ہمارے بہت ہی پیارے اور قابل احترام دوست مکرم صلاح الدین قمر صاحب آف شٹٹ گارٹ مورخہ 13 مئی 2024ء کو بعمر 62 سال جرمنی میں وفات پاگئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ میں نے جب سےہوش سنبھالا اور اطفال الاحمدیہ کی سرگرمیوں میں فعال حصہ لینا شروع کیا تب سے صلاح الدین قمر صاحب کو دیکھا کہ آپ ہر وقت جماعتی خدمت میں پیش پیش رہتے تھے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الثالؒث اور حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کے ساتھ ربوہ میں حفاظتی عملہ میں رضا کارانہ ڈیوٹی کرتے رہے۔ آپ اس زمانے میں بھی آسودہ حال تھے۔ آپ کے پاس کار اور موٹر سائیکل موجود تھی اور دونوں کو ہی جماعتی ڈیوٹیز کے لئے خوب استعمال کیا۔ پہلے زعیم منتخب ہوئے پھر حلقہ سے خدام الاحمدیہ مقامی کی عاملہ میں آگئے اور پہلے بطور بلاک لیڈر اور پھر محاسب مقامی خدمت کی توفیق ملی۔ جب آپ محاسب تھے تو آپ نے اپنے ساتھ نائبین کی ایک مضبوط ٹیم تشکیل دی اور ربوہ کے مختلف محلہ جات کا آڈٹ کرنے جایا کرتے۔ 1988ء میں جرمنی منتقل ہوگئے۔ اس آخری سال آپ کو مکرم محمود احمد شاہد صاحب بنگالی صدر خدام الاحمدیہ مرکزیہ کی عاملہ میں مہتمم تربیت کے طور پر خدمت کی توفیق ملی۔

جرمنی ہجرت کی تو شٹٹ گارٹ رہائش پذیر ہوگئے اور تا دَمِ واپسیں جماعتی خدمات بجا لاتے رہے۔ جرمنی میں قضاء کا نظام قائم ہوا تو آپ قاضی اوّل کے طور پر سالہا سال خدمات بجا لاتے رہے۔ اسی طرح مجلس خدام الاحمدیہ اور مجلس انصاراللہ میں مقامی اور ریجنل سطح پر خدمت کی توفیق ملی۔ بوقت وفات سیکرٹری وصایا کے طورپر خدمت کر رہے تھے۔

نظام جماعت سے مضبوط وابستگی اور احباب جماعت سےدوستانہ تعلق ہی صلاح الدین قمرصاحب کا اوڑھنا بچھونا تھا۔ جلسہ سالانہ جرمنی ہو یا جلسہ سالانہ برطانیہ ہمہ تن اُس کےلئے تیار رہتے اور اہتمام کے ساتھ شرکت کرتے۔ احباب جماعت سے تعلقات کا دائرہ بہت وسیع تھا۔ اپنے کلاس فیلوز کے ساتھ ایک مضبوط تعلق اور پھر اس کو جس طرح نبھایا ہے اس کے سبھی شاہد ہیں۔ دارالصدر جنوبی ربوہ کے دوستوں کے ساتھ ملاقات اور سیر و تفریح کے پروگرام بناتے اور اس تعلق دوستی کے آپ محرک بھی تھے اور پہرہ دار بھی۔ وفات سے پہلے بھی دوستوں کا ایک ٹرپ ناروے کی سیر کے لئے تشکیل دیا لیکن عمر نے وفا نہ کی۔ لیکن دوستوں نے صلاح الدین قمر صاحب کی یاد میں یہ تفریحی دَورہ ان کی وفات کے بعد کرکے مرحوم کو خراج تحسین پیش کیا۔

آپ کے خاندان میں احمدیت آپ کے والد مکرم حاجی قمرالدین صاحب چانڈیو کے ذریعہ آئی جنہوں نے 1947ء میں بیعت کی سعادت حاصل کی۔ احمدیت سے ان کو تعارف اس طرح ہوا کہ حضرت نواب محمد عبداللہ خان صاحبؓ نے قمرآباد سے تین میل کے فاصلہ پر زمین ٹھیکہ پر لی جس کی نگرانی چودھری محمد اکرم صاحب اور ڈاکٹر احمد دین صاحب کے سپرد تھی۔ ان احباب کا حاجی صاحب سے تعارف ہوا اور پھر تبلیغ شروع ہوگئی جس کے نتیجہ میں بالآخر حاجی قمرالدین صاحب نے بیعت کرلی۔ بیعت کے بعد چانڈیو برادری جس کے آپ رئیس تھے کی طرف سے شدید مخالفت اور بائیکاٹ کا سامنا کرنا پڑا لیکن آپ ثابت قدم رہے۔ آپ کی استقامت کے نتیجہ میں بالآخر بائیکاٹ ختم ہوگیا۔ 1953ء کے جلسہ پر آپ کافی عرصہ ربوہ رُکے رہے۔ اس پر آپ کے چھوٹے بھائی حاجی کریم بخش صاحب فکرمند ہوئے اور ربوہ پہنچے۔ انہوں نے کچھ دن ربوہ قیام کیا اور وہ بھی احمدیت کے نور سے منور ہوگئے۔ اگلے سالوں میں آپ کی کوشش سےکچھ اور عزیز بھی احمدیت میں داخل ہوگئے۔ حاجی قمرالدین صاحب اثر و رُسوخ رکھنے والی شخصیت تھے جنہوں نے علاقے کی بہبود کے لئے کئی رفاہی کام کروائے۔ قمرآباد میں مڈل سکول، مورو میں ہائی سکول کی عمارت ذاتی خرچ پر تعمیرکروائی۔ حضرت مصلح موعودؓ کی تحریک وقفِ جدید کے لئے آٹھ ایکڑ اراضی وقف کی1۔ آپ کی زندگی میں ہی قمرآباد میں ایک مستحکم جماعت قائم ہوگئی جس کے آپ تا وفات صدر رہے۔ 15 جنوری 1981ء کو 85 سال کی عمر میں وفات پائی اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں دفن ہوئے2۔ مکرم صلاح الدین قمر صاحب بہت خوبیوں کے مالک اور نافع الناس وجود تھے۔ حقوق اللہ کے ساتھ حقوق العباد کی ادائیگی آپ کا نمایاں وصف تھا۔ آپ کی وفات پر آپ کے عزیز، دوست اور حلقہ احباب سبھی آپ کے اوصافِ حمیدہ میں رطب اللسان ہیں۔

آپ کی اہلیہ ثانی مکرمہ عطیۃالکریم صاحبہ نے بتایا کہ اگرچہ ہمارا میاں بیوی کا ساتھ مختصر رہا اور چند سال پہلے ہی شادی ہوئی تھی لیکن ہم چونکہ ایک ہی خاندان کے ہیں اس لئے آپ کی شخصیت کا مجھے ادراک تھا۔ مَیں نے ہمیشہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا کہ اس نے مجھے ایک نیک ساتھی عطا کیا۔ میرے شوہر اللہ تعالیٰ کی تعلیم کے مطابق اپنی زندگی گزارنے والے تھے۔ بہت صابر و شاکر، اعلیٰ اخلاق کے حامل تھے۔ مسکراتے چہرے اور دھیمے لہجہ سے بات کرتے۔ خود سادہ زندگی بسر کرتے تھے اور رقم بچا کر غرباء کی امدادکرتے۔ اپنی والدہ سے غیرمعمولی محبّت تھی۔ جرمنی ہوتے تو مجھ سے والدہ کی خیریت پوچھتے اور ان کی خدمت کرنے کی نصیحت کرتے۔ ربوہ میں ہوتے تو والدہ کی خدمت میں حاضر رہتے۔ سب رشتوں کا خیال رکھتے تھے اور ان کی ہمدردی اور بہبود کے لئے کو شاں رہتے۔

آپ نے اپنی ہمشیرہ کے ساتھ مثالی تعلق رکھا اور بہت پیار اور محبّت کے ساتھ اس رشتہ کو نبھایا۔ آپ کی ہمشیرہ نور جہاں صاحبہ اہلیہ نصیر احمد برمی صاحب بیان کرتی ہیں کہ صلاح الدین قمر میرا بھائی کم اور میرا باپ اور دوست زیادہ تھا۔ والد مکرم کی وفات کے بعد ہم دونوں بہن بھائیوں کا تعلق پہلے سے بھی بڑھ گیا اور ہر معاملہ میں ان سےمشورہ کرتی اور راہنمائی لیتی۔
مکرم صلاح الدین قمرصاحب کی یہ خوبی تھی کہ ہمیشہ مسکراتے چہرے کےساتھ ملتے۔ خاکسار ان کی مہمان نوازی کا لڑکپن سے شاہد ہے کہ 1980ء کی دہائی میں جب کہ روپیہ نایاب ہوتا تھا اس زمانہ میں آپ آسودہ حال تھے۔ اکثر عصر کے بعد ہم دوستوں کو آپ قریبی ہوٹل نعمت کدہ یا احمدیہ ریسٹورنٹ میں لے جاتے اور چائے کے ساتھ برفی اور نمک پاروں سے تواضع کرتے۔ اس تواضع کا سلسلہ سالوں پر محیط ہے۔

صلاح الدین قمر صاحب سے میرا باقاعدہ تعارف 1982ء میں ہوا تھا اور پھر یہ تعارف تعلق میں بدل گیا اور یہ تعلق مضبوط دوستی کی شکل اختیار کر گیا۔ ہر سال جرمنی سے پاکستان آتے اور آنے سے پہلے بتایا بھی کرتےاور کئی بار ایسا ہوا کہ وہ میرے دفتر ملنے آتے تو اظہار الفت میں کہتے کہ ربوہ آکر پہلا وزٹ آپ کی طرف کر رہا ہوں۔ وفات سے پہلے بھی وہ پاکستان آئے ہوئے تھے۔ رمضان المبارک اور عیدالفطر یہیں گزاری اور پھر عازم ِجرمنی ہوئے۔ جاتے ہی ہسپتال داخل ہوگئے۔ ان پر بیماری کا شدید حملہ تھا جس سے جانبر نہ ہوسکےاور تقریباً ایک ماہ بعد راہی ملک بقا ہو گئے ؂

بلانے والا ہے سب سے پیارا
اسی پہ اے دل تو جاں فدا کر

عزیزوں، دوستوں کے لئے یہ بہت بڑا صدمہ تھا۔ وہ نہ صرف محفل کی رونق ہوا کرتے تھے بلکہ ان کی وجہ سے دوستانہ محفلیں سجا کرتی تھیں اور ان محفلوں میں زیادہ تر گفتگو ربوہ کی خوبصورت پرانی یادوں کے تذکرہ پر ہی مشتمل ہوتی تھی۔ صلاح الدین قمر صاحب نے لواحقین کے علاوہ ایک وسیع حلقہ احباب چھوڑا ہے جن کے ساتھ انہوں نے بڑے بھائیوں جیسا سلوک کیا اور دوستوں کو اکٹھا کئے رکھا۔ انہیں ربوہ سے بہت محبّت تھی اور داعی اجل کو لبیک کہہ کر پھر اللہ نے اپنی محبوب بستی کے مقبرہ بہشتی کو ان کا دائمی بسیرا بنا دیا۔

  1. – (الفضل 10 مئی 1981ء)
  2. – (الفضل 23 جنوری 1981ء)

(اخبار احمدیہ جرمنی شمارہ اگست 2024ء صفحہ 45)

متعلقہ مضمون

  • جلسہ سالانہ کی اہمیت

  • جماعتِ احمدیہ جرمنی کے ایک جفا کش دیرینہ خادم

  • جرمنی میں رہتے ہوئے سوئٹزرلینڈ میں کام کے مواقع