اِس جگہ میں اس بات کے اظہار اور اس کےشکر کے ادا کرنے کے بغیر رہ نہیں سکتا کہ خداتعالیٰ کے فضل وکرم نے مجھے اکیلا نہیں چھوڑا۔ میرے ساتھ تعلق اخوت پکڑنے والے اور اس سلسلہ میں داخل ہونے والے جس کو خداتعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے قائم کیا ہے محبّت اور اخلاص کے رنگ سے ایک عجیب طرز پر رنگین ہیں۔ نہ مَیں نے اپنی محنت سے بلکہ خداتعالیٰ نے اپنے خاص احسان سے یہ صدق سے بھری ہوئی روحیں مجھے عطا کی ہیں۔سب سے پہلے میں اپنے ایک روحانی بھائی کے ذکر کرنے کے لئے دل میں جوش پاتا ہوں جن کا نام اُن کے نورِاخلاص کی طرح نور دین ہے میں اُن کی بعض دینی خدمتوں کو جو اپنے مال حلال کے خرچ سے اعلاء کلمہ اسلام کے لئے وہ کر رہے ہیں ہمیشہ حسرت کی نظر سے دیکھتا ہوں کہ کاش وہ خدمتیں مجھ سے بھی ادا ہو سکتیں۔ اُن کے دل میں جو تائید دین کے لئے جوش بھرا ہے اُس کے تصور سے قدرتِ الٰہی کا نقشہ میری آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے کہ وہ کیسے اپنے بندوں کو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے۔ وہ اپنے تمام مال اور تمام زور اور تمام اسباب مقدرت کے ساتھ جو اُن کو میسر ہیں ہر وقت اللہ رسول کی اطاعت کے لئے مستعد کھڑے ہیں اور مَیں تجربہ سے نہ صرف حسن ظن سے یہ علم صحیح واقعی رکھتا ہوں کہ اُنہیں میری راہ میں مال کیا بلکہ جان اور عزت تک دریغ نہیں۔ اور اگر میں اجازت دیتا تو وہ سب کچھ اس راہ میں فدا کرکے اپنی روحانی رفاقت کی طرح جسمانی رفاقت اور ہر دم صحبت میں رہنے کا حق ادا کرتے۔ اُن کے بعض خطوط کی چند سطریں بطورنمونہ ناظرین کو دکھلاتا ہوں تا انہیں معلوم ہو کہ میرے پیارے بھائی مولوی حکیم نور دین بھیروی معالج ریاست جموں نے محبت اور اخلاص کے مراتب میں کہاں تک ترقی کی ہے اور وہ سطریں یہ ہیں۔

مولانا، مرشدنا، امامنا۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہٗ

عالی جناب میری دعا یہ ہے کہ ہر وقت حضور کی جناب میں حاضر رہوں اور امام زمان سے جس مطلب کے واسطے وہ مجدد کیا گیا وہ مطالب حاصل کروں۔ اگر اجازت ہو تو میں نوکری سے استعفا دے دوں اور دن رات خدمت عالی میں پڑا رہوں یا اگر حکم ہو تو اس تعلق کو چھوڑ کر دنیا میں پھروں اور لوگوں کو دین حق کی طر ف بلائوں اور اسی راہ میں جان دوں۔ میں آپ کی راہ میں قربان ہوں۔ میرا جو کچھ ہے میرا نہیں آپ کا ہے۔ حضرت پیرو مرشد میں کمال راستی سے عرض کرتا ہوں کہ میرا سارا مال و دولت اگر دینی اشاعت میں خرچ ہو جائے تو میں مراد کو پہنچ گیا۔ اگر خریدار براہین کے توقف طبع کتاب سے مضطرب ہوں تو مجھے اجازت فرمائیے کہ یہ ادنیٰ خدمت بجا لائوں کہ اُن کی تمام قیمت ادا کردہ اپنے پاس سے واپس کر دُوں۔ حضرت پیر و مرشد نابکار شرمسار عرض کرتا ہے اگر منظور ہو تو میری سعادت ہے۔ میرا منشاء ہے کہ براہین کے طبع کا تمام خرچ میرے پر ڈال دیا جائے پھر جو کچھ قیمت میں وصول ہو وہ روپیہ آپ کی ضروریات میں خرچ ہو۔ مجھے آپ سے نسبت فاروقی ہے اور سب کچھ اس راہ میں فدا کرنے کے لئے طیار ہوں۔ دعا فرماویں کہ میری موت صدیقوں کی موت ہو۔
مولوی صاحب ممدوح کا صدق اور ہمّت اور اُن کی غمخواری اور جان نثاری جیسے اُن کے قال سے ظاہر ہے اس سے بڑھ کر اُن کے حال سے اُن کی مخلصانہ خدمتوں سے ظاہر ہو رہا ہے اور وہ محبّت اور اخلاص کے جذبہ کاملہ سے چاہتے ہیں کہ سب کچھ یہاں تک کہ اپنے عیال کی زندگی بسر کرنے کی ضروری چیزیں بھی اسی راہ میں فدا کر دیں۔ اُن کی روح محبّت کے جوش اور مستی سے اُن کی طاقت سے زیادہ قدم بڑھانے کی تعلیم دے رہی ہے اور ہر دم اور ہر آن خدمت میں لگے ہوئے ہیں لیکن یہ نہایت درجہ کی بےرحمی ہے کہ ایسے جان نثار پر وہ سارے فوق الطاقت بوجھ ڈال دیئے جائیں جن کو اُٹھانا ایک گروہ کا کام ہے۔ بےشک مولوی صاحب اس خدمت کو بہم پہنچانے کے لئے تمام جائداد سے دست بردار ہو جانا اور ایوب نبی کی طرح یہ کہنا کہ ‘‘مَیں اکیلا آیا اور اکیلا جائوں گا’’ قبول کرلیں گے لیکن یہ فریضہ تمام قوم میں مشترک ہے اور سب پر لازم ہے کہ اس پُر خطر اور پُرفتنہ زمانہ میں کہ جو ایمان کے ایک نازک رشتہ کو جو خدا اور اُس کے بندے میں ہونا چاہیے بڑے زور شور کے ساتھ جھٹکے دے کر ہلا رہا ہے اپنے اپنے حسن خاتمہ کی فکر کریں اور وہ اعمال ِصالحہ جن پر نجات کا انحصار ہے اپنے پیارے مالوں کے فدا کرنے اور پیارے وقتوں کو خدمت میں لگانے سے حاصل کریں اور خداتعالیٰ کے اُس غیرمتبدل اور مستحکم قانون سے ڈریں جو وہ اپنے کلام عزیز میں فرماتا ہے لَنۡ تَنَالُوا الۡبِرَّ حَتّٰی تُنۡفِقُوۡا مِمَّا تُحِبُّوۡنَ یعنی تم حقیقی نیکی کو جو نجات تک پہنچاتی ہے ہر گز پا نہیں سکتے بجز اس کے کہ تم خداتعالیٰ کی راہ میں وہ مال اور وہ چیزیں خرچ کرو جو تمہاری پیاری ہیں۔

حاشیہ: حضرت مولوی صاحب علوم فقہ اور حدیث اور تفسیر میں اعلیٰ درجہ کے معلومات رکھتے ہیں۔ فلسفہ اور طبعی قدیم اور جدید پر نہایت عمدہ نظر ہے۔ فن طبابت میں ایک حاذق طبیب ہیں ہر ایک فن کی کتابیں بلاد مصر و عرب و شام و یورپ سے منگوا کر ایک نادر کتب خانہ طیار کیا ہے اور جیسے اور علوم میں فاضل جلیل ہیں مناظرات دینیہ میں بھی نہایت درجہ نظر وسیع رکھتے ہیں۔ بہت سی عمدہ کتابوں کے مؤلف ہیں۔ حال میں کتاب تصدیق براہین احمدیہ بھی حضرت ممدوح نے ہی تالیف فرمائی ہے جو ہر ایک محققانہ طبیعت کے آدمی کی نگاہ میں جواہرات سے بھی زیادہ بیش قیمت ہے۔ (فتح اسلام۔ روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 35-38)

حبّی فی اللہ مولوی حکیم نور دین صاحب بھیروی۔ مولوی صاحب ممدوح کا حال کسی قدررسالہ فتح اسلام میں لکھ آیا ہوں لیکن ان کی تازہ ہمدردیوں نے پھر مجھے اس وقت ذکر کرنے کا موقعہ دیا۔ اُن کے مال سے جس قدرمجھے مدد پہنچی ہے میں کوئی ایسی نظیر نہیں دیکھتا جو اس کے مقابل پر بیان کر سکوں۔ مَیں نے ان کو طبعی طور پر اور نہایت انشراح صدر سے دینی خدمتوں میں جان نثار پایا۔ اگرچہ ان کی روز مرہ زندگی اسی راہ میں وقف ہے کہ وہ ہر یک پہلو سے اسلام اور مسلمانوں کے سچّے خادم ہیں مگر اس سلسلہ کے ناصرین میں سے وہ اوّل درجہ کے نکلے۔ مولوی صاحب موصوف اگرچہ اپنی فیاضی کی وجہ سے اس مصرعہ کے مصداق ہیں کہ قرار در کفِ آزادگاں نگیرد مال لیکن پھر بھی انہوں نے بارہ سو روپیہ نقد متفرق حاجتوں کے وقت اس سلسلہ کی تائید میں دیا۔ اور اب بیس روپے ماہواری دینا اپنے نفس پر واجب کر دیا اور اس کے سوا اور بھی ان کی مالی خدمات ہیں جو طرح طرح کے رنگوں میں ان کا سلسلہ جاری ہے مَیں یقیناً دیکھتاہوں کہ جب تک وہ نسبت پیدا نہ ہو جو محب کو اپنے محبوب سے ہوتی ہے تب تک ایسا انشراح صدر کسی میں پیدا نہیں ہوسکتا۔ اُن کو خدائےتعالیٰ نے اپنے قوی ہاتھ سے اپنی طرف کھینچ لیا ہے اور طاقت بالا نے خارق عادت اثر اُن پر کیا ہے۔

انہوں نے ایسے وقت میں بلا تردّد مجھے قبول کیاکہ جب ہر طرف سے تکفیر کی صدائیں بلند ہونے کو تھیں اور بہتیروں نے باوجود بیعت کے عہد بیعت فسخ کر دیا تھا اور بہتیرے سُست اور متذبذب ہوگئے تھے۔ تب سب سے پہلے مولوی صاحب ممدوح کا ہی خط اس عاجز کے اس دعویٰ کی تصدیق میں کہ میں ہی مسیح موعود ہوں قادیان میں میرے پاس پہنچا جس میں یہ فقرات درج تھے۔ اٰمنّا وصدقنا فاکتبنا مع الشَّاھدین مولوی صاحب موصوف کے اعتقاد اور اعلیٰ درجہ کی قوتِ ایمانی کا ایک یہ بھی نمونہ ہے کہ ریاست جموں کے ایک جلسہ میں مولوی صاحب کا ایک ڈاکٹر صاحب سے جن کا نام جگن ناتھ ہے اس عاجز کی نسبت کچھ تذکرہ ہوکر مولوی صاحب نے بڑی قوت اور استقامت سے یہ دعویٰ پیش کیا کہ خدائےتعالیٰ اُن کے یعنی اس عاجز کے ہاتھ پر کوئی آسمانی نشان دکھلانے پر قادر ہے۔ پھر ڈاکٹر صاحب کے انکار پر مولوی صاحب نے ریاست کے بڑے بڑے ارکان کی مجلس میں یہ شرط قبول کی کہ اگر وہ یعنی یہ عاجز کسی مدت مسلّمہ فریقین پر کوئی آسمانی نشان دکھلا نہ سکے تو مولوی صاحب ڈاکٹر صاحب کو پنج ہزار روپیہ بطور جرمانہ دیں گے اور ڈاکٹر صاحب کی طرف سے یہ شرط ہوئی کہ اگر انہوں نے کوئی نشان دیکھ لیا تو بِلا توقف مسلمان ہوجائیں گے اور اِن تحریری اقراروں پر مندرجہ ذیل گواہیاں ثبت ہوئیں۔
خان بہادر جنرل ممبر کونسل ریاست جموں غلام محی الدین خاں
سراج الدین احمد سپرنٹنڈنٹ و افسر ڈاکخانجات ریاست جموں
سرکار سنگھ سیکرٹری راجہ امر سنگھ صاحب بہادر پریذیڈنٹ کونسل
مگر افسوس کہ ڈاکٹر صاحب ناقابل قبول اعجازی صورتوں کو پیش کرکے ایک حکمت عملی سے گریز کرگئے۔ چنانچہ انہوں نے ایک آسمانی نشان یہ مانگاکہ کوئی مرا ہوا پرندہ زندہ کر دیا جائے حالانکہ وہ خوب جانتے ہوں گے کہ ہمارے اصولوں سے یہ مخالف ہے۔ ہمارا یہی اصول ہے کہ مُردوں کو زندہ کرنا خدائےتعالیٰ کی عادت نہیں اور وہ آپ فرماتا ہے وَحَرٰمٌ عَلٰی قَرْیَۃٍ اَہْلَکْنٰہَا اَنَّہُمْ لَا یَرْجِعُوْنَ۔ یعنی ہم نے یہ واجب کر دیا ہے کہ جو مَر گئے پھر وہ دنیا میں نہیں آئیں گے۔ مَیں نے ڈاکٹر صاحب کو یہ کہا تھا کہ آسمانی نشان کی اپنی طرف سے کوئی تعیین ضروری نہیں بلکہ جو اَمر انسانی طاقتوں سے بالاتر ثابت ہو خواہ وہ کوئی امر ہو اسی کو آسمانی نشان سمجھ لینا چاہیے اور اگر اس میں شک ہو تو بالمقابل ایسا ہی کوئی دوسرا امر دکھلا کر یہ ثبوت دینا چاہیے کہ وہ امر الٰہی قدرتوں سے مخصوص نہیں لیکن ڈاکٹر صاحب اس سے کنارہ کرگئے اور مولوی صاحب نے وہ صدق قدم دکھلایا جو مولوی صاحب کی عظمت ایمان پر ایک محکم دلیل ہے۔ دل میں از بس آرزو ہے کہ اَور لوگ بھی مولوی صاحب کے نمونہ پر چلیں۔ مولوی صاحب پہلے راستبازوں کا ایک نمونہ ہیں۔ جزاہم اللہ خیرا الجزاء و احسن الیہم فی الدنیا والعقبٰی
(ازالہ اوہام۔ روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 520 تا 522)
حضرت مولوی صاحب کے محبّت نامہ موصوفہ کے چند فقرہ لکھتا ہوں غور سے پڑھنا چاہئے تا معلوم ہو کہ کہاں تک رحمانی فضل سے ان کو انشراح صدر و صدق قدم و یقین کامل عطا کیا گیا ہے اور وہ فقرات یہ ہیں۔ ‘‘عالی جناب مرزا جی مجھے اپنے قدموں میں جگہ دو۔ اللہ کی رضامندی چاہتا ہوں اور جس طرح وہ راضی ہوسکے طیار ہوں اگر آپ کے مشن کو انسانی خون کی آبپاشی ضرور ہے تو یہ نابکار(مگر محب انسان) چاہتا ہے کہ اس کام میں کام آوے’’۔ تمّ کلا مہ جزاہ اللّٰہٗ حضرت مولوی صاحب جو انکسار اور ادب اور ایثار مال و عزت اور جان فشانی میں فانی ہیں وہ خود نہیں بولتے بلکہ ان کی روح بول رہی ہے۔ درحقیقت ہم اسی وقت سچے بندے ٹھہر سکتے ہیں کہ جو خداوند منعم نے ہمیں دیا ہم اس کو واپس دیں یا واپس دینے کے لیے تیار ہوجائیں۔ ہماری جان اس کی امانت ہے اور وہ فرماتا ہے کہ تُؤَدُّوا الۡاَمٰنٰتِ اِلٰۤی اَہۡلِہَا
سر کہ نہ در پائے عزیزش رود
بارِ گران ست کشیدن بدوش
(آسمانی فیصلہ۔ روحانی خزائن جلد 4 صفحہ 338)
مولوی حکیم نور دین صاحب اپنے اخلاص اور محبّت اور صفت ایثار اور للہ شجاعت اور سخاوت اور ہمدردی اسلام میں عجیب شان رکھتے ہیں۔ کثرت مال کے ساتھ کچھ قدر قلیل خداتعالیٰ کی راہ میں دیتے ہوئے تو بہتوں کو دیکھا مگر خود بھوکے پیاسے رہ کر اپنا عزیز مال رضائے مولیٰ میں اٹھا دینا اور اپنے لئے دنیا میں سے کچھ نہ بنانا یہ صفت کامل طور پر مولوی صاحب موصوف میں ہی دیکھی یا ان میں جن کے دلوں پر ان کی صحبت کا اثر ہے مولوی صاحب موصوف اب تک تین ہزار روپیہ کے قریب للہ اس عاجز کو دے چکے ہیں اور جس قدر ان کے مال سے مجھ کو مدد پہنچی ہے اس کی نظیر اب تک کوئی میرے پاس نہیں……
چہ خوش بودے اگر ہر یک زِ اُمّت نور دیں بودے
ہمیں بودے اگر ہر دل پُر از نورِ یقیں بودے
(نشان آسمانی۔ روحانی خزائن جلد 4 صفحہ 410-411)
آئینہ کمالات اسلام میں شامل اس فصیح و بلیغ عربی عبارت کا اردو ترجمہ مرکزی عربک ڈیسک کے تعاون سے ہدیہ قارئین ہے۔
جب سے مَیں خداتعالیٰ کی درگاہ سے مامور کیا گیا ہوں، اور حی و قیّوم ذوالعجائب خدا کی طرف سے زندہ کیا گیا ہوں، تب سے میں دین کے مددگاروں کو دیکھنے کا انتہائی مشتاق رہا ہوں اور یہ شوق اس شوق سے بہت بڑھ کر ہے جو ایک پیاسے کو بہتے شیریں پانی کے لئے ہوتا ہے۔ مَیں رات دن خداتعالیٰ کے حضور چلّاتا اور عرض کرتا تھا کہ اے میرے ربّ! کون میرا معین و مددگار ہے؟ اے میرے رب! کون میرا معین ومددگار ہے؟ مَیں تو ایك تنہا اور ناتواں انسان ہوں۔
پس جب دعاؤں کا ہاتھ پےدرپے اٹھا اور آسمان کی فضا میری دعاؤں سے بھر گئی تو میری تضرّعات سنی گئیں اور ربّ العالمین کی رحمت نے جوش مارا تو میرے ربّ نے مجھے ایک بہت ہی سچا دوست عطا فرمایا جو میرے مددگاروں کے سردار اور میرے مخلص دوستوں میں سے چیدہ فرد اور دین متین کے کاموں میں میرے پیاروں میں سے سب سے بہترین ہیں۔ اُن کا نام اُن کی نورانی صفات کی مانند نورالدین ہے۔ وہ جائے ولادت کے اعتبار سے بھیروی اور نسب کے لحاظ سے قریشی فاروقی ہیں۔ وہ اسلام کے سرداروں میں سے اور شریف پاک والدین کی اولاد میں سے ہیں۔
پس ان کے ملنے سے مجھے بچھڑی ہوئی خوشی مل گئی اور میں اسی طرح خوش ہوا جس طرح کہ ہمارے سیّد و مولیٰﷺ حضرت فاروقؓ کے ملنے سے خوش ہوئے تھے۔ وہ جب سے میرے پاس آئے ہیں اور مجھ سے ملاقات کی ہے اس وقت سے مَیں اپنے غموں کو بھول گیا ہوں۔ مَیں نے دین کی تائید و نصرت کی راہوں میں انہیں سابقین میں سے پایا ہے۔ مجھے کسی شخص کے مال نے اس قدر فائدہ نہیں پہنچایا جس قدر ان کے مال نے پہنچایا ہے جو کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے دیا اور کئی سال سے دے رہے ہیں۔ وہ علم وفضل کے کمال میں اور طوعی طور پر مال خرچ کرنے میں اور عطایا دینے میں اپنے ساتھیوں پر سبقت لے گئے ہیں۔ بایں ہمہ ان کا حلم کوہِ رضویٰ (مکہ کا ایک پہاڑ) سے زیادہ مضبوط ہے۔ انہوں نے اللہ کی خاطر تمام تعلقات چھوڑ دئیے ہیں اور اپنی تمام تر خوشی اللہ ربّ العالمین کے کلام میں رکھی ہے۔ مَیں نے دیکھا ہے کہ سخاوت ان کا طریق، علم ان کا مقصود، حلم ان کی سیرت اور توکل ان کی غذا ہے۔ مَیں نے تمام دنیا میں ان جیسا کوئی عالم نہیں دیکھا اور نہ ہی آسودہ حال لوگوں میں ان جیسا کوئی درویش اور نہ ہی خدائےتعالیٰ کی راہ میں اس کی رضا كی خاطر ان جیسا کوئی خرچ کرنے والا پایا ہے۔
جب وہ میرے پاس آئے اور مجھے ملے اور ان پر میری نظرپڑی تو مَیں نے انہیں اپنے ربّ کے نشانات میں سے ایک عظیم نشان پایا اور مجھے یقین ہوگیا کہ یہ میری وہ دعا ہیں جو میں مسلسل کرتا چلا آ رہا ہوں۔ میرے حواس میں یہ بات سرایت کرگئی اور میری فراست نے مجھے بتایا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے چنیدہ بندوں میں سے ہیں۔ مَیں لوگوں کی مدح اور تعریف کرنا اور اُن کے شمائل کو لوگوں میں پھیلانا اس اندیشہ سے ناپسند کرتا ہوں کہ کہیں مبادا اس سے اُن کے نفس کو کوئی نقصان پہنچے، لیکن مَیں دیکھتا ہوں کہ یہ تو ایسے لوگوں میں سے ہیں جن کے نفسانی جذبات پارہ پارہ ہوچکے ہیں اور ان کی طبعی خواہشات زائل ہوچکی ہیں اور وہ ایسی باتوں سے محفوظ ہیں۔
اور ان کے کمال کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ جب انہوں نے اسلام کے زخم دیکھے اور اسے ایک بےوطن درماندہ کی طرح یا اس درخت کی طرح پایا جو اپنی جگہ سے اُکھیڑ دیا گیا ہو تو انہوں نے گہرا غم محسوس کیا اور مارے صدمہ کے ان کی زندگی مکدّر ہوگئی اور وہ بےقرار ہوکر دین کی مدد کے لئے اُٹھ کھڑے ہوئے اور ایسی کتابیں تصنیف کیں جو حقائق اور معارف سے بھری ہوئی ہیں اور ان کی مثال پہلے لوگوں کی کتابوں میں نہیں پائی جاتی۔ ان كتابوں کی عبارتیں باوجود مختصر ہونے کے فصاحت سے بھری ہوئی ہیں اور ان کے الفاظ نہایت دِلربا خوبصورت اور عمدہ ہیں جو کہ دیکھنے والوں کو شرابِ طہور پلاتے ہیں۔ ان کی کتابوں کی مثال اس ریشم کی ہے جو کئی خوشبوؤں سے تَر بتر ہو اور پھر اس میں موتی، یاقوت اور بہت سی کستوری لپیٹ دی جائے، پھر اس میں عنبر ملایا جائے اور اس سارے مرکب کو معجون کی طرح بنا دیا جائے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ کتابیں ان تمام فائدہ بخش امور كو سمیٹے ہوئے ہیں جو دوسری کتب میں مختلف جگہ منتشر ہیں۔ نیز یہ کتابیں بکثرت اچھوتے معانی اور منفرد علوم پر مشتمل ہونے کی وجہ سے دیگر کتب پر فوقیت لے گئی ہیں۔ نیز یہ كتب اس وجہ سے بھی سبقت لے گئی ہیں کہ یہ دلائل و براہین کی رسیوں سے دلوں کو اپنی طرف کھینچتی ہیں۔ مبارک ہو اس شخص کو جو اِن کو حاصل کرے، ان کی قدر پہچانے اور ان کو غور سے پڑھے، وہ ان جیسا کوئی مددگار نہیں پائے گا۔ اور جو کوئی چاہتا ہو کہ قرآن کے گہرے عُقدوں کو حل کرے اور ربِّ جلیل کی کتاب کے اسرار پر اطلاع پائے تو اسے چاہئے کہ ان کتابوں کے مطالعہ میں مشغول اور مگن ہوجائے کیونکہ یہ کتب اس چیز کی ضامن ہیں جسے ایک ذہین طالب تلاش کرتا ہے۔ ان كتب کے خوشبودار پودوں کی مہک دلوں کو فریفتہ کرتی ہے اور ان کی شاخوں میں کثرت سے پھل لگے ہوئے ہیں اور بےشک وہ ایک باغ ہیں جس کے خوشے جھکے ہوئے ہیں اور اس میں کوئی لغو بات سنی نہیں جاتی اور پاکبازوں کے لئے سامان ضیافت ہے۔
ان کتب میں سے ایک فصل الخطاب لقضایا اھل الکتاب ہے اور ایک تصدیق براہینِ احمدیہ ہے جس میں الفاظ کی پختگی اور تراکیب کی لطافت کے ساتھ ساتھ عمدہ ترین معانی بڑی احسن ترتیب سے جڑے ہوئے ہیں۔ گویا کہ وہ مؤلفین کے لئے اسوہ حسنہ بن گئی ہیں اور متکلّمین آرزو کرتے ہیں کہ وہ ان کتابوں کی طرز پر کتب تالیف کریں۔ بڑے بڑے ماہر فن علماء کی زبانیں ان کتابوں کی مدح سرا ہیں۔ ان کتب کے جواہرات گلے میں پہنے ہوئے جواہرات پر فضیلت رکھتے ہیں اور ان کے موتی سمندروں کے موتیوں سے برتر ہیں۔ یہ کتب ان (حضرت مولوی صاحب) کے کمالات پر پختہ دلیل ہیں اور آپ کی خوشبو کے جھونکوں کی قطعی دلیل ہیں۔ اور تم ضرور ایک وقت کے بعد ان کتب کی حقیقت کو جان لو گے۔
مؤلف فاضل نے ان کتب میں قرآنِ شریف کے نکات کی تفسیر نہایت سنجیدگی اور توجہ سے كی ہے اور اپنی تحقیق میں روایت اور درایت کو جمع کیا ہے۔ پس آفرین ہے ان کی عالی ہمتی پر اور ان کے روشن اور مقبول افکار پر۔
آپ مسلمانوں کا فخر ہیں۔ آپ کو دقائق قرآن کریم کے استخراج اور حقائق فرقان کے خزانوں کے پھیلانے میں عجیب ملکہ حاصل ہے۔ بلاشبہ آپ مشکوٰۃ نبوت کے انوار سے منور ہیں اور شان مردانگی اور پاک طینتی کی مناسبت سے نبی کریمﷺ کے نور سے نور لیتے ہیں۔ آپ ایک عجیب انسان اور یگانۂ روزگار جوانمرد ہیں۔ آپ کے ہر لمحہ سے اسرار کے انوار کی نہریں پھوٹتی ہیں اور آپ کے رَشحاتِ قلم میں سے ہر ایک سے افکار کے چشمے اُبلتے ہیں۔ اور یہ خداتعالیٰ کا فضل ہے جسے چاہے عطا کرتا ہے اور خداتعالیٰ سب سے بہترعطا کرنے والا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ چنیدہ متکلّمین اور مؤلفین کا سرتاج ہیں۔ لوگ آپ کے ٹھاٹھیں مارتے ہوئے آب زُلال سے پیتے ہیں اور آپ کے بیان کے آبگینوں کو شرابِ طہور کی طرح خریدتے ہیں۔ آپ ابرار و اخیار اور مؤمنین کا فخر ہیں۔
آپ کے دل میں لطائف و دقائق اور معارف و حقائق اور اَسرار اور اَسرار کے اَسرار اور روحانی لوگوں کے انوار پر مشتمل چمکتے ہوئے انوار ہیں۔ جب وہ اپنے صاف ستھرے اور پاك کلمات اور اچھوتے فی البدیہہ اور نادر ملفوظات کے ساتھ کلام کرتے ہیں تو گویاوہ دلوں اور روحوں کو لطیف نغموں اور ہلکی پھلکی داؤدی بانسریوں سے موہ لیتے ہیں اور وہ خارقِ عادت روشن نکات پیش کرتے ہیں۔ جب وہ بات کرتے اور سلسلہ کلام شروع کرتے ہیں تو اُن کے منہ سے حکمت اِس طرح نکلتی ہے گویا کہ وہ پے در پے اور بڑے جوش سے بہتی ہوئی موجیں ہیں جو سامعین کے مونہوں تک پہنچ رہی ہیں۔
مَیں نے اپنے فکر کے گھوڑے کو ان کے کمالات کی طرف دوڑایا تو مَیں نے علوم و اعمال اور نیکی و صدقات میں انہیں یکتائے روزگار پایا۔ وہ نہایت ذہین، روشن دماغ، نیکوں میں سے منفرد اور بہترین لوگوں میں سے برگزیدہ ہیں۔ انہیں مال اور سخاوت عطا کی گئی ہے اور امیدیں ان سے وابستہ کی گئی ہیں اور وہ خدّامِ دین کے سردار ہیں اور مَیں اُن پر رَشک کرنے والوں میں سے ہوں۔ امیدوار اُن کے دَر پر حاضر ہوتے اور اُن سے راحت کا سامان طلب کرتے ہیں۔ جو بھی ان کی ملاقات کے لئے آتا ہے اور ان کے گھر کا قصد کرتا ہے وہ اس سے منہ نہیں پھیرتے اور محتاجوں میں سے جو بھی انہیں ملنے آتا ہے وہ اسے اپنی عطا سے نوازتے ہیں۔
وہ میری ملاقات کے لئے کامل دِلی رغبت کے ساتھ ایسی خوشی پاتے ہیں جیسے دولتمند سونا ملنے سے جھوم اٹھتا ہے۔ وہ محبّت اور یقین کے قدموں پر دور دراز کے علاقوں سے میرے پاس آتے ہیں۔ وہ ایک پاکیزہ دل جوان ہے جو ہم سے محبّت کرتا ہے اور ہم اس سے محبّت کرتے ہیں۔ وہ اپنی تمام تر طاقت کے ساتھ میری طرف دوڑے آتے ہیں خواہ قلیل وقت ہی میسر ہو۔ اللہ تعالیٰ نے ان پر نیکیوں اور صلہ رحمیوں کی جزا کے پے در پے انعامات برسائے ہیں۔ ان کی زندگی سے اللہ تعالیٰ نے اسلام اور مسلمانوں کی تائید فرمائی ہے۔ میرے دل کے ساتھ ان کا ایک عجیب تعلق ہےاور ان کا دل نادر رنگ میں شاداب ہے۔ وہ میری محبّت میں قسم قسم کی ملامتیں اور صعوبتیں اور وطن مالوف سے دوری اور دوستوں کی جدائی اختیار کرتے ہیں۔ میرا کلام سننے کی خاطر ان کے لئے وطن سے جدائی آسان ہے۔ میرے مقام کی محبّت کے لئے وہ اپنے وطن کو جس کے ساتھ ان کی یادیں وابستہ ہیں چھوڑتے ہیں۔ وہ میرے ہر ایک اَمر میں اس طرح میری پیروی کرتے ہیں جیسے نبض کی حرکت سانس کی حرکت کی پیروی کرتی ہے۔ میں انہیں اپنی رضا میں فناشدہ پاتا ہوں۔ جب بھی ان سے تقاضا کیا جاتا ہے وہ دیتے ہیں اور ہرگز پیچھے نہیں رہتے۔ اور جب بھی انہیں کسی منصوبہ کی طرف بلایا جاتا ہے تو وہ سب سے پہلے لبیک کہنے والوں میں سے ہوتے ہیں۔ اُن کا دل سلیم اوراُن کا خلق عظیم ہے۔ اُن کی سخاوت موسلا دھار بارش کی طرح ہے اور ان کی صحبت خشک زاہدوں کے دلوں کی اصلاح كرتی ہے۔ دین کے دشمنوں پر ان کا حملہ غضبناک جوان شیر کی طرح ہوتا ہے۔ کفار پر انہوں نے پتھر برسائے ہیں اور وید کے ماننے والوں کے مسائل کی خوب چھان بین کی ہے۔ وہ بے وقوفوں کی زمین میں اترے ہیں اور انہیں سزا دی ہے اور ان کی زمین کو تہہ و بالا کر دیا ہے۔ انہوں نے اپنی کتابوں کو مکذبین کا سر کچلنے کے لئے ایسی مہارت اور عمدگی سے تیار کیا ہے جیسے نیزوں کو سیدھا کركے تیار كیا جاتا ہے۔ پس خدانے ان کے ہاتھوں سے وید والوں کو ایسا رسوا کیا کہ گویا ان کے چہروں پر راکھ پھینکی گئی ہو اور سیاہی مل دی گئی ہو اور وہ مُردوں کی طرح ہوگئے۔ انہوں نے پلٹ کر حملہ کرنا چاہا لیکن مُردے اپنی موت کے بعد کیسے زندہ ہوسکتے ہیں چنانچہ وید کے ماننے والے ناکام و نامراد ہو كر واپس چلے گئے۔ اگر ان میں ذرہ بھی شرم ہوتی تو کبھی لَوٹ کر نہ آتے لیکن بےحیائی تو اس قوم کے گلے کا ہار بن چکی ہے۔ پس وہ نیم مردہ لوگوں کی طرح حملہ کرتے ہیں۔
یہ فاضل معزز موصوف میرے سب سے زیادہ پیارے دوستوں میں سے ہیں اور ان احباب میں سے ہیں جنہوں نے میری بیعت کی اور عقدِبیعت نبھانے کی نیّت سے میرے ساتھ اخلاص رکھا اور مجھ سے اس بات پر عہد کیا کہ وہ خدائے واحدپر کسی کو مقدّم نہ کریں گے۔ مَیں نے انہیں ایسے لوگوں میں سے پایا ہے جو اپنے عہدوں کاپاس کرتے اور ربّ العالمین سے ڈرتے ہیں۔
وہ اِس زمانہ میں،جس میں ہر طرف شرّ کی چنگاریاں اُڑ رہی ہیں، اُس صاف ستھرے پانی کی طرح ہے جو آسمان سے برستاہے۔ ان کا دم غنیمت ہے۔ میں نے کسی بھی شخص کے دل میں قرآن کریم کی ایسی محبّت نہیں محسوس کی جیسے ان کے دل کو فرقان حمید کے عشق سے لبریز پاتا ہوں۔ فرقان حمید کی محبّت اُن کے دل میں گھر کرچکی ہے۔ ان کے چہرے میں آیاتِ مبین کی محبّت چمکتی ہے۔ ان کے دل میں خدائے رحمن کی طرف سے انوار ڈالے جاتے ہیں۔ پس وہ ان نوروں کے ساتھ قرآنِ شریف کے ایسے معارف دیکھتے ہیں جو نہایت باریك اور گہرے اور پوشیدہ ہیں۔ ان کی اکثر خوبیوں پر مجھے رَشک آتا ہے۔ اور یہ خدائےتعالیٰ کی عطا ہے وہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے دیتا ہے اور وہ دینے والوں میں بہترین ہے۔
اللہ تعالیٰ نے انہیں بڑی دسترس والا اور صاحب بصیرت بنایا ہے۔ ان کے کلام میں وہ حلاوت و رعنائی ودیعت فرمائی ہے جو دوسری کتابوں میں نہیں پائی جاتی۔ ان کی فطرت کو ربّ جلیل کے کلام سے پوری پوری مناسبت ہے اور اس کلام كے بےشمار خزانے اس جوانمرد کو بخشے گئے ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے اور اس کی عطا میں کوئی اس سے مزاحم نہیں ہوسکتا۔ اس کے بندوں میں سے بعض وہ ہیں جن کو تھوڑی سی عطا بھی نہیں دی گئی اور بعض دوسرے ہیں جن کو بکثرت نوازا گیا ہے، لیکن وہ اللہ سے حجت بازی نہیں کرسکتے۔
مجھے میری عمر کی قسم! وہ بڑے بڑے میدانوں کے مرد ہیں اور ان پرکسی کا یہ قول صادق آتا ہے کہ ہرعلم کے لئے عظیم مرد ہوتے ہیں اور ہر میدان کے عظیم پہلوان ہوتے ہیں۔ نیز ان پر یہ قول بھی صادق آتا ہے کہ بعض گوشوں میں دفینے ہوتے ہیں اور بعض آدمیوں میں عظیم استعدادیں ہوتی ہیں۔ خداتعالیٰ انہیں عافیت سے رکھے اور اپنی حفظ و امان میں رکھے اور انہیں اپنی رضا اور اطاعت میں گزرنے والی عمر دراز عطا کرے اور اپنے مقبولوں میں سے بنائے۔
مَیں دیکھتا ہوں کہ ان کے لبوں پر حکمت جاری ہے اور آسمان کے انوار ان کے پاس اس تواتر سے نازل ہوتے ہیں جس طرح مہمانوں کی مہمان نوازی کی جاتی ہے۔ جب بھی وہ کتاب اللہ کی تفسیر کے لئے یکسوئی سے توجہ کرتے ہیں تو اسرار کے چشمے جاری کر دیتے ہیں اور لطیف معانی کے سَوتے بہا دیتے ہیں اور ایسے ایسے بےمثل معارف ظاہر کرتے ہیں جو پردوں میں مستور تھے۔ وہ باریك مضامین پر بھی بڑی باریک بین نظر رکھتے ہیں اور حقائق کی کنہہ تک پہنچ کر کھلا کھلا نور لاتے ہیں۔ اہلِ عقل ان کی تقریروں کے وقت ان کے کلام کے اعجاز اور عجیب تاثیرات کو تسلیم کرتے ہوئے انہیں پوری توجہ سے سنتے ہیں۔ وہ حق کو خالص سونے کی ڈَلی جیسا دکھاتے ہیں اور مخالفین کے شبہات کو جَڑ سے اکھاڑ پھینکتے ہیں۔ یہ زمانہ فلسفہ کی آندھیوں کا زمانہ ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ فساد اور خُبث برپا ہوچکا ہے اور ان واقعات نے نوجوانوں کو بےقرار اور پریشان کر رکھا ہے۔ اور علماء علومِ روحانیہ کی دولت اور اسرارِ رحمانیہ کے جواہرات سے اس طرح محروم ہیں جیسے سارا گوشت اتارے جانے کے بعد ہڈی خالی رہ جاتی ہے۔ پس اس صورت حال میں یہ جوانمرد کھڑا ہوا اور رسول اللہﷺ کے دشمنوں پر اس طرح ٹوٹا جیسے شیاطین پر شہاب ٹوٹ کر گرتے ہیں۔ سو وہ علماء میں آنکھوں کی پتلی کی طرح ہیں اور حکمت کے آسمان میں روشن سورج کی مانند ہیں۔ وہ اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے اور ان سطحی آراء سے خوش نہیں ہوتے جن کی بنیاد گہری نہیں ہوتی۔ بلکہ اُن کا فہم زمین کی گہرائی میں مخفی باریک دَر باریک اسرار کے ماخذ تک پہنچتا ہے۔ پس ان کے کیا ہی کہنے۔ اللہ ہی ان کو اجر دے۔ اللہ نے چِھنی ہوئی متاع ان کی طرف لَوٹا دی ہے اور وہ توفیق یافتہ لوگوں میں سے ہیں۔
سب حمد اس اللہ کے لئے ہے جس نے ہمیں یہ پیارا دوست عین موقع پر اور ضرورت کے وقت میں بخشا۔ سو ہم اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ان کی عمر، صحت اور دولت میں برکت دے اور ہمیں وہ مستجاب الدعوات گھڑیاں عطا کرے جو ان کے اور ان کے خاندان کے حق میں مناسب ہوں اور میری فراست گواہی دیتی ہے کہ یہ استجابتِ دعا ایک متحقق اَمر ہے نہ کہ ظنّی اور ہم ہر روز (اللہ کی رحمت کے) امیدواروں میں سے ہیں۔
خداتعالیٰ کی قسم! مَیں ان کے کلام میں ایک نئی شان دیکھتا ہوں۔ قرآنِ شریف کے اَسرار کھولنے میں اور اس کے مضمون اور مفہوم کے سمجھنے میں انہیں سبقت لے جانے والوں میں سے پاتا ہوں۔ مَیں ان کے علم و حلم کو دو متوازی پہاڑوں کی طرح دیکھتا ہوں اور مَیں نہیں جانتا کہ ان دونوں میں سے کون سا پہاڑ دوسرے پر فوقیت لے گیا ہے۔ یہ دین متین کے باغوں میں سے ایک باغ ہیں۔ اے میرے ربّ! تو ان پر آسمان سے برکتیں نازل فرما اور دشمنوں کے ہر شر سے ان کی حفاظت فرما۔ اور تُو ان کے ساتھ ہو جہاں بھی وہ ہوں اور دنیا اور آخرت میں ان پر رحم فرما اور تو سب رحم کرنے والوں سے بہتر رحم کرنے والا ہے، آمین و ثم آمین۔
تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لئے ہیں جو اَوّل و آخر اور ظاہر و باطن ہے۔ وہی دنیا اور آخرت میں میرا ولی ہے۔ اسی کی روح نے مجھ سے کلام کروایا اور اسی کے ہاتھ نے مجھے حرکت دی۔ سَو مَیں نے اپنی یہ تحریر اللہ تعالیٰ کے فضل اور اشارے اور القاء سے لکھی ہے۔ اور گناہ سے بچنے اور نیکی اختیار کرنے کی طاقت صرف اللہ (کی مدد) سے ہوتی ہے۔ آسمان و زمین میں وہی قادر ہے۔
اے میرے ربّ! مَیں نے محض تیری قوت و طاقت سے اور تیرے الہام کی مہکتی لپٹوں سے یہ تحریر لکھی ہے۔ پس اے ربّ العالمین تمام تعریف تیرے ہی لئے ہے۔ تو ہی میرا محسن، مجھے انعام عطا کرنے والا، میری دونوں آنکھوں کا نور اور میرے دل کا سُرور اور میرے قدموں کی قوت ہے۔ میں اِس حال میں مروں گا کہ مَیں اپنے حال اور اپنے قال اور اپنے کلام سے تیرے احسانات کا شکر ادا کر رہا ہوں گا۔ میری قبر میں میری ہڈیاں اور میری تُربَت میں میری خاک اور آسمان میں میری روح تیرا شکر کر رہی ہوگی۔ تیرا احسان میرے شکر پر غالب ہے اور تیری نعمتوں میں میری آنکھیں،میرے کان، میرا دل، میرا سر، میرے اعضاء اور میرا ظاہر اور میرا باطن غرق ہے۔ تو میرے لئے مضبوط قلعہ ہے۔ مَیں تیری پناہ میں آتا ہوں آسمان و زمین کی آفات سے، ہر چرب زبان حاسد سے، اور روشن اور واضح حق سے روگردانی کرنے والے سے اور ہر قسم کی زبان درازی سے اور بھڑکتے ہوئے غصہ سے اورہر قسم کی ظلمت اور تاریکی سے اور ہر اس شخص سے جو تیری طرف آنے میں روک بن جاتا ہے۔ اور ہماری آخری پکار یہی ہے کہ سب تعریفیں اللہ ربّ العالمین ہی کے لئے ہیں’’۔
(آئینہ کمالات اسلام۔ روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 581-590)
اور میرے سب دوست متقی ہیں اور لیکن ان سب سے قوی بصیرت اور کثیرالعلم اور زیادہ تر نرم اور حلیم اور اکمل الایمان و الاسلام اور سخت محبّت اور معرفت اور خشیت اور یقین اور ثبات والا ایک مبارک شخص بزرگ متقی عالم صالح فقیہ اور جلیل القدر محدث اور عظیم الشان حاذق حکیم حاجی الحرمین حافظ القرآن قوم کا قریشی اور فاروقی نسب کا ہے جس کا نام نامی مع لقب گرامی مولوی حکیم نورالدین بھیروی ہے اللہ تعالیٰ اس کو دین و دنیا میں بڑا اجر دے۔ اور صدق و صفا اور اخلاص اور محبّت اور وفاداری میں میرے سب مریدوں سے وہ اوّل نمبر پر ہےاور غیراللہ سے انقطاع میں اور ایثار و خدمات دین میں وہ عجیب شخص ہےاس نے اعلاءکلمۃاللہ کے لئے مختلف وجوہات سے بہت مال خرچ کیا ہے اور میں نے اس کو ان مخلصین سے پایا ہے جو ہر ایک رضا پر اور ازواج اور اولاد پر اللہ کی رضا کو مقدّم رکھتے ہیں اور ہمیشہ اس کی رضا چاہتے ہیں اور اس کی رضا کے حاصل کرنے کے لئے مال اور جانیں صرف کرتے ہیں اور ہر حال میں شکرگزاری سے زندگی بسر کرتے ہیں۔ اور وہ شخص رقیق القلب صاف طبع حلیم کریم اور جامع الخیرات بدن کے تعہد اور اس کی لذات سے بہت دور ہے بھلائی اور نیکی کا موقع اس کے ہاتھ سے کبھی فوت نہیں ہوتا اور وہ چاہتا ہے کہ رسول اللہﷺ کے دین کے اعلا اور تائید میں پانی کی طرح اپنا خون بہا دےاور اپنی جان کو بھی خاتم النبیین کی راہ میں صرف کرے۔ اور ہر ایک بھلائی کے پیچھے چلتے ہیں اور مفسدوں کی بیخ کنی کے واسطے ہر ایک سمندر میں غوطہ زن ہوتے ہیں۔
مَیں اللہ کا شکر کرتا ہوں کہ اس نے مجھے ایسا اعلیٰ درجہ کا صدیق دیا جو راستباز اور جلیل القدر فاضل ہے اور باریک بین اور نکتہ رس، اللہ کے لئے مجاہدہ کرنے والا اور کمال اخلاص سے اس کے لئے ایسی اعلیٰ درجہ کی محبّت رکھنے والا ہے کہ کوئی محبّ اس سے سبقت نہیں لے گیا۔
(حمامۃ البشریٰ۔ اردو ترجمہ صفحہ 29،30)
ہمارے مخلص اور محبّت اور اخلاص میں محو مولوی حکیم نور دین صاحب کا ذکر کرنا اس جگہ ضروری نہیں کیونکہ وہ تمام دنیا کو پامال کرکے میرے پاس ان فقراء کے رنگ میں آبیٹھے ہیں جیسا کہ اخص صحابہ  نے طریق اختیار کرلیا تھا۔ (ضمیمہ رسالہ انجام آتھم۔ روحانی خزائن جلد 11 صفحہ 315)
ہماری جماعت میں اور میرے بیعت کردہ بندگان خدا میں اک مرد ہیں جو جلیل الشان فاضل ہیں اور وہ مولوی حکیم حافظ حاجی حرمین نورالدین صاحب ہیں جو گویا تمام جہان کی تفسیریں اپنے پاس رکھتے ہیں اور ایسا ہی ان کے دل میں ہزارہا قرآنی معارف کا ذخیرہ ہے۔ اگر آپ کو فی الحقیقت بیعت لینے کی فضیلت دی گئی ہے۔ تو ایک قرآن کا سپارہ ان ہی کو مع حقائق معارف کے پڑھاویں۔ یہ لوگ دیوانے تو نہیں کہ انہوں نے مجھ سے ہی بیعت کرلی اور دوسرے ملہموں کو چھوڑ دیا۔ اگر آپ حضرت مولوی صاحب موصوف کی پیروی کرتے تو آپ کے لیے بہتر ہوتا۔ آپ سوچیں کہ فاضل موصوف جو خانماں چھوڑ کر میرے پاس آ بیٹھےاور کچے کوٹھوں میں تکلیف سے بسر کرتے ہیں کیا وہ بغیر کسی بات کے دیکھنے کے دانستہ اس تکلیف کو گوارا کئے ہوئے ہیں؟ ہمارے عزیز اور دوست ملہم صاحب یاد رکھیں کہ وہ ان خیالات میں سخت درجہ کی غلطی میں مبتلا ہیں۔ اگر وہ اپنی الہامی طاقت سے پہلے مولوی صاحب موصوف کو قرآن دانی کا نمونہ دکھلاویں اور اس خارق عادت کی چمکار سے نوردین جیسے عاشق قرآن سے بیعت لیں تو پھر میں اور میری تمام جماعت آپ پر قربان ہے۔
(ضرورۃالامام۔ روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 500)
‘‘میرے ایک دوست ہیں، سب دوستوں سے زیادہ پیارے اور تمام عزیزوں سے بڑھ کر سچے۔ فاضل، علامہ، حاذق، فہیم و فطین، کتاب مبین (قرآن) کے رموز کے عالم، علوم حکمت اور دین کا عرفان رکھنے والے، جن کا نام نامی ان کی صفات گرامی کی طرح حکیم مولوی نورالدین ہے’’۔ (سرّالخلافۃ۔ اردو ترجمہ صفحہ 168)
مذکورہ بالا کتب کے علاوہ حضرت مسیح موعودؑ نے اپنی تصنیف برکات الدّعا میں بھی آپ کے اوصاف حمیدہ کا تذکرہ فرمایا ہے۔

متعلقہ مضمون

  • جلسہ سالانہ کی اہمیت

  • جماعتِ احمدیہ جرمنی کے ایک جفا کش دیرینہ خادم

  • جرمنی میں رہتے ہوئے سوئٹزرلینڈ میں کام کے مواقع