مجدّدینِ اُمّت اور ان کے تجدیدی کارنامے

 

تسلسل کے لیے اخبار احمدیہ جرمنی کا شمارہ ماہ فروری 2022ء ملاحظہ ہو۔

سنن ابوداؤد میں ہے: ‘‘عَنْ اَبِی ہُرَیرَۃ فیمااَعْلَمُ عَنْ رَسولِ اللہِ قَالَ إنَّ اللہَ یبَعَثُ لِہٰذہ الاُمّۃِ علَى رَأسِ کُلِّ مِاَئۃِ سَنَۃٍ مَّنْ یُجَدِّدُ لَہَا دِیْنَہَا۔

(بحوالہ ابوداؤد کتاب الملاحم باب مایذكر فی قرن المائة)
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اس امّت کے لیے ہرصدی کے سر پر ایسے لوگ کھڑے کرتا رہے گا جو اس امّت کےدین کی تجدید کرتے رہیں گے۔
صحت حدیث
محدّثین نے اس حدیث کےصحیح ہونے پر اتفاق کیا ہے۔ چنانچہ مرقاةالصعود (شرح ابن داؤد) میں اسی حدیث کے تحت لکھا ہے:
ھٰذَا الْحَدِیْثُ اِتَّفَقَ الْحُفَّاظُ عَلَى الصحیح، مِنْھُمُ الْحَاكِمُ فِی الْمُسْتَدْرَکِ وَالْبَیھِقِیُّ۔ کہ اس حدیث کے صحیح ہونے پر جن حفّاظ نے اتفاق کیاہے ان میں سے حاکم ہیں جنہوں نے اسے مستدرک میں درج کیا ہے اور بیہقی ہیں جنہوں نے اسے مدخل میں درج کیا ہے۔ اسی طرح تنبیہ میں جلال الدین سیوطی نے لکھا اِتَّفَقَ الْحُفَّاظُ عَلَى صِحَتِہِ حفّاظ نےاس حدیث کی صحت پر اتفاق کیا ہے۔
رسول کریمﷺ کی یہ عظیم الشان پیشگوئی پوری ہوئی اور ہر صدی کے سر پر مجدّدین آتےرہے۔ دراصل یہ حدیث قرآنِ کریم کی آیت اِنَّا نَحۡنُ نَزَّلۡنَا الذِّکۡرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوۡنَ کی شرح ہے جیسا کہ حضرت مسیح موعودؑ نےلکھا ہے:
‘‘اِسلام کی میراث یہی طائفہ ہے جس نے جہالت اور مادیت کا مقابلہ کیا۔ اُمّت میں ایمانی روح پیدا کی اور قرآن جیسی لازوال ثروت کی حفاظت کی۔ اس آب زلال کے چشمے رواں دواں کیے۔ نئے فلسفوں کا ابطال کیا۔ علوم حدیث و فقہ کی تدوین کا کام انجام دیا، اجتہاد کا دروازہ کھولا، اُمّت کوشریعت کا گمشدہ خزانہ اور معاشرے کامنظّم قانون یاد دلایا۔ معاشرے میں احتساب کا فرض ادا کیا۔ انحراف اور کج روی پر مکمل تنقید کی۔ صحیح حقیقی اسلام کی برملا دعوت دی، جس نے شکوک وشبہات کےپردے چاک کر دیئے۔ اضطراب کے زمانے میں علمی طرزِاستدلال اختیار کرکے دماغوں کو اِطمینان بخشا، دعوت و تذکیر و انذار و تبشیر میں انبیاء کی روش اختیار کی۔ ایمان و عمل کی دبی ہوئی چنگاریوں کو شعلہ جوالہ کی حرارت و تمازت بخشی جس نے مادہ پرستی کے تند و تیز دھارے کی بلا خیزی کم کی۔ اپنی دعوت اور دام محبّت سے اس دشمن کو شکار کیا جو زُمہ شمشیر اور نوک خنجر سے زیر نہ ہوسکا۔ اس طائفہ میں ہرشخص اسلام کی کسی نہ کسی سرحد کا محافظ اور نگہبان تھا’’۔ (الحکم 21 فروری 1903ء)
حدیث کا مطلب اور حکمت
نواب صدیق حسن خانصاحب لکھتے ہیں کہ:
‘‘اس حدیث سے غرض یہ ہے کہ کوئی صدی مجدّد سے خالی نہیں ہوگی اور عملاً بھی ہر صدی کے اوّل و آخر اور وسط میں مجدّدین کے وجود سے یہ بات ثابت ہے۔ نیز اس سے بھی یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہر صدی میں صرف ایک مجدّد کا آنا مراد نہیں بلکہ مجدّدین کی ایک جماعت مراد ہے۔ اور پھر تجدیدکے لفظ میں مجدّدین کے آنے کی حکمت کی طرف بھی اشارہ ملتا ہے کہ اس سو سال کے عرصہ میں احکام دین اور کتاب و سنت کی اِتّباع میں جو بدعتیں رواج پاگئی ہوں مجدّد ان کو ختم کرتے اور حق کو قائم کرتے ہیں اورسنّت کو بدعت سے جدا کرکے دکھلا دیتے ہیں’’۔
موصوف مزید لکھتے ہیں:
‘‘اس لحاظ سے ہر عالم دین خداپرست، سنت کا احیاء کرنے اور بدعت مٹانے والا مجدّدین نبوی اور محی سنت مصطفویﷺ ہے’’۔ (حجج الکرامہ ص133۔ 134)
حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ نے حدیث مجدّدین کی تشریح فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا:
‘‘اب میں مختصراً کچھ اس حدیث کے متعلق کہنا چاہتا ہوں اور بتانا چاہتا ہوں کہ اس حدیث کے بارہ میں پہلوں نے کیا کہا، حضرت مسیح موعود نے کیا فرمایا اور اس حدیث کا مقام کیا ہے؟ یہ حدیث جو صحاحِ ستّہ میں سے صرف ایک کتاب میں صرف ایک بار بیان ہوئی ہے، یہ ہے: اِنَّ اللہَ یَبْعَثُ لِہٰذہ الاُمّۃِ علَى رَأسِ کُلِّ مِاَئۃِ سَنَۃٍ مَّنْ یُجَدِّدُ لَہَا دِیْنَہَا۔ کہ اللہ تعالیٰ ہرصدی کے سر پر اس اُمّت کے لیے ‘‘من’’ کھڑے کرے گا (من پر میں خاص زور دے رہا ہوں) یعنی اللہ تعالیٰ کئی لوگ ایسے پیدا کرے گا جو دین کی تجدید کریں گے اور اس کی رونق کو بڑھانے والے ہوں گے اور اگر بدعتیں بیچ میں داخل ہوگئی ہوں گی تو وہ ان کو نکالیں گے اور اسلام کا نہایت صاف اور خوبصورت چہرہ ایک بار پھر دنیا کے سامنے پیش کریں گے۔ یہ حدیث ابو داؤد میں ہے۔ مستدرک میں ہے اور شایدایک اور کتاب میں بھی ہے۔ صرف تین کتابوں میں ہمیں یہ حدیث ڈھونڈنے سے ملی ہے۔
اس حدیث میں تو یہ ہے کہ ہر صدی کے سر پر ‘‘من’’ آئے گا۔ یعنی ایسے نائب الرسول(ﷺ) آئیں گے جو تجدید کا کام کریں گے۔ ‘‘من’’ کے معنے عربی لغت کے لحاظ سے ایک کے بھی ہیں، دو کے بھی ہیں اور کثرت کے بھی ہیں۔ پس اگر کثرت سے معنے لیے جائیں تویہ معنی ہوں گے کہ ہر صدی کے سرپر کثرت سے ایسے لوگ موجود ہوں گے (یعنی آنحضرتؐ کے خلفاء و اخیار و ابرار) جو دینِ اسلام کی خدمت میں لگے ہوں گے۔ اس میں کسی ایک شخصِ واحد کا کوئی ذکر نہیں۔ لسان العرب عربی لغت کی ایک مشہور کتاب ہے۔ اس میں لکھا ہے کہ من کا لفظ تَکونُ لِوَاحِدٍ وَالْاِثْنَیْنِ والْجَمْعِ کہ یہ لفظ واحد کے لیے بھی، دو کے لیے بھی اور جمع کے لیے بھی بولا جاتا ہے اورقرآن کریم کی لغت ‘‘مفردات امام راغب’’ میں ہے کہ یُعَبَّرُ بِہِ مِنَ الْوَاحِدِ وَالْجَمْعِ وَالمُذَکَّرِوَالْمُؤَنَّثِ کہ اس سے واحد بھی مراد لی جاتی ہے اور جمع بھی مراد لی جاتی ہے۔ مذکر بھی مراد لیا جاتا ہےاور مؤنث بھی مراد لی جاتی ہے۔ ان معنوں کے لحاظ سے حدیث کا یہ مطلب ہوگا کہ ہر صدی کے سر پہ ایسے مرد ہوں گے نیز خداتعالیٰ کی درگاہ میں پہنچی ہوئی ایسی مستورات بھی ہوں گی۔ یعنی مرد بھی خدمت دین میں لگے ہوئے ہوں گے اور مستورات بھی۔ جب ہم پہلے بزرگ محقّقین اور اولیاءاللہ کے اقوال کو دیکھتے ہیں تو نظر آتا ہے کہ انہوں نے بھی ‘‘مَن’’ کے وہی معنے کئے ہیں جو میں اوپر بتا چکا ہوں۔ مَّنْ یُجَدِّدُ کے متعلق امام المناوی فرماتے ہیں کہ اس میں ‘‘مَن’’ سے مراد ایک یا ایک سے زیادہ آدمی ہوسکتے ہیں۔ علامہ ابن کثیرؒ کہتے ہیں کہ ہر ایک قوم کا دعویٰ کہ اس حدیث سے اس کا امام ہی مراد ہے لیکن ظاہر بات یہی ہے کہ اس کو ہر ایک گروہ کے علماء پرچسپاں کیا جانا چاہئے۔ اور علقمی کہتے ہیں کہ تجدید سے مراد یہ ہے کہ اسلام کی جن باتوں پرعمل مٹ گیاہے ان کو وہ از سرِنو زندہ کرے اور وہ کہتے ہیں کہ خوب یاد رکھو مجدّد دعوی کوئی نہیں کرتا بلکہ اس کا علم لوگوں کو بعض قرائن اور حالات اور ان خدمات سے ہوتا ہے جو وہ اسلام کی کرتا ہے۔ شیخ محمدطاہر گجراتی(1509۔ 1578) جو سولہویں صدی میں ایک بہت بڑے عالم گزرے ہیں انہوں نے اس حدیث پر یہ نوٹ دیا ہے کہ اس کے مفہوم کے متعلق اتفاق ہی نہیں علماء نے اختلاف بھی کیا ہے۔ یعنی اس بات میں اختلاف کیا ہے کہ کون مجدّد تھا اس صدی کا اور کون نہیں تھا اور ان میں سے ہر ایک فرقہ نے اسے اپنے امام پر چسپاں کیا ہے مگر بہتر یہ ہے کہ اسے عام مفہوم پر محمول کیا جائے اور فقہاء سے اسے مخصوص نہ کیاجائے کیونکہ یہ یقیناً ً مسلمانوں کو اولوالامر یعنی جو بادشاہ ہیں اور جو محدّث ہیں اور جو قُرّاء ہیں اور جو واعظ ہیں اور جو زاہد ہیں ان سب سے بہت فائدہ حاصل ہوتا ہے۔ اسی لئے وہ سارے مجدّد ہیں اور حدیث سے مراد یہ ہے کہ ہر صدی جب گزرے گی تو یہ لوگ زندہ ہوں گے۔ یہ نہیں کہ کوئی صدی ان کا نام ونشان مٹا ڈالے اور حدیث میں اس کے متعلق اشارہ ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ حدیث میں اس کے متعلق اشارہ ہے کہ جو لوگ ہر صدی کے سر پر تجدید کا کام کریں گے وہ بڑے بڑے بزرگوں کی ایک جماعت ہوگی۔ پہلی صدی میں حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ اور فقہاء اور محدّثین اور ان دوسرے طبقات میں سے بھی بےشمار بزرگ تجدیدِدین کرنے والے ہیں۔ وَمَا لَا یُحْصٰى یعنی جن کو گِنا نہیں جاسکتا۔ اِتنے مجدّد صدی کے سر پر عمر کے ساتھ انہوں نے جمع کر دیئے ہیں۔ اسی طرح انہوں نے جتنے ان کا یا جوصدی کے سر پرایک سے زیاد و علماء ان کا ذ کرکر دیا ہے۔ ایک اور کتاب ‘‘دَرَجَاتُ مِرْقَاۃِ الصَّعُودِ اِلَى سُنَنِ اَبِی دَاؤُدَ’’ اس میں ابوداؤد کی حدیث کے حاشیہ میں لکھا ہے کہ انسب یہ ہے کہ حدیث کو عام مفہوم لیا جائے۔ پس اس سے لازم آتا ہے کہ جوصدی کے سر پر مبعوث ہو وہ فرد نہ ہو بلکہ ہوسکتا ہے ایک یا ایک سے زائد ہوں کیونکہ گو اُمّتِ فقہاء سے جو فائدہ پہنچتا ہے وہ بھی عام ہے لیکن اسے جو فائدہ ان کے اولوالامر اور محدّثین اور قُرّاء اور واعظوں اور زہّاد کے مختلف درجات سے پہنچتا ہے وہ بھی بہت زیادہ ہے۔ کیونکہ ہرفن اور علم کا ایک فائدہ ہے جو اسے حاصل نہیں ہوتا۔ دراصل حفاظتِ دین میں قانونِ سیاست کی حفاظت اور ادب کا پھیلانا بہت اہم ہے کیونکہ اسی سے انسان کے خوف کی حفاظت ہوتی ہے، قانونِ شرعی قائم ہوتا ہے اور یہ کام حکام کا ہے۔ پس جو قانونِ شریعت نافذ کرنے والے حکّام ہیں شیخ محمد طاہرگجراتی کے نزدیک وہ اسی طرح مجدّد ہیں۔ ایک فقیہہ مجدّد ہوتا ہے یا جیسے صوفی بزرگ اور دعا گو لوگ مجدّد ہیں۔
پس زیادہ بہتر اور مناسب یہی ہے کہ مانا جائے کہ اس حدیث میں ہر صدی کے سر پر ایسےبڑے بزرگوں کی ایک جماعت موجود ہونے کی طرف اشارہ ہے لوگوں کے لیےجو دین کو تازہ کریں گے اور تمام دنیا میں اس کی حفاظت کریں گے۔ علماء کے ایک گروہ نےیہ لکھا ہے کہ یہ ذمہ داری تو ساری اُمّت کی تھی یعنی اُمّت مسلمہ کے ہر فرد کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ دینِ اسلام کی تجدید کرے۔ جس طرح ہم آپ کو کہتے ہیں کہ آپ دین سیکھیں اور اس کو ساری دنیا میں پھیلائیں۔ لیکن چونکہ سارے نہیں کرتے اس لئے ہر صدی میں ایک جماعت پیدا ہوجاتی ہے جو فرض کفایہ کے طور پر یہ کام کرتی ہے۔ کیونکہ وہ جماعت کام کرتی ہے اس لئے کہ جونہیں کام کرتا اللہ تعالیٰ ان کے گناہ معاف کردیتا ہے اور اگریہ بھی کام نہ کریں تو ان کے گناہ بھی معاف نہیں ہوں گے۔
پس حدیث شریف میں کسی ایک کے آنے کا ذکر نہیں نہ لغوی معنوں کے لحاظ سے اور نہ جو پہلے علماء تھے جن کے چند حوالے میں نے پڑھے ہیں۔ ان کے اقوال کے مطابق اور نہ حضرت مسیح موعود نے جو اس کی تفسیر کی ہے اس کے مطابق’’۔ (الفضل 21 مئی 1978ء)
سلسلہ مجدّدین
آج اسلام کی امتیازی خصوصیت
خداتعالیٰ نے اسلام اور قرآن کی حفاظت کا ذمہ قیامت تک لیا ہے۔ آج اس رنگ میں تجدید و احیا صرف اسلام کی خوبی ہے اور باقی مذاہب اس سے یکسر محروم ہیں۔ اسلام کی مثال اس سرسبز باغ کی سی ہے جس کا مالی ہمہ وقت اس کا خیال رکھتا ہے جبکہ دوسرے مذاہب اب اس خشک باغ کی مانند ہیں جن میں سوکھے درخت تو ہیں مگر وہ پھول اور پھل سے محروم ہیں۔ مالک نے اس باغ کی آبیاری چھوڑ دی ہے۔ دوسرے مذاہب کے بگاڑ اور اسلام کی شاندار حفاظت کا ذکر کرتے ہوئےحضرت مسیح موعود فرماتے ہیں:
‘‘دنیا کے مذاہب پر اگر نظر کی جائے تو معلوم ہوگا کہ بجز اسلام ہر ایک مذہب اپنے اندر کوئی نہ کوئی غلطی رکھتا ہے اور یہ اس لئے نہیں کہ درحقیقت وہ تمام مذاہب ابتداء سےبگڑے ہوئے ہیں بلکہ اس لیے کہ اسلام کے ظہور کے بعد خدا نے ان مذاہب کی تائید چھوڑ دی اور وہ ایسے باغ کی طرح ہوگئے جس کا کوئی باغبان نہیں اور جس کی آبپاشی اور صفائی کے لیے کوئی انتظام نہیں۔ اس لیے رفتہ رفتہ ان میں خرابیاں پیدا ہوگئیں۔ تمام پھل دار درخت خشک ہوگئے اور ان کی جگہ کا نٹےدار خراب بوٹیاں پھیل گئیں اور روحانیت جو مذہب کی جڑ ہے وہ بالکل جاتی رہی اور صرف خشک الفاظ ہاتھ میں رہ گئے۔ مگر خدا نے اسلام کے ساتھ ایسا نہ کیا اور چونکہ وہ چاہتا تھا کہ یہ باغ ہمیشہ سرسبز رہے اس لیے اس نے ہر ایک صدی پر اس باغ کی نئے سرے سے آبپاشی کی اور اس کو خشک ہونے سے بچایا۔ ہر صدی پر جب بھی کوئی بندہ خدا اصلاح کے لیے قائم ہوا جاہل لوگ اس کا مقابلہ کرتے رہے۔ …… لیکن خدا نےاپنی سنت کو نہ چھوڑا۔ …… مگر دوسرے دینوں کو ہمارے نبیﷺ کے بعد یہ تجدید کبھی نصیب نہ ہوئی اس لیے وہ سب مذاہب مر گئے ان میں روحانیت باقی نہ رہی۔ اور بہت سی غلطیاں ان میں ایسی جم گئیں کہ جیسے بہت مستعمل کپڑے پر جو کبھی دھویا نہ جائے میل جم جاتی ہے اور ایسے انسانوں نے جن کو روحانیت سے کچھ بہرہ نہ تھا اور جن کے نفسِ اماره سفلی زندگی کی آلائشوں سے پاک نہ تھے اپنی نفسانی خواہشوں کے مطابق ان مذاہب کے اندر بیجا دخل دے کر ایسی صورت ان کی بگاڑ دی کہ اب وہ کچھ اور ہی چیز ہیں’’۔
(لیکچر سیالکوٹ۔ صفحہ1۔ 2)
اسلام میں اس طرح سلسلہ مجدّدین جاری کرنے کے کیا نتائج برآمد ہوئے؟ اور اسلام کی حفاظت کے لیے ایسا کرنا کیوں ضروری تھا؟ تاکہ باقی ادیان پر اس کی فوقیت ثابت ہو۔ ان باتوں کی تشریح کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود نے فرمایا:
‘‘الٓر کے لفظ سے پتہ چلتا ہے کہ یہ لفظ مجدّدوں اور مرسلوں کے سلسلہ جاریہ کی طرف اشارہ کرتا ہے جو قیامت تک جاری ہے۔ اب اس سلسلہ میں آنے والے مجدّدوں کےخوارق، ان کی کامیابیوں، ان کی تاثیروں وغیرہ کو گن بھی نہیں سکتے۔ …… غرض ہر صدی کےسر پر مجدّد کا آنا صاف طور پربتلا رہا ہے کہ مُردوں سے استمداد خداتعالیٰ کے منشاء کے موافق نہیں اگر مردوں سے مدد کی ضرورت ہوتی تو پھر زندوں کے آنے کی کیا ضرورت تھی۔ ہزاروں ہزار اولیاءاللہ پیدا ہوئے ہیں اس کا کیا مطلب تھا۔ مجدّدین کا سلسلہ کیوں جاری کیا۔ اگر اسلام مُردوں کے حوالے کیا جاتا تو یقیناً ً سمجھو کہ اس کا نام ونشان مٹ گیا ہوتا۔ یہودیوں کا مذہب مُردوں کے حوالے کیا گیا نتیجہ کیا ہوا؟ عیسائیوں نے مردہ پرستی کی۔ بتلاؤ کیا پایا۔ مُردوں کو پوجتے پوجتے خود مُردہ ہوگئے۔ نہ مذہب میں زندگی کی روح رہی نہ ماننے والوں میں زندگی کے آثار باقی رہے۔ اوّل سے لے کر آخر تک مُردوں کا ہی مجمع ہوگیا’’۔ (الحکم 24؍جولائی 1902ءصفحہ7)
چنانچہ مختلف مذاہب کے علماء اور محقّقین نے بھی اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے کہ واقعتاً مُرورِ زمانہ کے ساتھ ساتھ ان مذاہب میں بگاڑ پیدا ہوتا رہا ہے۔ چنانچہ بدھ مت کے بگاڑ کے متعلق پنڈت جواہر لال نہرو لکھتے ہیں:
‘‘اس وسیع بدھ دنیا میں اور اس کی حکمرانی کی اس طویل مدّت میں کوئی ایسامصلح سامنے نہ آیا جوحقیقی بدھ مت کی طرف دعوت دے اور اس جدید اور منحرف مذہب کا پوری قوّت کےساتھ مقابلہ کرے اور اس کا دورِشباب اور اس کی گمشدہ سادگی اور صفائی پھر سے واپس لےآئے’’۔
(تلاش ہند۔ پنڈت جواہر لال نہرو صفحہ201، بحوالہ تاریخ دعوت و عزیمت از مولانامحمد سلیما ن ندوی جلد 1 صفحہ32)
یہی حال ہندو مذہب کا ہوا اور یہی حال عیسائیت کا ہوا۔ عیسائیت کے بگاڑ کا تذکرہ کرتےہوئے انسائیکلوپیڈیا میں لکھا ہے:
‘‘اگر ہم اس کے اسباب تلاش کریں کہ سولہویں صدی سے قبل اصلاح مذہب (ریفارمیشن) کی کوششوں میں جزوی کامیابی بھی کیوں نہ ہوئی تو بلا کسی دشواری کے کہہ سکتےہیں کہ سب سے بڑا سبب قرونِ وسطیٰ کی ماضی کی مثالوں کی غلامی تھی۔ (ایضاََ صفحہ28)
یہ ایک حقیقت ہے کہ جب تک مذہب میں زندگی کی روح پھونکنے والے افراد موجود نہ ہوں مذہب زندہ نہیں رہ سکتا کیونکہ زندگی کےتقاضے ہر وقت جواں ہیں، مادیت کا درخت سدا بہارہے۔ نفس پرستی کی تحریک اور اس کے مذہب کوحقیقتاً کسی تجدید کی ضرورت نہیں کہ اس کی ترغیبات اوراس کے محرکات قدم قدم پر موجود ہیں پھر بھی اس کی تاریخ اس کے پُرجوش داعیوں اور کامیاب ‘‘مجدّدوں’’ سے کبھی خالی نہیں رہی اور حدیث رسولؐ کے مطابق ایسے ‘‘ائمہ مضلّین’’ (ترمذی ابواب الفتن باب ما جاءفی الائمۃ) پیدا ہوتے رہے جنہوں نے اس کی جوانی کو قائم رکھا اور اس کی دعوت کو ہر دَور میں پھیلاتے رہے اور یہ کہتے رہے؏
گرچہ پیر ہے مومن، جواں ہے لات و منات
جب حدیث رسولؐ کا پہلا حصّہ پورا ہوگیا تو لازماً دوسرا حصہ یعنی بعثت مجدّدین کے وعدے کا ایفاء بھی ضروری تھا۔ اس مادیت کا مقابلہ جب تک نئی زندگی اور روح کے ساتھ نہ کیا جاتا تو مادیت کی ہماہمی میں حق کا بچنا بلکہ مادیت پر غلبہ پانا مشکل تھا لیکن خدا نے رحم فرماتے ہوئے سلسلہ مجدّدین جاری فرمایا اور اسلام میں تاریخ دعوت و عزیمت اتنی ہی طویل ہے جتنی اسلام کی زندگی۔ جب بھی اُمّتِ محمدیہ کو کسی فتنے نے گھیرا اور ایک مردِمومن کی ضرورت محسوس ہوئی تو خدا نے اس کا خاطرخواہ انتظام کر دیا۔ قدریت، جہمیت، اعتزال، خلقِ قرآن، وحدت الوجود اور دینِ الٰہی ایسے بےشمار فتن بپا ہوئے مگر اسلام کے حقیقی علمبرداروں نے خم ٹھونک کر ان کا مقابلہ کیا اور ہر فتنے کے مقابلے میں قرآن وسنّت کی افضلیت ثابت کی۔ ہمارے موجودہ دور میں بھی ہر صدی کے سر پر جب اسلام اندرونی و بیرونی حملوں کی آماجگاہ بن گیا تو خداتعالیٰ نے حضرت مسیح موعود کو بھیج کر ایک دفعہ پھر اپنے وعدہ کوسچّا ثابت کر دکھایا۔ مجدّدیت کی جاری و ساری نعمت کا ذکر کرتے ہوئے حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ نے فرمایا:
‘‘اسلام میں ہر زمانہ میں ایسے لوگ پیدا ہوئے جو لَقَدْ اَنْزَلْنَا آیَاتٍ مُبَیِّنٰتٍ کے ذریعہ اسلام کی روشنی کو ظاہر کرتے رہے۔ چنانچہ ابتدائی زمانہ میں حضرت جنید بغدادیؒ ہوئے، حضرت سیّدعبدالقادر جیلانیؒ ہوئے، شبلیؒ ہوئے، ابراہیم ادھمؒ ہوئے، ابن تیمیہؒ ہوئے، ابن قیّمؒ ہوئے، امام غزالیؒ ہوئے، حضرت محی الدین ابن عربیؒ ہوئے اور ان کے علاوہ ہزاروں اور بزرگ ہوئے۔ پھر آخری زمانہ میں حضرت شاہ ولی اللهؒ صاحب محدّث ہوئے، شیخ شہاب الدینؒ صاحب سُہروردی ہوئے، خواجہ بہاؤالدین صاحب نقشبندیؒ ہوئے۔ نظام الدین صاحب اولیاءؒ ہوئے، خواجہ قطب الدین صاحب بختیار کاکیؒ ہوئے، فریدالدین صاحب گنج شکرؒ ہوئے، حضرت سیّد احمد صاحب بریلویؒ ہوئے، حضرت شیخ احمد صاحب سرہندیؒ مجدّد الف ثانی ہوئے۔ یہ سب لوگ خداتعالیٰ کا قرب پا کر آیَاتٍ مُبَیِّنٰتٍ کا مقام حاصل کرگئے اور ان میں سے ہر شخص کو دیکھ کر لوگ اپنا ایمان تازہ کرتے تھے۔ پھر جب ان کا نور دُھندلا ہوا تو خداتعالیٰ نے حضرت مسیح موعود کو ہمارےاندر پیدا کیا اور آپ کا وجود ہمارے لئے آیَاتٍ مُبَیِّنٰتٍ بن گیا۔
(تفسیرکبیر جلد ششم صفحہ 359، 358)

متعلقہ مضمون

  • جلسہ سالانہ کی اہمیت

  • جماعتِ احمدیہ جرمنی کے ایک جفا کش دیرینہ خادم

  • جرمنی میں رہتے ہوئے سوئٹزرلینڈ میں کام کے مواقع