تاریخ احمدیت جرمنی سے ایک ورق

(يہ مضمون محترم چودھری عبداللطیف صاحب مرحوم کی خود نوشت اور مختلف جماعتی و غیرجماعتی اخبارات سے مکرم محمد لقمان مجوکہ صاحب ممبر تاریخ کمیٹی جرمنی نے مرتّب کيا ہے۔ اگر کسي دوست کے علم ميں مزيد معلومات ہوں تو براہ کرم تاريخ کميٹي جرمني کو مطلع فرمائيں، جزاکم اللہ احسن الجزاء۔ (صدر تاريخ احمديت کميٹي جرمني)

 

ربوہ آمد اور ہمبرگ واپسی

گزشتہ قسط (مطبوعہ اخبار احمديہ جرمني ماہ جون 2022ء) ميں محترم چودھري عبداللطيف صاحب کےپاکستان جانے اور اپنے اہل و عيال کے ساتھ جرمني واپس آنے کا مختصراً ذکر ہوا تھا۔ اس بارہ ميں کچھ مزيد مواد ہديہ قارئين ہے جو محترم چودھري صاحب موصوف کي خود نوشت ميں سے ہے اور اس ميں آپ نے اُس وقت کے حالات کا نقشہ کھينچا ہے۔ آپ نے پاکستان جا کر حضرت خليفةالمسيح الثانيؓ سے ملاقات کا شرف حاصل کیااور حضورؓ کی نصائح، ہدایات اور پر شفقت رہنمائی سے متأثر ہونے کي کيفيت يوں بيان کي ہے:
1951ء کے ابتداء ميں حضرت مصلح موعود نے ارشاد فرمايا کہ مَيں ربوہ واپس آکر کچھ عرصہ ٹھہر کر اپني بيوي اور بچي کو ہمراہ ہمبرگ لے آؤں۔ حضورؓ کے اس ارشاد کي تعميل ميں خاکسار دس ستمبر کو ربوہ حاضر ہوا۔ 6سال کي لمبي جدائي کے بعد اپنے پيارے والدين، بہن بھائيوں اور بيوي بچي اور ديگر رشتہ داروں سے مل کر بہت خوشي ہوئي۔ سب سے بڑھ کر پيارے اور محسن آقاسے ملاقات بہت ايمان افروز ثابت ہوئي حضورؓ نے محبّت اور شفقت بھرے جذبات کے ساتھ مصافحہ اور معانقہ کا شرف عطا فرمايا۔ دير تک جرمن مشن کے بارہ ميں گفتگو فرمائي۔ حضورؓ کے نفخات طيّبات سے يہ امر پوري طرح واضح تھا کہ حضورؓ حضرت مسيح موعود کي پيشگوئيوں کے مطابق جلد از جلد مغربي ممالک ميں غلبۂ اسلام پورا ہوتا ديکھنا چاہتے ہيں اور اس بارہ ميں ضروري تدابير کو بروئےکار لانے کے خواہش مند ہيں۔ ميرے لئے يہ ملاقات اس لحاظ سے بھي ازديادِ ايمان کا باعث ہوئي کہ مَيں يہ مصمّم ارادہ کرکے لَوٹا کہ ميں ان شاءاللہ پہلے سے زيادہ جوش اور محنت کے ساتھ جرمني ميں تبليغ کے کام ميں وسعت پيدا کرنے کي کوشش کروں گا اور اس طرح حضورؓ کے ارشاداتِ عاليہ کو عملي جامہ پہنانے کي کوشش کروں گا’’۔
(خود نوشت محترم چودھري عبداللطيف صاحب صفحہ 19، غير مطبوعہ ريکارڈ تاريخ احمديت جرمني)
جرمني پہنچنے اور اس کے بعد کے حالات بيان کرتے ہوئے آپ تحرير کرتے ہيں:
“حضور کے ارشاد کي تعميل ميں جنوري 1952ء کو اپني بيوي اور بچي کے ہمراہ يہ عاجز دوبارہ جرمني کے لئے روانہ ہوا اور کچھ روز لنڈن اور ہالينڈ ٹھہرکر بخيرت ہمبرگ پہنچ گيا ہمبرگ اسٹيشن پر مکرم ملک عمر علي صاحب مرحوم اور برادرم عبدالکريم صاحب ڈنکر نے ہمارا استقبال کيا۔ اس دَور ميں ابتداء ميں بہت زيادہ مالي اور ديگر مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ مالي لحاظ سے بہت زيادہ تکاليف برداشت کرنا پڑيں۔ پاکستان ميں اسٹيٹ بنک نے فارن ايکسچينج دينے سے جماعت کو انکار کيا ہوا تھا انگلينڈ ميں بنک آف انگلينڈ نے بھي کڑي پابندياں لگائي ہوئي تھيں اس لئے رقوم کي آمد اور ديگر مالي ذرائع قريباً مسدود تھے۔ بعض اوقات زندگي کي ابتدائي ضروريات کو مہيا کرنا ہمارے لئے پريشان کن مسئلہ بن جاتا تھا گھر ميں ابتدائي ضروري اشياء بھي مہيا نہ تھيں۔ سرديوں ميں شديد سردي ميں ہيٹنگ کا کوئي انتظام نہ تھا ليکن ان سب تکاليف کو ہم نے پورے حوصلے اور ايماني جذبہ کے ساتھ برداشت کيا ميري رفيقۂ حيات نے اس بارہ ميں ميرے ساتھ بےلوث تعاون کيا۔ ہم دونوں مياں بيوي کے پيشِ نظر ان تکاليف کو نظر انداز کرتے ہوئے ايک ہي جذبہ تھا کہ تبليغي ميدان ميں ہم اپني حقير کوششوں کو تيز سے تيز کريں تاکہ جرمني ميں احمديت کا غلبہ جلد از جلد بروئےکار اور ہم اللہ تعاليٰ کي دي ہوئي توفيق سے عائد شدہ ذمہ داريوں سے عہدہ برآ ہوسکيں يہ عرصہ ہمارے لئے بہت زيادہ آزمائش کا دَور تھا ليکن اللہ تعاليٰ کي دي ہوئي توفيق کے تحت ہم اس ميں کامياب و کامران ہوئے اور ميري بيوي نے ميرے ساتھ غيرمعمولي بھرپور تعاون کيا اور تبليغ کے عملي جہاد ميں ميرا پورا ساتھ ديا کچھ عرصہ کے بعد اللہ تعاليٰ نے محض اپنے فضل سے يہ حالات بدل دئيے اور مالي مشکلات ميں متعدبہ کمي واقع ہوئي اور ہم پہلے سے زيادہ دلجمعي کے ساتھ تبليغ کے کاموں ميں مصروف ہوگئے جس کے نيک اور نتيجہ خيز نتائج بفضلِ تعاليٰ نماياں طور پر ظہور پذير ہونے شروع ہوگئے،الحمدللہ علي ذالک”۔
(ماخوذ خود نوشت محترم چودھري عبداللطيف صاحب صفحہ 20، غيرمطبوعہ ريکارڈ تاريخ احمديت جرمني)

یومِ پیشوایانِ مذاہب

ماہ اگست 1951ء میں ہونے والی تیسری سالانہ یورپین مبلغین کانفرنس منعقدہ سوئٹزرلینڈ کے لئے حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ نے ایک برقی پیغام بھجوایا تھا جس میں آپؓ نے مبلّغین کو ان کے اس بنیادی مقصد کی طرف توجہ دلائی تھی کہ لوگوں کو خداتعالیٰ کی طرف بلانا ہے اور دنیا میں اَمن کی فضاء کو قائم کرنا ہے۔ چنانچہ حضورؓ کے اس پیغام کی روشنی میں مبلّغین سلسلہ نے کانفرنس میں جو منصوبہ بندی کی اس کا ایک اہم حصہ یومِ پیشوایانِ مذاہب کا منایا جانا تھا جس میں ایک ہی پلیٹ فارم سے مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے اپنے اپنے بانیان کی خوبیاں اور اوصاف بیان کریں۔(روزنامہ الفضل لاہور 17/ اگست 1951ء صفحہ 5)
اس منصوبہ کے مطابق جرمنی میں بھی محترم چودھری عبداللطیف صاحب نے 22 اپریل 1952ء کو جلسہ سیرت پیشوایان مذاہب منعقد کرنے کی توفیق پائی۔ اس کے لئے سائیکلو سٹائل کروا کر 400 کی تعداد میں دعوت نامے مختلف احباب، اخبارات، پریس ایجنسیوں اور یونیورسٹی کے پروفیسروں اور عیسائیوں کو بھجوائے گئے۔ ہمبرگ کے تین روزناموں میں اس کا اعلان شائع کیا۔ اس جلسہ کی صدارت ہمبرگ کے ایک مشہور مستشرق نے کی اور اس میں Dr. Dhawan نے حضرت کرشنؑ، Dr. Palmie نے حضرت بدھؑ اور Prof. Windfuhr نے حضرت عیسیٰؑ کے بارے میں تقاریر کیں جبکہ آنحضورﷺ کے بارے میں ایک مخلص نَو احمدی دوست محترم سعید Schultzصاحب نے تقریر کی۔ محترم چودھری عبداللطیف صاحب کے افتتاحی و تعارفی کلمات سے شروع ہونے والی یہ ایمان افروز تقریب دو گھنٹہ تک جاری رہی۔ ہمبرگ کے دو مشہور اخبارات نے تفصیلی خبریں شائع کیں جن میں تقاریر کے خلاصے بھی شامل تھے۔ ایک اخبار نے اس جلسہ کو صلح اور رواداری کی روح کے قیام کا ذریعہ قرار دیا۔(روزنامہ الفضل لاہور 2/ جولائی 1952ء صفحہ 5)

سکولوں میں لیکچرز

مکرم چودھری عبداللطیف صاحب نے مختلف سکولوں اور سوسائٹیوں میں جا جا کر اسلام کے بارے میں لیکچرز دینے کا سلسلہ بھی شروع کیا تھا۔ چنانچہ اس ضمن میں آپ نے یکم اپریل 1952ء کو ایک ہائی سکول کے وسیع ہال میں پون گھنٹہ تک لیکچر دیا جسے چار کلاسوں کے طلبہ اور ان کے تین اساتذہ نے سنا۔ بعدہ دو گھنٹے تک سوالات کے جوابات دئیے۔ اسی سلسلہ میں 9 مئی 1952ء کو بھی ایک سوسائٹی میں تقریر ہوئی۔ نصف گھنٹہ کے بعد ڈیڑھ گھنٹے تک سوال و جواب کی مجلس ہوئی۔ اس موقع پر محترم سعید Schultzصاحب نے بھی معاونت کی۔ تیسری تقریر نوجوانوں کی ایک سوسائٹی میں 29 مئی 1952 کو ہوئی۔ اس موقع پر بھی ایک گھنٹہ تک سوال وجواب ہوئے۔ یہ امر خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ مکرم چودھری عبداللطیف صاحب نے اپنے ساتھ نَو احمدی مخلص دوست محترم سعید Schultzصاحب کو بھی تربیت دے کر لیکچرز کے لئے تیار کیا تھا چنانچہ موصوف اکیلے بھی مختلف مجالس میں جانے لگے تھے۔(روزنامہ الفضل لاہور 2/ جولائی 1952ء صفحہ 5)

روابط

مکرم چودھری عبداللطیف صاحب ربوہ میں حضورؓ سے ملاقات کے بعد جس جذبہ کے ساتھ واپس لَوٹے تھے، اسے بروئےکار لاتے ہوئے آپ نے اپنے روابط بھی وسیع تر کئے۔ چنانچہ اخبارات میں شائع ہونے والی خبروں کے نتیجہ میں بہت سے لوگ آپ سے ملنے گھر چلے آتے۔ بعض شخصیات سے ملنے آپ خود بھی جاتے رہے۔ ان میں ہمبرگ یونیورسٹی کے Prof. Spuler، ہمبرگ کے بشپ Dr. Christa Hilbert، یہودی جماعت کے انچارج Mr. Goldstein اور جرمن نیوز ایجنسی کے نمائندہ خاص طور قابل ذکر ہیں۔ مؤخرالذکر نے محترم چودھری صاحب کا انٹرویو بھی لیا۔
مکرم چودھری عبداللطیف صاحب تعلیم و تربیت کے لئے نَو احمدی احباب سے بھی مسلسل رابطہ رکھتے، کبھی انہیں اپنے گھر بلاتے اور کبھی ان سے ملنے ان کے گھروں میں جاتے، نمازیں باجماعت ادا کرتے اور تربیتی امور سے متعلق گفتگو کرتے۔(روزنامہ الفضل لاہور 2/ جولائی 1952ء صفحہ 5)

ذرائع ابلاغ پر نظر

مکرم چودھری عبداللطیف صاحب کی ذرائع ابلاغ پر بھی گہری نظر تھی، چنانچہ اخبارات و رسائل میں شائع ہونے والے اسلام مخالف مضامین کے جوابات لکھتے اور لکھواتے۔ ہنوفر کے ایک ہفتہ وار اخبار میں اسلام میں عورت کے درجہ کے بارہ میں منفی قسم کا مضمون شائع ہوا تو آپ کے زیرِ تربیت مکرم سعید صاحب نے ایڈیٹر کے نام ایک مفصل جواب لکھا جو اسی اخبار کی 24 مئی 1952ء کی اشاعت میں شائع ہوا۔ علاوہ ازیں بیسیوں کی تعداد میں انفرادی تبلیغی خطوط لکھتے، “اسلام” کے نام سے ایک پرچہ بھی سو کی تعداد میں نکالتے اور زیرِتبلیغ احباب کو بھجواتے۔ رسالہ “میں اسلام کو کیوں مانتا ہوں” کا جرمن ترجمہ جلسہ پیشوایانِ مذاہب کے 45 شرکاء کو بھجوایا گیا۔ اس رسالہ کا ترجمہ 1950ء میں ایک ہزار کی تعداد میں شائع کیا گیا تھا۔ (روزنامہ الفضل لاہور 15/ فروری 1950ء صفحہ 4)
محترم چودھری صاحب کی ان کاوشوں کے ثمرات سے بھی خداتعالیٰ نوازتا رہا، چنانچہ26 مئی 1952ء کو ایک 70 سالہ زیرتبلیغ دوست مکرم Schönhalsصاحب بیعت کرکے حلقہ بگوش احمدیت ہوئے جن کا آپ نے اسلامی نام عبدالکریم صاحب رکھا۔
(روزنامہ الفضل 2 جولائی 1952ء)

نيورن برگ میں جماعت کا قیام

1952ء کے شروع ميں نيورن برگ کے بعض لوگوں کي جماعت احمديہ ميں شموليت کے بعد جرمني کے جنوب ميں بھي ايک جماعت قائم ہو چکي تھي۔ (روزنامہ الفضل لاہور 2/ جولائی 1952ء صفحہ 5) ان احباب سے ملاقات اور ان کی تربیت کی خاطر محترم چوہدري عبداللطيف صاحب نے اکتوبر 1952ء ميں اس نئي جماعت کا دَورہ کيا۔ آپ کے اس دَورہ کا چرچا ذرائع ابلاغ میں بھی ہوا۔ ایک مقامي اخبار Nürnberger Nachrichten نے اس دَورہ سے متعلق مندرجہ ذيل سرخي جمائي:
“عبداللطيف کي جماعت احمديہ سے ملاقات، ترقي پسند اسلامي جماعت کے بڑے رہنما کل نيورن برگ ميں وارد ہوئے’’ اس سرخی کے نیچے اخبار نے ایک تفصیلی خبر دی، جس میں

جماعت احمدیہ کا تعارف اور عقائد کا بھی ذکر کیا۔ اس خبر کا خلاصہ حسبِ ذیل ہے:
“عبداللطیف انچارج احمدیہ مشن نیورن برگ میں اپنی جماعت کو ملنے کے لیے آیا ہے۔ جماعت احمدیہ اسلام کی ایک نئی جماعت ہے اور غالباً یہی ایک جماعت ہے جو یورپ میں کامیابی حاصل کرسکے گی۔ اس جماعت کے عقائد قرآن کے عین مطابق ہیں۔ اس جماعت کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ دوسرے مسلمانوں کے خلاف جہاد کی تعریف یہ کرتی ہے کہ اسلام تلوار سے نہیں بلکہ قلم سے پھیلایا جائے گا۔ نیورن برگ کی جماعت نے اپنے معزز مہمان کا پھولوں سے استقبال کیا اور مسٹر لطیف نے ہمارا بھی مسکراہٹ سے استقبال کیا۔ ہمارے سوالات کے اس نے جواب اچھی جرمن میں دئیے اس نے ہمیں بتایا کہ جماعت احمدیہ کی بنیاد حضرت مرزا غلام احمد صاحب کے ذریعہ 1889ء میں رکھی گئی اور آج جماعت کی قیادت جماعت کے دوسرے خلیفہ حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحب کر رہے ہیں۔ جماعت کا مقصد اسلام کے متعلق غلط فہمیوں کا ازالہ اور صحیح تعلیمات کو دنیا میں پھیلانا ہے۔ جرمنی میں ہمارا مشن 1949ء سے قائم ہے۔ لنڈن میں ہماری مسجد ہے اور ھیگ میں ہم نے مسجد بنانے کے لیے زمین خرید لی ہے۔ جرمنی میں بھی مستقبل قریب میں ان شاءاللہ ہم مسجد بنا سکیں گے۔ یورپ میں ہمارے مشن انگلینڈ، جرمنی ہالینڈ، سوئٹزرلینڈ اور سپین میں کام کر رہے ہیں۔ امریکہ میں مختلف مقامات پر ہمارے مشن ہیں اور مساجد بھی ہیں۔ افریقہ میں جماعت کی تعداد امید افزا ہے۔”
(Nürnberger Nachrichten 22 Ocotber 1952)
نیورن برگ کے دورہ کے بعد 27 اکتوبر کو کیل (Kiel) کے دورہ پر گئے جہاں ایک ہائی سکول میں اسلامی تعلیمات کے بارہ میں لیکچر دیا۔ اگلے روز (Neumünster) گئے اور ایک سوسائٹی کے زیر اہتمام تقریر کی جس میں اسلام کی حقیقت ، توحید، تمام انبیاء پر ایمان، عورت کےمقام، اسلام کے اقتصادی نظام اور امن عالم سے متعلق اسلامی تعلیم پیش کر کے اسلام کی برتری ثابت کی۔ اس دوران کیل کے دینیات کے ماہر زیر تبلیغ ڈاکٹر ٹلٹاک نے آپ کی معاونت کی۔
مؤرخہ 28 نومبر 1952ء کو ہمبرگ میں ایک جلسہ کا انعقاد کیا۔ جس کے لئے اخبارات میں اشتہار اور اعلان شائع ہوئے۔ ڈیڑھ صد دعوت نامے مختلف لوگوں کو بھجوائے گئے۔ اس کی تفصیلی خبر ایک مقامی اخبار نے شائع کی جس کا خلاصہ مبلغ سلسلہ مکرم چودھری عبدا للطیف صاحب کے الفاظ میں اس طرح سے ہے:
کرسمس کے موقع پر ایک پیغام مرتب کرکے چار صد احباب کو بھجوایا جن میں جرمنی کے صدر ، چانسلر، تمام وزراء، ممبران پارلیمنٹ، ہمبرگ کے مئیر و دیگر افسران، جرمنی کے مشہور اخبارات کے مدیران، مشہور یونیورسٹیوں کے پروفیسرز، صحافی ، مشہور مستشرق اور زیر تبلیغ احباب شامل تھے۔ سال 1952ء کے اواخر میں نیورن برگ کی دو خواتین نےبیعت کرنے کی سعادت بھی پائی جن کے نام رشیدہ اور حمیدہ رکھے گئے۔
(روزنامہ الفضل لاہور مؤرخہ 22 جنوری 1953ء صفحہ 6 و 8 )
(باقی آئندہ، ان شاءاللہ)

متعلقہ مضمون

  • جلسہ سالانہ کی اہمیت

  • جماعتِ احمدیہ جرمنی کے ایک جفا کش دیرینہ خادم

  • جرمنی میں رہتے ہوئے سوئٹزرلینڈ میں کام کے مواقع