رہے۔
اس کے بعدجلسہ سالانہ میں ہمیشہ ڈیوٹی کی سعادت ملتی رہی۔ ایک دفعہ جبکہ کچا لنگر خانہ تھا اور ریلوے سٹیشن کے بالکل سامنے تھا اس میں ہم تین طلباء جامعہ احمدیہ کی ڈیوٹی تقسیم سالن پر تھی۔ مزدور دیگ لا کر کھڑکی کے سامنے کمرے کے اندر رکھ دیتے اور تقسیم سالن کا منتظم باہر کھڑے کھانا لینے والے احباب سے پرچی لے کر مطلوبہ تعداد کے مطابق سالن ڈال دیتا۔ میرے ساتھ مولانا نورالحق صاحب تنویر اور محترم مولانا منیر احمد عارف صاحب کی بھی تقسیم پر ڈیوٹی تھی۔ اچانک مزدوروں نے دیگیں اٹھانے سے انکار کر دیاکہ مزدوری بڑھاؤ تو اٹھائیں گے۔ چند لمحوں کی پریشانی کے بعد میں نے اور محترم نورالحق تنویر صاحب مرحوم نے معروف طریق کے مطابق ڈبل دیگ کندھوں پر اٹھا کر لا کر کھڑکی کے سامنے رکھ لی۔ اسی طرح تین کھڑکیوں کے سامنے دو دو دیگیں رکھ لیں تو مزدوروں نے سابقہ مزدوری پر دیگیں اٹھانی شروع کردیں۔
ابتداءً ربوہ میں جلسہ سالانہ کے وقت عارضی انتظام کیے جاتے تھے۔ کچی اینٹوں سے بنائی گئی بیرکوں کی چھت پر سرکنڈا وغیرہ ڈال کر ڈھانک دیا جاتا تھا۔ مہمان ان بیرکوں میں قیام کرتے۔ ایک دفعہ زنانہ بیرکوں میں کسی وجہ سے آگ بھڑک اُٹھی جس سے جانی نقصان تو نہ ہوا لیکن عورتوں کے کپڑے اور جوتے وغیرہ جل گئے۔ عورتیں تو بیرکوں سے نکل کر ادھر ادھر ہو گئیں۔ سامان کچھ جل گیا اور کچھ بیرکوں میں رہ گیا۔ بیرکوں میں رہا ہوا سامان دفتر معلومات میں جمع ہونا شروع ہو گیا۔ میری ڈیوٹی بھی اس وقت دفتر معلومات میں تھی۔ ساری رات ہم سامان جمع کرکے مالکان تک پہنچاتے رہے۔ اسی طرح گمشدہ اشیاء ملنے پر اسی دفتر میں جمع ہوتی تھیں جو لاؤڈ سپیکر پر اعلان کرکے مالکوں کو واپس کی جاتی تھیں۔ جن اشیاء کے مالک نہیں ملتے تھے وہ دفتر جلسہ سالانہ میں جمع رکھی جاتی تھیں اور دورانِ سال اخبار الفضل میں ان کا اعلان کیا جاتا۔
جلسہ سالانہ 1953ء کے موقع پر حفاظت کی ڈیوٹی کے لیے منتخب ہوا۔ یہ مخالفت اور شورش کا سال تھا۔ حفاظتی طور پر بڑی احتیاط کی ضرورت تھی۔ چنانچہ جامعہ کے نوجوان اور دوسرے خدام باحسن طریق اس فرض سے سبکدوش ہوئے۔ مجھے رات اور دن میں تین تین گھنٹہ کے لیے قصرِ خلافت کے گرد حفاظت کی ڈیوٹی دینے کا بھی شرف حاصل ہوا اور حضور کے آمد و رَفت کے راستہ پر بھی پہرہ کی سعادت حاصل ہوئی۔ حفاظت کے انچارج اس وقت غالباً جمعدار شیر احمد خان صاحب تھے۔ اسی جلسہ سالانہ میں حضرت مصلح موعودؓ نے وہ معرکہ آرا خطاب فرمایا جو نوبت خانہ کے عنوان سے معروف ہے۔ خطاب کے آخر پر حضورؓ نے پُر شوکت الفاظ میں فرمایا:
’’اب خدا کی نوبت جوش میں آئی ہے اور تم کو، ہاں تم کو، ہاں تم کو، خداتعالیٰ نے پھر اس نوبت خانہ کی ضرب سپرد کی ہے۔ اے آسمانی بادشاہت کے موسیقارو! اے آسمانی بادشاہت کے موسیقارو! اے آسمانی بادشاہت کے موسیقارو!!! ایک دفعہ پھر اس نوبت کو اس زور سے بجاؤ کے دنیا کے کان پھٹ جائیں‘‘۔
اس جلسہ میں حاضری کی سعادت ملی تھی اور مجھے حضورؓ کی یہ تقریر اور یہ پُرجلال الفاظ اپنے کانوں سے سننے اچھی طرح سے یاد ہیں۔ حضورؓ کا یہ جلسہ سالانہ کے آخری دن کا خطاب تھا۔ اس وقت ربوہ میں بےحساب گرد و غبار ہوتا تھا۔ کچھ لوگ جو اپنی گاڑیوں پر آئے تھے ان کی گاڑیوں سے بہت گرد اڑتی تھی جس سے عام لوگ متاثر ہوتے تھے۔ چنانچہ ایسے لوگوں کو بھی حضورؓ نے آہستہ گاڑیاں چلانے کی طرف توجہ دلائی جس کا خاطر خواہ نتیجہ نکلا اور کچھ منتظمین نے بھی چھڑکاؤ کا انتظام کیا جس سے لوگوں کو اس مشکل سے آرام مل سکا۔
جلسہ سالانہ جرمنی 2001ء
2001ء میں جلسہ انگلستان کی بجائے جرمنی میں ہوا کیونکہ انگلستان میں Foot&Mouth بیماری کی وبا پھیلی ہوئی تھی۔ اب گویا مرکزی وفد نے بھی انگلستان کی بجائے جرمنی جانا تھا۔ چنانچہ امیر صاحب مقامی کی اجازت سے مَیں بھی مرکزی وفد کے ساتھ لاہور پہنچ گیا اور رات کو دارالذکر لاہور قیام کیا۔ علی الصبح ساتھیوں سمیت ناشتہ کرکے ایئرپورٹ کے لیے روانگی ہوئی۔ دس گھنٹے کی پرواز کے بعد فرانکفرٹ پہنچ گئے۔ اس سفر کی سب سے اہم چیزجلسہ سالانہ میں شمولیت اور بعدازاں حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ سے ملاقات کی سعادت تھی اور مَیں شکر کے جذبات سے لبریز تھا کہ وہ غریب و بےکس جس کے پاس والد صاحب کی وفات کے بعد گاؤں سے ربوہ پہنچنے کے لیے پانچ روپے کرایہ نہیں تھا آج اللہ کے فضل ہی نہیں بلکہ افضال سے ہوا کے دوش پر سوار ہو کر جرمنی پہنچ گیا تھا اور امام وقت سے ملاقات کی سعادت پا رہا تھا۔
جلسہ سالانہ من ہائیم کے ایک بہت بڑےہال میں منعقد ہوا۔ رضاکاران نے نہایت عمدگی سے تمام انتظامات مکمل کیے اور جلسہ سالانہ پر آنے والوں کو راحت و آرام پہنچانے کی کوشش کی۔ جلسہ پر پاکستان کے مختلف علاقوں سے گئے ہوئے بہت سے احباب سے ملاقات کا موقع ملا۔ برادرم مولانا عبدالباسط صاحب اور مولانا منیرالدین احمد صاحب سے بھی ملاقات ہوئی۔ عزیزم رشید احمد ابن مولانا عبدالباسط صاحب سے بھی ملنے کا موقع مل گیا۔ جلسہ کے بعد حضورؒ سے عزیزم رفیق احمد اور میری ملاقات ہوئی۔ الحمد للہ علیٰ ذالک۔
جلسہ سالانہ 2001ء میں میری بھانجی عزیزہ اختر درانی نیشنل صدر لجنہ جرمنی تھی اور بہو اور بھانجی عزیزہ بشریٰ ریحانہ بھی نیشنل عاملہ لجنہ کی ممبر تھی۔ جلسہ میں نائب منتظمہ زنانہ جلسہ گاہ کے طور پر خدمت بجا لارہی تھی۔ جلسہ سالانہ میں حضورؒ کی تقریر سے قبل قرآن مجید کی تلاوت میری نواسی عزیزہ شاہدہ نسیم صبا بنت خالد حسین خادم صاحب نے کی تھی۔ میرے بیٹے عزیزم رفیق احمد، بشیر احمد اور داماد خالد حسین خادم تینوں ہی مختلف اہم ڈیوٹیوں پر متعین تھے۔ الحمد للہ علیٰ ذالک
جلسہ سالانہ ہالینڈ میں شرکت
2007ء میں جلسہ سالانہ ہالینڈ میں شمولیت اختیارکی اور حضور انورایدہ اللہ کی زیارت سے مستفیض ہونے کاشرف حاصل ہوا۔ مزید برآں میرے مدرسہ احمدیہ کے کلاس فیلو برادرم عبدالحکیم اکمل صاحب سابق مبلغ ہالینڈ مرحوم کے بیٹوں سے ملاقات ہوئی۔ اکمل صاحب کی فیملی ہالینڈ میں ہی بس گئی ہے۔ آپ کے بیٹے بڑی مسرت اور بشاشت سے ملے اور میرے ساتھ باتیں کرتے رہے۔
نیز برادرم عبدالحمید صاحب مرحوم ساکن محراب پور ضلع نوابشاہ کے دو بیٹوں سے بھی ملاقات ہو گئی وہ بھی ہالینڈ میں بس گئے ہیں۔ نن سپیٹ کی مسجد بھی دیکھی۔ میرے سمدھی برادرم فضل کریم صاحب مرحوم کے دو بیٹے عزیزم سعید احمد صاحب اور فرید احمد صاحب سے بھی ملنے کا موقع مل گیا۔ اسی طرح مکرم و محترم امیر صاحب ہالینڈ اور مربی سلسلہ مکرم حامد کریم صاحب سے بھی ملاقات ہوئی۔
2008ء میں بھی جلسہ سالانہ ہالینڈ میں شرکت کی توفیق ملی۔ سیّدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس بھی جلسہ سے خطاب فرمانے والے تھے۔ عزیزم خالد حسین خادم، امۃالقیوم اور بعض اور احباب بھی جلسہ میں شمولیت کے لیے تیار ہوگئے۔ خاکسار اور اہلیہ بھی ان کے ساتھ چل پڑے۔ چنانچہ ہالینڈ پہنچ کر نماز ظہر کے وقت میں اور خالد حسین خادم نماز ظہر و عصر سے قبل مسجد میں اگلی صف میں امام سے کچھ فاصلہ پر بیٹھ گئے۔ اتنے میں حضور نماز کے لیے تشریف لائے جس سے حضور کی بخوبی زیارت ہوگئی۔ نمازوں کے بعد جلسہ میں شریک ہوئے، خطابات سنے۔
2018ء ہم اپنی بیٹی اور داماد مکرم عبدالحمید طاہر صاحب مربی سلسلہ کے پاس گھانا چلے گئے۔ وہاں بھی جلسہ سالانہ میں شمولیت کی توفیق ملی۔ وہاں احمدیوں کا اخلاص اور نظم و ضبط مثالی تھا۔ سفیدرنگ میں ملبوس شاملین ایک نہایت خوبصورت منظر پیش کر رہے تھے۔ گھانا کی مختلف سماجی و سیاسی شخصیات نے اس جلسہ میں شرکت کی۔
2020ء میں جرمنی مستقل منتقل ہونے کے بعد یہاں جلسوں میں شمولیت کی توفیق ملی۔ جن میں اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی بارشوں کو برستے دیکھنے کا موقع ملتا رہا۔ ان آرام دہ اور وسیع جلسوں کو دیکھ کرابتدائی مشکلات سے لے کر اب تک کی سہولتوں اور انتظامات تک کا سفر آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے۔ وہ زمانہ بھی دیکھا کہ جلسوں پربجلی میسر نہ ہوتی تھی اور موم بتیاں جلا کر جلسہ کی تقاریر کے مسودے اور رپورٹس تیار ہو رہی ہوتی تھیں۔ جلسہ پر آواز پہنچانے کے مسائل ہوتے تھے۔ پھر لاؤڈ سپیکر کی سہولت پیدا ہوگئی۔ حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کی ربوہ سے ہجرت کے بعد آڈیو ویڈیو کیسٹس کا زمانہ اور اس کے بعد ایم ٹی اے کی سہولت سے دنیا بھر میں براہِ راست جلسوں میں شامل ہونے کی سعادت مل رہی ہے۔ مزید یہ کہ سوشل میڈیا کے ذریعہ دنیا بھر کے جلسوں میں شامل ہونے کی سہولت میسر آ چکی ہے۔ میں بھی حضرت مسیح موعودؑ کے الہام وَسِّعْ مَکَانَکَ کو پورا ہونے کا شاہد ہوں، الحمدللہ۔ باوجود مشکلات اور مخالفتوں کے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود سے کیے گئے وعدوں کو پورا فرمایا۔ جلسہ سالانہ کی وسعت بھی انہی وعدوں کے پورا ہونے کا ثبوت ہے۔
(اخبار احمدیہ جرمنی شمارہ اگست 2024ء صفحہ 23)