ڈاکٹر الیگزینڈر ڈووی نے 1901ء میں امریکہ کی شمال مغربی ریاست میں شکاگو شہر کے قریب 6600 ایکڑ زمین پر صیون یا صیہون ( Zion) کے نام سے شہر آباد کیا اور اسے مقدّس قرار دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ اس شہر میں عنقریب مسیحؑ نازل ہوں گے نیز اس کا مقصد بیان کرتے ہوئے اس نے پیشگوئی کی کہ اب دین اسلام (نعوذباللہ) نابود ہوجائے گا اور امت مسلمہ کے کروڑوں افراد ہلاک کر دئیے جائیں گے۔ ڈووی کے ذہن میں اس نام سے ایک شہر آباد کرنے کا پس منظر اور تصور کیا تھا، اس کا جائزہ زیرِنظر مضمون میں لیا جانامقصود ہے۔
لفظ صیون یا صیہون عبراني زبان کا لفظ ہے۔ اس کے معنی حفاظت اور محفوظ مقام کے بتائے جاتے ہيں اور بعض علماء کے نزديک اس کا مادہ SAHA ہے جس کی بنا پر اس کے معني خشک زمين غير ذي زرع اور چٹيل زمين کے کئے جاتے ہيں۔
جہاں تک اس لفظ کے عبراني تلفظ کا تعلق ہے تو وہ “SIYON’’ ہے جسے بائبل کے اردو تراجم ميں صيّون لکھا اور پڑھا جاتا ہے مگر آرامي(SYRIAN) ميں ‘‘SEHYON’’ صيہون لکھا اور پڑھاجاتا ہے۔
لفظ صيہون یا صیون عہد نامہ قدیم میں کل 152 مرتبہ جبکہ عہدنامہ جدید میں سات مرتبہ آیا ہے۔ بائبل ميں پہلي مرتبہ اس کا ذکر 2 سيموئيل5:7 ميں ملتا ہے جس کے مطابق يہ اُس قلعہ کا نام تھا جسے حضرت داؤدؑ نے يبوسي قوم سے چھينا تھا جو بني اسرائيل سے قبل يروشلم ميں آباد تھي۔ بعدازيں جب ‘عہد کا صندوق’ جس کو عہدنامہ قديم ميں خداوند کا صندوق، يہواہ کا صندوق اور شہادت کا صندوق بھي کہا گيا ہے، اِس مقام پر ايک خيمہ ميں رکھا گيا تو اس مقام کو متبرّک سمجھا جانے لگا اور اس طرح اس کي اہميت بڑھ گئي۔ عہد کے صندوق رکھنے کا ذکر بائبل میں يوں ملتا ہے:
‘‘وہ خداوند کے صندوق کو اندر لائے اور اس کو اس کي جگہ پر اس خيمہ کے بيچ ميں جو داؤدؑ نے اس ليے کھڑاکيا تھا، رکھا’’۔(2۔سيموئيل6:17)
ياد رہے کہ عہد کا صندوق يا تابوت سکينہ اُس صندوق کو کہا جاتا ہے جس ميں حضرت موسيٰ نے پتھر کي دو لوحيں، تھوڑامَنّ اور حضرت ہارون کا عصا رکھا ہوا تھا۔ پتھر کی ان دو لوحوں پر شريعت کے دس احکام لکھے ہوئے تھے۔ بعدازيں حضرت سليمان عليہ السلام نے ہيکل تعمير کروائي تو صيون کے مقام سے عہد کے صندوق کو اس ہيکل ميں منتقل کر ديا گيا جس کا ذکر بائيبل ميں ان الفاظ ميں ملتا ہے:
‘‘سليمان نے اسرائيل کے سب سرداروں کو اپنے پاس جمع کيا تاکہ داؤد کے شہر سے جو صيّون ہے خداوند کے عہد کے صندوق کو لے آئيں’’۔(1۔سلاطين8:1)
پھر لکھا ہے:
‘‘اور کاہن خداوند کے عہد کے صندوق کو اُس کي جگہ پر اس گھر کي الہام گاہ ميں یعنی پاک ترین مکان میں عین کروبیوں کے بازوؤں کے نیچے لے آئے…… اور اس صندوق ميں کچھ نہ تھا سوائے پتھر کي اُن دو لوحوں کے جن کو وہاں موسيٰؑ نے حورِب ميں رکھ ديا تھا’’۔
(1۔سلاطين8:6-9)
اس واقع کے بعد ہيکل کو صيّون کے نام سے پکارا جانے لگا جيسا کہ لکھا ہے:
‘‘شمال کي جانب کوہ صيّون جو بڑے بادشاہ کا شہر ہے، کوہ صيون شادمان ہو۔ صيون کے گرد پھرو اور اس کا طواف کرو’’۔(زبور48:2-12)
ياد رہے کہ بائيبل اور يہودي کتب ميں پہاڑ یا اونچے مقام کا لفظ عبادت گاہ کے ليے بھي استعمال ہوا ہے۔مثلاً سلاطين 12:3 ميں لکھا ہے:
‘‘اونچے مقام ڈھائے نہ گئے اور لوگ ہنوز اونچے مقاموں پر قرباني کرتے اوربخور جلاتے تھے’’۔
پھر لکھا ہے کہ ‘‘يہوداہ کے پہاڑوں پر اونچے مقام بنائے اور يروشلم کے باشندوں کو زنا کار بنايا اور يہوداہ کو گمراہ کيا’’۔ (2تواريخ21:11)
اسي طرح جوبلي کي کتاب of Jubilees The book ميں لکھا ہے کہ
Lord has four places on the earth, the Garden of Eden, and The Mount of the East, and This mountain on which thou art this day, Mount Sinai and Mount Zion which will be Sanctified in the new creation for the sanctification of the Earth.(Jubilees 4:26)
چنانچہ اسی کے مطابق اس جگہ Mount of Zion سے مراد يروشلم کي عبادت گاہ اور Mount of East سے مراد کعبةاللہ ہے جو کہ فلسطين سے مشرق کي طرف ہے اور ہيکل کے متعلق لکھا ہے:
‘‘ایک ہدیہ ربّ الافواج کے نام کے مکان پر جو کوہ صيّون ہے پہنچایا جائے گا’’۔ (يسعياہ18:7)
اسي طرح لکھا ہے:
‘‘ميں تمہارا خداوند تمہارا خدا ہوں۔ جو صيّون ميں اپنے کوہ مقدّس ميں رہتا ہوں’’۔ (يوايل 3:17)
بعد ازيں یہ لفظ پورے يروشلم شہر پر بھي بولا جانے لگا۔ مثلاً لکھا ہے:
‘‘دختر صيّون نے تجھ کو حقير جانا اور تيرا مضحکہ اڑايا يروشلم کي بيٹي نے تجھ پر سر ہلايا’’۔(2۔سلاطين19:21)
بعض اوقات تمثيلي طور پر يہ لفظ پوري بني اسرائيل کي جماعت اور تنظيم کے ليے بھي استعمال ہوا ہے، جیسے:
‘‘صيون عدالت کے سبب سے اور جو اس ميں گناہ سے باز آئے راستبازي کے باعث نجات پائيں گے’’۔
(يسعياہ1:27)
پھر زبور 97:8 ميں لکھا ہے کہ ‘‘اے خداوند! صيّون نے سنا اور خوش ہوئي اور يہوداہ کي بيٹياں تيرے احکام سے شادمان ہوئيں’’۔
پھر لکھا ہے کہ
‘‘تو اُٹھے گا اور صيّون پر رحم کرے گا’’۔
(زبور102:13)

صيہون اور مسيحيت

سن 70 عيسوي ميں روميوں نے يہود کي شرارتوں کي وجہ سے يروشلم کي اينٹ سے اينٹ بجا دي تھي اور يہوديوں کے تمام مذہبي مقامات خصوصاً ہيکل کو زمين بوس کرکے اس کا نام و نشان مٹا ديا تھا۔ یہ وہي ہيکل تھا جسے يہودي صيّون کے نام سے پکارتے تھے۔ جيسا کہ يوسي بيس(EUSEBIUS) اپنے چشم ديد واقعات ميں لکھتا ہے:
The hill called Sion and Jerusalem, The buildings there, that is to say, the Temple, the Holy of Holies, the Altar, and whatever else was there dedicated to the glory God, has been utterly removed or shaken is fulfilment of the word.
(Proof of Gospel VIII.3-Ref. to "Secerete of golgotha chapter 15 page177”)
وہ مزيد لکھتا ہے:
Their once famous Mount Sion…. is a Roman farm like the rest of the Country, Yea, with my own eyes I have seen the bulls ploughing there, and the sacred site sown with seed.(ibid)
اس کے بعد 325عيسوي کے بعد جب شاہ قسطنطين (Constantine) نے عيسائي مذہب قبول کيا تو عيسائيوں نے يروشلم کے جنوب مشرقي حصہ ميں بعض مقدّس مقامات کو صيون کے نام سے پکارنا شروع کرديا۔ مثلاً وہ مقام جہاں يسوع کے شاگرد يسوع کے بعد اکٹھے ہوتے تھے اور عبادت کرتے تھے جيسا کہ لکھا ہے ‘‘جب وہ اس پہاڑ سے جو زيتون کا کہلاتا ہے…… يروشلم کو پھرے…… تو اس بالاخانہ پر چڑھے…… اور ايک دل ہو کر دعا ميں مشغول رہے’’۔ (اعمال1:12-14)
اسي طرح وہ مقام جہاں يسوع نے شاگردوں کے ساتھ آخري دفعہ کھانا کھايا۔(19:20-26)
مسيحي روايات کے مطابق يہ دونوں مقامات دراصل ايک ہي جگہ کے مختلف نام تھے کيونکہ ان روايات کے مطابق جہاں کھانا کھايا تھا وہ بھي ايک بالاخانہ ہي تھا۔ ان مقامات پر بعد ميں ايک چرچ بنايا گيا تھا جوکہ The mother of all churches Great Apostolic Chruchکے نام سے معروف ہے۔ اور اس عمارت کو بھی SION يا صيون کا نام ديا گيا۔
ہيکل يروشلم کے جنوب مشرقي حصہ ميں تھا مگر تمام عيسائي متبرّک عمارات جن کو صيون کا نام ديا گيا، وہ يروشلم کے جنوب مغرب ميں تھيں۔ چونکہ عہدنامہ قديم ميں صيون کا لفظ ايک قديم قلعہ کے علاوہ ہيکل سليماني اور پھر تمام يروشلم کے ساتھ ساتھ تمام بني اسرائيل اور يہودا کے علاقہ کو بھي کہا گيا ہے۔ اور عہدنامہ جديد کي آخري کتاب مکاشفہ ميں مسيح کے پيروکاروں کے بارہ ميں لکھا ہے:
‘‘مَيں جلد آنے والا ہوں… جو غالب آئے ہيں اسے اپنے خدا کے مقدّس کا ايک ستون بناؤں گا۔ اور ميں اپنے خدا کا نام اور اپنے خدا کے شہر يعني نئے يروشلم کا نام جو ميرے خدا کے پاس سے آسمان سے اُترنے والا ہے اور اپنا نيا نام اس پر لکھوں گا’’۔ (مکاشفہ 3:12)
اسي طرح مکاشفہ ہي ميں دلہن يعني برّہ کي بيوي کو بھي يروشلم کي شکل ميں آسمان سے اترتے ہوئے دکھايا گيا تھا اور عہدنامہ جديد کے مطابق مسيح کي دلہن سے مراد کليسيا يعني مسيح کي جماعت اور ماننے والے ہيں۔ اسی ليے اٹھارويں صدي کے بعدجب مسيح کي آمدِثاني کا شدّت سے انتظار شروع ہوا تو کثرت سے عيسائيوں نے اپنی عبادت گاہوں کو ZION CHURCH يا Mount Zion Church وغيرہ کے نام دينے شروع کردئيے تھے جو آج بھي متعددافريقين ممالک، امريکہ اور کينيڈا ميں موجود ہيں۔ یہی تصوّر دراصل ڈاکٹر الیگزینڈر ڈووی کے ذہن میں بھی ہوگا لیکن اس نے ایک مامور من اللہ کے مقابل پر آکر اور اس کی نصیحت پر عمل نہ کرکے اپنے آپ کو تباہ وبرباد کر لیا۔

متعلقہ مضمون

  • جلسہ سالانہ کی اہمیت

  • جماعتِ احمدیہ جرمنی کے ایک جفا کش دیرینہ خادم

  • جرمنی میں رہتے ہوئے سوئٹزرلینڈ میں کام کے مواقع