حضرت خلیفۃالمسیح الرابع کا بی بی سی اردو کے پروگرام ’سیربین‘کو دیا گیا ایک یادگار انٹرویو (مؤرخہ 25 مئی 1984ء)

’’آپ کو یاد ہوگا کہ پاکستان میں احمدیہ فرقہ کو 1974ء میں مرحوم ذوالفقار علی بھٹو کے دَور حکومت میں پارلیمنٹ سے منظور کئے ہوئے قانون کے ذریعہ غیر مسلم قرار دے دیا گیا تھا۔ اب موجودہ حکومت نے پچھلے مہینے ایک آرڈیننس جاری کیا ہےجس کی رُو پاکستان میں رہنے والے احمدیوں پر یہ پابندی عائد کر دی گئی ہے کہ وہ نہ صرف یہ کہ اپنے آپ کو مسلمان نہیں کہہ سکتے بلکہ اذان بھی نہیں دے سکتے اور نہ ہی ان کی عبادت گاہوں کو مسجد کہا جا سکتا ہے۔ احمدیہ فرقہ کے سربراہ مرزا طاہر احمد آج کل لنڈن میں ہیں اور بی بی سی کو یہ خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے محمد غیّور سے بات چیت کی۔ جنہوں نے ان سے پہلا سوال یہ کیا کہ حکومت پاکستان کے نئے آرڈیننس پر ان کا کیا ردِ ّعمل ہے؟

حضورؒ: سب سے پہلے تو یہ بات سمجھ میں آ نہیں سکتی کہ اس قسم کے آرڈیننس کو لیگل ڈاکومنٹ یا قانون قرار دینا کس طرح ممکن ہے۔ کیونکہ بنیادی انسانی حقوق میں مداخلت اور اس قسم کی کھلی کھلی۔ اور پھر ایک ایسا انقلابی واقعہ ہوا ہے اس نئے دَور میں جس کا دنیا نے نوٹس نہیں لیا۔ اور تعجب ہے کہ ہیومن رائٹس کی خاطر آواز دینے والے، ایک ایک آدمی کو Suffering ہو تو وہ شور مچا دیتے ہیں۔ واقعہ یہ ہوا ہے کہ پہلے سچائی نکلوانے کے لیے ٹارچر کرتے رہے ہیں لوگ، اس کے خلاف بھی آواز اُٹھاتے رہے ہیں لوگ۔ لیکن اب یہ ٹارچر ہے جھوٹ نکلوانے کے لیے۔ یعنی اس بات کی سزا دی جائے گی کہ تم سچ کیوں بول رہے ہو۔ میرا مذہب جو ہے وہ تو مَیں بہتر جانتا ہوں۔ اگر مَیں اپنے مذہب کو اسلام سمجھتا ہوں تو جب تک مجھے سمجھایا نہ جائے کہ تمہارا مذہب اِسلام نہیں ہے اور مَیں سمجھ نہ جاؤں۔ اگر مَیں کہوں گا کہ مَیں غیر مسلم ہوں تو جھوٹ بول رہا ہوں۔

میزبان: لیکن یہ کہ آپ کریں گے کیا؟

حضورؒ: ہم نے جو کیا ہے وہ تو وہی ہے جو مذہبی جماعت کو کرنا چاہیے۔ ہم ایک سیاسی جماعت تو نہیں ہیں۔ اور ہم پورا یقین رکھتے ہیں ایک زندہ خدا میں، جس نے ہمیں پہلے کبھی بھی نہیں چھوڑا۔ یہ پہلا واقعہ تو نہیں ہے، سو سال سے ہم مظالم برداشت کر رہے ہیں اپنے ایمان کی خاطر اور نہیں ٹلے وہ بات سمجھنے سے اور یقین رکھنے سے جس کا ہم یقین رکھتے تھے۔ تو ہمارا ردّعمل یہ ہوا کرتا ہے کہ ہم خدا کی طرف جھکتے ہیں۔ چنانچہ اس آرڈیننس کے بعد ایک ردّ عمل تو یہ ہوا کہ ہر احمدی مسجد سے اس قدر گریہ و زاری کا شور بلند ہوا ہےکہ اذان کی کمی اس گریہ وزاری نے پوری کی ہے۔

میزبان: لیکن عملی طور پراگر دیکھئے تو آپ نے مسجد میں اذان دینی بند کر دی ہےمسجد کو مسجد کہنا بند کر دیا ہے۔

حضورؒ: مسجد کہنا بند کردیا اور بات ہے مسجد پر مسجد لکھا ہونا یہ اَور بات ہے۔ یعنی واقعہ یہ ہے کہ آنحضرتﷺ ہمارے آقا و مولا ہیں اور آپؐ کی سنّت ہم نے پکڑنی ہے۔ آپؐ کے زمانہ میں ایسا دَور بھی آیا کہ بلند آواز سے اللہ اکبر نہیں کہہ سکتے تھے مسلمان دارِ اَرقم میں چھپ کر عبادت کیا کرتے تھے۔ تو عبادت نہیں چھوڑی، خدا کا نام بلند کرنا نہیں چھوڑا مگر اُس حد تک کہ وہ آواز پھیلے اس حد تک تو بند کرنا پڑا۔ اور پھر آنحضرتﷺ کے زمانہ میں، ابتداء میں مسجدیں بنانے کی اجازت نہیں تھی، صحنِ خانہ میں بھی نہیں۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ کی مسجد کو داخل ہو کر اندر شہید کیا گیاکہ صحن میں بھی تم مسجد بناتے ہو۔ یہ دَور گزرے ہیں پہلے۔ یہ کوئی نیا واقعہ تو نہیں مذہب کی تاریخ میں۔ اور ہم نمونہ وہیں سے پکڑیں گے جو ہمارے بزرگ، ہمارے مولا اور مرشد ہیں۔

میزبان: لیکن یہ جو آپ، پاکستان میں خاص طور سے اور دنیا میں اور بہت سے ملکوں میں یہ جو اسلامائزیشن کا دَور شروع ہوا ہے۔ کیا اس کا یہ ردِّعمل ہے؟ (حضورؒ: مَیں سمجھ گیا ہوں بہت اہم سوال ہے) اس کایہ ایک قدم ہے۔

حضورؒ: سوال یہ ہے کہ گزشتہ چند سالوں سے یہ بات نمایاں نظر آ رہی ہے کہ سیاسی مقاصد کے لیے مذہب کو استعمال کرنے کا رُجحان بڑھ رہا ہے۔ اور جو نہایت خطرناک ہے اور اس کے نتیجہ میں وہ چیز جس کو باہر کی دنیا کلرجی (Clergy) کہتی ہے۔ اسلام میں کوئی institutionlized Clergy نہیں ہے۔ یعنی ملّائیت کا کوئی تصور اسلام میں نہیں ہے۔ لیکن، اس سے وہ زور پکڑتی ہے پھر۔ جب سرٹیفیکیٹ اسلام کے خدا کی بجائے ملّاں سے لینے پڑیں گے تو اس کی طاقت اُبھرے گی اور وہ طاقت ایک منفی صورت میں استعمال ہوتی ہےسٹیٹ کے اندر۔ جس کے نتیجہ میں، مَیں تو یہ سمجھ رہا ہوں کہ یہ ایک انٹرنیشنل سازش ہے اسلام کے خلاف۔ جب اسلام کے نام پر ایک ملّائیت کو عروج ملے گا تو بظاہر بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ کمیونزم کے خلاف ہمیں ایک Instrument، ہمیں ایک ذریعہ مل جائے گا۔ بدنامی اسلام کی اور فائدہ امریکہ کو۔ یہ ہماری حیثیت ہےصرف خیالی مذہبی لوگوں کی نہیں بلکہ حقیقی ہے۔ ہم خدا پر زندہ یقین رکھتے ہیں اور دعاؤں پر یقین رکھتے ہیں۔ اور ہر ظلم کے بعد اللہ تعالیٰ نے ہمیں بڑھایا ہے پہلے سے۔ یہ ایک ایسی تاریخ ہے جسے دنیا میں کوئی شخص بدل نہیں سکتا۔ اس لیے ہمیں کامل یقین ہے کہ آئندہ بھی یہی ہوگا۔ جہاں تک Suppression یعنی دباؤ کا تعلق ہے، اَمر واقعہ یہ ہے کہ جب کسی زندہ قوم کو دبایا جاتا ہے، وہ اُبھرتی ہے۔

میزبان: یہ جب سے نئے قانون پہ عملدرآمد شروع ہوا ہے کوئی اطلاعات ایسی ہیں کہ تعداد آپ کی گھٹی ہو؟

حضورؒ: نہیں، سوال ہی نہیں پیدا ہوتا، کبھی بھی نہیں ہوا۔ یہ ناممکن ہے، ہر ایسے اقدام کے بعد غیرمعمولی تعداد بڑھی ہے۔ چنانچہ 74ء کے بعد سب سے بڑی تکلیف تو یہی تھی بعض مخالفین کو کہ ہم نے ناٹ مسلم کہہ دیا، غیر مسلم قرار دے دیااوراتنی اونچی دیوار کو پھلانگ کے لوگ احمدیت میں پہلے سے زیادہ آ رہے ہیں۔ یہ اگر فکر نہ ہوتی ان کو تو اس اقدام کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ تو اصل بات ان کا یہ اقدام ثابت کر رہاہے کہ ہر روک کے بعد ہم زیادہ قوت کے ساتھ پھیلے ہیں۔

میزبان: اچھا یہ 74ء میں سب سے پہلے یہ آپ کو، آپ کے فرقہ کو غیرمسلم قرار دیا گیا اور اِس وقت توآرڈیننس جاری کیا ہےحکومت نے۔ اُس وقت یہ پارلیمنٹ کی کارروائی تھی، پارلیمنٹ نے منظور کیا تھا اسےجسے کہنا چاہیے کہ یہ عوام کا فیصلہ تھا۔ اور وہ پارلیمنٹ منتخب تھی۔ تو اب جو آپ پر الزام لگایا جاتا ہے کہ آپ عوام کے فیصلہ کے خلاف جا رہے ہیں۔ خلاف ورزی کررہے ہیں۔

حضورؒ: سوال یہ ہے کہ مذہب عوام بناتے ہیں یا خدابناتا ہے۔ یہ بنیادی سوال پہلے حل ہونا چاہیے۔ اگر مذہب میں عوام کے فیصلے چلیں تو دنیا کا ہر نبی اپنے وقت میں جھوٹا ثابت ہوجائے گا۔ کیونکہ ہر نبی کےوقت عوام کی اکثریت نے اس کے خلاف فیصلہ دیا ہے۔ اس لیے بالکل بے معنی اور لغو بات ہے۔ دوسرے یہ کہ عوام کو یہ حق تو ہو سکتا ہے کہ وہ کسی کو کچھ سمجھیں اور اپنے قانون میں لکھ دیں۔ لیکن یہ کیسے حق ہو سکتا ہے کہ کسی سے یہ حق چھین لیں کہ وہ اپنے آپ کو کچھ سمجھے۔ یہ دو بالکل مختلف چیزیں ہیں۔ یعنی اگر کوئی کسی کو کتّا کہہ دے تو آپ کہہ دیں گے کہ حق ہے اس کو، کہہ دے کتّا۔ لیکن اس کے بعد اس کو یہ کہیں کہ تم کتّوں کی طرح زندگی بسر کرو۔ یہ کیسے حق مل گیا؟ یا ساتھ کہیں کہ بھونکو بھی اب۔ وہ تو نہیں بھونکے گا انسان۔ اس لیے عوام کا حق اپنی جگہ ہے اور فرد کا حق اپنی جگہ ہے۔ اور ان دونوں کی حدیں ہیں۔ جن کو قرآن بھی قائم کرتا ہے۔ دنیا کا ہر مذہب اور انسانیت کی بنیادی قدریں ان کی حفاظت کرتی ہیں۔

میزبان: اچھا آپ کے فرقہ پہ یہ بھی مرزا صاحب! الزام لگایا جاتا ہے کہ آپ فوج میں اپنی جڑیں بنا رہے ہیں اور بیوروکریسی میں جڑیں بنا رہے ہیں۔ اور اس طرح سے پاکستان کی بنیاد کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔

حضورؒ: اس سے بڑا جھوٹا الزام تو ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ پاکستان کی جو جنگیں ہوئی ہیں پچھلی، ان میں جو جنگ کے ہیرو، یہ موجودہ فوجی حکومت اس کا انکار نہیں کرسکتی۔ رَن کچھ میں بریگیڈئیر افتخار تھے، وہ احمدی تھے۔ اور ادھر چھمب جوڑیاں سیکشن میں جنرل ملک اختر تھے، وہ احمدی تھے۔ چونڈہ کاہیرو آج بھی زندہ ہے جنرل عبدالعلی ملک۔ وہ احمدی اور ممتاز فاضلکا سیکٹر میں تھے غالباً وہ احمدی۔ تو جو نمایاں ہیں دفاع کے واقعات، ان میں احمدی وابستہ ہیں۔ اور کبھی کوئی واقعہ نہیں ہوا کہ احمدی نے نعوذباللہ من ذالک پاکستان سے بےوفائی کی ہو۔ پاکستان تحریک میں احمدی سب سے اوّل صف میں تھے اور کبھی قائداعظم، آخر ان کو علم نہیں تھا کیا ہو رہا ہے؟ انہوں نے اس وقت احمدیوں کو کیوں منہ لگایا؟ کیوں ظفراللہ خان صاحبؓ کو وزیر بنایا؟ اس لیے کہ جانتے تھے وہ۔ اور وہ جو ہمارے دشمن تھے یعنی جو دشمن ہیں اور پاکستان کے دشمن تھے۔ اب وہ صفِ اوّل کے شہری ہیں اور ہم ایک Third grade شہریوں میں تبدیل کئے جا رہے ہیں۔ یہ تو زمانے میں چلتی رہتی ہیں سیاسی چالیں۔ اس کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں۔

میزبان: جیسا کہ آپ نے فرمایا پاکستان ہی میں آپ کا فرقہ نہیں ہے۔ پاکستان سے باہر بڑی تعداد ہے۔ ان میں مسلمان ملکوں میں بھی ہوں گے۔ (حضور: جی مگر کم)۔ تو ان مسلمان ملکوں کا آپ کے ساتھ رویّہ کیا ہے؟

حضورؒ: مسلمان ملکوں کا رویّہ جو ہے اس میں سب سے بنیادی بات یہ ہے کہ مسلمان ممالک کے جو علماء ہیں وہ بذات خود نہایت شریف لوگ ہیں اور وہ اُس قسم کا ملّاں نہیں ہے جوہندوستان میں پیدا ہوا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے پاکستان اور ہندوستان سے ایک خاص قسم کے علماء نے جاکر اُن کو یک طرفہ اتنا زہرناک کر دیا ہے کہ ہمیں کیونکہ جواب کا موقع نہیں اوروہ یک طرفہ باتیں سنتے ہیں۔ اس لیے رفتہ رفتہ ان میں منافرت بڑھتی چلی گئی۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ وہ ہمیں کیا سمجھتے ہیں یہ تو ہمارے نزدیک کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔ مذہب میں تو یہ اہمیت ہے کہ اللہ کیا سمجھتا ہےجس کے حضور جان دینی ہے۔ خدا کے دربار میں تو کوئی مولوی نہیں بیٹھا ہوگا فتویٰ دینے کے لیے کہ مَیں اس کو یہ سمجھتا تھا۔

میزبان: اسی کے ساتھ مجھے سیربین سے اجازت دیجیے ‘‘۔

(اخبار احمدیہ جرمنی شمارہ مئی 2024ء صفحہ 32)

متعلقہ مضمون

  • جلسہ سالانہ کی اہمیت

  • پرواز بلند ہے جس کے تخیل کی

  • جماعتِ احمدیہ جرمنی کے ایک جفا کش دیرینہ خادم