تاریخِ جرمنی (قسط ہشتم)

مرتبّہ: مدبر احمد خان

مشرقی فرانکیا یعنی دریا ہائے رائن، ڈینیوب اور ایلب کے درمیان کا علاقہ (کم و بیش آج کا جرمنی) اب ایک بادشاہ کے زیرِ فرمان تھا جو ایک مشرقی جرمینک قبیلے Saxons سے تھا۔ اسے خود بادشاہت وراثت میں ملی تھی۔ جبکہ کچھ ہی عرصہ پہلے جرمینک قبائل نے پہلی مرتبہ اپنا بادشاہ منتخب کیا تھا۔ یہ Otto The Great تھا۔ اس نے پوپ کی حمایت حاصل کرلی تھی اور پوپ نے اس کو رومی قیصر بنا دیا تھا لیکن اس وجہ سے اسے بار بار روم میں وقت گزارنا پڑتا تھا لہٰذا اس سے مشرقی جرمنی کی حدود واپس سکڑ گئیں اور اپنی پرانی حالت میں آگئیں۔

عیسوی تقویم کا الف ثانی (Millenium) اپنے ساتھ نئی پیچیدگیاں لایا۔ خاص طور پر تین بڑی طاقتوں کے درمیان آنے والے وقتوں میں ایک مستقل کش مکش جاری رہی۔ یعنی اوّل بادشاہ۔ دوم، اشرافیہ کے اعلیٰ طبقے یا نجیب زادے جو قیصر کے تابع بڑے علاقوں کے حاکم ہوتے تھے اور سوم پوپ اور کلیسا۔ سب کے لیے سلطنت کا استحکام اور اس کی سالمیت بھی اہم تھی تاہم اس کے علاوہ انہیں اپنا مفاد بھی عزیز تھا اور اپنی حفاظت بھی انہیں کرنا تھی۔ یعنی مؤخرالذکر دونوں گروہوں کے لیے بادشاہ کا طاقت وَر ہونا اس اعتبار سے اہم تھا کہ ملک مستحکم رہے۔ لیکن وہ اتنا طاقت وَر نہ ہو کہ اُن دونوں گروہوں کے اختیارات اور طاقت پر بھی قابض ہو رہے۔

مثلاً Heinrich IV سنہ 1056ء میں نَوعمری میں اپنے والد کی موت کے بعد بادشاہ بن گیا۔ اس وقت کا پوپ Gregor VII کلیسا کے عہدےداروں کی تقرری کو بادشاہ سے آزاد کرانا چاہتا تھا اور کلیسا کے زیرِفرمان لانا چاہتا تھا۔ ا س پر بادشاہ Heinrich IV اور پوپ Gregor VII کے درمیان اقتدار اور اختیار کی سیاسی جنگ چھڑ گئی۔ قیصر نے یہ کہا کہ پوپ قیصر کی تعیناتی سے پوپ بنتا ہے۔ بادشاہ کے اس بیان پر پوپ نے اپنی طاقت کا مکمل استعمال کرتے ہوئے بادشاہ Heinrich IV کو کلیسا سے خارج کر دیا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ بادشاہ کے پاس چونکہ اشرافیہ اور نجیب زادوں میں حمایت نہ تھی، لہٰذا وہ سردیوں کے موسم میں اپنے بیوی بچوں سمیت Alpes کے پہاڑوں کو عبور کرتا ہوا اطالیہ پہنچا اور تین دن پوپ تک پیغام پہنچاتا رہا ، جبکہ وہ ننگے پاؤں رہا اور ندامتی لباس پہنے ہوئے تھا۔ آخر پوپ نے Heinrich IV کی رُکنیت دوبارہ بحال کر دی۔ یہ واقعہ 1077ء کا ہے۔

لیکن اس سے مسائل حل نہ ہوئے بلکہ پیچیدہ ہوتے گئے۔ یہاں تک کہ اس مسلسل کش مکش اور سیاسی چپقلش سے خانہ جنگی کی صورتِ حال پیدا ہوگئی۔ اس عرصے میں Heinrich V نے اپنے والد Heinrich IV کو معذول اور قید کرلیا۔ اس کا باپ قید سے فرار ہونے میں تو کامیاب ہوالیکن کچھ ہی دیر بعد مَرگیا۔ پہلے یہی جنگی صورتِ حال برقرار رہی۔ تاہم بالآخر طرفین کو اپنے نقصانات کا اندازہ ہوا اور ان کے مابین پینتالیس سال کی چپقلش اور خانہ جنگی کے بعد ایک معاہدہ ہوا جو Concordat of Worms کہلاتا ہے۔

یہ معاہدہ پوپ Callixtus II اور قیصر Heinrich V کے درمیان طے پایا جس کے بنیادی نکات یہ تھے کہ پوپ کلیسا کے اعلیٰ عہدےداروں کا تقرر نہیں کرے گا۔ بلکہ ان کا انتخاب ہوگا جو کلیسا ہی کرے گا۔ ہاں، ثالث کے طور پر بادشاہ سے رجوع کیا جائے گا۔ تاہم منتخب عہدےدار بادشاہ کے سامنے سلطنت سے وفاداری کا حلف اٹھائیں گے۔ یہ قانون صرف جرمنی کے کلیساؤں کے لیے تھا ،باقی تمام سلطنتوں کی حکومتیں اس قانون سے مبّرا رَہیں۔ مؤرخین کا کہنا ہے کہ اس معاہدے کا سب سے زیادہ فائدہ اعلیٰ اشرافیہ اور کلیسا کو پہنچا۔

اس معاہدے کے تین سال بعد ہی Heinrich V کا انتقال ہوگیا اور اس نے اپنے پیچھے کوئی بیٹا نہیں چھوڑا۔ اس کے بعد Lothar III تخت نشین ہوا اور اس کے بعد نجیب زادوں کی نسل Staufer نے سو سال سے زیادہ جرمنی پر حکومت کی۔

حوالہ جات:

Die kürzeste Geschichte Dutschlands, James Hawes, Ullstein 2019, Berlin

Deutsche Geschichte, Dudenverlag 2020, Berlin

متعلقہ مضمون

  • جلسہ سالانہ کی اہمیت

  • جماعتِ احمدیہ جرمنی کے ایک جفا کش دیرینہ خادم

  • جرمنی میں رہتے ہوئے سوئٹزرلینڈ میں کام کے مواقع