کَاَنَّ اللّٰہَ نَزَلَ مِنَ السَّمآءِ

اللہ تعالیٰ نے اپنے پاک کلام میں انبیاء کی جو تاریخ بیان فرمائی ہے اس کے مطابق اُن انبیاء پر ایمان لانے والوں میں ایسے بھی ہوتے ہیں جن کی فطرتِ سعیدہ میں صدیقیت کا مادہ ہوتا ہے اور وہ اپنی خداداد فراست سے ہی اس کی سچائی کو شناخت کرکے اس پر ایمان لانے کی سعادت پالیتے ہیں اور ایسے بھی ہوتے ہیں جو اس کی سچائی کے لیے خداتعالیٰ کی طرف سے نشانات کا مطالبہ کرتے ہیں۔ سیّدنا حضرت اقدس محمد مصطفیٰﷺ کے عاشقِ صادق سیّدنا حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود کی بعثت کے وقت بھی یہی تاریخ دہرائی گئی جو قرآن کریم اور آنحضرتﷺ کی صداقت پر مُہر تصدیق ثبت کرتی ہے۔

چنانچہ حضرت مسیح موعود سے قادیان کے ہندوؤں نے نشان کا مطالبہ کیا کہ ہم آپ کے ہمسایہ ہونے کی وجہ سے نشان دکھائے جانے کے زیادہ حق دار ہیں اس مطالبہ کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے اس پیارے مسیح و مہدی کو قبل از وقت ایسی بشارات عطا فرمائیں جن کے پورا ہونے کا ایک دنیا نے مشاہدہ کیا اور آج تک اُن کے پورا ہونے کا سلسلہ جاری و ساری ہے۔

جہاں تک زیرِنظر موضوع کا تعلق ہے جس کے معانی یہ ہیں کہ ‘‘گویا اللہ آسمان سے اُتر آیا’’ اس پیشگوئی کے ایک ایک لفظ پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خود اُتر کر دلوں میں اس کی عظمت قائم فرما دی۔ اور جس عظیم موعود کے وجود میں یہ بشارات پوری ہونی تھیں اس کی زندگی کا ایک ایک لمحہ اس بات کا پتہ دے رہا ہے کہ قدرت کردگار نے اس سے جو کام لیا وہ کَاَنَّ اللہَ نَزَلَ مِنَ السَّمآءِ کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

اس پیشگوئی کی علامات جس عظیم الشان وجود میں پوری ہوئیں اس فرزند دلبند گرامی ارجمند کا نام حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد ہے جو سیّدنا حضرت مرزا غلام احمد قادیانی کی ذرّیت و نسل ہے۔ اور چونکہ اس میں فنا فی اللہ ہونے کا مفہوم ہے لہٰذا آپ کی سوانح کا مطالعہ کرنے سے صاف پتہ چلتا ہے کہ بچپن میں ہی لقاءِ الٰہی کی تڑپ آپ کے دل میں تھی۔ آپ کی عبادات، خداتعالیٰ کے وجود پر کامل ایمان و توکل اور اس کے دین کے غلبہ کی خاطر بےقراری اور اپنے متبعین میں یہ جذبہ بیدار رکھنے کی خواہش بکلی آپ میں پائی جاتی تھی۔

چنانچہ سیّدنا حضرت المصلح الموعودؓ خود فرماتے ہیں:

’’مَیں علمی طور پر بتلاتا ہوں کہ میں نے حضرت صاحب (یعنی حضرت مسیح موعود) کو والد ہونے کی وجہ سے نہیں مانا تھا بلکہ جب میں گیارہ سال کے قریب کا تھا تو مَیں نے مصمّم ارادہ کیا تھا کہ اگر میری تحقیقات میں وہ نعوذ باللہ جھوٹے نکلے تو مَیں گھر سے نکل جاؤں گا مگر مَیں نے ان کی صداقت کو سمجھا اور میرا ایمان بڑھتا گیا۔ حتیٰ کہ جب آپ فوت ہوئے تو میرا یقین اور بھی بڑھ گیا۔

اس سلسلہ میں یہ واقعہ بھی آپ کے ذہنی انقلاب کی نشاندہی کرتا ہے۔ آپ فرماتے ہیں: ‘‘1900ء میرے قلب کو اسلامی احکام کی طرف توجہ دلانے کا موجب ہوا ہے اس وقت میں گیارہ سال کا تھا۔ حضرت مسیح موعود کے لئے کوئی شخص چھینٹ کی قسم کے کپڑے کا ایک جُبّہ لایا تھا۔ مَیں نے آپ سے وہ جُبّہ لے لیا تھا کسی اَور خیال سے نہیں بلکہ اس لئے کہ اس کا رنگ اور اس کے نقش مجھے پسند تھے۔ مَیں اسے پہن نہیں سکتا تھا۔ کیونکہ اس کے دامن میرے پائوں سے نیچے لٹکتے رہتے تھے۔

جب مَیں گیارہ سال کا ہوا اور 1900ء نے دنیا میں قدم رکھا۔ تو میرے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ مَیں خداتعالیٰ پر کیوں ایمان لاتا ہوں۔ اس کے وجود کا کیا ثبوت ہے۔ میں دیر تک رات کے وقت اس مسئلہ پر سوچتا رہا۔ آخر دس گیارہ بجے میرے دل نے فیصلہ کیا کہ ہاں ایک خدا ہے وہ گھڑی میرے لئے کیسی خوشی کی گھڑی تھی۔ جس طرح ایک بچہ کو اس کی ماں مل جائے تو اسے خوشی ہوتی ہے اسی طرح مجھے خوشی تھی کہ میرا پیدا کرنے والا مجھے مل گیا۔ سماعی ایمان علمی ایمان سے تبدیل ہوگیا مَیں اپنے جامہ میں پھولا نہیں سماتا تھا۔ مَیں نے اس وقت اللہ تعالیٰ سے دعا کی اور ایک عرصہ تک کرتا رہا کہ خدایا مجھے تیری ذات کے متعلق کبھی شک پیدا نہ ہو۔ اس وقت مَیں گیارہ سال کا تھا…مگر آج بھی اس دعا کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں۔ مَیں آج بھی یہی کہتا ہوں خدایا تیری ذات کے متعلق مجھے کبھی شک پیدا نہ ہو۔ ہاں اس وقت مَیں بچہ تھا اب مجھے زائد تجربہ ہے۔ اب مَیں اس قدر زیادتی کرتا ہوں کہ خدایا مجھے تیری ذات کے متعلق حق الیقین پیدا ہو۔

جب میرے دل میں خیالات کی وہ موجیں پیدا ہونی شروع ہوئیں۔ جن کا مَیں نے اوپر ذکر کیا ہے تو ایک دن ضحی کے وقت یا اشراق کے وقت مَیں نے وضو کیا۔ اور وہ جُبّہ اس وجہ سے نہیں کہ خوبصورت ہے بلکہ اس وجہ سے کہ حضرت مسیح موعودؑ کا ہے اور متبرک ہے، یہ پہلا احساس میرے دل میں خداتعالیٰ کے فرستادہ کے مقدّس ہونے کا تھا، پہن لیا۔

تب مَیں نے اس کوٹھڑی کا جس میں مَیں رہتا تھا۔ دروازہ بند کر لیا اور ایک کپڑا بچھا کر نماز پڑھنی شروع کی اور مَیں اس میں خوب رویا، خوب رویا، خوب رویا اور اقرار کیا کہ اب نماز کبھی نہیں چھوڑوں گا۔ اس گیارہ سال کی عمر میں مجھ میں کیسا عزم تھا! اس اقرار کے بعد مَیں نے کبھی نماز نہیں چھوڑی، گو اس نماز کے بعد کئی سال بچپن کے زمانہ کے ابھی باقی تھے۔ میرا وہ عزم میرے آج کے ارادوں کو شرماتا ہے۔ مجھے نہیں معلوم۔ مَیں کیوں رویا۔ فلسفی کہے گا اعصابی کمزوری کا نتیجہ ہے، مذہبی کہے گا تقویٰ کا جذبہ تھا۔ مگر مَیں جس سے یہ واقعہ گزرا کہتا ہوں مجھے معلوم نہیں۔ مَیں کیوں رویا؟ ہاں یہ یاد ہے کہ اس وقت میں اس اَمر کا اقرار کرتا تھا کہ پھر کبھی نماز نہیں چھوڑوں گا اور وہ رونا کیسا بابرکت ہوا! وہ افسردگی کیسی راحت بن گئی جب اس کا خیال کرتا ہوں تو سمجھتا ہوں کہ وہ آنسو ہسٹریا کے دَورہ کا نتیجہ نہ تھے۔ پھر وہ کیا تھے؟ میرا خیال ہے وہ شمسِ روحانی کی گرم کر دینے والی کِرنوں کا گرایا ہوا پسینہ تھے۔ وہ مسیح موعود کے کسی فقرہ یا کسی نظر کا نتیجہ تھے۔ا گر یہ نہیں تو مَیں نہیں کہہ سکتا کہ پھر وہ کیا تھے ‘‘۔ (سوانح فضل عمر جلد اوّل صفحہ 96-98)

پھر آپ کے بچپن کا ایک واقعہ سیّدنا حضرت مسیح موعود کے ایک جلیل القدر صحابی حضرت سیّد سرور شاہ صاحبؓ جن کو سیّدنا حضرت مصلح موعود کے استاد ہونے کا شرف بھی حاصل ہوا، یوں بیان فرماتے ہیں:

’’ حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ مجھ سے پڑھا کرتے تھے تو ایک دن مَیں نے کہا کہ میاں! آپ کے والد صاحب کو تو کثرت سے الہام ہوتےہیں۔ کیا آپ کو بھی الہام ہوتا اور خوابیں وغیرہ آتی ہیں؟ تو میاں صاحب نے فرمایا کہ مولوی صاحب! ‘‘خوابیں تو بہت آتی ہیں اور مَیں ایک خواب تو قریباً روز ہی دیکھتا ہوں اور جونہی مَیں تکیہ پر سَر رکھتا ہوں اس وقت سے لے کر صبح کو اُٹھنے تک یہ نظارہ دیکھتا ہوں کہ ایک فوج ہے جس کی مَیں کمان کر رہا ہوں اور بعض اوقات ایسا دیکھتا ہوں کہ سمندروں سے گزر کر آگے جاکر حریف کا مقابلہ کر رہے ہیں اور کئی بار ایسا ہوا کہ اگر مَیں نے پار گزرنے کے لئے اور کوئی چیز نہیں پائی تو سرکنڈے وغیرہ سے کشتی بنا کر اس کے ذریعہ پار ہوکر حملہ آور ہو گیا ہوں۔ مَیں نے جس وقت یہ خواب آپ سے سنا اسی وقت سے میرے دل میں یہ بات گڑی ہوئی ہے کہ یہ شخص کسی وقت یقیناً جماعت کی قیادت کرے گا اور مَیں نے اسی وجہ سے کلاس میں بیٹھ کر آپ کو پڑھانا چھوڑ دیا۔ آپ کو اپنی کرسی پر بٹھاتا اور خود آپ کی جگہ بیٹھ کر آپ کو پڑھاتا۔ اور مَیں نے خواب سُن کر آپ سے یہ بھی عرض کر دیا تھا کہ میاں! آپ بڑے ہوکر مجھے بھُلا نہ دیں اور مجھ پر بھی نظر شفقت رکھیں‘‘۔

(الفضل 16 فروری 1968ء بحوالہ سوانح فضل عمر جلد اوّل صفحہ 152)

آپ کے مدرسہ تعلیم الاسلام کے ایک طالبعلم ساتھی حضرت مرزا احمد بیگ صاحبؓ بیان کرتے ہیں:

’’آپؓ کو بچپن کے زمانہ میں جب کہ وہ مدرسہ تعلیم الاسلام میں میرے ساتھ پڑھتے تھے۔ آپ نے ذکر فرمایا کہ اُن کو یہ آیت الہام ہوئی ہے۔ جَاعِلُ الَّذِیۡنَ اتَّبَعُوۡکَ فَوۡقَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اِلٰی یَوۡمِ الۡقِیٰمَۃِ۔ اور یہ بھی فرمایا کہ انہوں نے حضرت مسیح موعود کی خدمت میں عرض کر دیا تھا کہ یہ یہ الہام مجھے ہوا ہے ‘‘۔ (سوانح فضل عمرجلدجلد اوّل صفحہ 153)

رویت الٰہی کا شرف پانے سے متعلق سیّدنا المصلح الموعودؓ نے ایک خطبہ میں خود فرمایا:

’’ مجھے آج تک تین معاملات میں خداتعالیٰ کی رویت ہوئی ہے۔ پہلے پہل اس وقت کہ ابھی میرا بچپن کا زمانہ تھا۔ اس وقت میری توجہ کو دین کے سیکھنے اور دین کی خدمت کی طرف پھیرا گیا۔ اس وقت مجھے خدا نظر آیا اور مجھے تمام نظارہ حشر و نشر کا دکھایا گیا۔ یہ میری زندگی میں بہت بڑا انقلاب تھا‘‘۔

(الفضل 22 جنوری 1920ء، بحوالہ سوانح فضل عمر جلد اوّل صفحہ 153)

سیّدنا حضرت مرزا طاہر احمد صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ سوانح فضلِ عمر میں تحریر فرماتے ہیں:

’’معلوم ہوتا ہے کہ خود حضرت مسیح موعود کو بھی یہ احساس تھاکہ اس بچے کے ساتھ خداتعالیٰ کا خاص تعلق اس کم عمری کے زمانہ ہی میں شروع ہوچکا ہے چنانچہ خود حضرت مرزا محمود احمد صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ جن دنوں کلارک کا مقدمہ تھا۔ حضرت مسیح موعود نے اَوروں کو دُعا کے لیے کہا تو مجھے بھی کہا کہ دعا اور استخارہ کرو۔ مَیں نے اس وقت رؤیا میں دیکھا کہ ہمارے گھر کے اردگرد پہرے لگے ہوئے ہیں۔ مَیں اندر گیا جہاں سیڑھیاں ہیں وہاں ایک تہ خانہ ہوتا تھا۔ مَیں نے دیکھا کہ حضرت صاحبؑ کو وہاں کھڑا کرکے آگے اُپلے چن دئیے گئے ہیں اور اُن پر مٹی کا تیل ڈال کر کوشش کی جا رہی ہے کہ آگ لگا دیں۔ مگر جب دیا سلائی سے آگ لگاتے ہیں تو آگ نہیں لگتی۔ وہ بار بار آگ لگانے کی کوشش کرتے ہیں۔ مگر کامیاب نہیں ہوتے۔ میں اس سے بہت گھبرایا۔ لیکن جب مَیں نے اس دروازے کی چوکھٹ کی طرف دیکھا تو وہاں لکھا تھا کہ ‘‘جو خدا کے بندے ہوتے ہیں ان کو کوئی آگ نہیں جلا سکتی‘‘۔

(الفضل 16 فروری 1968ء بحوالہ جلد اوّل صفحہ 153-154)

مہدیٔ آخرالزماں نے اپنے اس عظیم فرزند کے لیے خدا کے حضور کیا ہی پُر حکمت انداز میں اپنے منظوم کلام میں استدعا کی۔ جسے خدائے قادر نے من و عن پورا فرمایا:

لختِ جگر ہے میرا محمود بندہ تیرا

دے اِس کو عمر و دولت کر دُور ہر اندھیرا

دن ہوں مُرادوں والے پُرنُور ہو سویرا

یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ یَّرَانِیْ

اہلِ وقار ہوویں فخرِ دیار ہوویں

حق پر نثار ہوویں مولیٰ کے یار ہوویں

بابرگ و بار ہوویں اِک سے ہزار ہوویں

یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ یَّرَانِیْ

حضور کی مندرجہ بالا اشعار میں مذکورہ دعاؤں کی قبولیت کا جلوہ سیّدنا مصلح موعود کی زندگی میں نمایاں طور پر نظر آتا ہے۔

اس بات کا ثبوت کہ اللہ تعالیٰ خود آپ کے دل میں اتر کر آپ کو اپنے پیارے مسیح کی جانشینی کے لئے تیار کر رہا تھایہ بھی ہے کہ آپ کو سیّدنا حضرت مسیح موعود کے الہامات میں بھی شامل فرما رہا تھا۔ ایک ایسے ہی واقعہ کا ذکر سیّدنا حضرت مصلح موعودؓ تفسیر کبیر میں درج فرمایا۔ چنانچہ آپؓ فرماتے ہیں:

ایک دفعہ حضرت مسیح موعود کو الہام ہوا کہ اِنِّی مَعَ الْاَفْواجِ اٰتِیْکَ بَغْتَۃً۔ میں اپنی افواج کے ساتھ اچانک تیری مدد کے لیے آئوں گا۔ جس رات حضرت مسیح موعود کو یہ الہام ہوا اسی رات ایک فرشتہ میرے پاس آیا اور اس نے کہا کہ حضرت مسیح موعود کو آج یہ الہام ہوا ہے کہ اِنِّی مَعَ الْاَفْواجِ اٰتِیْکَ بَغْتَۃً۔ جب صبح ہوئی تو مفتی محمد صادق صاحب نے مجھے کہا کہ حضرت مسیح موعود پر جو تازہ الہامات ہوئے ہوں وہ اندر سے لکھوا لائوں۔ مفتی صاحب نے اس ڈیوٹی پر مجھے مقرر کیا ہوا تھا اور میں حضرت مسیح موعود کے تازہ الہامات آپ سے لکھوا کر مفتی صاحب کو لاکر دے دیا کرتا تھا تاکہ وہ انہیں اخبار میں شائع کردیں۔ اس روز حضرت مسیح موعود نے جب الہامات لکھ کر دئے تو جلدی میں آپ یہ الہام لکھنا بھول گئے کہ اِنِّی مَعَ الْاَفْواجِ اٰتِیْکَ بَغْتَۃً۔ مَیں ںے جب ان الہامات کو پڑھا تو میں شرم کی وجہ سے یہ جرأت بھی نہ کرسکتا تھا کہ حضرت مسیح موعود سے اس بارہ میں کچھ عرض کروں اور یہ بھی جی نہ مانتا تھا کہ جو مجھے بتایا گیا تھا اسے غلط سمجھ لوں۔ اسی حالت میں کئی دفعہ میں آپ سے عرض کرنے کے لیے دروازہ کے پاس جاتا مگر پھر لوٹ آتا۔ پھر جاتا اور پھر لوٹ آتا۔ آخر میں نے جرأت سے کام لے کر کہہ ہی دیا کہ رات مجھے ایک فرشتہ نے بتایا تھا کہ آپ کو الہام ہوا ہے اِنِّی مَعَ الْاَفْواجِ اٰتِیْکَ بَغْتَۃً مگر ان الہامات میں اس کا ذکر نہیں۔ حضرت مسیح موعودنے فرمایا یہ الہام ہوا تھا مگر لکھتے ہوئے میں بھول گیا۔ چنانچہ کاپی کھولی تو اس میں وہ الہام بھی درج تھا۔ چنانچہ حضرت مسیح موعودنے پھر اس الہام کو بھی اخبار کی اشاعت کے لیے درج فرما دیا۔

(تفسیر کبیر جلد 14صفحہ 77،78)

سیّدنا حضرت مصلح موعودؓ کے حق میں پیشگوئی کی مذکورہ علامت کے لاتعداد واقعات تاریخ میں محفوظ ہیں جن کے تذکرہ کے لئے کئی کتب درکار ہیں۔ اخبار کی گنجائش کے پیش نظر اسی پر اکتفاء کیا جاتا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ نے موقع عنایت فرمایا تو حسب موقع کچھ کا ذکر کیا جاتے رہے گا، ان شاءاللہ وباللہ التوفیق۔

آخر میں حضور کے ایک نہایت ایمان افروز خطاب کا آخری حصہ درج کیا جاتا ہے۔ جس کے سننے اور پڑھنے والوں کے دل کی کیفیت بھی یہی گواہی دیتی ہے کہ کَاَنَّ اللہَ نَزَلَ مِنَ السَّمآءِ۔ اس کی آڈیو ریکارڈنگ بھی افراد جماعت کے پاس موجود ہے۔ اس میں سیّدنا حضرت مصلح موعودؓ نے خداتعالیٰ کی بادشاہت زمین پر قائم ہونے سے متعلق اپنی تڑپ اور تمنا کا نہایت جلالی انداز میں ذکر فرمایا ہے۔

چنانچہ آپ فرماتے ہیں:

’’ اب خدا کی نوبت جوش میں آئی ہے اور تم کو، ہاں تم کو، ہاں تم کو خداتعالیٰ نے پھر اس نوبت خانہ کی ضرب سپرد کی ہے۔ اے آسمانی بادشاہت کے موسیقارو! اے آسمانی بادشاہت کے موسیقارو! اے آسمانی بادشاہت کے موسیقارو! ایک دفعہ پھر اس نوبت کو اس زور سے بجائو کہ دنیا کے کان پھٹ جائیں۔ ایک دفعہ پھر اپنے دل کے خون اس قَرنا میں بھردو۔ ایک دفعہ پھر اپنے دل کے خون اس قَرنا میں بھردو کہ عرش کے پائے بھی لرز جائیں اور فرشتے بھی کانپ اُٹھیں تاکہ تمہاری دردناک آوازیں اور تمہارے نعرہ ہائے تکبیر اور نعرہ ہائے شہادتِ توحید کی وجہ سے خداتعالیٰ زمین پرآجائے اور پھر خداتعالیٰ کی بادشاہت اس زمین پر قائم ہو جائے۔ اسی غرض کے لئے مَیں نے تحریکِ جدید کو جاری کیا ہے اور اسی غرض کے لئے مَیں تمہیں وقف کی تعلیم دیتا ہوں۔ سیدھے آئو اور خدا کے سپاہیوں میں داخل ہو جائو۔ محمد رسول اللہ کا تخت آج مسیح نے چھینا ہوا ہےتم نے مسیح سے چھین کر پھر وہ تخت محمد رسول اللہ کو دینا ہے اور محمد رسول اللہ نے وہ تخت خدا کے آگے پیش کرنا ہے اور خداتعالیٰ کی بادشاہت دنیا میں قائم ہونی ہے۔ پس میری سنو اور میری بات کے پیچھے چلو کہ مَیں جو کچھ کہہ رہا ہوں وہ خدا کہہ رہا ہے۔ میری آواز نہیں۔ مَیں خدا کی آواز تم کو پہنچا رہا ہوں۔تم میری مانو۔ خدا تمہارے ساتھ ہو۔ خدا تمہارے ساتھ ہو۔خدا تمہارے ساتھ ہو اور تم دنیا میں بھی عزت پاؤ اور آخرت میں بھی عزت پاؤ‘‘۔

(انوارالعلوم جلد24 صفحہ338-339)

ملک بھی رشک ہیں کرتے، وہ خوش نصیب ہوں میں

وہ آپ مجھ سے ہے کہتا، نہ ڈر، قریب ہوں میں

(صادق محمد طاہر)

(اخبار احمدیہ جرمنی شمارہ فروری 2024ء صفحہ 17)

متعلقہ مضمون

  • جلسہ سالانہ کی اہمیت

  • پرواز بلند ہے جس کے تخیل کی

  • جلسہ سالانہ برطانیہ 2024ء