عرصہ دراز سے پاکستان میں معصوم احمدیوں پر مظالم کا نہ ختم ہونے والا ایک سلسلہ جاری ہے۔ ہر روز نت نئے واقعات سامنے آتے ہیں۔ کہیں السلام علیکم کہنے پر مقدمات کئے جا رہے ہوتے ہیں تو کہیں درود شریف پڑھنے پر احمدیوں کو جیلوں میں ڈالا جا رہا ہوتا ہے۔ کہیں مساجد کے مینار گرائے جا رہے ہوتے ہیں تو کہیں قبرستانوں میں احمدیوں کی سالہا سال پرانی قبروں کو نقصان پہنچایا جارہا ہوتا ہے یہاں تک کہ بعض اوقات قبریں اکھیڑ کر میّتوں کی توہین کی جا تی ہے۔ کتنے ہی واقعات میں بےگناہ احمدیوں پر گولیاں برسا کر یا خنجر چلا کر شہید کر دیا جاتا ہے۔ قارئین کی خدمت میں صرف ماہ جولائی 2022ء کے دوران ہونے والے واقعات کی ایک مختصر رپورٹ پیش کی جارہی ہے جس کے مندرجات مرکز لندن میں قائم HUMAN RIGHTS SECTION کی طرف سے انگریزی زبان میں موصولہ رپورٹ کے اردو خلاصہ پر مشتمل ہیں:
یکم جولائی کو فیصل آباد کے علاقہ میں تین احمدی مساجد پرمقدمہ کیا گیا ہے۔ مخالفین یہ تقاضا کر رہے تھے کہ مساجد کے منار گرا دئیے جائیں اور کلمہ طیبہ کو مٹا دیا جائے ورنہ سخت کارروائی کی جائے گی۔
13 جولائی: عیدالاضحی کے موقع پر احمدیوں کو ڈرایا اور دھمکایا گیا۔ کراچی میں ماسٹر فضل احمد صاحب جو جماعت احمدیہ سے تعلق رکھتے ہیں، کے گھر مُلّا اپنے مدرسہ کے دس طلباء کے ساتھ پہنچا اور ان سے پوچھا کہ کیا انہوں نے اس سال قربانی کی ہے اور گوشت تقسیم کیا ہے؟ اور اگر کیا ہے تو ان کے خلاف تھانے میں رپورٹ کی جاسکتی ہے۔ اس کے علاوہ ان کے گھر کے ارد گرد وقتاً فوقتاً چکر لگاتے اور ہراساں کرتے رہے۔ علاوہ ازیں فیصل آباد میں بھی اسی نوعیت کے واقعات ہوئے۔
اسی طرح کراچی میں احمدیوں کو کاروباری نقصان پہنچایا گیا اور سوشل میڈیا پر تحفظ ختم نبوت والوں نے لوگوں کو اُکسایا اور کہا کہ احمدیوں کی دُکانوں سے خرید و فروخت ختم کر دی جائے۔
30 جولائی: ملک الیاس اعوان نے جو ممبر تحفظ ختم نبوت سپریم کونسل اور نائب صدر پاکستان مسلم لیگ ق پنجاب ہیں، نے ایک عرضی ڈپٹی کمشنر خوشاب کے نام لکھی۔ جس میں اس بات کا ذکر کیا گیا ہے کہ احمدیوں کو ضلع خوشاب سے نکال دیا جائے۔
6 اور 7 جولائی کو ضلع گوجرانوالہ میں پنجاب پولیس نے 53 احمدیوں کی قبروں کی بےحرمتی کی اور ان کے کتبوں کو مسمار کر دیا گیا کیونکہ مخالفین نے یہ رپورٹ درج کروائی کہ ان کے کتبوں پر کلمہ اور قرآنی آیات لکھی گئی ہیں۔ چونکہ احمدی اپنے آپ کو مسلمان نہیں کہہ سکتے اس لیے یہ جرم ہے۔
جولائی 2022ء کے آخری ہفتہ میں پنجاب اسمبلی نے ایک بل پاس کیا جس میں نکاح نامہ میں اس بات کی ترمیم کی گئی کہ جو جوڑے نکاح کرنا چاہتے ہیں ان پر لازم ہے کہ وہ اقرار کریں کہ وہ ختم نبوت پر یقین رکھتے ہیں اور بانی جماعت احمدیہ کافر ہیں(نعوذباللہ)۔
31 جولائی 2022ء تک کی رپورٹ کے مطابق 11 احمدی صرف اور صرف اپنے عقیدے کی وجہ سے جیلوں میں ہیں۔ جبکہ ماہ رواں کے دوران 13 احمدیوں کو عیدالاضحی کے موقع پر قربانی کرنے کے جرم میں گرفتار کیا گیا۔
دو احمدی خواتین کو توہین رسالت کے بےبنیاد الزام میں گرفتار کیا گیا، ان میں ایک پر یہ الزام تھا کہ انہوں نے فروری کے مہینہ میں ایک پوسٹر کو پھاڑ کر پھینکا تھا جو احمدیہ مخالف تھا۔ یہ دونوں ضمانت پر رہا تو کر دی گئی تھیں مگر ان کامقدمہ ابھی بھی جاری ہے۔
٭ ایک 20 سالہ احمدی طالب علم 295سی (توہین رسالت کی شق) کے تحت جیل میں ہے۔
احمدیوں کو سوشل میڈیا پر مختلف قسم کی دھمکیاں دی جاتی رہیں چنانچہ قمرآباد ضلع نوشہرو فیروز (سندھ) میں ایک ملّاں نے عیدالاضحی کے موقع پر مقامی احمدیوں کو سوشل میڈیا پولیس میں مقدمات درج کرانے اور دیگر ذرائع سے نقصان پہنچانے کی دھمکیاں دیں۔
(مرتبہ: سیّد سعادت احمد)

متعلقہ مضمون

  • جلسہ سالانہ کی اہمیت

  • جماعتِ احمدیہ جرمنی کے ایک جفا کش دیرینہ خادم

  • جرمنی میں رہتے ہوئے سوئٹزرلینڈ میں کام کے مواقع