مل جائے تم کو دین کی دولت خدا کرے!

مالی قربانی کے ایمان افروز واقعات

(مکرم محمد عمران بشارت صاحب۔ مربی سلسلہ)

اسلام میں حقوق اللہ اور حقوق العباد کو ادا کرنے کی خاص تلقین کی گئی ہے۔ مالی قربانی ایک ایسا عمل ہے جس کے ذریعہ انسان ان دونوں قسم کے حقوق کو ادا کر سکتا ہے۔ یعنی خدا کی دی ہوئی نعمتوں کو دین کی ترقی کے لیے استعمال کرنے سے جہاں خداتعالیٰ کی خوشنودی حاصل ہوتی ہے وہاں حقوق العباد کی ادائیگی بھی ہو جاتی ہے۔لیکن اہم امر یہ ہے کہ ہماری یہ قربانی اللہ کے حضور پیش ہو کر مقبول بھی ہوجائے۔ اس کے لئے ہمیں دیکھنا ہوگا کہ وہ کون سی ایسی باتیں ہیں جن کا مالی قربانی کرتے ہوئے خیال رکھا جائے؟ آئیے حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کے ارشادات کی روشنی میں اس کا جائزہ لیتے ہیں۔

قربانی کرنے کی سوچ

سب سے پہلے ہمیں یہ غور کرنا ہے کہ قربانی کرتے ہوئے ہماری کیا سوچ ہونی چاہئے، اس بارہ میں حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ فرماتے ہیں:

‘‘جب ہم خدا کو دیتے ہیں تو یہ سمجھ کے دینا چاہئے، اگر یہ سمجھ کے دیں گے تو ہم میں سے ہر ایک کی ہر قربانی حسین ہو جائےگی کہ اے خدا! یہ جو میں تیرے حضور پیش کر رہا ہوں یہ آپ ہی کا ہے آپ ہی نے تو دیا تھا، میرا تو سارا وجود آپ کا ہے، میرا گھر، میرے بچے، میرے اہل و عیال، میرے رشتہ دار، میری تمام وہ چیزیں جن سے میں فائدہ اٹھاتا ہوں، جن سے زندگی کا لطف لیتا ہوں، سب کچھ تو نے دیا ہے۔ مجھے شرم آتی ہے یہ کہتے ہوئے کہ میں تیرے حضور کچھ پیش کر رہا ہوں مگر دل کی تمنا ہے، میں مجبور ہوں اس لئے اسے قبول فرما۔ روزانہ ہم یہی کرتے ہیں لیکن خیال نہیں آتا اور اکثر لوگ یہ بھول کر یہ سمجھتے ہیں کہ ہم دے رہے ہیں خدا کو کچھ۔ خدا کو کون دے سکتا ہے؟‘‘

(خطبہ جمعہ 2 جنوری 1987، خطبات طاہر جلد 6، ص18)

وعدہ کریں تو ڈَٹ جائیں

1974ء میں جب افراد جماعت احمدیہ پر حملے کئے جارہے تھے، گھروں کو لوٹا جا رہا تھا اور احباب فرقہ پرستی اور جاہلانہ عقائد کا نشانہ بن رہے تھے۔ اُس وقت بھی احمدی مخلصین قربانیاں کرنے سے دریغ نہیں کر رہے تھے۔ ان کو اموال و نفوس کی کوئی فکر نہیں تھی اور نہ ہی جلے ہوئے گھر ان کی ہمت اور قربانی کے جذبہ کو کم کرسکے۔ بلکہ اُن کواگر کسی چیز کا خیال تھا تو صرف اپنے دین اور خداتعالیٰ کی خوشنودی کا۔ ایسے نازک وقت میں مخلصین کے کیا جذبات تھےاس کا نقشہ کھینچتے ہوئے حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ فرماتے ہیں:

‘‘لوگ روتے ہوئے اور التجائیں کرتے ہوئے یہ درخواستیں دے رہے تھے کہ اے ہمارے آقا! دعا کریں کہ اس حال میں بھی خدا ہمیں اپنا وعدہ پورا کرنے کی توفیق بخشے۔ ہم اپنا کوئی وعدہ واپس نہیں لینا چاہتے۔ ہم پوری دیانت داری اور پورے خلوص سے یہ ارادہ کرتے ہیں کہ ہم نے جو وعدے کئے تھے وہ ہم ضرور ادا کریں گے۔ صرف اتنی التجا ہے کہ آپ بھی دعاؤں کے ذریعہ ہماری مدد کریں’’۔

(خطبات طاہر جلد اوّل، صفحہ40،خطبہ جمعہ 9جولائی 1982ء)

خداتعالیٰ ہمیشہ بڑھا کر دیتا ہے

قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ نے متعدد بار وعدہ فرمایا ہے کہ جو بھی اس کی راہ میں خرچ کرے گا، اسے میں کئی گنا بڑھا کر عطا کروں گا، اس کے نظّارے جماعت احمدیہ میں کثرت کے ساتھ نظر آتے ہیں۔ اس ضمن میں حضور فرماتے ہیں:

‘‘مجھے آج ہی میں جو ڈاک میں دیکھ رہا تھا اس میں ایک دلچسپ خط ملا۔ ایک صاحب لکھتے ہیں کہ مَیں نے پچھلے سال اپنی آمد کا 1/3 کم لکھوایا چندہ میں اور اگرچہ آپ کی آواز میرے کانوں تک پہنچی تھی کہ اگر نہیں دے سکتے تو دیانتداری سے کہہ دو ہم تمہیں معاف کر دیں گے لیکن جھوٹ نہیں بولنا لیکن وہ ان صاحب سے غلطی ہوگئی حالانکہ تاجر آدمی ہیں اور خداتعالیٰ کے فضل سے آمد اچھی تھی۔ وہ کہتے ہیں 1/3 لکھوا دیا۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے کچھ سبق اس طرح دینا تھا کہ آخر پر جب مَیں نے حساب کیا تو گزشتہ سال کی جو آمد تھی اس سے بعینہ 1/3 کم آمد ہوئی اور اس وقت مجھے معلوم ہوا کہ یہ اتفاقی حادثہ نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ مجھے بچانا چاہتا ہے۔ چنانچہ مَیں نے پھر اس آمد پر نہیں لکھوایا بلکہ اس سے پچھلے سال جو زائد آمد تھی اس پر بجٹ لکھوایا جو اس سال گزر رہا ہے اور نتیجہ یہ نکلا کہ میری گمی ہوئی چیزیں واپس مل گئیں، چوری کیے ہوئے مال واپس آنے شروع ہوگئے، جو پیسے مارے گئے تھے وہ واپس آنا شروع ہوگئے اور اس سے بھی آمد میری بڑھ گئی’’۔

(خطبہ جمعہ 26 اکتوبر 1984، خطبات طاہر جلد 3، ص607)

اسی طرح حضور رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

‘‘ایک دوست نے مجھے لکھاکہ ایک انسپکٹر مال صاحب نے اندازہ لگا کر میرے متعلق کہ میری اتنی آمد ہوگی ٹھیکیدار ہوں، اتنا بڑا کاروبار ہے مجھے کہا کہ آپ دس ہزار چندہ کیوں نہیں لکھاتے تو میں نے اسے کہاکہ توفیق نہ بھی ہوتو لکھواؤں؟ اس نے مجھ سے یہ بحث نہیں کی کہ توفیق ہے کہ نہیں۔ اس نے کہا پھر بھی لکھوا دیں دیکھیں خدا کیا فضل کرتا ہے۔ کہتے ہیں مَیں نے لکھوا دیا اور سال پورا نہیں ہوا تھا کہ میرا کاروبار جو ہمیشہ تین لاکھ کے پھیر میں رہتا تھا ٹھیکوں کے وہ ایک سال کے اِختتام سے پہلے تیس چالیس لاکھ تک پہنچ گیا اور اب مَیں نے کام لینے چھوڑ دئیےہیں کیونکہ مَیں سنبھال ہی نہیں سکتا اور یہ دس ہزارکی ادائیگی مجھے پتا بھی نہیں لگاکہ کیسے ادا ہے’’۔

(خطبات طاہر جلد 6 صفحہ383، 384، خطبہ جمعہ 5 جون 1987ء)

کمزوریوں کو دور کریں

یہ تو ہوتا ہی ہے کہ لوگ اچھے حالات میں اپنے چندے بڑھا دیتے ہیں اور دِل کھول کر زیادہ خرچ کرتے ہیں لیکن احباب جماعت کی حالت تنگی کے زمانہ میں بھی نہیں بدلتی۔ اس بارہ میں حضور رحمہ اللہ نے فرمایا ہے:

‘‘لیکن جب تنگی کے دن آتے ہیں، تو پھر بھی وہ کمی نہیں آنے دیتے۔ جو سختی آتی ہے اپنے اوپر لے لیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ یہ سختی ہماری بد اعمالیوں کے نتیجہ میں، ہماری کمزوریوں کے نتیجہ میں ہے اس لئے خدا کی راہ میں دیے جانے والے اموال پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑنا چاہئے’’۔

(خطبہ جمعہ 12 جولائی 1985ء، خطبات طاہر جلد 4، صفحہ608)

ہمیشہ خلیفہ وقت کی آواز پر لبیک

حضورؒ نے (مختلف زبانوں میں کتب کی کتابت کے لیے کمپیوٹرائزڈ سسٹم کی خرید کے لیے) ڈیڑھ لاکھ پونڈ کی تحریک کرکے فرمایا کہ مَیں اپنی طرف سے ایک ہزار پونڈ سے اِس تحریک کا آغاز کرتا ہوں۔ مزید فرمایا:

‘‘مجھے علم ہے اس وقت جماعت کی جو حالت ہے وہ یہ ہے اگر میں پانچ آدمیوں کو کہوں کہ آپ دے دیں تو بِلا تردّد وہ شکریہ ادا کرتے ہوئے یہ رقم فوراً دے دیں گے۔ اگر میں ڈیڑھ سو آدمیوں کو کہوں کہ ایک ایک ہزار پونڈ دے دو تو ڈیڑھ سو آدمی آسانی سے جماعت میں دے دے گا’’۔

(خطبات طاہر جلد 4 صفحہ623-624، خطبہ جمعہ 12 جولائی 1985ء)

زیادہ دینے کے بہانے

حضور رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

‘‘بعض لوگ تو اپنے اَموال کے پیمانے تنگ کرنے کا رُجحان رکھتے ہیں اور یہی سوچیں سوچتے رہتے ہیں کہ کس بہانے کم دوں اور جھوٹا بھی ثابت نہ ہوں اور بعض لوگ ہیں جو زیادہ دینے کے بہانے ڈھونڈتے رہتے ہیں اور وہی ہیں جو حقیقی متقی ہیں۔ ان کے اموال میں، ان کے ساتھ خدا کے فضلوں کے سلوک میں ایک ایسی شان پائی جاتی ہے جو دوسروں کو نصیب نہیں ہوتی’’۔

(خطبات طاہر جلد 5، صفحہ480، خطبہ جمعہ 4 جولائی 1986ء)

تنگ حالات میں بھی قربانی

حقیقی مومن کی علامت اللہ تعالیٰ نے یہ بیان فرمائی ہے کہ یُنۡفِقُوۡنَ فِی السَّرَّآءِ وَالضَّرَّآءِ یعنی آسائش میں بھی خرچ کرتے ہیں اور تنگی میں بھی۔ ان مومنوں کی قربانیوں کا منظر حضورؒ کے اِس اِقتباس میں دیکھا جا سکتا ہے:

‘‘اصحابِ صُفّہ وہ لوگ ہیں جن کے کمائی کے کوئی ذریعے نہیں تھے جو اپنے آپ کو خالصةً للہ وقف کرکے مسجدوں میں دھونی رَما کے بیٹھ گئے تھے اور آنحضرتؐ کی کسی بات کو بھی کھونا نہیں چاہتے تھے ہاتھ سے، اس لئے ہر وقت مسجدوں سے چمٹے ہوئے تھے اور غرباء تھے۔ جب انہوں نے سمجھا کہ مالی قربانی کی کتنی عظمت ہے تو باوجود اس کے کہ خود ان کا گزارہ لوگوں کے لائے ہوئے تحائف اور ہدیوں پر تھا۔ ان میں سے بہت سے ایسے تھے جنہوں نے کلہاڑیاں بنائیں اور جنگلوں میں نکل گئے اور لکڑیاں کاٹیں اور شہر میں لا کر بیچیں اور جو حاصل کیا وہ خود خدا کی راہ میں خرچ کرنا شروع کیا تاکہ وہ اس عظمت سے محروم نہ رَہ جائیں۔

پس ان اصحاب صفہ کی درخشندہ مثال کے نتیجے میں اب قیامت تک کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں تو غریبانہ گزارہ کرنے والا ہوں میں کیسے چندہ دوں کیونکہ میری تو روزمرہ کی زندگی اس طرح گزرتی ہے کہ مجھے حکومت یا کوئی دوسرے ادارے زندہ رہنے کا الاؤنس دے رہے ہیں اس لئے چندہ ان پر فرض ہے جو کماتے ہیں میں تو بمشکل الاؤنس پہ رہتا ہوں’’۔

(خطبات طاہر جلد 6، صفحہ380، خطبہ جمعہ 5 جون 1987ء)

خداتعالیٰ کی غائبانہ مدد

اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والوں کے ساتھ اس کا کیا سلوک ہوتا ہے، اس کی مثال دیتے ہوئے حضورؒ فرماتے ہیں:

‘‘اس سے بھی زیادہ ایک اور عظیم الشان مثال زیادہ دلچسپ مثال یہ ہے کہ (زیورک۔ناقل) آنے سے پہلے لندن میں ایک دوست میرے پاس آئے اور ان کے ہاتھ میں دو چیک تھے ایک پینتالیس ہزار پاؤنڈ کا اور ایک چالیس ہزار پاؤنڈ کا۔ مَیں نے کہا یہ کیسے چیک ہیں تو انہوں نے کہا اس چیک کے ساتھ ایک کہانی وابستہ ہے وہ پہلے سن لیں پھر آپ کو سمجھ آئے گی۔ انہوں نے کہا کہ جب آپ نے تحریک کی صد سالہ جوبلی کے لئے تو اس مَیں اس قسم کے الفاظ تھے کہ تاجر جو ہیں وہ بھی حوصلہ کریں خدا کی راہ میں قربانی کے لئے ہمت دکھائیں، دیکھیں تو سہی کہ خداتعالیٰ کس طرح غائبانہ مدد کرتا ہے۔ وہ کہتے ہیں اس سے میرے دل پر اتنا گہرا اثر پڑا کہ میری تجارت چھوٹی تھی باوجود اس کے کہ میرے پاس پیسہ نہیں تھا مَیں نے بنک سے ایک لاکھ قرض لیا اور چندہ اداکر دیا۔ اس واقعہ کو چار سال گزرے ہیں کہتے ہیں اب اس وقت میرا سالانہ جو چندہ عام بنتا ہے وہ کچھ مَیں جماعت میں باقاعدہ اداکرتا رہا ہوں اب سال کے آخر پر جو مَیں نے حساب کیا ہے تو پینتالیس ہزار پاؤنڈ میرے ذمہ بن رہاہے چندہ عام کا جو مَیں اب ادا کر رہا ہوں۔ چار سال پہلے جو ایک لاکھ چندہ ادا کرنے کے لئے قرض لے رہا تھا اور اس کو بہت ہی بڑاتیر سمجھ رہا تھا کہ مَیں نے تیر مار دیا ہے قربانی کا۔ اب وہ بیک وقت سولہ لاکھ کے لگ بھگ چندہ ادا کر رہا ہے سارا چندہ شامل نہیں ہے اس میں۔ دوسرے اس نے کہا کہ شکرانے کے طور پر مَیں نے فیصلہ کیا کہ جس تحریک کی وجہ سے خدا نے اتنی عظیم برکت ڈالی ہے اس چندے کو مَیں بڑھا دوں چنانچہ مَیں نے پچاس ہزار پاؤنڈ مزید صدسالہ جوبلی کا دینے کا فیصلہ کیا تھا دس ہزار مَیں ادا کر چکا ہوں بقیہ چالیس ہزار پاؤنڈ کا یہ چیک مَیں ابھی آپ کے لئے لے کے آیا ہوں’’۔

(خطبات طاہر جلد 6، صفحہ384، خطبہ جمعہ 5 جون 1987ء)

مالی قربانی ایک چَسکا ہے

حضورؒ فرماتے ہیں:

‘‘مالی قربانی جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے واقعی ایک چسکا ہے۔ دنیا والے جس طرح آج کل Drug Addiction میں مبتلا ہو رہے ہیں۔ مَیں نے دیکھا ہے جماعت احمدیہ میں بہت سارے احمدی ایسے ہیں جن کو چندے کی ‘ایڈیکشن’ ہوگئی ہے’’۔

(خطبات طاہر جلد 8، صفحہ883۔ خطبہ جمعہ 29 دسمبر 1989ء)

مالی قربانی ٹیکس نہیں ہے

‘‘لیکن خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ بھی صاحبِ فراست بندے ہیں۔ نہ تو تم مجھے دھوکا دے سکتے ہو، نہ ان بندوں کو دھوکا دے سکتے ہو۔ تمہارا رَہن سہن، تمہارا معاشرہ، تمہاری زندگی کی اقدار ساری کی ساری یہ بتا رہی ہیں کہ تمہارے اموال کتنے ہیں۔ مگر چونکہ یہ ایک ٹیکس کا نظام نہیں اس لئے اخلاقاً بھی، تہذیباً بھی اور نظام سلسلہ کی پیروی میں بھی جملہ کارکنان سلسلہ جو منہ سے کوئی کہتا ہے وہ اسے قبول کرلیتے ہیں۔ یہ جانتے ہوئے بھی قبول کرلیتے ہیں کہ یہ شخص کہنے والا اپنے قول میں سچا نہیں ہے’’۔

(مالی قربانی ایک تعارف صفحہ29-30۔ خطبہ جمعہ 23 جولائی 1982ء)

خداتعالیٰ واپس چھین لینے پر قادر ہے

‘‘واقعات جو گزر جاتے ہیں وہ ایسے تمام دھوکے دینے والوں کے لئے انتہائی خطرہ کا موجب بن جاتے ہیں ان کی ساری عمر کی قربانیاں رائیگاں جاتی ہیں۔ ان کے اموال سے برکت چھین لی جاتی ہے۔ وہ طرح طرح کی مصیبتوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ ان کو چَٹّیاں پڑتی ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ جو جانتا ہے۔ اس کے عطا کے رستے بھی بہت ہیں اور واپس لینے کے رستے بھی بہت ہیں۔ رزق سے جو برکتیں ملا کرتی ہیں چَین اور تسکین اور آرام جان کی برکتیں، وہ برکتیں بھی ان سے چھین لی جاتی ہیں۔ بسا اوقات ایسے خاندانوں کے اموال ان کی آنکھوں کے سامنے ضائع ہو رہے ہوتے ہیں وہ کچھ نہیں کر سکتے’’۔

(مالی قربانی ایک تعارف، صفحہ30۔ خطبہ جمعہ 23 جولائی 1982ء)

چندہ دینے والا احمدی ضائع نہیں جاتا

اس کے بالمقابل حضورؒ فرماتے ہیں:

‘‘الا ما شاء اللہ شاذ کے طور پر کبھی ہو تو ہو ورنہ چندہ دینے والا احمدی ضائع نہیں جاتا’’۔

(خطبات طاہر جلد 5، صفحہ722، خطبہ جمعہ 31 اکتوبر 1986ء)

دعا نہ چھوڑیں

آخر پر حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کی ایک نصیحت پیش ہے، فرماتے ہیں:

‘‘اب یہ دعا کرنی چاہئے کہ جو کوتاہیاں ہم سے ہوگئیں اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اُن کے اوپر ستّاری کا پردہ ڈال دے اور ہماری غفلتوں کو بھی نظر انداز کرتے ہوئے نیکیوں کے طور پر شمار کرلے اور ہماری استعدادوں کو بھی بڑھائے اور ہمیں اپنی استعدادوں تک پہنچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ یہاں تک کہ نیکی کے ہر میدان میں ہم اُس کنارے تک پہنچ جائیں جس کے آگے ہماری بشریت کی حد کے لحاظ سے بڑھنا ممکن نہ رہے اور پھر ہم خدا کے لا انتہا فضلوں کے وارث بنتے چلے جائیں’’۔

(خطبات طاہر جلد8 صفحہ10،خطبہ جمعہ 6جنوری 1989ء)

خداتعالیٰ ہمیں ہمیشہ اپنی رحمت و فضل کے سائے تلے رکھے اور ہمیں علم و عرفان میں بڑھاتا چلا جائے، آمین

متعلقہ مضمون

  • جلسہ سالانہ کی اہمیت

  • جماعتِ احمدیہ جرمنی کے ایک جفا کش دیرینہ خادم

  • جرمنی میں رہتے ہوئے سوئٹزرلینڈ میں کام کے مواقع