حضرت مصلح موعودؓ نے الٰہی حکم سے اپنی زندگی میں جماعت کی تعلیم و تربیت اور ترقی کے لیے جو آخری بابرکت تحریک جاری فرمائی وہ وقفِ جدید کے نام سے موسوم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس تحریک کو کامیاب کرنے کے لیے غیرمعمولی جوش اور ولولہ بھی آپ کے دل میں پیدا کیا جس کا اظہار آپ کے خطبات اور خطابات میں ہوتا رہا۔ چونکہ یہ تحریک اللہ تعالیٰ کے اذن و ارادہ سے ظہور پذیر ہوئی تھی اس لئے اللہ تعالیٰ نے بعد میں آنے والے خلفاء کے دلوں میں اس تحریک کی برکات و فوائد اور اس کے عالمی اثرات القاء کیے اور اس تحریک کے حقیقی مقاصد کو کما حقّہ حاصل کرنے کے لیے کئی دَر ان پر وا کئے۔ انہی میں سے ایک ‘‘دفتر اطفال’’ کا قیام ہے۔
حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ جنہیں حضرت مصلح موعودؓ نے پہلا ناظم وقفِ جدید مقرر فرمایا اور اس بابرکت تحریک کے مقاصد اور منصوبوں سے براہِ راست آپ کو آگاہ فرماتے رہے، اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 4 جنوری 1991ء بمقام مسجد فضل لندن میں فرماتے ہیں:
‘‘بچوں کے متعلق تو شروع سے ہی یہ تحریک بہت زور دے رہی ہے اور حضرت مصلح موعودؓ نے اس طرف بہت توجہ دلائی کہ زیادہ سے زیادہ بچوں کو اس میں شامل کرنا چاہئے’’۔
البتہ وقفِ جدید میں ‘‘دفتر اطفال’’ کا باقاعدہ اجراء حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی زبان مبارک سے ان پُرشوکت الفاظ سے ہوا۔
‘‘آج احمدی بچوں (لڑکوں اور لڑکیوں) سے اپیل کرتا ہوں کہ اے خدا اور اس کے رسول کے بچو! اُٹھو اور آگے بڑھو اور تمہارے بڑوں کی غفلت کے نتیجہ میں وقفِ جدید کے کام میں جو رَخنہ پڑ گیا ہے اسے پُر کر دو اور اس کمزوری کو دور کر دو جو اس تحریک کے کام میں واقع ہوگئی ہے’’۔
(خطبہ جمعہ فرمودہ 7؍ اکتوبر 1966ء مسجد مبارک ربوہ)
جس طرح کم عمر صحابہ کرامؓ نے رسولِ اکرمﷺ کی جہاد کی تحریک پر والہانہ لبیک کہا اور کبھی کُشتی کا مقابلہ کرکے اور کبھی پنچوں کے بل کھڑے ہوکر اپنی اہلیت اور استطاعت ثابت کی اور پھر میدانِ جہاد میں وہ کارہائے نمایاں سر انجام دیے کہ قیامت تک بڑے بڑے سورما بھی ان پر رَشک کرتے رہیں گے، اسی طرح اطفال الاحمدیہ نے بھی خلیفۂ وقت کی آواز پر لبیک کہا اور کیا افریقہ اور ایشیا کے غریب بچے اور کیا امریکہ و یورپ کے امیر گھرانوں کے چشم و چراغ، بہت سوں نے اپنی ساری جمع پونجی، اپنی عیدیاں، اپنے انعامات اور اپنے جیب خرچ اس مالی جہاد میں پیش کردیے۔ اس کے باوجود ہم حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کی اصل خواہش سے ابھی کوسوں دُور ہیں/نرخ بالا کن کہ ارزانی ہنوز کا مضمون ہے کیونکہ اُسی خطبہ میں آپؒ نے اس خواہش کا اظہار فرمایا تھاکہ:
‘‘اگر خداتعالیٰ احمدی بچوں کو توفیق دے تو جماعت احمدیہ کے بچے وقفِ جدید کا سارا بوجھ اُٹھا لیں’’۔
پھر 22 اکتوبر 1966ء کو لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے آپؒ نے فرمایا:
‘‘جیسا کہ مَیں نے ابھی بتایا ہے کہ میرے دل میں شدید تڑپ پائی جاتی ہے اس بات کی کہ ہمارے احمدی بچے لڑکے اور لڑکیاں مل کر وقفِ جدید کے مالی بوجھ کو اپنے کندھوں پر اُٹھائیں اور دنیا کو بتائیں کہ آنحضرتﷺ کے زمانہ میں چھوٹے مسلمان بچوں نے باوجود چھوٹی عمر ہونے کے میدانِ جہاد میں حصہ لیا۔ جب کافروں نے تلوار سے مسلمانوں کو اور اسلام کو مٹانا چاہا تو وہ بچے تلوار لے کر میدان میں کو دے اور اُنہوں نے اپنی جانیں خداتعالیٰ کے حضور پیش کر دیں۔ تو اب جبکہ تلوار کے جہاد کا زمانہ نہیں بلکہ قلم اور تقریر کے جہاد کا زمانہ ہے اور مخالف اپنے وعظوں میں اور اپنی تقاریر میں اور اپنی تحریروں میں اسلام پر ہر نا جائز اور ہر کمینہ حملہ کررہا ہے ہم (احمدی بچے) بھی پیچھے نہیں رہے۔ بلکہ اس جہاد میں اپنے بڑوں کے ساتھ حصہ لے رہے ہیں۔ اس وقت ہم ہی وہ لوگ ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے کھڑا کیا ہے اور کہا ہے کہ تم اُٹھو اور دنیا کا مقابلہ کرو اور اسلام کو دنیا میں دوبارہ غالب کرو۔ غرض ہمارے بچوں کو یہ ثابت کرنا چاہئے کہ جس طرح ہمارے پہلوں نے اپنا سب کچھ خدا اور اس کے رسول کے قدموں میں نچھاور کر دیا اسی طرح ہم بچے بھی اپنا سب کچھ خدا اور اس کے رسول کے قدموں میں نچھاور کرنے کے لیے تیار ہیں۔ ہم رسولِ کریمﷺ کے زمانہ کے بچوں سے پیچھے نہیں رہے۔ ہم اپنا سب کچھ (جب بھی مطالبہ کیا جائے) خداتعالیٰ کی راہ میں قربان کرنے کے لئے تیار ہیں’’۔
اعلاءکلمۃاللہ، جماعت کی مضبوطی، اس کی تربیت اور تعلیم کے نظام کو محکم کرنے کے لئے بچوں کی اس مالی جہاد میں بھرپور شمولیت کی حکمت و برکات بیان کرتے ہوئے حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ نے خطبہ جمعہ فرمودہ 7؍اکتوبر 1966ء مسجد مبارک ربوہ میں فرمایا:
‘‘جس طرح آنحضرتﷺ نے بچوں کو نماز کی عادت ڈالنے کے لئے ان کی نماز کی بلوغت سے پہلے نماز پڑھانے کی ہمیں تلقین کی ہے اسی طرح ان مالی قربانیوں کے لئے جو فرض کے طور پر ایک احمدی پر عائد ہوتی ہیں، اس فرض کے عائد ہونے سے پہلے ہمارے بچوں کی تربیت ہو جائے گی اور جب وہ فرض ان پر عائد ہوگا تو وہ خوشی اور بشاشت سے مالی جہاد میں شامل ہوں گے اور اس فرض کے ادا کرنے میں وہ کوئی کمزوری نہ دکھائیں گے کیونکہ ان کی طبیعتوں میں بچپن سے ہی یہ بات راسخ ہوچکی ہوگی کہ جہاں ہم نے خدا اور رسول کے لئے دوسری قربانیاں کرنی ہیں وہاں ہم نے خدا اور اس کے رسول کے لئے مالی قربانیاں بھی دینی ہیں۔… ان کی تربیت ہوگی اس طرح ہم ان کے ذہن میں یہ بات بھی راسخ کر رہے ہوں گے کہ جب خداتعالیٰ کسی کو مال دیتا ہے تو وہ مال جو اس کی عطا ہے۔ بشاشت سے اسی کی طرف لوٹا دینا اور اس کے بدلہ میں ثواب اور اس کی رضا حاصل کرنا اس سے زیادہ اچھا سودا د نیا میں اور کوئی نہیں’’۔
وقفِ جدید وہ واحد الٰہی تحریک ہے جس میں ‘‘دفتر اطفال’’ قائم ہے۔ اس لئے اطفال الاحمدیہ کا فرض ہےکہ وہ اس مالی جہاد کو اوّلیت دیں اور مقدم رکھیں تاکہ وہ جلد از جلد اس قابل ہوجائیں کہ خداتعالیٰ کے خلفاء کی خواہش کے مطابق وقفِ جدید کا سارا بوجھ ان کے مضبوط کندھے اُٹھا لیں۔ جس کےعظیم الشان مقاصد میں اس دَور کے روحانی جہاد کے لیے بچوں کو تیار کرنا، پہلے دن سے ہی خدمتِ دین و خدمتِ انسانیت کا جذبہ ان کے ننّھے مُنّے دِلوں میں راسخ کرنا، دین کو دنیا پر مقدّم کرنے کی تربیت دینا اور خداتعالیٰ کی رضا کو حاصل کرتے ہوئے اُخروی زندگی میں اعلیٰ مراتب حاصل کرنا ہے۔ بچے دَر اصل کسی بھی قوم اور معاشرے کی بنیاد ہوتے ہیں۔ بچوں کی اعلیٰ تعلیم و تربیت اس قوم کے مقاصدِ عالیہ و اَرفع کے حصول کی کلید ہوتی ہے۔ زندہ و جاوید قومیں اپنی آئندہ نسلوں کی تعلیم و تربیت کو اپنی قومی زندگی میں بلند اور اہم مقام دیتی ہیں۔ یہ بچے ہمارے پاس خدا کی امانت ہیں۔ اور جب تک ان کا اپنے خالق و مالک کے ساتھ زندہ تعلق قائم نہیں ہو جاتا وہ اپنی تخلیق کے حقیقی مقصد کو حاصل کرنے کے قابل ہو سکتے ہیں اور نہ ہم اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہوسکتے ہیں۔ اسی لئے خداتعالیٰ کے خلفاء اس آخری روحانی جہاد کی اس عظیم فوج کی تعلیم و تربیت کی طرف ہماری توجّہ مبذول کراتے آئے ہیں۔ حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 25 دسمبر 1987ء میں فرمایا:
‘‘اور آخری بات یہ ہے کہ اپنے بچوں کو زیادہ سے زیادہ شامل کریں اور ان کے ذریعہ چندے دلوائیں۔ میرے پیشِ نظر صرف روپیہ نہیں ہے بلکہ جس مقصد کی خاطر روپیہ حاصل کیا جاتا ہے وہ مقصد بہرحال اوّلیت رکھتا ہے یعنی تربیت اور اللہ سے تعلق۔ چندہ دینے والے کا سب سے بڑا پھل، سب سے بڑا اَجر اس دنیا میں یہ ہے کہ وہ خدا کے قریب ہو جاتا ہے اور جو بچوں سے چندے دلوائے جاتے ہیں ان کے اوپر اس قربت کا اثر ساری زندگی رہتا ہے بچپن کی نیکی ایسی چھاپ ہے جو ان کے بڑھنے کے ساتھ خود ہی بڑھتی رہتی ہے اس کا نقش مٹنے کی بجائے اور زیادہ زندگی میں گہرا جمتا چلا جاتا ہے۔ اس لئے اپنے بچوں کو باشعور طور پر وقفِ جدید میں شامل کریں یعنی وہ بچے جو باشعور طور پر داخل ہوسکتے ہیں ورنہ تو پہلے دن کے بچے کو بھی مائیں شامل کر دیتی ہیں۔ بعض مائیں تو پیدا ہونے والے بچے کو بھی شامل کر دیتی ہیں جو ان کے پیٹ میں ہے اور وعدے لکھوا دیتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس روح کو اور بڑھائے لیکن جو باشعور بچے ہیں ان کے ہاتھ سے دلوانا ان کی تعداد میں اضافہ کرنا آپ کے لیے دوہرے اَجر کا موجب بنے گا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے’’۔
بچوں کو اُن کی عمر کے اعتبار سے دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔سات سال سے کم عمر بچے، بچیاں اور سات سے پندرہ سال کے لڑکے، لڑکیاں جو اطفال الاحمدیہ اور ناصرات الاحمدیہ کا حصہ ہوتے ہیں۔ عام طور پر والدین چھوٹے بچوں کی طرف سے خود ہی چندہ ادا کر دیتے ہیں اس خیال سے کہ بچے کو کیا سمجھ کہ وقفِ جدید کیا ہے؟ اور چندہ کیوں دینا ہے؟ یہ سوچ صحیح نہیں اور نہ ہی یہ طریقہ درست۔ اسی طرح یہ طرزِعمل بچوں کی روحانی تربیت، جو کہ اس تحریک کا اصل مطمحِ نظر ہے، کے بنیادی اصولوں کے بھی خلاف ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ خطبہ جمعہ فرمودہ 30 جون 1967ء بمقام مسجد مبارک ربوہ میں اِسی اَمر کی طرف توجّہ دلاتے ہوئے فرماتے ہیں:
‘‘وقفِ جدید کی اہمیت ان پر واضح کی جائے اور احمدی بچے کی جو شان ہے اور اللہ تعالیٰ اسے جس مقام پر دیکھنا چاہتا ہے وہ شان اور وہ مقام اسے اچھی طرح سمجھایا جائے۔ اس زبان میں جس زبان میں کہ بچہ سمجھ سکتا ہے۔ چھوٹے سے چھوٹا بچہ بھی اگر اس کی زبان میں بات کی جائے تو بڑی گہری باتوں کو بھی سمجھنے کے قابل ہوتا ہے۔ شرط صرف یہ ہے کہ اس کی زبان میں بات کی جائے۔ سادہ طریقہ سے اس کو سمجھایا جائے تو وہ سمجھ سکتا ہے بلکہ بعض بوڑھوں سے بعض دفعہ بعض بچے زیادہ جلدی سمجھ جاتے ہیں اور زیادہ شوق سے اپنی ذمہ داری کو نباہنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن نہ مائیں اس طرف متوجّہ ہیں اور نہ باپوں کو کچھ خیال ہے کہ ہم اپنی ذمہ داری کو نباہیں’’۔
بڑے بچوں کے بارے میں حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 6 جنوری 1989ء بمقام مسجد فضل لندن میں یہ نصیحت فرمائی کہ:
‘‘نسبتاً بڑے بچوں کو یہ عادت ڈالیں کہ وہ اپنے ہاتھ سے پیش کریں اور اپنے جیب خرچ میں سے پیش کریں تو پھر اس کا بہت فائدہ پہنچے گا اور روحانی لحاظ سے ان بچوں کے دل میں ہمیشہ کے لیے ایک عزم پیدا ہو جائے گا ایک خواہش پیدا ہو جائے گی کہ ہم دینی خدمات میں حصہ لیتے رہیں۔ ایک بیج بویا جائے گا جسے خداتعالیٰ پھر بڑھائے گا تو اس پہلو سے اس طرف بہت توجہ دینی چاہیے’’۔
بہرحال بچوں کی اس انداز میں تعلیم و تربیت والدین کا اور خصوصاً مائوں کا اوّلین فرض ہے۔ اور یہی وہ سنہری گُر ہے جس سے ہمارے گھر اور احمدی معاشرہ جنت نظیر معاشرہ بنے گا۔اسی طرف توجّہ دلاتے ہوئے حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ نے 22 اکتوبر 1966ء کو لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
‘‘اگر آپ اپنے بچوں کو اس قسم کی تربیت دے دیں گی تو ایک طرف جماعت کی ضرورتیں پوری ہو جائیں گی اور دوسری طرف اللہ تعالیٰ کی مزید رحمتوں اور فضلوں اور برکتوں کی آپ وارث ہوں گی۔ پھر ان بچوں کی دینی لحاظ سے بھی اچھی تربیت ہو جائے گی۔ یہ بچے اس دنیا میں آپ کے لئے ایک ایسی زمین اور ایسا آسمان پیدا کریں گے کہ جن میں جب آپ زندگی گزاریں گی تو آپ کہہ سکیں گی کہ محمد رسول اللہﷺ نے سچ کہا ہے کہ اگر تم چاہو تو ایسی زندگی گزار سکتی ہو کہ تمہارے قدم ہمیشہ جنت میں رہیں وہ جہنم کی طرف بڑھنے والے نہ ہوں’’۔
وہ ماں باپ جو بَدقسمتی سے اپنے بچوں کی اس رنگ میں تربیت سے غافل ہیں انہیں جھنجوڑتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے خطبہ جمعہ فرمودہ 30 جون 1967ء بمقام مسجد مبارک ربوہ فرمایا:
‘‘کیا آپ اس بات کو پسند کریں گی اے احمدی بہنو! اور کیا آپ اس بات کو پسند کریں گے اے احمدی بھائیو! کہ آپ کو تو خدا کی رضا کی جنت نصیب ہو جائے۔ لیکن آپ کے بچے اس جنّت کے دروازے سے دھتکارے جائیں اور دوزخ کی طرف ان کو بھیج دیا جائے۔ یقیناً آپ میں سے کوئی بھی اس بات کو پسند نہیں کرے گا۔ جب آپ ان چیزوں کو پسند نہیں کرتے تو پھر آپ ان ذمہ داریوں کی طرف متوجہ کیوں نہیں ہوتے۔ پس اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں اور بچوں کے دلوں میں دین کی راہ میں قربانیاں دینے کا شوق پیدا کریں… پس اپنی نسلوں پر رحم کرو اور اپنے بچوں سے اس محبّت کا اظہار کرو جو ایک مسلمان ماں اپنے بچے سے کرتی ہے اور اس پیار کا اس سے سلوک کرو جو ایک مسلمان باپ اپنے بچے سے کرتا ہے اور ان بچوں کے دل میں سلسلہ کے لئے قربانیوں کا شوق پیدا کر و اور ان کے دل میں یہ احساس پیدا کرو کہ خداتعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے انسان کو بہرحال جِد و جَہْد اور کوشش کرنی پڑتی ہے اس کے بغیر خداتعالیٰ کی رضا حاصل نہیں ہوتی۔ اگر انسان خدا کی راہ میں قربانیاں نہ دے تو اس کے نتیجہ میں شیطان تو خوش ہو سکتا ہے مگر خدا خوش نہیں ہوسکتا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی ذمہ داریوں کے سمجھنے اور ان کے نباہنے کی توفیق عطا فرمائے آمین’’۔
والدین کی ذمہ داری اپنی جگہ ایک مسلمہ حقیقت ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ شعور رکھنے والے بچوں، نظامِ جماعت اور ذیلی تنظیموں پر بھی بڑی اہم ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔حضورانور نے خطبہ جمعہ فرمودہ 4؍جنوری 2008ء میں اس طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا:
‘‘اب جبکہ وقفِ جدید کی تحریک تمام دنیا میں رائج ہے تو بچے بھی اور ماں باپ بھی اور سیکرٹریان وقفِ جدید بھی اس طرف خاص توجّہ کریں، جماعتی نظام اور ناصرات و اطفال کی ذیلی تنظیمیں بھی اس طرف توجّہ کریں کہ زیادہ سے زیادہ بچوں کو وقفِ جدید کے چندے میں شامل کریں۔ بچوں کو اس کی اہمیت کا احساس دلائیں، قربانی کی روح ان میں پیدا کریں۔
جہاں تک دفتر اطفال میں مالی قربانی کی شرح کا تعلق ہے تو اس کے لیے خلفائے کرام کی طرف سے کوئی شرح مقرر نہیں ہے۔ سب خلفاء کی بار بار اور تاکیدی ہدایت یہی ہے کہ زیادہ سے زیادہ بچوں کو اس بابرکت تحریک میں شامل کیا جائے۔ چاہے ایک پیسہ دے کرکوئی شامل ہوتا ہے’’۔ جماعت احمدیہ جرمنی نے البتّہ حضورانور سے یہ درخواست کی کہ دفتر بالغان میں صفِ اوّل و دوئم کے مجاہدین کی طرز پر دفتر اطفال میں بھی جو بچے 25 یورو سالانہ ادا کریں انہیں ‘‘ننّھے مجاہدین’’ شمار کیا جائے۔ جسے حضور انور نے ازراہِ شفقت منظور فرمایا۔ بہرحال یہ ضروری نہیں، اہم اور ضروری یہ ہے کہ حتی الامکان کوئی بچہ بھی اس تحریک کی برکات سے محروم نہ رَہ جائے۔
اس مضمون کی تیاری کے سلسلہ میں خاکسار نے جب مکرم ملک سکندر حیات صاحب سیکرٹری وقفِ جدید جرمنی سے دفتر اطفال کی صورتحال معلوم کی تو اُنہوں نے بتایا کہ جرمنی میں 13375 بچے، بچیاں تجنید میں شامل ہیں جبکہ وقفِ جدید کا چندہ ادا کرنے والے خوش نصیب بچوں کی تعداد 9041 ہے۔ گویا اب تک کی صورتحال کے مطابق 4334 بچے اس تحریک کی عظیم الشان برکات سے محروم ہیں۔ اور ان کے والدین بھی اپنے فرائض ادا نہ کرسکنے کی وجہ سے رحمتوں اور برکتوں سے بےنصیب ہیں۔ یہ ایک بہت بڑی تعداد ہے جو ہم سب کے لیے فکرمندی اور پریشانی کا باعث ہونی چاہیے۔ 31 دسمبر کو وقفِ جدید کے مالی سال کا اختتام ہوتا ہے۔ ابھی چند روز باقی ہیں۔اس لئے ہم سب کو اس تحریک کی برکات سے مستفیض ہونا چاہیے۔ کیونکہ یہ فیض روحانی زندگی کی ضمانت ہے۔ حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 4 جنوری 1991ء بمقام مسجد فضل لندن میں فرماتے ہیں:
‘‘اگر ہم بچوں کو شروع ہی سے خدا کی راہ میں مالی قربانی کا مزہ ڈال دیں اور اس کا چَسکا ان کو پڑ جائے تو آئندہ ساری زندگی یہ بات ان کی تربیت کے دوسرے معاملات پر بھی اثر انداز رہے گی اور جس کو مالی قربانی کی عادت ہو وہ خدا کے فضل سے عبادتوں میں بھی بہتر ہو جاتا ہے جماعت سے عمومی تعلق میں بھی اچھا ہو جاتا ہے اور یہ اس کی روحانی زندگی کی ضمانت کا بہت ہی اہم ذریعہ ہے’’۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اور ہمارے بچوں کو اسلام احمدیت کا حقیقی اور سچا خادم بنائے اور وہ سب اعمال اور قربانیاں بجا لانے کی توفیق بچے جو اس کی رضا حاصل کرنے والی ہوں، آمین ثم آمین

متعلقہ مضمون

  • جلسہ سالانہ کی اہمیت

  • جماعتِ احمدیہ جرمنی کے ایک جفا کش دیرینہ خادم

  • جرمنی میں رہتے ہوئے سوئٹزرلینڈ میں کام کے مواقع