(مکرم محمد شریف خالد صاحب)

 

خاکسار 11 اکتوبر 1963ء کو فرینک فرٹ، جرمني آيا۔ مسجد نور 1959ء ميں تعمير ہوچکي تھي۔ اُس وقت يہاں مکرم مولانا مسعود احمد صاحب جہلمي مبلغ سلسلہ تھے۔ اُن کي خواہش اورمکرم چودھري عبداللطيف صاحب مبلغ انچارج کي اجازت سے ميري رہائش کا انتظام عارضي طور پر مسجدنور فرینک فرٹ ميں ہي ہوگيا۔ پاکستان سے آکر مسجد نور کو انتہائي صاف ستھرا ديکھ کر اور گملوں، کياريوں ميں بہار ديتے پھولوں سے دل باغ باغ ہوگيا۔ چھوٹي سي خوبصورت لائبريري ديکھ کر خوشي ہوئي کہ اس ميں سب ضروري کتب موجود تھيں۔ مسجد ميں کوئي خاتون نہ ہونے کے باوجود کچن اور اُس کا رکھ رکھاؤ اس بات کي غمّازي کررہا تھا کہ اس گھر کا کوئي ’’مکين’’ ہے۔ مسجد کے ساتھ ہال ميں ايک چھوٹي سي گول ميز پر زائرين کے تأثرات کے لئےرکھي ايک کتاب ہر وقت موجود ہوتي۔ پہلي بار آنے والا ہر مہمان اس پر اپنے ايڈريس کے ساتھ تاثرات بھي لکھتا۔ اگر کوئي مہمان مسجد ديکھنے کے لئے آتا تو بھرپور کوشش کي جاتي کہ وہ کچھ دير بيٹھے تاکہ اُسے اسلام کي تعليمات سے آگاہ کيا جائے۔ حتي الامکان اُس کي سادہ چائے وغيرہ سے تواضع کي جاتي۔ شہر کا ميئرDr.Fay تو مکرم مسعود صاحب کا ذاتي دوست تھا۔ وہ جب بھي مسجد کي طرف سے گزرتا مسعودصاحب سے ملنے کے لئے مسجد ميں آتا اور خود چائے پينے کي خواہش کا اظہار کرتا۔

مسجد کا ہمسايہ مسٹر Hael مسجد کي ديکھ بھال کے کاموں ميں مددگار ہوتا مثلاً ہيٹنگ وغيرہ مرمت کرنا يا چلانا۔ اُس وقت مسجد کي ہيٹنگ کا پتھر کے کوئلوں سے انتظام کيا جاتا تھا۔ پاني 100 ميٹر دور ہمسائے سے بذريعہ پائپ ليا جاتا کيونکہ شہر کي طرف سےپاني کا انتظام نہ تھا۔ اسي طرح فالتو پاني کے نکاس کے لئے مسجد کے باہر زمين دوز ٹينک موجود تھا۔ ضرورت کے وقت شہر کي انتظاميہ کا ٹرک آتا اور گندہ استعمال شدہ پاني نکال کرلے جاتا۔

خط و کتابت کے لئے مکرم مسعود صاحب نے ايک پراني سائيکلوسٹائل مشين رکھي ہوئي تھي۔ جس پر سياہي لگا کر اور ہاتھ سے چلا کر اُس پر عام طور پر دعوت نامے پرنٹ کئے جاتے۔ مشين پراني ہونے کي وجہ سے اور کچھ ناتجربہ کاري کي وجہ ہے ہاتھ کالے ہوجاتے اور بسا اوقات کپڑے بھي۔ کچھ عرصہ کے بعد پاکستاني قونصليٹ کي سيکرٹري کے تعاون سے يہ دعوت نامے بھيجنے کا کام ہونے لگا۔ مکرم مسعود صاحب کو اس طرح تعاون حاصل کرنے کا فن خوب آتا تھا۔ پاکستاني سفارت خانہ بون کا تقريباً اکثر عملہ بھي عيدين کي نمازيں مسجد نور آکر ادا کرتا بلکہ بعض تو مسجد ميں کئي روز قيام کرتے۔ پي آئي اے کا مقامي سٹاف بھي مسجد نور ميں ہي عيدين کي نمازيں ادا کرتا بلکہ ايک بار تو حضرت خليفةالمسيح الثالثؒ کي مسجد نور آمد پر پاکستاني سفير جناب سجاد حيدر بون سے ملنے کے لئے آئے۔

مَيں آج بھي خداتعاليٰ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرتا ہوں کہ مجھے مسجد نور ميں قيام کرنے کا موقع نصيب ہوا اور مبلغين کے ساتھ رہ کر جرمني ميں رہنے کے آداب سے شناسائي ہوئي۔ جس سے مجھے يہاں زندگي گذارنے ميں آساني پيدا ہوئي اور دن رات کے ديني ماحول نے ميري تربيت ميں بہت بڑا کردار ادا کيا جو تمام زندگي ميرے کام آيا۔ مکرم مسعود صاحب جنہيں مَيں طالب علمي کے زمانہ سے جانتا تھا کہ وہ انتہائي صاف ستھري طبيعت اور انتہائي نفيس لباس کے عادي تھے مگر جرمني ميں اُنہيں صبح و شام گھريلو زندگي ميں جتنا سادہ ديکھا وہ حيران کن تھا۔ سادہ خوراک، اپني گھريلو ضروريات پر اتنا کم خرچ۔ پھر بغير جستجو کئے مجھے اُن کي سادگي کا راز معلوم ہوگيا۔ ا س کے ساتھ ہي يقين آگيا کہ کس طرح ہمارے ابتدائي مبلغين نے سادہ زندگي گذار کر ديني ضروريات کو اوّليت دي۔

مقامي طور پر اُس وقت چندہ وصول کرنےکا باقاعدہ نظام موجود نہ تھا۔ مشن کي ضروريات کے لئے لندن مشن معمولي رقم بھيجتا تھا۔ اُس ميں کس طرح تمام کام پايہ تکميل کو پہنچتے تھے يہ اس وقت کے مبلغين ہي بتا سکتے ہيں۔ ايک دفعہ حضرت خليفةالمسيحؒ جرمني تشريف لائے تو ميرے سامنے دفتر ميں پہلے روز ہي مکرم مرزا انس احمد صاحب نے مبلغ سلسلہ سے پوچھا کہ اخراجات کے لئے پيسے ہيں۔ اُنہوں نے ميز کي دراز سے بنک کي کتاب نکال کر دکھائي۔ تو مکرم مرزا انس احمد صاحب خاموش ہوگئے۔ مبلغين کي اس سادگي اور سليقہ نے ہمارے اُس قومي شعور کو زندہ رکھا جو ايک زندہ رہنے والي قوم کا حسن ہوتا ہے۔ صبح و شام تمام مبلغين کو تحريکِ جديد کے اصولوں پر عمل پيرا ديکھا۔ سرديوں ميں مسجد کو صرف اتوار کے روز گرم کيا جاتا تھا کيونکہ اُس روز اُميد ہوتي تھي کہ کوئي مہمان مسجد ديکھنے آسکتا ہے۔

تبليغ کا کام باقاعدگي سے کيا جارہا تھا۔ ہر ماہ باقاعدہ مقررہ تاريخ پر ايک تبليغي ميٹنگ کا اہتمام ہوتا جس ميں مختلف مقرر ليکچر اور سوالات کے جوابات ديتے۔ ان ميں نماياں نام حضرت چودھري سر محمد ظفراللہ خان صاحب يا چودھري عبداللطيف مشنري انچارج يامکرم شيخ ناصر احمد سوئٹزرلينڈ يا چودھري مشتاق احمد باجوہ صاحب کے ہيں۔ بعد ميں ڈاکٹر کيوسي صاحب بھي يہ فريضہ انجام ديتے رہے۔ اس ميٹنگ کے موقع پر مسجد کا ہال جس ميں 35 کرسياں ہوتي تھيں، مہمانوں سے بھرجاتا۔ انہي تبليغي نشستوں کي برکت سے ڈاکٹر محمد عبدالہادي کيوسي صاحب جيسے صاحب علم دوست، محمود شلز جيسا محنتي اور تبليغ کا شوق رکھنے والا نوجوان اور برادرم ہدايت اللہ ہيوبش صاحب جيسي علمي و ادبي شخصيات نے اسلام قبول کيا۔

ايک بار اغلباً 1970ء ميں مسعود صاحب نے Dr.Fay سے اس خواہش کا اظہار کيا کہ چونکہ يہاں فرینک فرٹ جرمني ميں احمدي ابھي نہيں ہيں اس لئے ہم مالي مشکل ميں بھي رہتے ہيں۔ اگر پاکستان سے 25 احمدي نوجوان يہاں کسي فرم ميں کام کے لئے آجائيں تو پھر مالي لحاظ سے خود کفيل ہوجائيں گے۔ ياد رہے کہ پاکستان کے ساتھ اس طرح جرمن حکومت کا کوئي معاہدہ نہ تھا کہ وہاں سے اس طرح لوگ آسکيں۔ مگر Dr. Fay نے کہا کہ مجھے کچھ وقت ديں ميں اس کے لئے ديکھتا ہوں کہ کس طرح ہوسکتا ہے۔ اس کے تعلقات Dr.Helmut Kohl جو اُس وقت صوبائي وزيراعليٰ تھے، کے ساتھ بات کي تو اُنہوں نے بھي وعدہ کيا کہ ميں اس کے متعلق متعلقہ شعبہ کو ہدايت کرتا ہوں چنانچہ کچھ دنوں کے بعد اُس کے وزير کا مسعود صاحب کو فون آيا کہ آپ کيا چاہتے ہيں۔ اس پر مسعود صاحب نے تفصيل بتائي تو اس نے بھي وعدہ کيا کہ مجھے کچھ وقت ديں ميں آپ کو بہت جلد بتاؤں گا۔

اُس نے من ہائيم کے قريب Roxheim کي ايک فرم Lansig ميں يہ انتظام کرکے اطلاع دي کہ آپ 25 نوجوان منگواليں۔ صرف يہ خيال رہے کہ وہ کسي حد تک مکينک کا کام جانتے ہوں۔ چنانچہ مسعود صاحب نے حضور کي خدمت ميں لکھا تو ربوہ سے 25 نوجوان متعلقہ شعبہ سے انٹرويو کے بعد جرمني آگئے اور ہماري سب سے پہلي جرمني ميں باقاعدہ Roxheim جماعت کا قيام عمل ميں آيا۔ آہستہ آہستہ کچھ عرصہ کے بعد وہ نوجوان مختلف علاقوں ميں منتقل ہوگئے ليکن اس روز کے بعد جماعت کي مالي حالت بہتر ہوتي چلي گئي۔ اُن ميں سے ايک نوجوان جو حال ہي ميں وفات پاگئے ہيں مکرم محمد ہادي چودھري صاحب تھے۔ ايک دوست مکرم ممتاز بٹ صاحب اب بھي فرینک فرٹ اور ايک دوست مکرم فلاح الدّين صاحب انگلستان ميں تاحال موجود ہيں۔ ايک اور بات جس نے ميري روح کو بھي متأثر کيا۔ عيدين کے موقع پر عيد پڑھنے کے لئے اس قدر ترک مسلمان آتے کہ ان کي تعداد سينکڑوں تک پہنچ جاتي۔ اور مسجد چھوٹي ہونے کي وجہ سے کئي بار نمازپڑھائي جاتي۔ امامت کے فرائض مبلغ سلسلہ ادا کرتے۔ ميري ڈيوٹي ہوتي کہ صفوں کي درستي اور نماز کے بعد بڑے پيمانے پر حلوہ سے تمام احباب کي ضيافت کا انتظام کيا کروں۔ حلوہ پکانے ميں ميري اہليہ مدد کرتيں۔ پھر جب ترکوں نے اپني مساجد بنانا شروع کرديں تو مسجد نور ميں اُن کا آنا کم ہوگيا۔ مگر ابتدائي طور پر جرمني ميں مسلمانوں اور خاص طور پر ترک مسلمانوں نے لمبا عرصہ مسجد نور سے اِستفادہ کيا۔ فرینک فرٹ کے ابتدائي ترک مسلمان مسجد نور کے اس کردار کي ہميشہ تعريف کرتے ہيں۔

حضور کے يورپ اور دوسرے ممالک کے مسلسل دوروں کے نتيجہ ميں خداتعاليٰ نے جماعت کو اس قدر ترقي دي کہ جسے ديکھ کر بعض اوقات اپني آنکھوں پر يقين نہيں آتا۔ آج خداتعاليٰ کے فضل سے جماعت کا ہرفرد اس بات کا گواہ ہے کہ جماعت عددي، مالي اور روحاني اعتبار سے ہر لمحہ بڑھتي ہي رہي اور بڑھتي چلي جا رہي ہے اور احمديوں کے ہاتھ ميں کشکول پکڑانے کا دعويٰ کرنے والے خود نشان عبرت بن گئے ؎

کدھر گيا وہ بھٹو اور کدھر گئے کشکول

جے مرزا کي بول تُوں خالدؔ جے مرزا کي بول

آج صرف جرمني ميں احمديہ مساجد کي تعداد اَسّي کے قريب پہنچ چکي ہے۔ جس بڑے شہر ميں جائيں ايک نہايت خوبصورت مسجد سے اذان کي آواز بلند ہو رہي ہے۔ جلسہ سالانہ پر آنے والوں کي تعداد چاليس ہزار سے زائد ہوچکي ہے۔ جامعہ احمديہ سے فارغ التحصيل مربيان جرمني اور يورپ کے دوسرے ممالک روس تک پيغام حق پہنچا رہے ہيں۔

ايں سعادت بزور بازو نيست

تا نہ بخشد خدائے بخشندہ

ميں جب جرمني آيا تو کبھي سوچ بھي نہيں سکتا تھا کہ جماعت کي ترقي اپني آنکھوں سے اس قدر جلد ديکھني نصيب ہوگي۔ کبھي سوچ بھي نہيں سکتا تھا کہ ہمارے احمدي بچے سينکڑوں کي تعداد ميں جرمني ميں ڈاکٹر ہوں گے سينکڑوں کي تعداد ميں جرمني ميں وکيل غرضيکہ ہر شعبہ ہائے زندگي ميں يہي صورت حال ہے۔ آج جماعت کے مالي بجٹ اور جماعت کي مالي قرباني کے مناظر کو ديکھ کر غير بھي اقرار کرتا ہے کہ يہ سب کسي انساني ہاتھ کا کھيل نہيں، کوئي ايسا قدرت کا ہاتھ ہے جو اس کے پيچھے ہے۔

يہ حضرت مسيح موعود سے خداتعاليٰ کا وعدہ تھا کہ ’’ميري تيري تبليغ کو دنيا کے کناروں تک پہنچاؤں گا‘‘ جس کے ہم سب چشم ديد گواہ ہيں

اک قطرہ اس کے فضل نے دريا بنا ديا

ميں خاک تھا اُسي نے ثريا بنا ديا

متعلقہ مضمون

  • جلسہ سالانہ کی اہمیت

  • پرواز بلند ہے جس کے تخیل کی

  • جماعتِ احمدیہ جرمنی کے ایک جفا کش دیرینہ خادم