21 اکتوبر 1833ء کو سویڈن کے شہر سٹاک ہولم (Stockholm) میں ایک ایسا لڑکا پیدا ہوا جسے بڑے ہو کر ایک عظیم سائنسدان، موجد اور تاجر بننے کے ساتھ ساتھ نوبل انعام کا بانی بھی بننا تھا۔ اس بچہ کا نام الفریڈنوبل تھا۔ الفریڈ کے والد Immanuel Nobel ایک انجینئر اور موجد تھے اور عمارتوں کی تعمیر کے ساتھ ساتھ چٹانوں کو دھماکہ خیز مواد سے توڑنے کے تجربات کیا کرتےتھے۔ جس سال الفریڈ کی پیدائش ہوئی اس سال انہیں اپنے کاروبار میں کافی نقصان اُٹھانا پڑا جس کے باعث ان کا کاروبار تقریبا ختم ہوگیا۔ انہوں نے دوسرے ممالک میں قسمت آزمائی کی اور روس جا کر کامیاب کاروبار شروع کردیا۔ لہٰذا 1842ء میں الفریڈ اپنی والدہ اور دو بڑے بھائیوں کے ساتھ روس چلے گئے۔ 1843ء میں الفریڈ کا چھوٹا بھائی Emil پیدا ہوا۔ یوں ان چاروں بھائیوں کے لئے ان کے والد نے پرائیویٹ اساتذہ کے ذریعہ سائنس اور لٹریچر میں بہترین تعلیم کا بندوبست کرنا شروع کر دیا۔
الفریڈ کو لٹریچر، کیمسٹری اور فزکس سے خاصی دلچسپی تھی۔ تاہم ان کے والد الفریڈ کی شاعری میں دلچسپی سے خوش نہ تھے اور چاہتے تھے کہ ان کے چاروں بیٹے ان کے نقشِ قدم پر چلیں۔ لہٰذا انہوں نے الفریڈ کو کیمیکل انجینئر بننے کے لئے فرانس بھجوا دیا۔ وہاں الفریڈ کی ملاقات دھماکہ خیز کیمیکل Nitroglycerine کے موجد سے بھی ہوئی۔ چونکہ نائٹروگلیسرین نہایت دھماکہ خیز ہوتی ہے اور کچھ پتہ نہیں چلتا کب پھٹ جائے، اس لئے اس وقت تک اسے عملی استعمال کے لئے بہت خطرناک تصوّر کیا جاتا تھا۔ جیسا کہ اوپر ذکر ہوچکا ہے کہ الفریڈ کے والد خود بھی تجربات کیا کرتے تھے کہ کیسے چٹانوں کو دھماکہ سے پھاڑا جا سکتا ہے۔شاید اسی باعث الفریڈ نے اس کیمیکل پر تجربات کرکے اسے تعمیراتی کاموں کے لئے قابل استعمال بنانے کا ارادہ کیا۔ چنانچہ اپنی تعلیم ختم کرکے جب الفریڈ واپس روس آئے تو اپنے والد کے ساتھ مل کر انہوں نے نائٹروگلیسرین پر تجربات شروع کردئیے۔
شومئی قسمت کہ روس اور ترکی کے درمیان لڑی جانے والی کریمین جنگ (Crimean War 1853-1856) میں روس نے کریمیا میں ترکی کے زیرِتسلط علاقوں پر قبضہ کرلیااور الفریڈ کے والد کو کاروبار میں نقصان اٹھا کر واپس سویڈن آنا پڑا۔ الفریڈ نے سویڈن میں بھی اپنی تحقیق جاری رکھی۔ ان تجربات کے دوران بدقسمتی سے کئی دوسرے لوگوں کے علاوہ الفریڈ کے چھوٹے بھائی Emil بھی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ان حادثات کے باعث گورنمنٹ نے اسٹاک ہولم شہر کے اندر ان تجربات پر پابندی عائد کردی۔ الفریڈ نے اپنے سگے بھائی کی موت اور گورنمنٹ کی عائدکردہ پابندی کے باوجود ہمت نہ ہاری اور شہر سے باہر جھیل Lake Mälaren پر ایک کشتی کو اپنی تجربہ گاہ بنا لیا۔ کامیاب تجربات کی بنا پر الفریڈ نے نائٹروگلیسرین کو قابلِ استعمال بناکر بڑے پیمانے پر فروخت کرنا شروع کردیا۔ اس مواد کو مزید بہتر بنانے کی کاوشوں کے نتیجہ میں الفریڈ نے 1867ء تک ڈائنامائیٹ ایجاد کرلیا۔ اس کے علاوہ دھماکہ کرنے کے لئے ڈیٹونیٹرdetonator بھی بنا لیا۔ ان کی بنائی ہوئی detonator caps کی بدولت ایک ہی لمحہ میں بڑا طاقتور دھماکہ ہوتا ہے۔ ڈائنامائیٹ کی ایجاد نے نہ صرف تعمیراتی کاموں کو نئے دَور میں داخل کر دیا بلکہ الفریڈ کے کاروبار کو بھی چار چاند لگا دئیے۔ انہوں نے بیس سے زیادہ ممالک میں 90 مختلف مقامات پر کارخانے لگا لئے اور ان کا اکثر وقت ان ممالک میں اپنے کارخانوں کے دَوروں پر ہی گزرنے لگا۔ یوں یورپ کے امیر ترین لوگوں کی فہرست میں شامل ہوئے اور اپنے انہی دَوروں کی وجہ سے انہیں یورپ کے امیر ترین آوارہ گرد کے طور پر جانا جانے لگا۔
ڈائنامائیٹ کا اسلحہ سازی میں بہت بڑا استعمال شروع ہوچکا تھا۔ الفریڈ کا سارا کاروبار ہی اسی دھماکہ خیز مواد کو بنانے اور بیچنے پر تھا۔ انہیں یقین تھا کہ ان کا ڈائنامائیٹ جلد دنیا میں اَمن قائم کردے گا کیونکہ جب لوگوں کو پتہ چلے گا کہ ڈائنامائیٹ سے پوری کی پوری افواج آن واحد میں مکمل تباہ ہوسکتی ہیں تو ان کے پاس اَمن سے رہنے کے سوا کوئی چارہ نہ رہے گا۔ تاہم ان کا یہ خیال درست ثابت نہ ہوا اور ممالک نے ان کی ایجاد کو کثرت سے جنگوں میں قتل و غارت گری کے لئے استعمال کیا۔ اپنی وفات سے قبل انہیں اس بات کا احساس ہوچکا تھا اور انہیں یہ بات پریشان کردیتی تھی کہ تاریخ انہیں ایک قاتل کے نام سے یاد رکھے گی۔ اس لئے انہوں نے ایک ایسا قدم اُٹھایا جس سے وہ نہ صرف خود بڑے اچھے الفاظ میں یاد کئے جاتے ہیں بلکہ علوم و فنون کے ماہرین ان سے منسوب نوبل انعام لینےکے لئے انتھک محنت کرتے اور انعام مل جانے پر بجا طور پر خوش قسمت ترین انسان سمجھے جاتے ہیں۔ الفریڈ کی وفات اٹلی میں 10 دسمبر 1896ء میں ہوئی۔ 27 نومبر 1895ء کو الفریڈ نوبل نے اپنے آخری وصیت نامہ پر دستخط کئے جس کے مطابق ان کے کاروبار سے حاصل ہونے والے منافع کا کثیر حصہ بالترتیب فزکس، کیمسٹری، میڈیسن، لٹریچر اور اَمن کے میدان میں گراں قدر خدمات کرنے والوں کو نوبل انعام کی شکل میں دیا جائے۔ ظاہر ہے ہر کوئی اس وصیت سے خوش نہ تھا، خاص طور پر ان کے رشتہ دار۔ اس کے علاوہ کئی ممالک کے حکومتی اداروں نے بھی روکیں پیدا کیں۔ چنانچہ یہ قانونی پیچیدگیاں دور کرنے اور سب کو راضی کرنے میں چار سال لگ گئے، یوں 1901ء میں نوبل انعام تقسیم کرنے کی پہلی تقریبات سٹاک ہولم(سویڈن) اور ناروے میں منعقد ہوئیں۔

نوبل انعامات برائے سال 2022ء

سال 2022ء میں کل 14 لوگوں کو نوبل انعام دیا گیا جنہوں نے انسانیت کی بہبود کے لئے گراں قدر کام کئے۔ انعام حاصل کرنے والے کو گولڈ میڈل، ڈپلومہ اور خطیر رقم (تقریباً دس لاکھ یورو) انعام کے طور پر دی جاتی ہے۔ ذیل میں مختصرا ًاور عام فہم انداز میں ان کی خدمات کا ذکر کیا جاتا ہے۔

شعبہ فزکس

انیسویں صدی کے آخری حصہ میں اس وقت کے اہلِ علم کی نظر میں فزکس کو سائنس کے میدان میں سب سے زیادہ اہمیت حاصل تھی۔ شاید اسی وجہ سےیا اس وجہ سے بھی کہ الفریڈ کی اپنی ریسرچ بھی فزکس اور کیمسٹری سے تعلق رکھتی تھی الفریڈ نے 1895ء میں لکھی جانے والی اپنی وصیت میں فزکس کو پانچ شعبہ جات میں دئیے جانے والے انعامات کی فہرست میں اوّل درجہ پر رکھا۔ وصیت کے الفاظ یوں تھے۔
‘‘ایک حصہ اس شخص کے لئے جس نے فزکس کے میدان میں سب سے اہم دریافت یا ایجاد کی ہو’’۔
چنانچہ1901ء سے اب تک فزکس میں 116 نوبل انعام دئیے جا چکے ہیں جو 222 افراد کے حصہ میں آئے۔ 1979ء میں محترم پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام صاحب نے فزکس میں نوبل انعام حاصل کیا اور یوں سائنس میں نوبل انعام حاصل کرنے والے پہلے مسلمان سائنسدان بن گئے۔ فزکس میں سب سے پہلا انعام X-rays کی دریافت پر جرمن سائنسدان Wilhelm Röntgen کو ملا۔ فزکس کا انعام ہر سال الفریڈ نوبل کی برسی کے دن 10دسمبر کو سٹاک ہولم میں دیا جاتا ہے۔
امسال جن تین سائنسدانوں کے حصہ میں فزکس کا نوبل انعام آیا انہوں نے entangled quantum states پر تحقیق کی۔ فزکس کی زبان میں entangled pair ایٹمز، فوٹانز یا الیکٹرانز کے ایسے جوڑے کو کہتے ہیں جن کا باہمی فاصلہ چاہے لاکھوں میل ہی کیوں نہ ہو مگر ان میں سے اگر ایک کی خصوصیت تبدیل ہوجائے تو ویسی تبدیلی دوسرے ایٹم میں بھی ظاہر ہوگی۔ ابھی یہ علم اپنے ابتدائی مراحل میں ہے تاہم سائنسدانوں کا خیال ہے کہ مستقبل میں اس سے بڑے بڑے فائدے اٹھائے جاسکیں گے اور معلومات کو ایک جگہ سے دوسری جگہ روشنی کی رفتار سے بھی زیادہ تیزی سے پہنچایا جاسکے گا۔ مثال کے طور پر دو ایٹمز کا جوڑا، جن میں سے ایک ایٹم کہکشاں کے ایک کنارے جبکہ دوسرا دوسرے کنارے پر ہو اور دونوں کا فاصلہ لاکھوں نوری سال ہو تو چونکہ دونوں ایٹم ایک رنگ میں جڑے ہیں اس لئے ایک میں تبدیلی دوسرے ایٹم میں فوری تبدیلی کا موجب ہوگی۔ یعنی روشنی کی رفتار جو اب تک کے علم کے مطابق تیز ترین رفتار رکھتی ہے سے بھی زیادہ تیزی سے معلومات کو پہنچایا جانا ممکن ہوگا۔

کیمسٹری

نوبل کی وصیت میں کیمسٹری کا انعام دوسرے نمبر پر یوں مذکور ہے۔ ‘‘ایک حصہ اس شخص کے لئے جس نے سب سے اہم کیمیائی دریافت یا بہتری کی ہوگی’’۔
(الفریڈ نوبل کی وصیت سے اقتباس)
سائنسدان ہمیشہ سے ہی قدرت کے نظام سے سیکھتے آئے ہیں اور ہر بڑی دریافت یا ایجاد کے پیچھے کہیں نہ کہیں اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے نظام ہی سے رہنمائی حاصل کی جاتی رہی ہے۔ کیمیا دان بھی پودوں اور جانوروں میں جو مختلف بڑے بڑے مالیکیولز ہیں جن کے باہم ملاپ ہی سے زندگی ہے کو دیکھ کر حیران ہیں کہ کس طرح قدرت اتنے پیچیدہ مالیکیولز تیار کرتی ہے۔ لیبارٹری میں چھوٹے مالیکیول تیار کرنا ہی بہت بڑی درد سر ہے۔ کیونکہ کیمیکل ری ایکشنchemical reaction سے نئے کمپاؤنڈ تیار تو ہوجاتے ہیں مگر یہ ری ایکشنز کئی مراحل پر مبنی ہوتے ہیں۔ ہر مرحلہ میں مطلوبہ مالیکیول کے علاوہ درجنوں دیگر اضافی پراڈکٹس بھی بن جاتی ہیں۔ یوں مطلوبہ مالیکیول کو ان سے علیحدہ کرکے دوسرے مرحلے کا رِی ایکشن اور ہر رِی ایکشن میں ظاہر ہے مطلوبہ مالیکیول کی مقدار بھی کم ہوتی جاتی ہے۔ اور جب تک مطلوبہ مالیکیول تیار ہوتا ہے تو اس کی مقدار بہت کم رَہ چکی ہوتی ہے۔
کیمیا دان قدرت کے اس نظام پر حیران تھے کہ کس طرح محض بیس amino acids سے قدرت نے ہمارے جسموں میں ہر طرح کی پروٹینز تیار کی ہیں جس پر زندگی قائم ہے۔ اسی نظام کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے اس یقین سے پُر تھے کہ ضرور کوئی کیمیائی تعامل اتنا آسان ہونا چاہئے جیسے قدرت نے رکھا ہے اور اس کی جستجو میں تھے۔ یعنی ایسا کیمیکل رِی ایکشن جو بہت سادہ ہو اور جس سے بائی پراڈکٹس بھی زیادہ نہ بنیں اور اسے purification کے محنت طلب مراحل سے بھی نہ گزارنا پڑے۔
سال 2022ء میں کیمسٹری میں نوبل انعام لینے والے سائنسدانوں نے جُدا جُدا طور پر دریافت کیا کہ کچھ ری ایکشنز کے ذریعہ مالیکیولز کو باہم ملانا اتنا ہی آسان ہے جیسے کلک click کرنا۔ اس لئے اس سائنس کو کلک کیمسٹری click chemistry کا نام دیا گیا۔ سادہ الفاظ میں جیسے سیٹ بیلٹ کے دو حصوں کو باہم جوڑنا آسان ہے اسی طرح انہوں نے ایسا chemical reaction دریافت کیا جس کی بدولت بڑے بڑے مالیکیولز کو باہم ملانا بہت آسان ہوگیا۔ فرض کریں دو بھینسوں کو ان کا مالک آپس میں باندھنا چاہتا ہے۔ اس کے لئے اسے رَسے کی ضرورت ہوگی۔ دونوں بھینسوں کے گلے میں ایک ایک رَسہ ڈال کر دونوں سروں کو آپس میں گِرہ دینے سے بھینسیں بندھ جائیں گی۔ بعینہٖ اسی طرح ان سائنسدانوں نے ایسے رَسے دریافت کئے ہیں جو مخصوص حالات میں ایک دوسرے کو دیکھ کر خود بخود جُڑ جائیں گے۔ چنانچہ اس دریافت کی بدولت مالیکیولز کو باہم ملانا کافی آسان ہوگیا ہے۔ تین سائنسدانوں میں سے ایک خاتون ہیں جنہوں نے اسی رِی ایکشن کو زندہ خلیوں کے اندر کرکے دکھا دیا۔ چنانچہ ان تینوں کی تحقیق سے اب نئے کیمیکل کمپاؤنڈ بنانا آسان ہوگیاہے اور یہ علوم ادویات بنانے کی انڈسٹری میں استعمال ہورہے ہیں۔

میڈیسن

پانچ شعبہ جات میں سے میڈیسن یا فزیالوجی کو الفریڈ نوبل نے تیسرے درجہ پر رکھ کر یوں ذکر کیا ہے۔
‘‘مذکورہ منافع کو پانچ برابر حصوں میں تقسیم کیا جائے گا، جو اس طرح تقسیم ہوگا… ایک حصہ اس شخص کے لئے جس نے فزیالوجی یا میڈیسن کے میدان میں سب سے اہم دریافت کی ہوگی’’۔(الفریڈ نوبل کی وصیت سے اقتباس)
اس سال میڈیسن کا نوبل انعام سویڈن میں پیدا ہونے والے Svante Pääbo کو دیا گیا جو لائپزگ میں پروفیسر کے طور پر ریسرچ کر رہے ہیں۔ انہیں یہ انعام ان کی انسانی ارتقا سے متعلق نئی معلومات مہیا کرنے اور موجودہ انسان کےاپنے قدیم ترین رشتہ داروں Neanderthals اور Denisova سے تعلق ثابت کرنے پر دیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ سائنس کی زبان میں موجودہ انسان کو Homo sapiens کہتے ہیں جبکہ ہزاروں سال پہلے کے انسان کو جو اب معدوم ہوچکا ہے Neanderthals اور Denisova کہتے ہیں۔ ڈینی سووا سائبیریا میں موجود ایک غار کا نام ہے۔ انہی غاروں میں بہت پہلے انسان کی مذکورہ بالا تینوں نسلیں مختلف اوقات میں اکٹھی رہتی رہی ہیں۔
نیچے دی گئی تصویر میں دیکھا جاسکتا ہے کہ کسی طرح دس لاکھ سال پہلے انسان تین مختلف نسلوں(species) میں جدا جدا ترقی پانے لگا۔ دو نسلیں تو معدوم ہوگئیں جبکہ موجودہ انسانی نسل یعنی Homo sapiens ترقی کرتے کرتے موجودہ حالت میں ہے۔ Svante Pääbo کی تحقیق نے یہ بھی بتایا کہ تقریباً ستر ہزار سال قبل افریقہ سے ہجرت کے دوران ان معدوم نسلوں سے موجودہ انسان میں جینز کی منتقلی عمل میں آئی تھی۔

لٹریچر

الفریڈ کو ادب سے خاصی دلچسپی تھی اور اپنی عمر کے آخری حصہ میں انہوں نے مصنف کے طور پر بھی طبع آزمائی کی۔ الفریڈ کی لائبریری مختلف زبانوں کی کتب سے بھری پڑی تھی۔ چنانچہ ادب کے لئے نوبل انعام ان کی وصیت میں چوتھے نمبر پر یوں مذکور ہے۔
‘‘ایک حصہ اس شخص کے لئے جس نے ادب کے میدان میں مثالی سمت میں سب سے نمایاں کام کیا ہوگا’’۔ (الفریڈ نوبل کی وصیت سے اقتباس)
چنانچہ 2022ء کا ادب کا نوبل انعام فرانسیسی مصنفہ Annie Ernaux کو ان کی ادب کے میدان میں خدمات کے عوض دیا گیا۔

امن کانوبل انعام

نوبل کی وصیت کےمطابق جن پانچ شعبوں میں انعام دیا جانا تھا ان میں سے امن کا انعام پانچویں نمبر پر آخری شعبہ ہے۔وصیت کے مطابق یہ انعام ایسے شخص کے لئے ہو جس نے قوموں کے درمیان بھائی چارے کے لئے سب سے زیادہ اور بہترین رنگ میں کام کیا ہو۔
سال 2022ء میں اَمن کا نوبل انعام بیلا روس سے تعلق رکھنے والے Ales Bialiatski اور روس اور یوکرائن کی دو تنظیموں کو دیا گیا جو انسانی حقوق پر کام کررہی ہیں۔ ان تینوں نے اپنے اپنے ممالک میں انسانی حقوق کے تحفظ پر کام کیا، ظلم و ستم کی نشاندہی کی اور اس کے خلاف آواز اُٹھائی۔ نیز جنگی جرائم اور طاقت کے غلط استعمال کو دنیا کے سامنے لائے۔ ان کی خدمات نے سول سوسائٹی کی جمہوریت اور امن کے لئے اہمیت کو اجاگر کیا۔یاد رہے کہ 2014ء میں پاکستانی شہری ملالہ یوسفزئی کو بھارتی شہری کیلاش ستھیارتی کے ساتھ بچوں اور نوجوانوں پر جبر کے خلاف آواز اٹھانے پر اور سب بچوں کے تعلیم کے حق کے لئے جدوجہد پر اَمن کا انعام مل چکا ہے۔ ملالہ ابھی تک نوبل انعام حاصل کرنے والی سب سے کم عمر ہیں۔ جب انعام ملا تب ان کی عمر صرف 17برس تھی۔

اکنامکس

The Sveriges Riksbank Prize in Economic Sciences in Memory of Alfred Nobel
گو اکنامکس میں انعام کا نوبل کی وصیت میں ذکر نہیں تھا مگر 1968ء میں سویڈن کے سنٹرل بینک Sveriges Riksbank نے الفریڈ نوبل کی یاد میں اس انعام کا اجرا کیا۔ بینک نے اپنی تین سوویں (300) سالگرہ کے موقع پر نوبل فاؤنڈیشن کو انعام کے لئےکثیر عطیہ دیا۔ چنانچہ اکنامکس کو بھی نوبل انعامات کی فہرست میں شامل کیا گیا اور اس میدان میں پہلا انعام 1969ء میں دیا گیا۔
اس سال اکنامکس میں نوبل ایوارڈ لینے والے تین افراد نے بینکنگ کے نظام کو بہتر بنانے اور مالیاتی بحران سے نمٹنے کے لئے خدمات سرانجام دی ہیں۔ان کی ریسرچ نے نہ صرف ماڈرن بینکنگ نظام کو مضبوط کیا بلکہ مالیاتی بحران کی صورت میں عوام الناس کے اموال کی حفاظت کی بھی ضامن بنی ہے۔
یہ تو آپ کو معلوم ہے کہ بینک عوام الناس کے پیسوں پر چلتے ہیں۔ افراد کی جمع کرائی ہوئی رقوم بینک کاروبار میں لگاتے ہیں، ضرورت مندوں کو سود پر بطور قرض دیتے ہیں۔ اور اگر رقم جمع کروانے والا رقم کا مطالبہ کرے تو کسی اور کی جمع کروائی ہوئی رقم سے اسے ادائیگی کردی جاتی ہے۔ بہت سادہ سا اصول ہے۔ تاہم اگر رقم جمع کروانے والوں کی بہت بڑی تعداد بیک وقت رقم نکالنے کے لئے بینک پہنچ جائےتو بینک کے پاس سب کو ادائیگی کے لئے رقم نہیں ہوگی۔ سوچیں اگر افواہ پھیل جائے کہ بینک دیوالیہ ہو رہے ہیں۔ سب لوگ پیسے واپس لینے پہنچ جائیں تو اس صورت ِحال میں بینک دیوالیہ ہو جائیں گے۔ کیونکہ وہ ان افراد سے جنہوں نے قرض لیا ہے طے کردہ مدّت سے قبل رقم کا مطالبہ نہیں کرسکتے۔
تینوں ماہرین اقتصادیات کی تحقیق نے بینک کا رقم جمع کروانے والے اور قرض لینے والے کے درمیان ثالثی کے کردار کو بہتر بنایا ہے۔ چنانچہ اب ہر بینک قرض دینے سے پہلے قرض لینے والے کی ساکھ کو اچھی طرح جانچتا ہے کہ وہ کسی ایسےپراجیکٹ پر سرمایہ کاری تو نہیں کررہا جس میں بینک کی رقم ڈوب جائے۔

اختتام

تحقیق کا شوق اور مستقل محنت کی عادت کے ساتھ مناسب مواقع میسر آجائیں تو نوبل انعام حاصل کرنا کوئی بہت مشکل اَمر نہیں۔ دعاؤں کے ساتھ والدین کو اپنے بچوں میں علم حاصل کرنے اور ریسرچ میں آگے بڑھنے کے شوق کو بڑھاتے رہنا چاہئے۔ جس طرح چوہدری محمد حسین صاحب نے اپنی دعاؤں اور محنت و توجہ سے عبدالسلام کو پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام بنایا ویسے ہی اگر والدین اپنے بچوں کے لئے دعائیں کرتےہوئے، ان کے حصول علم پر توجہ دیتے ہوئے، انہیں نظام جماعت اور خلافت سے وابستہ رکھتے ہوئے ان کی تربیت کریں تو ان شااللہ مستقبل قریب میں احمدی محققین کے نام نوبل انعام لینے والوں کی فہرست میں ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ یہ مضمون قارئین کے لئے مفید ہو،آمین یا رب العالمین۔

متعلقہ مضمون

  • جلسہ سالانہ کی اہمیت

  • جماعتِ احمدیہ جرمنی کے ایک جفا کش دیرینہ خادم

  • جرمنی میں رہتے ہوئے سوئٹزرلینڈ میں کام کے مواقع