26 اپریل 1984ء کو جنرل ضیاءالحق نے آرڈنینس XX جاری کیا اور رات کی خبروں میں اس کا اعلان ہوا۔ رات 10 بجے حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ نے مرکزی عہدیداروں کا ایک اجلاس بلایا۔ میری یادداشت کے مطابق اس اجلاس میں مکرم صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب، مکرم صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب، مکرم صاحبزادہ مرزا خورشید احمد صاحب، مکرم صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب، مکرم سیّد میر مسعود احمد صاحب، مکرم ملک سیف الرحمٰن صاحب، مکرم سیّد عبدالحئی صاحب اور خاکسار شامل تھے۔ اس بات پر ابتدائی مشورہ ہوا کہ اس آرڈیننس کے مدّنظر جماعت کا آئندہ لائحہ عمل کیا ہو۔

اگلے روز باہر کی جماعتوں سے بھی بہت سے نمائندگان تشریف لے آئے اور مشورہ وسیع ہوگیا۔ مختلف کاموں کے لیے مختلف کمیٹیاں قائم کی گئیں اور حضورؒ کی ہجرت کا فیصلہ بھی اسی دن ہوا۔ اس سے اگلے دن حضورؒ کی ہجرت کے انتظامات کو آخری شکل دی گئی۔

حضورؒ نے 29 اپریل کو صبح روانہ ہونا تھا۔ 28 اپریل کو ہجرت جیسے اہم قدم اور جماعت سے جدائی کی وجہ سے حضورؒ کی ایک کرب کی کیفیت تھی۔ جس کا اظہار ان ارشادات سے ہوتا ہے جو حضورؒ کی روانگی سے ایک دن قبل 28 اپریل کو مختلف نمازوں کے بعد فرمائے۔ ان دنوں مسجد مبارک میں ربوہ کے دوست کثرت سے تشریف لاتے تھے۔ چونکہ حضورؒ نے یہ ارشادات بغیر کسی پیشگی پروگرام کے فرمائے تھے اس لیے اس وقت ان کو محکمانہ طور پر ریکارڈ نہیں کیا گیا، البتہ بعض دوستوں نے اپنے طور پر ان ارشادات کو نوٹ کر لیا تھا۔ ان دوستوں کی تحریر خاکسار کے پاس محفوظ ہے۔ چونکہ وہ ارشادات ابھی تک جہاں تک خاکسار کو علم ہے سلسلہ کے کسی اخبار یا رسالہ میں شائع نہیں ہوئے۔ اس لیے ان کو ذیل میں درج کر رہا ہوں۔ جہاں تک خاکسار کی یادداشت اور بعض دوسرے دوستوں کی یادداشت ہے۔ یہ کم و بیش حضورؒ کے ہی الفاظ ہیں:

I

’’السلام علیکم ورحمۃاللہ۔ صبر کریں، حوصلہ رکھیں۔ ہم نے خداتعالیٰ کو مانا ہے۔ ہم مشرک نہیں ہیں۔ خداتعالیٰ نے ہم سے قربانیاں مانگی ہیں۔ ہم قربانی دیں گے۔ وہ جتنی قربانیاں مانگے گا ہم دیں گے، ہم دیں گے، ہم دیں گے، سب سے پہلے مَیں قربانی دوں گا۔ مَیں قربانی دوں گا۔ مَیں قربانی دوں گا۔

II

السلام علیکم ورحمۃ اللہ۔ مَیں آج آپ کو صبر کی تلقین کرنا چاہتا ہوں۔ صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا۔ کوئی بھی ایسی حرکت نہیں کرنی جو صبر کے معیار سے گری ہوئی ہو۔ صبر کا دامن صبر سے تھامے رکھنا ہے۔ صبر روحانیت میں تبدیل ہوجایا کرتا ہے۔ یہ اس صابر کی دعائیں ہیں جو دنیا میں انقلاب برپا کرتی ہیں۔ صبر کے سامنے سب طاقتیں ہیچ ہیں۔ کوئی ایسی حرکت نہیں کرنی جس سے جماعت پر حرف آئے۔ ہمارے پاس سب سے بڑا ہتھیار گریہ و زاری ہے۔ اتنی گریہ و زاری کریں، اتنی گریہ و زاری کریں کہ آسمان کے کنگرے بھی ہل جائیں۔ قسم اُٹھا کر میرے ساتھ وعدہ کریں جو حکم مَیں دوں گا اُس کی اطاعت کریں گے۔ مَیں دیکھ رہا ہوں کہ جماعت روحانیت کے نئے دَور میں داخل ہو رہی ہے۔ مَیں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ خدا غم کو خوشیوں میں تبدیل کر دے گا۔ آہیں اور سسکیاں خوشیوں میں تبدیل ہوجائیں گی۔ خدا کی قسم فتح ہماری ہے۔ آپ جیتیں گے، آپ جیتیں گے، آپ جیتیں گے۔ مَیں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں آپ سچے ہیں، آپ سچے ہیں، آپ سچے ہیں۔ قوموں کی حفاظت کرنا ہمارا فرض ہے۔ ہم اُن کی حفاظت کریں گے۔ صبر کرنے والے ہمیشہ غالب آتے ہیں اور بےصبرے ہمیشہ تباہ ہوجاتے ہیں‘‘۔

ان ارشادات کو پیش کرنے کے ساتھ ایک بات کا اظہار کرنا چاہتا ہوں کہ 28 اپریل 1984ء عشاء کی نماز آخری نماز تھی جو ہجرت سے قبل حضورؒ نے ربوہ میں مسجد مبارک میں پڑھائی۔ قرأت کے دوران حضورؒ نے قرآن مجید کی ایک آیت کا یہ ٹکڑا

وَقُلۡ رَّبِّ اَدۡخِلۡنِیۡ مُدۡخَلَ صِدۡقٍ وَّاَخۡرِجۡنِیۡ مُخۡرَجَ صِدۡقٍ اتنا بار بار اور اتنے الحاح اور رِقّت سے پڑھا کہ جن لوگوں کو ہجرت کے فیصلہ کا علم تھا انہوں نے یہ محسوس کیا کہ حضورؒ نے تو ہجرت کا اعلان ہی کر دیا ہے۔

(ماہنامہ خالد مارچ اپریل 2004ء سیّدنا طاہر نمبر صفحہ 35-36)

(اخبار احمدیہ جرمنی شمارہ مئی 2024ء صفحہ 28)

 

متعلقہ مضمون

  • جلسہ سالانہ کی اہمیت

  • پرواز بلند ہے جس کے تخیل کی

  • جلسہ سالانہ برطانیہ 2024ء