سیّدنا حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کے 21 سالہ عہد مبارک کے دوران منعقد ہونے والی مجالس عرفان دینی، سائنسی، اقتصادی، طبّی اعتبار سے علم و عرفان کا ایک وسیع سمندر ہے۔ اس سمندر میں سے اخبار احمدیہ کے قارئین کے لیے چند موتی ہر ماہ پیش کیے جانے کا سلسلہ اپنی ذمہ داری پر شروع کیا جا رہا ہے جس کی ابتداء 15 مارچ 1987ء کو محمودہال لندن میں ہونے والی مجلس سوال و جواب سے کی جا رہی ہے۔ اُمید ہے کہ قارئین کے لیے دلچسپی کا باعث ہوگا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں خلافت کے انوار سے روشن فرمائے،آمین۔

 

سائل: ‘‘دوسرا سوال ہمارے غیراحمدی دوست کا یہ ہے کہ بحیثیت ایک احمدی مَیں تو جانتا ہوں اور ہمارے کئی دوست جانتے ہیں کہ کیا یہ دُرست ہے کہ احمدی جو ہیں، حضرت مرزا صاحب کورسولِ پاکﷺ سے زیادہ درجہ دیتے ہیں؟’’
حضورؒ: ‘‘اِنَّا لِلہِ وَاِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ اس کا جواب سوائے اس کے نہیں، ایسی باتیں لکھی ہوئی ہیں اُس رسالہ میں، یہ بھی لکھا ہوا ہے۔ نہایت ناپاک الزام ہے۔ کسی احمدی کے وہم و گمان میں بھی نہیں، افضل چھوڑ کے حضرت مرزا صاحب تو ساری عمر غلامی کا دعویٰ کرتے رہے۔ رسولِ اکرمﷺ کے عشق کے گیت گاتے رہے۔ یہ کہتے رہے؏
سب ہم نے اُس سے پایا شاہد ہے تُو خدایا
یہ کہتے رہے:
؏ وہ ہے مَیں چیز کیا ہوں بَس فیصلہ یہی ہے
یہ کہتے رہے کہ میرا ایمان یہ ہے کہ اگر کسی کے کوہ ہمالہ کے برابر بھی نیک اعمال ہوں اور وہ آنحضرتﷺ کا دشمن ہو یا اُن کی مخالفت کرتا ہو، تو خدا اُن اعمال کو جہنم میں پھینک دے گا اُن کی کوئی بھی پروا نہیں کرے گا۔ یہ ساری عبارتیں یہ لوگ پڑھتے ہیں اور جان کے چھپا لیتے ہیں مسلمان عوام سے اور وہی فتنہ کرتے ہیں کہ کوئی چھوٹا سا ٹکڑا نکالا اُسے غلط معنے پہنائے اور وہ پیش کردیئے۔ یہ بھی اُس میں لکھا ہوا کہ محمد رسول اللہ ہونے کا خود دعویٰ کیا اور بعینہٖ وہی گویا کہ ہم مرتبہ اور پھر آگے لکھا ہوا ہے کہ پھرکچھ دیرکے بعد گویا اُنہوں نے یہ کہا کہ یہ تو کافی نہیں مَیں اُس سے بھی اُونچا نکل جائوں۔ اور پھر یہ بھی لکھا ہوا ہے کہ اللہ ہونے کا بھی دعویٰ کردیا۔ اب تو زبانیں چل پڑی ہیں۔ ان کو چلنے دیں، ہم ان کا کیا علاج کرسکتے ہیں؟
اللہ کادعویٰ کیا توہم کس کی (عبادت کرتے ہیں؟) احمدی اِن کو نظر نہیں آتے خدا کی عبادت کرتے ہوئے؟ کوئی ایک احمدی بچہ ساری دُنیا میں سے دکھائیں جو حضرت مرزا صاحب کو آنحضرتﷺ کے برابر یا افضل یا نعوذباللہ خدا سمجھ کے اُن کی عبادت کرتا ہو؟ ساری دُنیا میں اسلام پھیلا رہے ہیں۔ انگریزوں میں احمدی ہوئے ہیں، افریقنوں میں، چینیوں میں، جاپانیوں میں، رُوسیوں میں کوئی قوم بتائیں جہاں احمدی نہیں ہوئے۔ کوئی کسی سے جا کے پوچھے تو سہی کہ جناب آپ کو انہوں نے کیا پٹی پڑھائی تھی؟ کیا ایمان ہے؟ کروڑ احمدی گواہ ہیں کہ یہ جھوٹ بول رہے ہیں۔
ہمارا ایمان وہی ہے جو آنحضرتﷺ کا ایمان تھا۔ جس ایمان کی تعلیم آپؐ نے دی۔ وہ ہم نے آپؐ سے سیکھی اور ایک شعشہ بھی فرق نہیں۔ اور حضرت مسیحِ موعود فرماتے ہیں کہ خدا کے جتنے مقدّس نام ہیں مَیں اُن کی قسمیں کھا کر اعلان کرتا ہوں کہ میرا دین اِسلام ہے۔ قرآنِ کریم کاا یک شعشہ بھی مَیں تبدیل شدہ نہیں مانتا۔ قرآن کے سب حکموں پرمیرا ایمان ہے۔ حضرت محمدمصطفیﷺ کوخاتم النّبیین مانتا ہوں۔ آپؐ کے ہر حکم کو واجب التعمیل سمجھتا ہوں اور یہی میری جماعت کو نصیحت ہے کہ قرآن پر پنجہ مارو اور سُنّت کی پیروی کرو۔ ایک ذرّہ بھی اس سے باہرنہ جائو وَرنہ تم خطرہ میں مبتلا ہو۔ یہ آپؑ کا اعلان ہے اور مولویوں کا اعلان یہ ہے کہ وہ نعوذباللہ برابر سمجھتے تھے یا اُونچا سمجھتے تھے۔
اِس قسم کے علماء سے پوچھنا چاہیئے کہ جس طرح تم اِستنباط کرتے ہوکہ کہہ دیا مَیں رسول اللہﷺ ہوں، مَیں محمدؐ ہوں۔ اس پر اگر اعتراض وارد ہوتا ہے تو بجائے کچھ پوچھنے کے (کہ) کیا مطلب ہے؟ کن معنوں میں کہا گیا ہے؟ بجائے آگے پیچھے پڑھنے کے کہ کیاذکرتھا؟ کس طرح یہ مضمون باندھا گیا؟ اگر اِس پر اعتراض کرتے ہو تو پھر تمہارے جیسے ہی تھے جنہوں نے منصور(حلّاج) کو سُولی پہ چڑھایا۔ اُس نے بھی تو اَنَاالۡحَقّ کہا تھا اور آج تک حکومت روتی ہے کہ کتنا ظلم کیا؟ کتنا بزرگ متّقی آدمی تھا جسے وقت کے مولویوں نے سُولی پہ چڑھا دیا۔ اُس نے کہا تھا ‘‘اَنَا الۡحَقّ’’ مَیں حقّ ہوں۔ حالانکہ سمجھے نہیں، ایسے موقعے پر مُراد یہ ہوتی ہے کہ مَیں کامل طور پر اُس میں جذب ہوگیا ہوں۔ مَیں نے اپنا کچھ بھی باقی نہیں چھوڑا۔ ان معنوں میں گستاخی نہیں ہوا کرتی بلکہ یہ بات غلامی کی انتہا ظاہر کرتی ہے۔ اگر یہ پھر بھی نہ مانیں تو ان کو قرآنِ کریم کی ایک آیت بیان کرکے اُس کا مطلب پوچھیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اَلَّذِیۡنَ یُبَایِعُوۡنَکَ اِنَّمَا یُبَایِعُوۡنَ اللہَ یَدُاللہِ فَوۡقَ اَیۡدِیۡھِمۡ (الفتح:11) کہ اَے محمد!(ﷺ)درخت کے نیچے یہ جو بیعت کرنے والے ہیں، یہ تیری نہیں اللہ کی بیعت کررہے ہیں اور کوئی شک نہ رہ جائے بات میں، فرمایا یَدُاللہِ فَوۡقَ اَیۡدِیۡھِمۡ تیرا ہاتھ نہیں اللہ کا ہاتھ ہے جو اِن کے اُوپر ہے حالانکہ محمدرسول اللہﷺ کا ہاتھ تھا۔
اب بہائی اعتراض کرتے ہیں، کہتے ہیں دیکھو توحید کہتے ہو تم لوگ اور یہ لکھا ہوا ہے قرآنِ کریم میں، پہلے علماء اس کا تو جواب دے دیں۔ ایک انسان کسی بزرگ مرتبہ انسان کے برابر ہونے کا دعویٰ کرے یہ گستاخی ٹھیک ہے۔ لیکن ایک انسان خدا ہونے کا دعویٰ کردے اس سے بڑی گستاخی تو نہیں سوچی جاسکتی۔ اگر کلام کے اندر مفہوم اور نہیں ہوسکتے، اگر سیاق و سباق سے مفہوم نہیں سمجھنے چاہئیں تو اس آیت کو اکیلی کو پکڑ کر بیٹھ جائیں آپ اس کا کوئی جواب نہیں دے سکتے۔ پھر فرمایا جنگِ بدر کے موقعہ پر مَارَمَیۡتَ اِذۡ رَمَیۡتَ وَلٰکِنَّ اللہَ رَمٰی (الانفال:18) اَے محمد!ﷺ تُو نے وہ مٹھی نہیں چلائی، جو تُونے کنکریوں کی مُٹھی اُٹھاکے کُفّار کی طرف پھینکی تھی۔ اِذۡ رَمَیۡتَ ہمیں پتہ ہے تُو نے ہی چلائی تھی۔ وَلٰکِنَّ اللہَ رَمٰی لیکن اللہ نے چلائی تھی۔ کیا مطلب ہے؟ رسولِ کریمﷺ (نعوذباللہ) اللہ ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں؟ ان لوگوں کو سمجھ ہی نہیں، فہم ہی نہیں جو دین کی باتیں ہوتی ہیں اِس سے مُراد ہم مرتبہ ہونا نہیں بلکہ کامل غلامی ہوتی ہے۔ یہ اعلان ہوا ہے قرآنِ کریم میں کہ آج دُنیا میں کائنات میں خداتعالیٰ کے کامل تابع اگر کوئی شخص ہے تو محمدرسول اللہﷺ ہیں۔ اس نے اپنی کوئی مرضی نہیں چھوڑی، اپنے وجود کو کامل طور پر مٹا دیا ہے۔ اس لئے یہ خدا کی طرف دیکھ رہا ہے۔ اُس کی مرضی سے اُنگلی اُٹھاتا ہے، اُس کی مرضی سے اُنگلی گراتا ہے۔ اُس کی مرضی سے سوتا ہے۔ اُس کی مرضی سے جاگتا ہے۔ اُس کی مرضی سے حرکت کرتا ہے۔ اُس کی مرضی سے سکون کرتا ہے۔ کوئی اپنی خواہش باقی نہیں۔ ہر وقت خدا کی رضا پہ نظر ہے۔ تو اپنا کچھ بھی نہیں رہا۔ گویا کہ جو کچھ کرتا ہے وہ خدا کا کرنا ہوجاتا ہے۔ یہ معنے ہیں اور اِسی معنے کی تائید میں ایک اور آیت ملتی ہے کہ وَمَایَنۡطِقُ عَنِ الۡھَوٰی اِنۡ ھُوَ اِلَّا وَحۡیٌ یُّوۡحٰی(النجم:4-5) کہ محمدرسولِ کریمﷺ جب کلام کر رہے ہوتے ہیں تو اپنی خواہش سے تو کر ہی نہیں رہے ہوتے۔ اِنۡ ھُوَ اِلَّا وَحۡیٌ یُّوۡحٰی یہ تو اللہ کی وحی ہے جو اُس کی طرف سے کی جا رہی ہے۔ کلامِ محمدمصطفٰیؐ گویا خدا کی وحی ہے۔ تو جس شخص نے اپنا نفس مار دیا ہو، مِٹ گیا ہو، یہ کہہ رہا ہو۔ ؏ وہ ہے مَیں چیز کیاہوں بَس فیصلہ یہی ہے
اس کے بعداُس پر یہ اعتراض کرنا جب وہ ایک عارفانہ کلام کررہا ہے، انتہائی ظلم ہے!’’
(مجلسِ عرفان منعقدہ مؤرخہ 15 مارچ 1987ء بمقام لندن)

For privacy reasons YouTube needs your permission to be loaded.
I Accept

متعلقہ مضمون

  • جلسہ سالانہ کی اہمیت

  • جماعتِ احمدیہ جرمنی کے ایک جفا کش دیرینہ خادم

  • جرمنی میں رہتے ہوئے سوئٹزرلینڈ میں کام کے مواقع