انتظار حسین کی کتاب ’’دِلّی تھا جس کا نام‘‘ سے چند اقتباسات

بارہویں صدی تمام ہوئی۔ اب تیرہویں صدی شروع ہے۔ دِلّی اب اَور ہی رنگ میں رنگی جا رہی ہے۔ جنہوں نے اس شہر میں فتح کے جھنڈے گاڑے ہیں وہ دور پار سے آئے ہیں۔ ان کے طور طریقے اَور ہیں۔ ان کی زبان الگ، دین و مذہب الگ، رہن سہن الگ، تعمیر کے نقشے الگ۔ اسی حساب سے دِلّی بدل رہی ہے۔ شہاب الدین غوری تو مار دھاڑ کرکے چلا گیا مگر اپنے معتمدِ خاص قطب الدین ایبک کو یہاں انتظام کرنے کے لیے چھوڑ گیا اور جب شہاب الدین کی آنکھ بند ہوگئی تو وہ باقاعدہ بادشاہ ٹھہرا اور قطب الدین ایبک سے سلطان قطب الدین ایبک بن گیا۔ قطب مینار اسی نے کھڑا کیا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ اس کی تکمیل سلطان التمش نے کی۔…

ہاں دِلّی کا ایک اَور کرشمہ دیکھیے۔ کیسا کیسا فاتح آیا اور اس نے یہاں اپنی فتح کا جھنڈا گاڑا۔ مگر اسی بیچ ایک حسین مہ جبین شہزادی تختِ سلطنت پر رونق افروز ہوئی۔ اور اس نے بھی اپنے زمانے میں بڑے کر و فر سے حکومت کی۔ یہ التمش کی بیٹی رضیہ سلطانہ تھی۔ مگر اس سلطانہ کو بھی اس کا عشق لے بیٹھا۔ اس کا دل یاقوت نامی ایک سردار پر آ گیا۔ اور ایسا آیا کہ اس سے بیاہ رَچا لیا۔ یاقوت بےچارہ ابی سینیا کی کالی مٹی۔ حیثیت غلام والی۔ ترک سرداروں کی ترکمانی غیرت نے جوش مارا اور بغاوت کی آگ بھڑک اٹھی۔ رضیہ اس عشق کے چکر میں تخت سے بھی محروم ہوئی اور جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھی۔…

اُجڑنے بسنے کی داستان تو چلتی رہے گی۔ مگر یہ بھی تو دیکھتے چلیں کہ اب دِلّی کا نقشہ کیا ہے۔ یہ تو بادشاہی چوچلے تھے کہ جو تخت پہ بیٹھا اس نے اپنا ایک محل کھڑا کیا۔ اردگرد امرا نے اپنی حویلیاں تعمیر کرلیں۔ اور بادشاہ سلامت نے سمجھ لیا کہ انہوں نے ایک الگ دِلّی بسا لی ہے۔ مگر واقعہ یوں ہے کہ ایک دِلّی وہ تھی جس نے رائے پتھورا کے ساتھ آخری سانس لیا اور اپنی ساری تہذیب کے ساتھ مٹ گئی۔ اس کے بعد باہر سے آنے والے فاتحین نے اس قدیم بستی میں قدم رکھا اور اسے ایک نئے سانچہ میں ڈھالنے کی طرح ڈالی۔ اور لیجیے اب دِلّی میں نیا نقشہ جم چکا ہے۔ شہر شاد آباد۔ اہل خوش و خرم۔ خلقت رنگ رنگ کی۔ کوئی ہندو کوئی مسلمان۔ کوئی ترک کوئی افغان۔ کوئی ہندی کوئی ایرانی۔ معاشرتی زندگی میں رنگا رنگی ہے۔ شہر میں امی جمی ہے۔ گلی کوچوں میں بازاروں میں گہما گہمی ہے۔ سرائیں آباد ہیں۔ سرایوں سے زیادہ چنڈو خانے آباد ہیں۔ پیاسوں کا ایک جھمگھٹا چنڈو خانوں میں۔ دوسرا جھمگھٹا کنوؤں پر، تالابوں اور حوضوں پر۔ بازاروں میں راہیں صاف شفاف۔ صراف کے مقابل صراف۔ ہر قسم کا دکاندار، ہر رنگ کا ہنرمند اپنی اپنی ٹھیک پہ جما بیٹھا ہے۔

تو اب مقامی اور بیرونی رنگ گھل مل کر ایک نئی وحدت میں ڈھل چکے ہیں۔ ایک نئے معاشرے کی نمود ہے۔ ایک نئی تہذیب ظہور کر رہی ہے۔ دربار کی اپنی شان و شوکت۔ خانقاہوں کا اپنا وقار۔ گلی کوچوں کی اپنی گہماگہمی۔ بازاروں کا اپنا بھیڑ بھڑکا۔ اور ایک شاعر ہے جس کا ایک قدم دربار میں ہے، دوسرا قدم خانقاہ میں۔ پھر شہر کے گلی کوچے اور بازار بھی اس کے قدموں کی زَد میں ہیں۔ دربار میں اور دربار سے دور شیراز تک اس کی فارسی شاعری کا طوطی بولتا ہے۔ اور اس زور پر طوطیِ ہند کا خطاب پایا ہے۔ مگر گلیوں بازاروں میں وہ دوسری ہی زبان میں رواں نظر آتا ہے۔…

چلتے چلتے پیاس لگی۔ دیکھا سامنے کنوئیں پر چار پنہاریاں پانی بھر رہی ہیں۔ قریب جا کر پانی مانگا۔ ایک بولی، واری جاؤں، تم امیر خسرو ہو نا؟ جنہوں نے گیت لکھے ہیں اور جن کی پہیلیاں کہہ مکرنیاں مشہور ہیں۔ ہاں بی بی مَیں خسرو ہوں۔ پیاس لگی ہے۔ پانی پلا اور ثواب لے۔ ناں، یوں نہیں۔ پہلے ہمارے لیے کچھ کہہ دو۔ ارے بی بی تیرے لیے کیا کہہ دوں۔ اچھا یوں کروکہ کھیر پہ کوئی بول کہہ دو۔ دوسری بولی چرخے پہ بھی کوئی بول ہو جائے۔ تیسری بولی ڈھول پہ کوئی بات ہو جائے۔ چوتھی نے کتے پہ کچھ کہنے کی فرمائش کر ڈالی۔ شاعر بہت زچ ہوا مگر فوراً ہی رواں ہوگیا۔

کھیر پکائی جتن سے، چرخا دیا جلا

آیا کتا کھا گیا، تو بیٹھی ڈھول بجا

کیا یہ محض ہنسی دل لگی ہے۔ یہ تو کسی نئی زبان کا ظہور ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ یہ تو ہونا ہی تھا۔ آخر کوئی تہذیب گونگی تو پیدا نہیں ہوتی۔ اپنی زبان اپنے ساتھ لاتی ہے تو دِلّی کی آغوش میں ایک نئی تہذیب کے ساتھ ساتھ ایک نئی زبان بھی پل بڑھ رہی ہے یعنی اردو اب اپنا قد نکالنے لگی ہے۔

(’’دِلّی تھا جس کا نام‘‘، انتظار حسین، سنگ میل پبلیکیشنز، 2003 لاہور، صفحہ 14 تا 18)

(مرتبّہ: مدبّر احمد خان)

متعلقہ مضمون

  • جلسہ سالانہ کی اہمیت

  • جماعتِ احمدیہ جرمنی کے ایک جفا کش دیرینہ خادم

  • جرمنی میں رہتے ہوئے سوئٹزرلینڈ میں کام کے مواقع