سیّدنا حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کا ایک الہام

کَلْبٌ یَمُوْتُ عَلٰی کَلْبٍ

اور اس کے پورا ہونے کا عبرت ناک منظر

For privacy reasons YouTube needs your permission to be loaded.
I Accept

خداتعالیٰ اپنے مرسلین سے کئے گئے وعدہ کَتَبَ اللہُ لَاَغۡلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِی یعنی اللہ نے لکھ رکھا ہے کہ ضرور مَیں اور میرے رسول غالب آئیں گے کو ہمیشہ پورا کرتا آیا ہے۔ وقت کے فرعونوں کو زبردست دنیاوی طاقتوں کے حامل ہونے کے باوجود اپنے مرسلین کے مقابل آنے پر، ذلت آمیز ہلاکت سے دوچار کرتا ہے اور انہیں آنے والی نسلوں کے لئے نمونہ حسرت و عبرت بنا دیتا ہے۔ ہمارے پیارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفیؐ کی نصرت کے لئے تو گویا خداتعالیٰ خود زمین پر اُتر آیا۔ دشمنانِ محمد مصطفیٰﷺ کو اللہ تعالیٰ نے ذلیل و خوار کرتے ہوئے صفحہ ٔہستی سے مٹا دیا۔ اسی طرح آپؐ کے روحانی فرزند جلیل اور عاشق صادق حضرت مرزا غلام احمد قادیانیؑ مسیح موعود و مہدی معہود کے مخالفین کو بھی گزشتہ انبیاء کے مکذبین کی طرح فَتِلۡکَ بُیُوۡتُہُمۡ خَاوِیَۃًۢ بِمَا ظَلَمُوۡا یعنی پس یہ ان کے گھر ہیں جو اُس ظلم کے سبب ویران پڑے ہیں جو انہوں نے کیا، کا عبرت انگیز نمونہ بنا دیا۔
قارئین کرام! خداتعالیٰ کے مرسلین اس کی ہستی کا بڑا ثبوت ہوتے ہیں، جو اللہ تعالیٰ سے امورِ غیبیہ پر اطلاع پاکر مستقبل سے تعلق رکھنے والی ایسی پیشگوئیاں کرتے ہیں جواپنے وقت پر پوری ہو کر بہتوں کی ہدایت اور مومنین کے ثبات قدم کا باعث بنتی ہیں۔ انہی میں سے ایک عظیم الشان وہ پیشگوئی ہےجسے حضرت مسیح موعود نے ان الفاظ میں شائع فرمایا:
“ایک شخص کی مَوت کی نسبت خدائےتعالیٰ نے اعداد تہجی میں مجھے خبر دی جس کا ماحصل یہ ہے کہ کَلْبٌ یَمُوْتُ عَلٰی کَلْبٍ یعنی وہ کتّا ہے اور کتّے کے عدد پر مرے گا جو 52سال پر دلالت کر رہے ہیں۔ یعنی اس کی عمر 52سال سے تجاوز نہیں کرے گی۔ جب 52سال کے اندر قدم دھرے گا تب اسی سال کے اندر اندر راہی ملک بقا ہوگا’’۔ (ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 190)
یہ پیشگوئی حرف بحرف مؤرخہ 4؍اپریل 1979ء کو تب پوری ہوئی جب پاکستان کےسابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو انہی مولویوں نے پھانسی گھاٹ تک پہنچا دیا جن کی خوشنودی کے لئے اس نے جماعت احمدیہ مسلمہ کو پاکستان کی منتخب پارلیمان کے ذریعہ 7 ستمبر 1974ء کو غیرمسلم قرار دلوا دیا۔ اِس پیشگوئی کے الفاظ کو واقعات کی روشنی میں دیکھا جائے تو انسان ورطۂ حیرت میں ڈوب جاتا۔
بھٹو کی پیدائش 5 جنوری 1928ء کی ہے اور جس دن اسے پھانسی دی گئی، اس کی عمر 51سال 2 ماہ اور تیس دن تھی۔ یعنی حضور کے الفاظ کے عین مطابق جب اس نے اپنی زندگی کے 51 سال پورے کرلئے اور 52ویں سال میں قدم رکھا تو راہی ملک بقا ہوگیا۔ اب ایک اور زاویہ سے دیکھیں اور Gestational Age یعنی رحمِ مادر میں پرورش کے 9 ماہ بھی ملا لئے جائیں تو پھانسی کے وقت موصوف کی عمر 51 سال 11 ماہ اور 30 دن بنتی ہے۔ اور پیشگوئی کے الفاظ کہ اس کی عمر 52 سال سے تجاوز نہیں کرے گی ہر دو طرح سے پوری ہوئی۔
جماعت احمدیہ کی بنیاد سیّدنا حضرت مسیح موعود نے 23 مارچ 1889ء کو رکھی، اور 7 ستمبر 1974ء تک جماعت احمدیہ کو قائم ہوئے محض 85 سال 5 مہینے اور 15دن ہوئےتھے۔ سال 1974ء میں جماعت احمدیہ کو غیر مسلم اقلیت قرار دلوا کر بھٹو نے جگہ جگہ اعلانات کئے کہ مَیں نے نَوّے سالہ مسئلہ حل کرکے اسلام کی عظیم خدمت کی ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ نَوّے سال 23 مارچ 1979ء کو پورے ہوئے جس کے ٹھیک 12 دن بعد ذوالفقار علی بھٹو صاحب تختہ دار پر لٹکا دئے گئے۔ وہ مولوی جو کل تک ان کی اس خدمت کو محمد بن قاسم، موسیٰ بن نصیر، طارق بن زیاداور صلاح الدین ایوبی کی خدمات سے تشبیہ دے رہے تھے اور ان کے لئے اخبارات میں عمر نوح اور خضر کی دعائیں شائع کروا رہے تھے، انہی مولویوں نے انہیں بدکار اور قاتل قرار دلوا کر مولوی مشتاق کی عدالت سے پھانسی کی سزا دلوا دی۔ یوں 7 ستمبر 1974ء کو جماعت کے نَوّے سال پورے ہونے پر نَوّے سالہ مسئلہ کے حل کا کریڈٹ لینے والے کا اللہ تعالیٰ نے مسئلہ حل کردیا۔
حضرت خلیفۃالمسیح الرابع ؒنے اس پیشگوئی کے غیرمعمولی ہونے سے متعلق فرمایا:
“اس پیشگوئی میں 52 کا کوئی ذکر موجود نہیں، مگر حضرت مسیح موعود کا ذہن کلب کے اعداد پر گیا اور آپؑ نے فرمایا کہ کَلْبٌ یَمُوْتُ عَلٰی کَلْبٍ میں پہلا کلب احمدیت کے ایک دشمن سے متعلق ہےاور دوسرے کلب میں اس کی عمر بتائی گئی ہے کہ کس عمر میں مرے گا۔ حضرت مسیح موعودؑ نے جس زمانے میں یہ پیشگوئی فرمائی اس وقت تو ایسے دشمن کا وجود نہیں تھا، مگر آپ نے نہایت صراحت سے فرمایا کہ یہ بات یقینی ہے کہ جس فرد سے متعلق پیشگوئی ہے وہ احمدیت کا ایک غیرمعمولی دشمن ہوگا، جو احمدیت کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرے گا۔ وہ 52 سال میں داخل ہونے سے پہلے نہیں مرے گا اور جب 52سال میں قدم رکھے گا تو سال گزرنے سے پہلے پہلے ضرور مَر جائے گا۔
جب ضیاء نے بھٹو کی حکومت کا تختہ اُلٹا ہے تب بھٹو کی عمر 49 سال چھ ماہ تھی۔ اور عجیب بات یہ ہے کہ اس وقت باوجودیکہ خلیفۃالمسیح کی جانب سے ایسا کوئی اعلان نہیں کیا گیا مگر اللہ تعالیٰ نے ہر احمدی کے دل میں یہ خیال ڈال دیا کہ یہ پیشگوئی بھٹو سے متعلق ہے۔ چنانچہ ابھی 52سال پورے ہونے میں ڈھائی سال باقی تھے اور پتہ نہیں تھا کہ ہونا کیا ہے، مگر احمدیوں نے باتیں کرنا شروع کردیں۔ چنانچہ مودودی اخباروں میں یہ اپیلیں شائع ہونا شروع ہوگئیں کہ تم نے اگر اس کو مارنا ہےتو پہلے ختم کرو۔ بعض نے کہا ہے کہ نہ مارو ورنہ احمدی کہیں گے کہ مرزا صاحب سچے نکلے، اس لئے اسے چھوڑ دو۔ اور بعضوں نے کہا کہ اس سال یعنی 1979ء کو نہیں مارنا، یہ سال نہ آنے دو’’۔
حضورؒ نے مزید فرمایا: ’’مگر وہی ضیاء جو اپنے آپ کو آج سب سے بڑا دشمن احمدیت بنا رہا ہے، اسی کے ہاتھوں خداتعالیٰ نے احمدیت کی تصدیق ظاہر کی ہے۔ وہ مہر لگا چکا ہے اپنے ہاتھ سے کہ احمدیت سچی ہے۔ اسی ضیاء کے ہاتھوں بھٹو کا فیصلہ ہوتا ہے اور فیصلہ میں تاخیر ہوتی چلی گئی یہاں تک کہ 52 سال نہیں آیا اور جب 52 آیا تو پاکستان کی تاریخ میں صرف ایک سیاستدان ہے جس کی قومی سطح پر سالگرہ منائی گئی ہے اور 52 ویں منائی گئی ہے۔ اور بی بی سی نے اعلان کیا کہ آج بھٹو صاحب کی سالگرہ ہے اور 52ویں سال میں قدم رکھ رہے ہیں۔ اوریہ بات پاکستان کے اخباروں میں چھپی ہے۔ قائداعظم کی پیدائش کا سال نہیں منایا گیا، لیاقت علی خان کا نہیں منایا گیا، ایک ہی سیاستدان ہے پاکستان کی تاریخ میں جس کی سالگرہ کا اعلان ہوتا ہے اور تشہیر کی جاتی ہے۔ بھٹو صاحب 1970ء سے آئے ہوئے ہیں، کبھی پیپلز پارٹی کو خیال نہیں آیا کہ سالگرہ منائیں، اتنا مشہور لیڈر ہے۔ جب 52 میں داخل ہوتا ہے تو سالگرہ منائی جاتی ہے۔ تو کیا ان واقعات میں نشانات نہیں ہیں؟ کیا خداتعالیٰ کی غیرمعمولی تقدیر نظر نہیں آرہی؟‘‘۔

(مجلس عرفان منعقدہ یکم فروری 1987ء )

محسن کشی
جماعت احمدیہ کا بھٹو پر یہ بڑا احسان تھا کہ انہیں پہلی مرتبہ وزیرِاعظم بنوانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ اس وقت بھٹو صاحب واحد سیکولر لیڈر تھے، باقی زیادہ تر متشدد مذہبی سیاسی پارٹیاں تھیں۔ تاہم محسن کشی کی نئی مثال رقم کرتے ہوئے برسر اقتدار آ کربھٹو صاحب نے اپنے اقتدار کی مضبوطی اور مذہبی جماعتوں کی حمایت حاصل کرنے کے لئے جماعت احمدیہ کو غیر مسلم قرار دلوا دیا۔ اللہ تعالیٰ کے بھی کام نرالے ہیں۔ اس محسن کش کی سزا دہی کے لئے مہا احسان فراموش ضیاءالحق کو بھٹو پر مسلط کر دیا۔ ضیاءالحق کو بھٹو ہی نے سینئر جرنیلوں کو نظر انداز کرتے ہوئے آرمی چیف لگایا۔ سلمان تاثیرصاحب اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ بھٹو صاحب اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے دوسروں پر مہربانیاں کرتے رہتے تھے۔ جنرل ضیاء کی ایک معذور بیٹی کے علاج اور ضیاء کی ساری فیملی کے بیرون ملک سفر و رہائش کے اخراجات ریاست کے خزانہ سے ادا کرتے رہے۔ ستم ظریفی دیکھئے کہ جب ضیاء نے بھٹو کا تختہ الٹا تو ضیاء کی فیملی ابھی بیرون ملک ہی تھی۔
قبول نہ ہونے والی خدمات
اللہ تعالیٰ سے مقبول خدمتِ دین کی دعا مانگنی چاہئے کہ وہ خدمات جن کے پیچھے سیاسی و ذاتی مقاصد ہوں اللہ تعالیٰ کے ہاں مردود اور بعض اوقات قابل گرفت ٹھہرتی ہیں۔ سلمان تاثیرصاحب لکھتے ہیں کہ بھٹو کو سب سے زیادہ مخالفت کا اندیشہ قدامت پسند جماعتوں بشمول جماعت اسلامی، جمعیت علمائے اسلام، مرکزی جمعیت اہلحدیث سے تھا، جو آپس میں شدید خار رکھنے کے باوجود بھٹو کے خلاف سیاسی طور پر متحد تھیں۔ بھٹو کی ان کے خلاف حکمت عملی سادہ لیکن موثر تھی۔ بھٹو ان کی ضروریات کو قبل اس کے کہ وہ مطالبہ کریں پورا کر دیتے تھے۔ اقتدار میں آنے کے چند مہینوں کے اندر انہوں نے ریکارڈ تعداد میں لوگوں کو حج پر جانے کی اجازت دلوائی۔ اس کے بعد 1973ء کے آئین میں خاص طور پر اسلام کو ریاست کا مذہب قرار دلوایا اور یہ کہ ریاست کا سربراہ مسلمان ہوگا۔ انہی ملاؤں کے سامنے گھٹنے ٹیکتے ہوئے 1974ء میں انہوں نے احمدیہ جماعت کو قومی اسمبلی کے ذریعہ غیرمسلم اقلیت قرار دلوایا۔ جمعہ کو قومی تعطیل میں تبدیل کیا، اسلامی تعلیمات کے فروغ کے لیے مختلف سرکاری تنظیموں کی بنیاد رکھی، عربی زبان کی حوصلہ افزائی کی اور قرآنِ پاک کو اسکول کے نصاب میں متعارف کرایا۔ 22 فروری 1974ء کو انہوں نے لاہور میں اسلامی سربراہی کانفرنس کا انعقاد کیا۔ بھٹو کی انہی خدمات اور علماء کے مطالبات سے قبل ہی انہیں پورا کردینے پر ان کے مخالفین میں سے ایک نے طنزیہ انداز میں کہا: ’’مسٹر بھٹو ان سب میں سب سے بڑے مولانا ہیں۔ درحقیقت انہیں ’مولانا لاڑکانوی‘ کہا جانا چاہیے‘‘4۔ اب بظاہر تو یہ خدماتِ دینیہ ہی تھیں، مگر نیّت درست نہ ہونے کے باعث اللہ تعالیٰ کے ہاں مقبول ہونے کی بجائے قابل سزا ٹھہریں۔
حضرت خلیفۃالمسیح الثانی نے 1956ء کے جلسہ سالانہ کے موقع پر تقریر کرتے ہوئے آنے والے خلیفہ سے متعلق فرمایا تھا: ’’میں ایسے شخص کو جسے خداتعالیٰ خلیفہ ثالث بنائے ابھی سے بشارت دیتا ہوں کہ اگر وہ خداتعالیٰ پر ایمان لاکر کھڑا ہوجائے گا تو۔ اگر دنیا کی حکومتیں بھی اس سے ٹکر لیں گی تو وہ ریزہ ریزہ ہوجائیں گی‘‘۔(خلافت حقّہ اسلامیہ، انوار العلوم جلد 26صفحہ 31)
چنانچہ حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کے دَورِ خلافت میں جب معاندین احمدیت کے مطالبات پورے کرتے ہوئے اس وقت کی منتخب اور نہایت مضبوط سمجھی جانے والی حکومت نے جماعت احمدیہ کو مٹانے کا عزم کیا تو اللہ تعالیٰ نے خود اسے ریزہ ریزہ کر دیا۔ وہ جو جماعت کے ہاتھ میں کشکول پکڑانے کے اعلان کر رہےتھے، دَر بدَر زندگی کی بھیک مانگنے پر مجبور ہوئے اور دوسری طرف اِنَّ رَحۡمَتَ اللہِ قَرِیۡبٌ مِّنَ الۡمُحۡسِنِیۡنَ یعنی یقیناً اللہ کی رحمت احسان کرنے والوں کے قریب رہتی ہے، کے تحت ہمیشہ خداتعالیٰ کی رحمت جماعت احمدیہ کے سَر پر سایہ فگن رہی ہے اور رہے گی، ان شاءاللہ۔

فَاعۡتَبِرُوۡا یٰۤاُولِی الۡاَبۡصَارِ

(اخبار احمدیہ جرمنی اپریل 2024ء صفحہ 33) PDF

متعلقہ مضمون

  • جلسہ سالانہ کی اہمیت

  • جماعتِ احمدیہ جرمنی کے ایک جفا کش دیرینہ خادم

  • جرمنی میں رہتے ہوئے سوئٹزرلینڈ میں کام کے مواقع