ازل کے دن سے ثاقب ہم وہ فطرت لے کے آئے ہیں

عدو کو رَنج پہنچے اور ہماری آنکھ بھر آئے

خدائی تقدیر

جناب ثاقبؔ زیروی کی 45سالہ پرانی ایک زندۂ جاوید نگارش

پاکستان کے سابق وزیراعظم مسٹر ذوالفقار علی بھٹو کی طرف سے اپنی سزائے موت کو ختم یا عمر قید میں تبدیل کرنے کی کوشش ثمروَر نہ ہوئی۔ 24 مارچ 1979ء کو عدالتِ عظمیٰ نے اُن کی وہ درخواست بھی مسترد کردی تھی جو انہوں نے فاضل عدالت کے 6 فروری 1979ء کےفیصلہ پر نظر ثانی کے لیے دی تھی اور جس کی سماعت درخواست دائر کرنے کے چالیسویں دن (17 مارچ 1979ء کو) مکمل کر لی گئی تھی۔ اب صرف صدر مملکت سے رحم کی اپیل ہی کا مرحلہ باقی رہ گیا تھا۔ جناب بھٹو اُن کی بیگمات اور اُن کی اولاد میں سے کسی نے شاید اس لیے ایسی اپیل نہ کی کہ وہ اقرارِ جرم اور ارتکابِ جرم پر واشگاف اظہارِ ندامت کے بعد ہی مؤثر ہوتی ہے اور وہ اب اُنہیں مقدّمہ میں بےقصور سمجھتے تھے۔ اُن کی عمر رسیدہ سوتیلی بہن اُن کے رفیقِ سیاست مسٹر عبدالحفیظ پیرزادہ اور راولپنڈی، لاہور اور کراچی کے بعض وکلاء نے جو اپیلیں کی، چونکہ وہ بھی اس نوع کے اقرار و اظہار سے معرّا تھیں، اس لیے وہ بھی بےاثر ثابت ہوئیں۔ ان کے علاوہ دنیا کے ساٹھ کے لگ بھگ چھوٹے بڑے ملکوں کے بادشاہوں، سربراہوں، صدر صاحبان اور وزرائے عظام نے بھی انسانی ہمدردی کی بنیاد پر اُن کی جان بخشی کی سفارش کی۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل مسٹر کُرٹ والد ہائیم نے تو دو دفعہ زنجیر ہلائی اور درخواست کی کہ اُن سے درگزر کا معاملہ کیا جائے۔ لیکن خدائی تقدیر نہ ٹل سکی اور چیف آف سٹاف چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر جنرل صدر محمد ضیاءالحق نے مُلک میں قانون کی بالادستی قائم کرنےکے لیے ہر یادداشت،درخواست، اپیل اور سفارش کو مسترد کر دیا۔ جس کے بعد مسٹر بھٹو کو اپنی عمر کے 52ویں سال میں قدم دھرنے کے ٹھیک 90ویں دن (4 اپریل 1979ءکو) صبح کاذب کے وقت (دو بجے) ڈسٹرکٹ جیل راولپنڈی میں تختہ دار پر لٹکا دیا گیا۔
اور اُن کی نعش بذریعہ ہیلی کاپٹر نَوڈیرو لے جا کر (نماز جنازہ کے بعد) گڑھی خدا بخش میں (اُن کی خواہش کے مطابق) اُن کے آبائی قبرستان میں دفن کر دی گئی۔ ریڈیو رپورٹ کے مطابق تدفین کے وقت اُن کے دو چچا، ایک چچا زاد،کچھ رشتہ دار اور نَوڈیرو و لاڑکانہ کے بعض شہری موجود تھے۔
بیگم نصرت بھٹو اور مس بےنظیر (سہالہ میں نظربندی کے باعث) تدفین کے وقت موجود نہ تھیں۔ تدفین کے تیسرے دن انہیں تین گھنٹوں کے لیے قبر پر لے جایا گیا اور یوں پاکستان کی تاریخ میں ایک ایسے فرمانروا کے عبرت انگیز انجام کے باب کا اضافہ ہوگیا۔
جو دسمبر 1971ء سے اوائل جولائی 1977ء تک ملک کے سیاہ و سفید کا مالک رہا۔
جسے حکمرانی کے لیے بےپناہ سیاسی و پارلیمانی طاقت میسر تھی۔
جس کی زبان سے نکلا ہوا ہر لفظ قانون کا درجہ رکھتا تھا۔
جس کی آنکھ کے ایک ادنیٰ اشارے پر افراد ہی کی نہیں بڑی سے بڑی سیاسی اور مذہبی جماعتوں کی وجاہتیں لُوٹ لی جاتی تھیں اور جس کا اَوڑھنا اور بچھونا، چلنا اور پھرنا، اُٹھنا اور بیٹھنا، مذہب، عقیدہ، اخلاقی اقدار و اطوار حتّی کہ اس کی سوچ تک کا ہر پہلو سیاست اور صرف سیاست تھا۔ اور خدائی تقدیر! کہ وہ برگشتہ نصیب اپنی اس ہمہ جہتی سیاست ہی کی بھینٹ چڑھ گیا۔
فوجداری قوانین و تعزیرات پر عمیق و غائر نظر رکھنے والوں کے نزدیک نواب محمد احمدخاں کے قتل کا فوجداری مقدمہ ہرگز کوئی ایسا ٹھوس اور نپا تلُا مقدمہ نہ تھاکہ اگر قوانین و ضوابط کے دائرہ میں رہ کر اُس کا پوری سنجیدگی سے دفاع کیا جاتا تو ‘‘سزائے موت’’ سے بچ نکلنے کی کوئی گنجائش پیدا نہ ہوسکتی جبکہ اُس کےکئی واضح جھول اور ڈھیلی چُولیں تو ہم ایسے عامیوں کو بھی صاف دکھائی دیتی تھیں۔ لیکن اس برگشتہ نصیبی کا کیا علاج کہ جناب بھٹوؔ نے قتل ایسے سنگین الزام کے تحت بنائے گئے اس مقدمہ کا دفاع بھی سیاست ہی سے کرنا مناسب سمجھا اور اُن کے وکلاء کی بھی اوّل سے آخر تک ساری توجہ عدالت کو اپنے مؤکل کی بےگناہی کا یقین دلا کر اُس کی بریت کے لیے ذہن ہموار کرنے کی بجائے اخبارات کو شہ سُرخیاں اور سنسناہٹ خیز عنوانات مہیا کرنے ہی پر مُرتکز رہی۔ اور وہ آخر وقت تک عدالت کو قائل کرنےکی بجائے اُسے مرعوب کرنے کی کوششوں ہی میں لگے رہے۔
ملک کے وہ خداپرست و خدا دوست طبقے۔ (یہ یقین جن کے ایمان کا ایک اہم جزو ہے کہ ایسی ہر عبرتناک خدائی گرفت کے پسِ پردہ ہمیشہ کوئی سنگین ترین روحانی گناہ کارفرما ہوتا ہے) اُن کے نزدیک یہ واقعہ تاریخ اعمال و جزا میں جرم کفرانِ نعمت کی تعزیر کے ایک ایسے باب کاحکم رکھتا ہے جو سیہ روؤں کو رہتی دنیا تک درسِ عبرت و موعظت دیتے رہنے کے علاوہ ان جلال انگیز حقیقتوں کی یاددہانی بھی کراتا رہے گا کہ
اِس دنیا کا واقعی ایک خدا ہے جو رحیم و کریم بھی ہے اور جبّار و قہّار بھی۔ اور اُس سے بڑا اور بہترین منتقم اور کوئی نہیں۔
تمام مخلوقات کو اُس کے بچوں کی حیثیت حاصل ہے۔ جب اُس کے ان بچوں پر ناحق ظلم ڈھایا جاتا ہے تو وہ بےقرار ہوجاتا ہے۔
صبر و رضا میں سیاسی اقتدار سے کہیں زیادہ طاقت ہے۔
ٹوٹے ہوئے دِل اُسے ہر شَے سے عزیز ہیں۔
جب کوئی مظلوم و ستم رسیدہ بندہ اپنا انتقام اُس پر چھوڑ دیتا ہے تو وہ اُس سے کبھی بےوفائی نہیں کرتا اور اُسے کبھی بےسہارا نہیں چھوڑتا۔
اُس حیّ و قیّوم اور جبّار و قہّار خدا کے سامنے بڑے بڑے جابروں، قاہروں، فرعونوں اور ہامانوں کی حیثیت ایک ذرّہ بےمقدار کی بھی نہیں۔
ہر عزت اُسی کی طرف سے آتی ہے اور وہ اپنی نعمت کی ناشکری کرنے والوں سے جب چاہے اپنی عطاکردہ سطوتیں چھین لیتا ہے اور اُس کے احکامات اور اُس کے محبوب ترین رسول محمدﷺ کے ارشادات کی بےحرمتی کرنے والے ہمیشہ گھاٹے میں رہتے ہیں۔
یہ کُفرانِ نعمت ہی تو ہے کہ جس خدا نے ایک ایسے شخص کو (جسے ایک وقت قومی اسمبلی کی پانچ نشستوں کی توقع بھی نہ تھی) ملک کے سب سے بڑے جمہوری ایوان میں دو تہائی اکثریت عطا کرکے ملک کے سات کروڑ انسانوں کی گردنیں اُس کے سامنے جھکا دیں مگر وہ موردِ انعام خصوصی برسرِ اقتدار آنے کے بعد دو ہی سالوں میں آپے سے ایسا باہر ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی اس عطا کو اپنا حق اور اس ملک خدادا کو اپنی جاگیر سمجھ کر اُس جلیل و قدیر خدا کے بیّن احکامات اور اُس کے محبوب ترین رسول محمدﷺ کے مطہّر ارشادات کی صداقت و اصابت سے کھیلنے لگا۔ اور اُس نے دیدہ و دانستہ تمام احکاماتِ خداوندی و ارشادات نبویؐ کو پسِ پشت ڈال کر اقتدار کے نشہ میں اُس کے لکھوکہا طاعت گزار بندوں کو بزورِ سیاست دائرہ اسلام سے دھکے دے کر نکال باہر کرنے کی جسارت کی اور اپنے اس خوفناک منصوبے کی تکمیل کے لیے (بلا لحاظ مذہب و عقیدہ ملک کے تمام باشندوں کے جان و مال کا محافظ ہوتے ہوئے) ان بےضرر خدا دوست محبّانِ وطن کو
کرایے کے غنڈوں، لُٹیروں،شورہ پشتوں اور قاتلوں سے قریہ بہ قریہ اور شہر بہ شہر لُٹوایا، جلوایا، نچوایا اور محافظین قانون کی موجودگی میں گلیوں اور کوچوں میں بھیڑوں اور بکریوں کی طرح ذبح کرایا۔
اس کے جوانوں پر رزق کے اور اُن کے بچوں پر تعلیم کے دروازے بند کئے۔
اُن کے سالہا سال کے بنے بنائے روزگار اور کاروبار تباہ و برباد کرائے، اور
اس خُونیں ڈرامے کے آخر میں جبراً اُن پر ناٹ مسلم کی تہمت لگا کر اُن پر حج بیت اللہ ایسی نعمت غیر مترقّبہ کی راہیں تک مسدود کر دیں۔
محض اس ہوسِ جاہ میں کہ (بزعم خویش) اس اسلامی خدمت کے بعد وہ پاکستان کے سات کروڑ افراد کی گردنوں پر دسیوں سال اسی تمکنت و جلال سے مسلّط رہ سکے گا کہ اُس کا کوئی سیاسی رقیب و حریف اُس کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے تک کی جرأت نہیں کر سکے گا۔ کاش وہ اس راز سے آگاہ ہوتا کہ حق وہی ہے جو قرآن کریم میں ان الفاظ میں بیان ہوا ہے کہ
انسان بھی تدبیر کرتا ہے اور خدا بھی تدبیر کرتا ہے اور خدا سب سے بہتر تدبیر کرنے والا ہے۔
ایک طرف یہ مستِ مئے پندارِ سیاست خاک و خون کا یہ ڈرامہ کھیلنے میں مصروف تھا اور دوسری طرف اُس جبّار و قہّار کی تقدیریں حرکت میں تھیں۔ اس نے ملک کے ان لکھوکہا خدا دوستوں پر مہینوں عرصہ حیات تنگ رکھنے کے بعد قرآن و حدیث کو بالائے طاق رکھ کر ان بےنواؤں کے عقیدہ کے ماتھے پر ناٹ مسلم کا لیبل 7 ستمبر 1974ء کو چسپاں کیا تھا۔ فطرت نے اُس کے اپنے ہی ہاتھوں سے اُسی سال کے دوران میں (صرف سوا دو ماہ بعد) نواب محمد احمد خاں کے قتل کی صورت میں اُس کی اپنی موت کی بنیاد رکھوا دی۔ جس کے بعد اُس رحیم و کریم خدا نے جس کی نگاہ اعمال سے زیادہ نیّتوں پر رہتی ہے اور اعمال کی بجائے نیّتوں ہی کے مطابق مواخذہ کرنا جس کی سنّت ہے۔ اور اگر کوئی خاطی و عاصی سچّے دل سے نادم ہو کر مغفرت طلبی کی غرض سے اُس کے آستانے پر گر جائے تو وہ جو گرفت میں دھیما ہے اور جس کا عفو بےپایاں ہے، اُسے اپنے فضل سے معاف بھی کر دیتا ہے۔
اس گھناؤنے روحانی گناہ کے ارتکاب کے بعد پورے پونے تین سال کا وقفہ استغفار اور مغفرت طلبی کے لیے بھی عطا فرمایا۔ مگر صد حیف کہ اُس بدنصیب نے اس ڈھیل سے بھی کوئی فائدہ نہ اُٹھایا اور اس کے اندھے اور منہ زور نشۂ اقتدار نے اُسے پلٹ کر دیکھنے کی فرصت ہی نہ دی۔
اللہ تعالیٰ رحم فرمائے یہ سیاست بھی کیسا خوفناک نشہ ہے۔ جب کسی انسان کے ذہن پر سوار ہوجائے تو اُس کی نگاہوں سے نیکی و بدی روا و ناروا اور جواز کے تمام گوشے یکسر اوجھل ہوجاتے ہیں۔ اور اس کے پندار میں مبتلا شخص اپنے آپ کو تمام انسانوں سے بلند، منفرد، ممتاز حتّٰی کہ سُنّت اللہ کے معاملہ میں بھی خود کو ترجیحی سلوک کا حق دار سمجھنے لگتا ہے۔ مگر فطرت کے خاموش انتقام کے انداز دیکھئے کہ جس شخص نے اپنی سیاسی فرمانروائی کی عمر بڑھانے کے لیے لکھو کہا عاشقانِ محمدﷺ پر ناحق اور بلا جواز ‘‘ناٹ مسلم’’ کی تہمت لگائی جب وہ ملک کی عدالتِ عظمیٰ میں اپنے کیس کی بزبانِ خود وکالت کے لیے پیش ہوا تو پورے تین دن (بلا ضرورت) بار بار یہی شکایت کرتا رہا کہ
ٹرائیل کورٹ (لاہور ہائی کورٹ) نے اپنے فیصلہ میں اُسے نام کا مسلمان کیوں قرار دیا ہے؟ اور کہ یہی تعصّب اُس کے سارے فیصلہ میں کارفرما ہے۔ جیسے پختہ قسم کے مسلمان سے ایسے جرم کا اِرتکاب ممکن نہ ہو یا وہ بشریت کے تمام تقاضوں سے مبرا ہوتا ہے۔ مگر ذی شعور صاحبِ نظر غصّہ بھانپ گئے تھے کہ اس میں بھی فطرت کا کوئی خاص بھید ہے اور اس شکایت کے رنگ میں فطرت اُس شخص سے (جو سیاسی اقتدار کے نشہ میں اپنے آپ کو اسلام کا اجارہ دار اور اپنے فیصلوں کو اللہ اور اُس کے رسول کے احکامات و ارشادات سے فائق و برتر سمجھنے لگا تھا اور جس نےاس زعم میں لاکھوں انسانوں کے دلوں کو توڑا اور سینے زخمی کئے) ملک کی سب سے بڑی عدالت کے رُوبرو یہ اقرار کروا رہی ہے کہ اُس نے جو کچھ کیا (اُسے) غلط جانتے ہوئے دیدہ و دانستہ کیا اور یوں احکامات خداوندی و ارشادات نبویؐ کی علی الاعلان توہین کی۔ کیونکہ اس مالک الملک نے یہ اختیار کسی شخص، کسی قانون، کسی اسمبلی اور کسی عدالت کو نہیں دیا کہ وہ کسی شخص کے ایمان و عقیدہ کے بارے میں فیصلہ کرے۔ چنانچہ قدرت نے اُس کے منہ سے ملک کی عدالتِ عظمیٰ میں ایک بار نہیں، بار بار اُگلوایا کہ دُنیا کا کوئی شخص، کوئی قانون اور کوئی عدالت کسی کلمہ گو کو غیرمسلم قرار نہیں دے سکتی۔
ہم نہ کبھی جناب بھٹو کے سیاسی رقیب تھے نہ حریف۔ اور ‘‘لاہور’’ کے ادارتی کالم گواہ ہیں۔ ہم نے انسانیت دوستی کے جذبہ کے تحت متعدّد دفعہ مختلف رنگوں میں مغفرت و نجات کا یہ نکتہ اُن کے ذہن نشین کرانے کی کوشش بھی کی۔ تاکہ اُنہیں سیاست کے خوفناک چنگل سے نکل کر خدائے واحد و یگانہ کی رحمت سے لَو لگانے کی توفیق مل جائے اور وہ سچے دل سے توبہ کرکے مغفرت طلبی کے لیے ربّ جلیل و قدیر کے آستانے پر گر جائیں۔ کیونکہ اس سلسلہ میں ہماری نظروں سے اللہ تعالیٰ کے ایک برگزیدہ و راستباز بندے (بانیٔ سلسلہ احمدیہ) کی اپنے رب سے خبر پاکر دی ہوئی دو پیش خبریاں گزر چکی تھیں۔ جن میں اس عبرت انگیز انجام کےبعض واضح اِشارے موجود ہیں۔ اور ہمارے ایقان و ایمان کے مطابق یہ خدائی تقدیر صرف اور صرف سچی توبہ، دلی ندامت اور کثرتِ استغفار ہی سے ٹل سکتی تھی۔ ان میں سے پہلی خدائی اطلاع کا ایک حصہ یوں ہے۔
“ایک شخص کی مَوت کی نسبت خدائےتعالیٰ نے اعداد تہجی میں مجھے خبر دی۔ جس کا ماحصل یہ ہے…… کہ اس کی عمر باون سال سے تجاوز نہیں کرے گی جب باون سال کے اندر قدم دھرے گا تب اُسی سال کے اندر اندر راہی ملکِ بقا ہوگا’’۔ (1891ء ازالہ اوہام صفحہ 186-187)
اور دوسری کے الفاظ یہ ہیں:
“مَیں نے خواب میں دیکھا کہ کوئی مجھے کہتا ہے ‘‘سزائےمَوت’’ یعنی چالیس دن کے بعد مَوت کا حکم ہے۔ مَیں نے مولوی محمد علی صاحب سے پوچھا ہے۔ کیا اس حکم کا اپیل بھی ہوسکتا ہے۔ اُنہوں نے کہا اپیل ہوسکتا ہے بلکہ اپیل دَر اپیل بھی’’۔ (17 مارچ 1905ء بحوالہ تذکرہ)
نہ جانے وطنِ عزیز میں کتنے انسان ہوں گے جنہوں نے اسی سال 52ویں سال میں قدم رکھا ہوگا۔ لیکن۔
52ویں سال میں قدم رکھنے کی خوشی میں کہاں سب کے لیے جگہ جگہ سینکڑوں کیک کاٹے گئے اور ان پر ایستادہ موم بتیاں بجھائی گئی ہوں گی اور کب کسی کے 52ویں سال میں قدم رکھنے کی اس قدر اشاعت ملکی و غیر ملکی اخبارات میں ہوئی ہوگی۔ جس قدر اشاعت پاکستان کے سابق وزیراعظم مسٹر ذوالفقار علی بھٹو کے 52ویں سال میں قدم رکھنے کی ہوئی۔ اور اگر اس مقدمہ قتل میں ٹرائل کورٹ، ہائی کورٹ کی بجائے سیشن کورٹ ہوتی تو اپیل دَر اپیل۔ ایسا غیرمعمولی مرحلہ بھی کہاں پیدا ہوتا؟
بے شک۔ خدا سے مغفرت طلبی اور سچی توبہ کی توفیق بھی اُس کے فضل سے ہی ملتی ہے اور جب اس کی تقدیریں حرکت میں آجائیں تو کوئی دُنیوی کوشش اُن کا راستہ نہیں روک سکتی۔ نہ قانون و ضوابط کے تحت کی گئی چارہ جوئیاں اور نہ دُنیا بھر کے بادشاہوں، سربراہوں، عالمی اداروں اور وزرائےعظام کی طرف سے کی گئی عفو و درگزر کی اپیلیں اور وضاحتیں۔
وہ جو علیم و خبیر ہے۔ اور جس کی روحوں کے پاتال تک نظر ہے،وہ خوب جانتا ہے کہ اباحت و کفرانِ نعمت کے اس حیرت انگیز انجام کی خبر سُن کر ہماے قلب و رُوح مغموم ہیں کیونکہ ؎
ازل کے دن سے ثاقبؔ ہم وہ فطرت لے کے آئے ہیں
عدو کو رَنج پہنچے اور ہماری آنکھ بھر آئے
اور ہمارے نزدیک مسٹر ذوالفقار علی بھٹو کا یہ انجام اُن کے متذکرہ بالا خوفناک روحانی جرم میں شریک تمام سیاسی مُلّاؤں، سیاست کاروں، پارلیمانی ساتھیوں، کرائے کے قاتلوں، لٹیروں اور زَر خرید مفتیئوں کے لیے لمحہ فکریہ کا حکم رکھتا ہے۔ اس میں اُن سب کے لیے عبرت و موعظت کا بڑا سامان ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنا رحم فرمائے اور اپنے فضل سے ان سب کو سجدۂ سہو کی توفیق عطا فرمائے۔ وہ اپنے نفسوں کا محاسبہ کریں۔ اس انجام سے عبرت حاصل کریں۔ مجروح دِلوں پر محبّت و مروّت کے پھاہے رکھیں۔ اور سچے دل سے توبہ کرتے ہوئے اپنے دِلوں اور رُوحوں کو الٰہ العالمین کے آستانے پر گرا دیں۔ کیونکہ یہ عبرت انگیز انجام گواہی ہے اس حقیقت کی کہ اُس جبّار و قہّار خدا کی تقدیریں حرکت میں آ چکی ہیں۔
خوش نصیب ہے وہ شخص جو پانی کے ہونٹوں تک چڑھ آنے سے قبل ہی سچّی توبہ کر لے۔
(ہفتہ وار “لاہور” 15 اپریل 1979ء)

(اخبار احمدیہ جرمنی اپریل صفحہ صفحہ 36) PDF

متعلقہ مضمون

  • جلسہ سالانہ کی اہمیت

  • جماعتِ احمدیہ جرمنی کے ایک جفا کش دیرینہ خادم

  • جرمنی میں رہتے ہوئے سوئٹزرلینڈ میں کام کے مواقع