گزشتہ سالوں کی طرح اس سال بھی پاکستان میں احمدیوں کو عیدالاضحی کے موقع پر مذہبی تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور قربانی سے روکا گیا۔ اس سلسلہ میں مختلف شہروں سے 30 سے زائد افراد جماعت کو گرفتار کیا گیا جن میں گوجرانوالہ سے تعلق رکھنے والاایک 13 سالہ احمدی بچہ بھی شامل ہے۔ ان تکلیف دہ واقعات کی مختصر رپورٹ درج ذیل ہے۔

 *  23 احمدی احباب کو MPO کے تحت گرفتار کیا گیا۔

 *  بعض احمدیوں کو چند گھنٹوں کے لئے اور بعض کو ایک رات کے بعد رہا کر دیا گیا مگر ان سب کو عید کے دن جیل میں اسیر رہنا پڑا۔

 *  18 احمدی احباب کے خلاف تعزیرات پاکستان کی دفعہ 298-C کے تحت 12 فوجداری مقدمات درج کئے گئے۔

 *  11 احمدیوں کو اس دفعہ کے تحت گرفتار کیا گیا اور ان میں سے 7 ابھی بھی قید میں ہیں۔

ان افراد کا تعلق سرگودھا، گوجرانوالہ، ٹوبہ ٹیک سنگھ، شیخوپورہ، رحیم یارخاں، خوشاب، عمر کوٹ، چکوال اور سیالکوٹ سے ہے۔

جماعت احمدیہ کے نمائندہ عامر محمود صاحب نے کہا کہ پاکستان میں ہونے والی اس منظّم مخالفت بالخصوص عید کے تہوار پر ہراساں کئے جانے اور قربانی سے روکے جانے کی مذمت کرتی ہے۔ ہم حکومت پاکستان سے اپیل کرتے ہیں کہ مذہبی رواداری اور انسانی حقوق جیسی اقدار کا تحفظ کرے۔

بی بی سی اردو کی نمائندہ ترہب اصغر پاکستان میں عیدالاضحی کے موقع پر احمدیوں پر ہونے والے مقدمات کے ضمن میں لکھتی ہیں:

گذشتہ دو دن میں احمدی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے خلاف گجرانوالہ، سرگودھا، فاروق آباد، سیالکوٹ، شیخوپورہ اور ٹوبہ ٹیک سنگھ سمیت دیگر شہروں اور قصبوں میں درجنوں مقدمات درج کیے گئے ہیں۔ جن میں زیادہ تر ایف آئی آرز (FIR) کا متن یہی درج کیا گیا ہے کہ ‘‘ان کی قربانی کی کوشش یا قربانی کی نیّت سے جانور خریدنے سے ہمارے مذہبی جذبات مجروح ہوئے ہیں۔

کچھ ایف آئی آرز ایسی ہیں جن کو پولیس کی جانب سے پاکستان تحریک لبیک کی مدعیت میں درج کیا گیا ہے۔ تاہم کئی علاقوں میں باقاعدہ ڈپٹی کمشنر کی جانب سے ایم پی او کے تحت بھی کئی لوگوں کو گرفتار کیا گیا تاکہ وہ عید پر قربانی نہ کر سکیں۔ یاد رہے کہ ماضی میں ایسی گرفتاریوں پر پولیس کا یہ مؤقف بھی سامنے آیا تھا کہ ایسا نقصِ امن سے بچنے کے لیے کیا گیا تھا۔ اس بار بھی پولیس حکام کا کہنا ہے کہ مذکورہ دونوں معاملات میں بھی نقصِ امن کے خطرے کے پیشِ نظر لوگوں کو تحویل میں لیا گیا ہے تاہم جن معاملات میں ایف آئی آر ہوئی ہیں وہ آئین کی دفعہ 298 سی کے تحت مقدمات قائم کیے گئے ہیں۔ اس دفعہ کے تحت جماعت احمدیہ کا کوئی رکن خود کو مسلمان ظاہر نہیں کر سکتا۔

پاکستان میں جماعت احمدیہ کے ایک ترجمان عامر محمود نے کہا کہ گذشتہ سال سپریم کورٹ نے قرار دیا تھا کہ احمدی اپنی چار دیواری کے اندر اپنے مذہب پر عمل کرنے کی مکمل آزادی رکھتے ہیں۔ ان کا اشارہ جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس امین الدین خان کا وہ فیصلہ ہے جس میں لکھا ہے کہ ’غیر مسلم اقلیت کو اس کے مذہبی عقائد رکھنے اور چار دیواری میں ان پر عمل کرنے سے روکنا آئین کے خلاف ہے‘۔

ان کا دعویٰ ہے کہ عید پر ’احمدیوں کو گرفتار کیا گیا اور ان کے خلاف مقدمات قائم کیے گئے ہیں۔ احمدیوں نے یہ عید خوف اور تشویش میں گزاری ہے۔ پنجاب پولیس کے یہ اقدامات ماورائے قانون ہیں اور آئین پاکستان کے آرٹیکل 20 اور سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلے کی واضح خلاف ورزی ہیں‘۔

عامر محمود نےمزید کہا کہ’محب وطن پاکستانی احمدیوں کو عبادات سے روکنا انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ پاکستان میں بالعموم اور پنجاب میں تقریباً ہر ضلع میں شرپسند عناصر کے ساتھ ساتھ قانون نافذ کرنے والے اہلکار بھی احمدیوں کو ہراساں کر رہے ہیں‘۔

انہوں نے کہا کہ’ عیدالاضحی کے موقع پر احمدیوں کو قربانی کرنے سے زبردستی روکنا اور احمدیوں کو ہراساں کرنا، سرکاری انتظامیہ کی جانب سے ماورائے قانون اقدامات کے مترادف ہے‘۔

احمدی برادری کا دعویٰ ہے کہ رواں برس ہونے والی کارروائیوں اور پولیس مقدمات کی تعداد ماضی کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔

www.bbc.com/urdu/articles/cj553rl41gmo

(اخبار احمدیہ جرمنی شمارہ جولائی 2024ء صفحہ 41)

متعلقہ مضمون

  • جلسہ سالانہ کی اہمیت

  • پرواز بلند ہے جس کے تخیل کی

  • ایک احمدی خاتون صحافی کی عدالتی کامیابی