مالی قربانی اصلاحِ نفس کا ذریعہ

تشہّد و تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورنے درج ذیل آیت قرآنی کی تلاوت فرمائی:

وَاَنْفِقُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللہِ وَلَاتُلْقُوْا بِاَیْدِیْکُمْ اِلَی التَّھْلُکَۃِ وَاَحْسِنُوا اِنَّ اللہَ یُحِِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ (البقرہ:196)

اللہ تعالیٰ کا حضرت مسیح موعودکی اس جماعت پر، اس پیاری جماعت پر بہت بڑا احسان ہے کہ اس میں شامل ہونے کے بعد افرادِ جماعت اپنے عہد کے مطابق مالی قربانیوں میں پیش پیش رہتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کے حکم کے تحت کہ نیک باتوں کی یاددہانی کراتے رہنا چاہئے اور آنحضرتﷺکی سنت پر عمل کرتے ہوئے وقتاً فوقتاً جماعت کو مالی قربانیوں کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے تاکہ اگر کوئی سست ہو رہا ہے تو اس کو اس طرف توجہ پیدا ہو جائے اور جو نئے آنے والے ہیں اور نوجوان ہیں ان کو مالی قربانیوں کا احساس ہو جائے، اس کی اہمیت کا احساس پیدا ہو جائے کہ مالی قربانی بھی ایک انتہائی ضروری چیز ہے اور وہ اپنی اصلاح کے لئے اور اپنے نفس کو پاک کرنے کے لئے اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والے بن جائیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَاَنْفُِقُوْا خَیْرًا لِّأَ نْفُسِکُمْ (التغابن:17) کہ اپنے مال اس کی راہ میں خرچ کرتے رہو یہ تمہاری جانوں کے لئے بہتر ہوگا۔

قرآنِ کریم میں مالی قربانیوں کی طرف توجہ دلانے کے بارے میں بےشمار ارشادات ہیں اور یہ خوشخبری دی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی راہ میں خرچ کرنے والوں کو پورا اجر دیتا ہے۔ اس دنیا میں بھی اجر ہے اور مرنے کے بعد بھی اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے ہو گے۔ اس لئے ہمیشہ اپنے مال کا بہترین ٹکڑا اس کی راہ میں خرچ کرو۔

جماعت احمدیہ کا جو مالی سال ہے اس کو ختم ہونے میں دو تین ماہ رہ گئے ہیں اور جو انتظامیہ ہے، مال سے متعلقہ شعبوں کو ان دنوں میں وصولیوں کی طرف توجہ دلانے کی فکر ہوتی ہے۔ تو اس لحاظ سے مَیں توجہ دلانی چاہتا ہوں تاکہ جن لوگوں کو ابھی تک اپنے لازمی چندہ جات ادا کرنے کی طرف توجہ نہیں ہوئی ان کو توجہ ہو جائے اور منتظمین کی پریشانی بھی دور ہو۔

مجھے یقین ہے اور خداتعالیٰ کے سلوک کو دیکھتے ہوئے جو وہ جماعت سے کرتا چلا آ رہا ہے مَیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس یقین پر قائم ہوں کہ جو بھی جماعتی ضروریات ہوں گی اللہ تعالیٰ ہمیشہ ان شاءاللہ پوری فرماتا رہے گا۔ نئے کاموں، نئے منصوبوں کو وہی دل میں ڈالتا ہے اور ڈالتا بھی اسی لئے ہے کہ اس کے نزدیک جماعت اس کام کو پورا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اس آخری زمانے میں آنحضرتﷺکے غلامِ صادق کے ذریعے سے مالی قربانیوں کے جہاد ہونے تھے اس لئے ایک لمبے عرصے کے بعد اِن لوگوں کے دلوں میں جنہوں نے حضرت مسیح موعودکو مانا ہے وسعت بھی اللہ تعالیٰ نے پیدا کی ہے۔ اس زمانے میں جبکہ ہر طرف مادیت کا دَور دَورہ ہے حضرت مسیح موعودکے ماننے والوں میں سے ایک بہت بڑی تعداد ہے جو مالی قربانیاں کرنا جانتی ہے اور ان نمونوں کو قائم کرنے والی ہے جو آنحضرتﷺکی سنت پر چلتے ہوئے صحابہ نے کئے۔ یہ مالی قربانی، قربانی تو یقیناً ہے جیسا کہ مَیں نے کہا لیکن اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود کے ماننے والوں میں اس قربانی کی صلاحیت بھی پیدا کردی ہے جس کے اعلیٰ ترین نمونے ہمارے سامنے ہمارے آقا و مطاع حضرت محمدمصطفیﷺ نے قائم فرمائے تھے۔

حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں کہ:

‘‘اگر ہماری فطرت کو وہ قوتیں نہ دی جاتیں جو آنحضرتﷺ کے تمام کمالات کو ظِلّی طورپر حاصل کر سکتیں تو یہ حکم ہمیں ہرگز نہ ہوتا کہ اس بزرگ نبی کی پیروی کرو۔ کیونکہ خداتعالیٰ فوق الطاقت کوئی تکلیف نہیں دیتا۔ جیسا کہ وہ خود فرماتا ہےلَا یُکَلِّفُ اللہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَھَا۔(البقرہ:287)

(حقیقۃالوحی۔ روحانی خزائن جلد 22صفحہ156)

حضرت مسیح موعودکے اس ارشاد سے بعض لوگوں کے اس بہانے کی بھی وضاحت ہوگئی جو یہ کہتے ہیں کہ تمام چندوں کی ادائیگی ہماری طاقت سے بڑھ کر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے لَا یُکَلِّفُ اللہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَھَا۔(البقرہ:287) کہ اللہ تعالیٰ کسی جان کو اس کی وسعت، اس کی صلاحیت، اس کی گنجائش سے بڑھ کر تکلیف نہیں دیتا۔ یہ تو ٹھیک ہے کہ اللہ تعالیٰ تکلیف نہیں دیتا، لیکن آنحضرتﷺنے جو نمونے قائم فرمائے اور جن پر چلتے ہوئے صحابہ نے قربانیاں دیں وہ قربانیاں اپنے اوپر تنگی وارِد کرکے ہی دی گئی تھیں۔ ہر ایک نے اپنی اپنی اِستعداد کے مطابق اپنے اوپر تنگی وارِد کی اور قربانیاں دیں۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی استعدادیں زیادہ تھیں انہوں نے اس کے مطابق قربانی دی، دوسرے ان کو اللہ تعالیٰ کے اپنے ساتھ اس سلوک کا بھی علم تھا، ان کو پتہ تھا کہ مَیں آج اپنے گھر کا سارا سامان بھی اللہ کی راہ میں قربان کر دوں گا تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے اللہ تعالیٰ نے مجھے اتنی دماغی صلاحیت دی ہے اور تجارت میں اتنا تجربہ ہے کہ اس سے زیادہ مال دوبارہ پیدا کر لوں گا اور توّکل بھی تھا، یقین بھی تھا اور یقیناً اس میں اعلیٰ ایمانی حالت کا دخل بھی تھا۔

حضرت عمر نے اپنا جائزہ لیتے ہوئے گھر کا نصف مال پیش کر دیا اور اسی طرح باقی صحابہؓ نے اپنی استعدادوں کے مطابق قربانیاں کیں اور کرتے چلے گئے۔ تو ہمیں اس ارشاد کہ لَا یُکَلِّفُ اللہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَھَا۔(البقرہ:287) کو اپنے بہانوں کے لئے استعمال نہیں کرنا چاہئے بلکہ اپنا جائزہ لیتے رہنا چاہئے، خود اپنے آپ کو دیکھنا چاہئے کہ مالی قربانی کی میرے اندر کس حد تک صلاحیت ہے، کتنی گنجائش ہے۔ کم آمدنی والے لوگ عموماً زیادہ قربانی کرکے چندے دے رہے ہوتے ہیں بہ نسبت زیادہ آمدنی والے لوگوں کے۔ زیادہ پیسے کو دیکھ کر بعض دفعہ بعض کا دل کھلنے کی بجائے تنگ ہو جاتا ہے۔ بلکہ بعض دفعہ ایسی صورت بھی پیدا ہو جاتی ہے کہ موصی بھی بہت کم آمدنی پر چندے دیتے ہیں اور ایسے راستے تلاش کر رہے ہوتے ہیں جن سے ان کی آمدنی کم سے کم ظاہر ہو۔ حالانکہ چندہ تو خداتعالیٰ کی خاطر دینا ہے۔ ایسے لوگوں کا پھر پتہ تو چل جاتا ہے، پھر وصیت پر زَد بھی آتی ہے۔ پھر معذرتیں کرتے ہیں اور معافیاں مانگتے ہیں۔ تو چاہے موصی ہو یا غیر موصی جب بھی مالی کشائش پیدا ہو اس مالی کشائش کو انہیں قربانی میں بڑھانا چاہئے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہماری اِستعدادوں کو، کشائش کو اس لئے بڑھایا ہے کہ آزمائے جائیں۔ یہ دیکھا جائے کہ بیعت کے دعویٰ میں کس حد تک سچّے ہیں۔ لَایُکَلِّفُ اللہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَھَا۔(البقرہ:287) کے ارشادکے بعد اس ارشاد کو بھی مدِّنظر رکھنا چاہئے کہ لَھَا مَاکَسَبَتْ وَعَلَیْھَا مَااکْتَسَبَتْ (البقرہ:287) یعنی نیک کام کا ثواب بھی ملے گا اور اگر ٹال مٹول کر رہے ہوگے تو نقصان بھی ہوگا۔ بہرحال اگر دل میں ذرا سا بھی ایمان ہو تو ایسے لوگ جن کی غلطیوں کی وجہ سے ان سے چند ہ نہیں لیا جاتا جب ایسی صورتِ حال پیدا ہوتی ہے جیسا کہ مَیں نے بیان کیا ان کی وصیت پہ زَد پڑتی ہے یا دوسرے لوگوں کے چندوں پہ۔ تو کیونکہ احمدی ہیں، دل میں نیکی ہوتی ہے اور حضرت مسیح موعودکو مانا ہے، پھر ان کے دل بےچین ہوجاتے ہیں جیسا کہ مَیں نے بتایا پھر معافیاں مانگتے ہیں اور ان کے لئے بات بڑی سخت تکلیف دہ بن رہی ہوتی ہے۔ تو جب نظامِ جماعت نے یہ اجازت دی ہوئی ہے کہ بعض آدمی مجبوریوں کی وجہ سے شرح کے مطابق چندہ نہیں دے سکتے تو رعایت لے لیں تو سچائی کا تقاضا یہ ہے کہ رعایتی شرح کی منظوری حاصل کرلی جائے، بجائے اس کے کہ غلط بیانی سے کام لیا جائے۔ اور مَیں اس بارے میں کئی دفعہ کہہ بھی چکا ہوں کہ ایسے لوگوں کو بغیر کسی سوال جواب کے رعایت شرح مل جائے گی۔ تو ایک تو جو لوگ اپنی آمد غلط بتاتے ہیں وہ غلط بیانی کی وجہ سے گناہگار ہو رہے ہوتے ہیں۔ دوسرے اس غلط بیانی کی وجہ سے اپنے پیسے میں بھی بے برکتی پیدا کر رہے ہوتے ہیں۔ ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ جس خدا نے اپنے فضل سے حالات بہتر کئے ہیں وہ ہر وقت یہ طاقت رکھتا ہے کہ ایسے لوگوں کو کسی مشکل میں گرفتار کر دے۔ پس خداتعالیٰ سے ہمیشہ معاملہ صاف رکھنا چاہئے۔

اصل بات جو مَیں یہاں کہنا چاہتا ہوں یہ ہے کہ مالی قربانی ذریعہ ہے تربیت کا اور نفس کو پاک کرنے کا۔ اگر کچھ حصہ مالی قربانی بھی کر رہے ہیں اور غلط بیانی کرکے اپنی آمد کو بھی چھپا رہے ہیں تو اللہ تعالیٰ کا مالی قربانی کرنے والوں کے لئے ان کے نفسوں کو پاک کرنے کا جووعدہ ہے اس سے تو پھر حصہ نہیں لے رہے ہوتے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ تو ہر انسان کے دل کا حال جانتا ہے، اس کے تمام حالات جانتا ہے، کوئی چیز اس سے چھپی ہوئی نہیں ہے تو ایسی مالی قربانی کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ اور پھر یہ بات تربیت میں کمی کا باعث بن رہی ہوتی ہے بلکہ دوسروں کے لئے بھی غلط نمونے قائم کررہی ہوتی ہے اور جھوٹ بولنے کی وجہ بھی بن رہی ہوتی ہے۔ اس لئے بہتر ہے کہ ایسے لوگ مکمل طور پر چندے سے رخصت حاصل کرلیا کریں اور غلط آمد بتانے کی وجہ سے جو جھوٹ کے مرتکب ہو رہے ہوتے ہیں اس سے بچ جائیں۔ کیونکہ جھوٹ کے بارے میں تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ شرک کی طرف لے جانے والا ہے۔

پس چند ایسے لوگ جو اس قسم کے طریق اختیار کئے ہوئے ہیں ان کے لئے اس میں بڑا اَنذار ہے۔ اللہ ہر احمدی کو اس سے بچائے اور ہم مالی قربانی دِلی خوشی سے کرنے والے ہوں نہ کہ بوجھ سمجھ کر۔ اللہ کی خاطر کی گئی قربانیوں کو اللہ کا فضل سمجھ کر کریں نہ کہ یہ خیال ہو کہ ہم جماعت پر یا خداتعالیٰ پر کوئی احسان کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مجھ پر احسان کسی نے کیا کرنا ہے۔ مَیں تو ان قربانیوں کو جو تم کر رہے ہوتے ہو کئی گنا بڑھا کر تمہیں دیتا ہوں، تمہیں واپس لَوٹا رہا ہوتا ہوں۔ پس یہ سودا تمہارے فائدے کے لئے ہے جیسا کہ فرماتا ہے مَنۡ ذَا الَّذِیۡ یُقۡرِضُ اللہَ قَرۡضًا حَسَنًا فَیُضٰعِفَہٗ لَہٗۤ اَضۡعَافًا کَثِیۡرَۃًؕ وَاللہُ یَقۡبِضُ وَیَبۡصُۜطُ وَاِلَیۡہِ تُرۡجَعُوۡنَ۔(البقرۃ:246) کہ کون ہے جو اللہ کو قرضہ حسنہ دے تاکہ وہ اس کے لئے اس کو کئی گنا بڑھائے۔

حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں کہ: ‘‘اللہ تعالیٰ جو قرض مانگتا ہے تو اس سے یہ مراد نہیں ہوتی ہے کہ معاذاللہ، اللہ تعالیٰ کو حاجت ہے اور وہ محتاج ہے۔ ایسا وہم کرنا بھی کفر ہے۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جزا کے ساتھ واپس کروں گا۔ یہ ایک طریق ہے اللہ تعالیٰ جس سے فضل کرنا چاہتا ہے’’۔ (بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعودؑ سورۃالبقرہ:246، الحکم جلد 6نمبر 17مؤرخہ 10مئی 1902صفحہ7)

پس وہ لوگ جو مالی کشائش کے بعد دل میں کنجوسی محسوس کرتے ہیں ان کو یاد رکھنا چاہئے کہ سب چندے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو سمیٹنے کا ذریعہ ہیں۔ پس اگر اللہ تعالیٰ کی خاطر اپنے مال کا سولہواں حصہ دے رہے ہیں تو یہ ان دینے والوں کے فائدہ کے لئے ہے۔ اللہ تعالیٰ دوسری جگہ فرماتا ہے کہ میں تمہارے مالوں کو سات سو گنا یا اس سے بھی زیادہ بڑھا کر واپس دیتا ہوں۔ پس یہ اللہ تعالیٰ کو جو اپنے مال کا اچھا ٹکڑا کاٹ کر دے رہے ہو یہ تمہارے اپنے ہی فائدے کے لئے ہے۔ اس میں ایک مومن کو یہ بھی ہدایت ہے، یہ بھی فرما دیا کہ مال ہمیشہ جائز ذریعے سے کماؤ کیونکہ اللہ تعالیٰ کو اچھا مال تبھی پیش کرسکتے ہو جب جائز ذریعہ سے کمایا ہو۔ اللہ تعالیٰ کو ناجائز منافع سے کمایا ہوا مال بھی پسند نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کو سود سے کمایا ہوا مال بھی پسند نہیں ہے بلکہ سختی سے اس کی مناہی ہے۔ رشوت کا پیسہ بھی اللہ تعالیٰ کی ناراضگی لینے والا ہے۔

پس جب چندہ دینے والا ان سب باتوں کو مدِّنظر رکھے تو پھر اس کا روپیہ، اس کی آمد، اس کی کمائی خود بخود پاک ہو جائے گی۔ یہ مالی قربانی اس کے لئے تزکیۂ نفس کا موجب بن جائے گی۔ اور اس طرح وہ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے والا بن جائے گا اور آنحضرتﷺ نے اُمّت کے لئے جو دعائیں کی ہیں ان کا بھی وارث بن رہا ہوگا۔

جیسا کہ مَیں نے کہا تھا کہ یہ زمانہ جو حضرت مسیح موعودکا زمانہ ہے اس میں ایک جہاد مالی قربانیوں کا جہاد بھی ہے کیونکہ اس کے بغیر نہ اسلام کے دفاع میں لٹریچر شائع ہوسکتا ہے، نہ قرآنِ کریم کے مختلف زبانوں میں ترجمے ہو سکتے ہیں، نہ یہ ترجمے دنیا کے کونے کونے میں پہنچ سکتے ہیں۔ نہ مشن کھولے جا سکتے ہیں، نہ مربیان، مبلّغین تیار ہوسکتے ہیں اور نہ مربیان، مبلّغین جماعتوں میں بھجوائے جا سکتے ہیں۔ نہ ہی مساجد تعمیر ہوسکتی ہیں۔ نہ ہی سکولوں، کالجوں کے ذریعہ سے غریب لوگوں تک تعلیم کی سہولتیں پہنچائی جا سکتی ہیں۔ نہ ہی ہسپتالوں کے ذریعہ سے دُکھی انسانیت کی خدمت کی جاسکتی ہے۔ پس جب تک دنیا کے تمام کناروں تک اور ہر کنارے کے ہر شخص تک اسلام کا پیغام نہیں پہنچ جاتا اور جب تک غریب کی ضرورتوں کو مکمل طور پر پورا نہیں کیا جاتا اس وقت تک یہ مالی جہاد جاری رہنا ہے۔ اور اپنی اپنی گنجائش اور کشائش کے لحاظ سے ہر احمدی کا اس میں شامل ہونا فرض ہے۔

آنحضرتﷺکے زمانے میں غریب اپنی طاقت کے لحاظ سے خرچ کرتا تھا اور امیر اپنی وسعت کے لحاظ سے خرچ کرتا تھا۔ غریب صحابہ بھی بےچین رہتے تھے کہ کاش ہمارے پاس بھی مال ہو تو ہم بھی خرچ کریں۔ جب جہاد کے لئے جانے کے لئے، باوجود ان کی خواہش کے، مالی تنگی اور سامان کی کمی کی وجہ سے ان کو پیچھے رہنا پڑتا تھا تو ان کی آنکھیں آنسو بہاتی تھیں اور ان کے دل بےچین ہوتے تھے۔ اور یہ اتنی سچّی بےچینی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے جو دلوں کا حال جاننے والا ہے اس نے بھی یہ گواہی دی کہ یہ بےچین دل اور آنسو بہاتی آنکھیں بناوٹ نہیں تھیں بلکہ حقیقت میں ان کی یہ کیفیت ہوتی تھی۔

اللہ کرے کہ آج ہماری قربانیوں کی تڑپ بھی اسی طرح سچی تڑپ ہو جس طرح پہلوں کی تھی۔ اور اللہ تعالیٰ ہمیں ان کے ساتھ ملاتے ہوئے پاک نمونے قائم کرنے کی توفیق دے۔ ہمیں اس آیت کے مطابق اس بات کا اِدراک عطا فرمائے اور عمل کرنے کی توفیق دے جس کی مَیں نے تلاوت کی ہے۔ اس کا ترجمہ یہ ہے اللہ کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے ہاتھوں اپنے تئیں ہلاکت میں نہ ڈالو اور احسان کرو۔ یقیناً اللہ احسان کرنے والوں سے محبّت کرتا ہے۔

آج جب اسلام کے خلاف ہر طرف سے حملے ہورہے ہیں اور حضرت مسیح موعودکی جماعت کو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعودکی رہنمائی میں دلائل قاطعہ کے ذریعہ سے جواب دینے کے لئے کھڑا کیا ہے اور جس کی تیاری کے لئے جیسا کہ مَیں نے کہا کہ مالی قربانی کی ضرورت ہے، ہمیں اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے مالی قربانیوں کی طرف توجہ دینے کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ ورنہ اللہ تعالیٰ نے جیسا کہ فرمایا ہے کہ اگر ہم مالی قربانیوں کی طرف توجہ نہیں کریں گے تو اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنے والے ہوں گے۔ اپنے آپ کو دین کی خدمت سے محروم کر رہے ہوں گے۔ اور دین کی خدمت سے محروم ہونے کا مطلب ہی اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنا ہے۔

پس جو چندے کے معاملے میں سستیاں دکھانے والے ہیں وہ اپنے جائزے لیں اور جو جماعتی عہدیدار نئے شامل ہونے والوں کو اس کی اہمیت سے آگاہ نہیں کرتے وہ بھی ذمہ دار ہیں۔ پس جہاں دین کی نصرت کے لئے آسمان پر شور ہے وہاں ہمیں اپنی ذمہ داریوں کی طرف بھی بہت زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ان ذمہ داریوں کو بھی ہمیں نبھانا ہوگا۔ اور ہم ہلاکت سے اس صورت میں بچ سکتے ہیں جب اَحْسِنُوْا پر عمل کرتے ہوئے اپنے فرائض عمدگی سے ادا کرنے والے ہوں اور اس کے نتیجہ میں خدا کی رضا حاصل کرنے والے ہوں۔ آنحضرتﷺکے صحابہؓ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے مال خرچ کرنے کے طریقوں اور یہ کہ کون سا مال خرچ کرنا چاہئے اس کے بارے میں آپﷺسے سوال کیا کرتے تھے۔

چنانچہ روایت میں آتا ہے حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ ایک شخص آنحضرتﷺکے پاس آیا اور کہنے لگا یا رسول اللہ! اللہ کی راہ میں خرچ کئے ہوئے کس مال کا ثواب زیادہ ملے گا؟ آپﷺنے فرمایا جب تو تندرستی کی حالت میں مال کی خواہش ہوتے ہوئے، محتاجی سے ڈر کر، مالداری کی طمع رکھ کر، خرچ کرے۔ اور اتنی دیر مت کر کہ جان حَلق میں آن پہنچے تو اس وقت تو کہے کہ فلاں کو اتنا دینا اور فلاں کو اتنا دینا، حالانکہ اب تو وہ مال کسی اور کا ہو ہی چکا۔

(صحیح بخاری کتاب الزکاۃ باب ای الصدقۃ افضل حدیث نمبر 1419)

تو فرمایا کہ تندرستی کی حالت میں، انسان کی صحت اچھی ہو، جوان ہو، تو عاقبت کی فکر بھی کم رہتی ہے۔ اگر اس عمر میں یہ خیال آجائے صحت کی حالت میں یہ خیال آجائے تو پھر مال کی وجہ سے بہت سی ایسی لغویات ہیں جن میں انسان مبتلا ہو جاتا ہے، ملوث ہو سکتا ہے ان سے بچ جاتا ہے۔

پھر مال کی خواہش ہر انسان میں ہوتی ہے۔ آج کل کے زمانے میں مادیت کا بہت زیادہ دَور دَورہ ہے اور بہت بڑھ کر یہ خواہش ہے۔ اس حالت میں اس زمانے میں جب اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں تو یقیناً یہ بہت بڑی قربانی ہے۔ اللہ کا فضل ہے کہ جماعت میں بہت سے لوگ مال کی خواہش رکھنے کے باوجود قربانیاں کرتے ہیں۔ پھر اس وقت خرچ کرنا جب محتاجی کا بھی ڈر ہو۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ جماعت میں ایسی بہت مثالیں ہیں جب کسی بات کی بھی پروا کئے بغیر لوگ قربانیاں کررہے ہوتے ہیں۔ ابھی چند دن ہوئے جرمنی کے ایک نوجوان کے بارے میں مجھے پتہ چلا کہ وہ مقروض بھی تھا، شادی بھی ہونے والی تھی۔ ایک معمولی رقم اس نے شادی کے لئے جمع کی ہوئی تھی لیکن جب وہاں جو تحریک ہے سو(100) مساجد کی اس کے لئے چندے کی تحریک کی گئی تو وہ تمام جمع پونجی جو اس نے شادی کے لئے جوڑی تھی لا کے پیش کر دی۔

پس یہ نمونے جہاں حضرت مسیح موعودؑ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے پورا ہونے کے نظارے ہمیں دکھاتے ہیں، وہاں اُن سست لوگوں کو بھی توجہ کرنی چاہئے، ان کو بھی توجہ دلانے والے بننے چاہئیں جو حیلوں بہانوں سے چندوں میں کمی کی درخواستیں کرتے ہیں۔ تو ایسے لوگوں کے بارے میں فرمایا کہ وہ مالدار ہونے کی طمع رکھتے ہیں ایک ہی خواہش ہوتی ہے کہ کسی طرح پیسہ اکٹھا ہو جائے۔ یہ چند لوگ اُن برکتوں میں نہ شامل ہوکر جو اس قربانی کی وجہ سے ملنی ہیں اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنے والے ہوتے ہیں۔ اللہ سب احمدیوں کو عقل دے اور اس بخل سے محفوظ رکھے۔

آنحضرتﷺنے کس طرح اپنے صحابہ کو مالی قربانیوں کی ترغیب دلائی اور کس طرح دلایا کرتے تھے اس بارے میں روایت میں یوں ذکر ملتا ہے۔

حضرت نبی کریمﷺنے ایک دفعہ اپنی نسبتی ہمشیرہ حضرت اسماءؓ بنت ابوبکر کو نصیحت فرمائی کہ اللہ کی راہ میں گن گن کر خرچ نہ کیا کرو ورنہ اللہ تعالیٰ بھی تم کو گن گن کر ہی دے گا۔ اپنی تھیلی کا منہ بند کرکے(یعنی کنجوسی سے) نہ بیٹھ جانا ورنہ پھر اس کا منہ بند ہی رکھا جائے گا۔ یعنی نہ تو پیسہ آئے گا اور نہ نکلنے کی نوبت آئے گی۔ جتنی طاقت ہو، استعداد ہو اتنا خرچ کرنا چاہئے۔

(بخاری کتاب الزکوٰۃ باب التحریص علی الصدقۃ حدیث نمبر 1433 و باب الصدقۃ فیما استطاع حدیث نمبر 1434)

پس بعض لوگ جو سمجھتے ہیں کہ چندے ہمارے لئے بوجھ ہیں ان کو ہمیشہ یہ نصیحت یاد رکھنی چاہئے۔

پھر ایک روایت میں آتا ہے حضرت عقبہ بن عامرؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے فرمایا: قیامت کے دن حساب کتاب ختم ہونے تک انفاق فی سبیل اللہ کرنے والا اللہ کی راہ میں خرچ کئے ہوئے اپنے مال کے سائے میں رہے گا۔ (مسند احمد بن حنبل مسند عقبہ بن عامر جلد5 صفحہ895 ایڈیشن 1998ء)

پھر آنحضرتﷺیہ حدیثِ قدسی بھی سنایا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے ابن آدم! خرچ کرتا رہ، مَیں تجھے عطا کروں گا۔

آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایسی کئی مثالیں بکھری پڑی ہیں۔ (ایک مَیں نے مثال پہلے بھی دی تھی) جن میں اللہ تعالیٰ کی ان نوازشوں کے ذکرملتے ہیں، اس کے نظارے نظر آتے ہیں، اور یہ نظارے نظر آتے ہی ہیں تو لوگوں میں اتنی جرأت اور ہمّت پیدا ہوتی ہے کہ وہ نہ ہوتے ہوئے بھی اپنے مال خرچ کر دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ جماعت کو اس طرح قربانی کرنے والے ہمیشہ عطا فرماتا رہے اور ان پر اپنے فضلوں کی بارش بھی برساتا رہے۔

چندوں کے بارہ میں بعض جماعتوں کے بعض استفسار ہوتے ہیں جو بعض لوگوں کی طرف سے ہوتے ہیں جن کے بارے میں سمجھتا ہوں کہ وضاحت کر دوں۔ ایک تو یہ کہ آج کل وصیت کی طرف بہت توجہ ہے۔ اور وصیت کی طرف توجہ تو ہوگئی ہے لیکن تربیت کی کافی کمی ہے۔ اس لئے بعض موصیان یہ سمجھتے ہیں کہ کیونکہ ہم نے وصیت کی ہوئی ہے اس لئے ہم صرف وصیت کا چندہ دیں گے باقی ذیلی تنظیموں کے چندے یا مختلف تحریکات کے چندے ہم پر لاگو نہیں ہوتے۔ تو یہ واضح ہو، جیسا کہ مَیں نے پہلے بھی کہا ہے کہ اگر تو حالات ایسے ہوں کہ تمام چندے نہ دے سکتے ہوں تو اس کی اجازت لے لیں۔ ورنہ توقع ایک موصی سے یہ کی جاتی ہے کہ ایک موصی کا معیار قربانی دوسروں کی نسبت، غیرموصی کی نسبت زیادہ ہونا چاہئے۔ تو اگر وصیت کا صرف کم سے کم 1/10 حصہ سے دے کر باقی چندے نہیں دے رہے تو ہوسکتا ہے۔

غیر موصی دوسرے چندے شامل کرکے موصیان سے زیادہ قربانی کر رہے ہوں۔ تو اس لحاظ سے واضح کردوں کہ کوئی بھی چندہ دینے والا، چاہے وہ موصی ہیں یا غیرموصی ہیں اگر توفیق ہے تو تمام تحریکات میں چندے دینے چاہئیں کیونکہ ہر تحریک اپنی اپنی ضرورت کے لحاظ سے بڑی اہم ہے۔

پھر ایک چیز یہ ہے کہ جیسا کہ مَیں نے کہا کہ اصل مقصد چندوں کا اللہ تعالیٰ کا قرب پانا ہے، نہ کہ پیسے اکٹھے کرنا۔ اس لئے بالکل صحیح طریق سے بغیر کسی چیز کو، اپنی آمد کو چھپائے بغیر، اپنے بجٹ بنوانے چاہئیں جو کہ سال کے شروع میں جماعتوں میں بنتے ہیں۔ اور بجٹ بہرحال صحیح آمد پہ بننا چاہئے۔ اس کے بعد اگر توفیق نہیں تو چندوں کی چھوٹ لی جا سکتی ہے۔

پھر ایک اور بات ہے جس کی طرف مَیں عرصے سے توجہ دلا رہا ہوں کہ نومبائعین کو مالی نظام میں شامل کریں۔ یہ جماعتوں کے عہدیداروں کا کام ہے۔ جب نومبائعین مالی نظام میں شامل ہو جائیں گے تو جماعتوں کے یہ شکوے بھی دور ہو جائیں گے کہ نومبائعین سے ہمارے رابطے نہیں رہے۔ یہ رابطے پھرہمیشہ قائم رہنے والے رابطے بن جائیں گے اور یہ چیز ان کے تربیت اور ان کے تقویٰ کے معیار بھی اونچے کرنے والی ہوگی۔ تو جیسا کہ مَیں نے کہا کہ قرآنِ کریم میں مالی قربانیوں کے بارے میں بےشمار ہدایات ہیں۔ تو اللہ تعالیٰ جو بھی فضل فرماتا ہے ان کو اس میں بھی شامل کرنا چاہئے۔

پھر زکوٰۃ کی ادائیگی کے بارے میں بعض سوال ہوتے ہیں۔ یہ بنیادی حکم ہے۔ جن پر زکوٰۃ واجب ہے ان کو ضرور ادا کرنی چاہئے اور اس میں بھی کافی گنجائش ہے۔ بعض لوگوں کی رقمیں کئی کئی سال بنکوں میں پڑی رہتی ہیں اور ایک سال کے بعد بھی اگر رقم جمع ہے تو اس پہ بھی زکوٰۃ دینی چاہئے۔ پھر عورتوں کے زیورات ہیں ان پر زکوٰۃ دینی چاہئے۔ جو کم از کم شرح ہے اس کے مطابق ان زیورات پہ زکوٰۃ ہونی چاہئے۔ پھر بعض زمینداروں پر زکوٰۃ واجب ہوتی ہے ان کو اپنی زکوٰۃ اداکرنی چاہئے۔ تو یہ ایک بنیادی حکم ہے اس پر بہرحال توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

اس مالی قربانی کے ضمن میں ایک دعا کی بھی درخواست کرنی چاہتا ہوں۔ جیسا کہ مَیں نے ایک دفعہ اعلان کیا تھا بلکہ شاید دو دفعہ کر چکا ہوں، کہ طاہر ہارٹ انسٹیٹیوٹ جو ربوہ میں بن رہا ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑی خوبصورت عمارت ہے اور بڑا اعلیٰ اور معیاری انسٹیٹیوٹ بن رہا ہے، دل کی بیماریوں کے لئے۔ اس کے لئے مَیں نے دنیا کے ڈاکٹروں کو تحریک کی تھی کہ وہ اس میں خاص طور پر حصہ لیں اور قربانیاں کریں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے امریکہ کے ڈاکٹرز نے اس کے خرچ کی بہت بڑی ذمہ داری اپنے اوپر لی ہے۔ تقریباً ایکویپمنٹ (Equipment) وغیرہ کا سارا خرچ وہی ادا کریں گے اور یہ بہت بڑا خرچ ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے انہوں نے ایک بہت بڑی رقم جمع بھی کر لی ہے اور وعدے بھی کئے ہیں۔ ان کے لئے بھی دعا کی درخواست ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو جزا دے اور یہ توفیق دے کہ وہ جلد اپنے وعدے پورے کرنے والے بھی ہوں۔ لیکن امریکہ کی جماعت کو بھی یاد رکھنا چاہئے کہ اس بہت بڑی قربانی کی وجہ سے کہیں ان کے لازمی چندہ جات میں فرق نہ پڑے۔ وہ بہرحال متاثر نہیں ہونے چاہئیں۔ اللہ تعالیٰ ان سب قربانی کرنے والوں کے لئے جو بھی اللہ کی راہ میں قربانی کر رہے ہیں ان کے اموال و نفوس میں بےانتہا برکت عطا فرمائے۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کا حضرت مسیح موعودسے وعدہ ہے کہ سلسلہ کی ترقی کے لئے جس چیز کی بھی ضرورت ہوگی اور جن اموال کی بھی ضرورت ہے وہ ان شاءاللہ میسر ہوجائیں گے، مہیا ہوجائیں گے۔

جیسا کہ آپؑ فرماتے ہیں: ‘‘اور خداتعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ اس سلسلہ کو ترقی دے گا اس لئے امید کی جاتی ہے کہ اشاعتِ اسلام کے لئے ایسے مال بہت اکٹھے ہوجائیں گے’’۔(رسالہ الوصیت روحانی خزائن جلد نمبر 20صفحہ319)

تو یہ تو کوئی فکر نہیں ہے کہ مال نہیں ملے گا، ضرورت پوری نہیں ہوگی۔ لیکن ہمیں یہ دعا کرتے رہنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم ان مالی قربانیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والے ہوں اور قربانیوں کے اعلیٰ معیار قائم کرنے والے ہوں۔ اور پھر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بنیں۔ دعا کی ایک اور درخواست ہے کہ ان شاءاللہ اس ہفتے کے دوران میں مَیں آسٹریلیا وغیرہ اور دوسرے چند ممالک کے چند ہفتوں کے لئے دورے پہ جا رہا ہوں۔ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہر لحاظ سے اس دورے کو بابرکت فرمائے اور ہر لحاظ سے کامیاب فرمائے جو وہاں کے احمدیوں کے لئے بھی بابرکت ہو۔ اور سفر میں بھی ہمیں حفاظت میں رکھے۔

(خطبات مسرور جلدچہارم صفحہ167۔خطبہ جمعہ 31؍ مارچ 2006ء)

متعلقہ مضمون

  • جلسہ سالانہ کی اہمیت

  • جماعتِ احمدیہ جرمنی کے ایک جفا کش دیرینہ خادم

  • جرمنی میں رہتے ہوئے سوئٹزرلینڈ میں کام کے مواقع