تحریر: مکرم کامران خان صاحب، ایم اے اسلامیات

جماعت احمدیہ کا شائع کردہ جرمن ترجمہ قرآنِ کریم اپنی پہلی اشاعت 1954ء سےہی نہایت مقبول ہے۔ ہر سال اس کے ہزاروں نسخے لوگ حاصل کرتے ہیں اور اس طرح سے یہ ترجمہ قرآن اسلام کی اصل تعلیم کو پھیلانے میں ایک کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ مختلف زبانوں میں تراجم قرآنِ کریم کی اشاعت جماعت احمدیہ کا ایک خصوصی پروگرام ہے۔ جماعت میں ترجمہ قرآنِ کریم پر کام سب سے پہلے 1915ء میں شروع ہوا جب قرآنِ کریم کے کچھ پاروں کا انگریزی زبان میں ترجمہ شائع ہو کر منظر عام پر آیا جس سے انگریزی سمجھنے والوں کو مسلمانوں کی طرف سےتیار کیا گیا ترجمہ مہیا ہوا جو اسلام کی اصل تعلیم کی عکاسی کرتا تھا۔ اس سے پہلے زیادہ تر مستشرقین یا عیسائی پادریوں کے کئے گئے تراجم قرآنِ کریم پر ہی انحصار کیا جاتا تھا۔ تاہم مکمل انگریزی ترجمہ جسے حضرت مولوی شیر علی صاحب نے تیار کیا تھا بیسویں صدی کے وسط میں ہی شائع ہوسکا۔ یہ اُس زمانے کی بات ہے جبکہ دوسری جنگ عظیم ابھی جاری تھی اور حالات کی وجہ سے جماعتی سرگرمیوں کو کافی حد تک محدود کرنا پڑا تھا۔ ہندوستان سے انگلستان تک سفر کا واحد ذریعہ یعنی سمندری سفر بھی تقریباً بند ہو چکا تھا۔ حکومتوں نے غیر ملکیوں کی آمد پر بھی بہت حد تک پابندی لگا دی تھی جس سے مبلّغین کا بیرونی ممالک میں بھجوانا بھی خاصا مشکل امر تھا۔ اس زمانہ میں حضرت مصلح موعود نے خداتعالیٰ سے علم پاکر 1944ء میں اطلاع دی کہ جنگ عظیم عنقریب ختم ہو جائے گی۔ آپ کی خداداد بصیرت نے دیکھ لیا کہ اب تبلیغ اسلام کے لیے نئے مواقع پیدا ہوں گے جس کا ذکر آپ نے 20 جنوری 1944ء میں ایک خطاب میں کیا۔ آپ نے اس طرف توجہ دلائی کہ جماعت کو جنگ عظیم کے اختتام پر تبلیغ کے لیے کوششوں کو تیز کرتے ہوئے مختلف زبانوں میں تبلیغی لٹریچرتیار کرنا چاہیئے۔ آپ نے اہم زبانوں میں عربی، انگریزی، روسی، جرمن، فرانسیسی، اٹالین، ڈچ، سپینش اور پورتوگیز کو شامل کیا۔ حضورؓ نے اس طرف توجہ دلائی کہ ان زبانوں کا تبلیغی لٹریچر مبلّغین کے لیے ممد ہوگا۔ اس لٹریچر میں سب سے اوّل قرآنِ کریم کے تراجم کی تیاری تھی۔ حضورؓ نے دوران خطاب یہ بھی فرمایا کہ انگریزی قرآنِ کریم کا ترجمہ مکمل ہو چکا ہے اور باقی سات زبانوں میں ترجمہ پر کام شروع کیا جا چکا ہے۔ (خطبات محمود جلد 24، صفحہ 600-601) ان خطبات سے ہمیں یہ بھی علم ہوتا ہے کہ جرمن ترجمہ قرآن کی تیاری 1944ء میں ہی شروع ہو چکی تھی۔ اکتوبر 1944ء تک تین پاروں کا ترجمہ مکمل ہوچکا تھا۔ حضرت مصلح موعود نے مزید یہ بھی ارشاد فرمایا کہ ان تراجم کی اشاعت کا خرچہ مختلف لوگ برداشت کریں۔ اٹیلین ترجمہ کی اشاعت کا تمام خرچ خاندان حضرت مسیح موعود کی طرف سے ادا ہوا۔ اسی طرح لجنہ اماءاللہ کو ہدایت دی کہ وہ جرمن ترجمہ کی اشاعت کا تمام خرچ برداشت کریں جیسا کہ وہ اس سے پہلے 1923ء میں برلن مسجد کی تعمیر میں مالی قربانی میں پیش پیش رہی تھیں۔ قرآنِ کریم کا جرمن ترجمہ سب سے پہلے Berlitz کمپنی نے حضرت مولانا جلال الدین شمس صاحبؓ کی نگرانی میں تیار کیا۔ اُس زمانہ میں جرمن زبان سے اچھی واقفیت رکھنے والے لوگ جماعت میں موجود نہ تھے۔ Berlitz نے جرمن ترجمہ کا مسوّدہ حضرت مولوی شیر علی صاحب کے انگریزی ترجمہ کو سامنے رکھتے ہوئے تیار کیا۔ 1946ء میں یہ مسوّدہ محترم شیخ ناصر احمد صاحب مرحوم کو دیا گیا جنہیں جنگِ عظیم کے بعد جرمنی کے لیے مبلغ مقرر کیا گیا تھامگر جرمنی جانے کی اجازت نہ ملنے پر سوئٹزرلینڈ سے جرمنی میں تبلیغ کا کام کررہے تھے۔ یہاں پر ہی انہوں نے جرمن ترجمہ پر نظرثانی کا کام شروع کیا۔ شیخ صاحب بیان کرتے ہیں کہ Berlitz کے ترجمہ میں کافی اغلاط موجود تھیں کیونکہ اس وقت اصل عربی متن کی بجائے صرف انگریزی ترجمہ کو ہی مدنظر رکھا گیا تھا۔ شروع میں محترم شیخ ناصراحمد صاحب کو خود بھی جرمن زبان پر پوری طرح عبور حاصل نہ تھا جس وجہ سے جرمن ترجمہ کی اشاعت میں زیادہ وقت لگا۔ ترجمہ کی نظرثانی دو مراحل میں کی گئی، سب سے پہلے شیخ صاحب نے جرمن ترجمہ کا اصل عربی متن سے موازنہ کیا۔ دوسرے مرحلے میں جرمن متن کی تصحیح کی گئی۔ شیخ صاحب نے لکھا ہے کہ اس کام میں ایک جرمن دوست ان کی مدد کرتے رہے مگر ان کے نام کا ذکر نہیں ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ محترم شیخ صاحب کوبھی جرمن زبان پر اچھا عبور حاصل ہو گیا تو انہوں نے اب تک کئے گئے ترجمہ میں مزید بہتری کی گنجائش محسوس کی۔ پھر انہوں نے ایک صحافی کے ساتھ مل کر ترجمہ کا ایک مرتبہ پھر جائزہ لیا۔ 1953ء میں زبان اور مضمون کی صحت کی غرض سے کم از کم چار مرتبہ بنظر غائر دیکھا گیاتا کسی قسم کی غلطی کا امکان نہ رہے۔ اس کے بعد آخری بار مسوّدہ ایک جرمن مستشرق کو دیا گیا، جس نے بعض جگہوں پر مزید اصلاح کی اوران امور کو بھی ترجمہ میں شامل کیا گیا۔ اس لمبے عمل کے بعد 1954ء میں جرمن ترجمہ قرآنِ کریم جماعتی اشاعتی ادارہ ORPCO اور مشہور جرمن اشاعتی ادارہ Harrassowitz Verlag کے اشتراک سے شائع ہوا۔ (الفضل 10 جون 1954ء) جماعت کا جرمن ترجمہ قرآن جنگ عظیم دوم کے بعد مسلمانوں کی طرف سے شائع ہونے والا پہلا ترجمہ تھا اور اسی زمانے سے آج تک جرمن زبان کے مقبول ترین تراجم قرآنِ کریم میں اس کا شمار ہو تا ہے اور ہر سال ہزاروں کی تعداد میں فروخت ہوتا ہے۔ اس طرح حضرت ملک غلام فرید صاحبؓ کی وہ رؤیا بھی پوری ہوتی ہے جس میں انہوں نے دیکھا کہ ایک اچھی جلد والا قرآنِ کریم جرمنی میں پیش کریں گے جسے مقبولیت حاصل ہوگی۔

متعلقہ مضمون

  • جلسہ سالانہ کی اہمیت

  • پرواز بلند ہے جس کے تخیل کی

  • جلسہ گاہ میں ایک تعارفی پروگرام