تاریخِ جرمنی (قسط دو از دہم)

پندرہویں صدی میں مشرق کی جانب سے جو مزاحمت اور بغاوت کے آثار نمایاں ہوئے، جن کا اختصار کے ساتھ پچھلی قسط میں ذکر ہوا تھا، ان کے کئی اہم پہلو قابلِ توجہ ہیں۔ دریائے ایلب کے اُس پار رہنے والے slavic کے ساتھ جرمنوں نے آغاز سے ہی استحصالی رویہ اپنائے رکھا۔ اور کبھی یہ تک متعین نہیں کیا کہ جرمانیا کی مشرقی حد کہاں ہے۔ اس دَور میں ایک اہم نام Jan Hus سامنے آیا، جس نے گویا Protestants کے “ارہاص” کا کام کیا۔ Jan Hus ایک فلسفی اور عالمِ دین تھا، اور اس نے catholic church کی اصلاح کی تعلیمات پیش کیں۔ مثلاً کلیسا سادہ لوح عیسائیوں کا نجات اور گناہوں کی بخشش کے نام پر استحصال کرتا تھا، یا بائبل کو عام لوگوں کی زبان میں نہیں پڑھایا جاتا تھا۔ Hus نے اس جیسی کئی اصلاحات کی تعلیم دی۔یہPrague University کا Dean بھی تھا۔ اور اس کے خیالات کی وجہ سے جرمنی سے آئے ہوئے علما اور اساتذہ بھی شہر چھوڑ کر واپس جانے لگ گئے۔ ان دو باتوں کا ذکر اس لیے کرنا ضروری ہے کہ یہ دونوں باتیں ہی بعد میں آنے والے واقعات کا گویا ابتدائیہ ہیں۔ اور Jan Hus کو اس وجہ سے تاریخ میں ایک اہم مقام حاصل ہے۔ بالآخر Hus کو سزائے موت دے دی گئی۔
لیکن چند ہی سال بعد، ایک جرنیل اور Hus ہی کے ساتھی Jan Žižka نے مزاحمت اور بغاوت کا آغاز کیا۔ یہ جنگیں Hus کی جماعت نے اپنے مذہبی حقوق حاصل کرنے کے لیے لڑی تھیں۔ Hus کے ساتھیوں کو Hussites کہا جاتا ہے۔ تین جنگوں کے بعد Hussites کو اپنے مذہبی حقوق حاصل ہوگئے لیکن Žižka اگلی جنگ کی تیاری کے دوران وبائی بیماری سے جاں بحق ہوگیا۔ Jan Žižka Czech قوم کا ہیرو ہے۔ اور آج بھی اس کی جنگی حکمتِ عملی کو تاریخ میں اہمیت حاصل ہے۔
اس سب قصے کا بیان اس لیے ضروری تھا کہ اس سے تین اہم واقعات رُونما ہوئے یا ان کی ابتدا ہوئی۔ اوّل، مشرق کی طرف سے بغاوت اور مزاحمت کھل کر سامنے آئی۔ دوم، کلیسا کے خلاف عوام کےجذبات صاف دکھائی دیے۔ سوم، جرمنی کے مغربی حصے کے تمام prince- electors نے عدمِ استحکام کو اب خود خیرباد کہا اور ایک خاندان کو بادشاہت کے لیے منتخب کرلیا۔ کیونکہ مشرق سے ہونے والی بغاوت سے ان کا اپنا اقتدار اور اپنی طاقت بھی خطرے میں پڑنے لگے تھے۔ سو ان کو اندازہ ہوا کہ خود ان کی اپنی طاقت اور اقتدار سلطنت کے استحکام سے وابستہ ہے۔ اور جیسا کہ پچھلی قسط میں تفصیل سے ذکر ہوا، بادشاہت اب مستقلاً Habsburg خاندان کے حصے میں آئی۔
دریائے ایلب کے مشرقی حصے سے اُٹھنے والی یہ آخری تحریک نہیں تھی۔ انہی سالوں میں ایک نیا طبقہ بھی پیدا ہوا جنہیں Junker کہا جاتا ہے۔ آپ کو شاید یاد ہو، پچھلی قسط میں اس بات کا ذکر ہوا تھا، کہ مغربی جرمنی کے سپاہیوں کے ایک order نے Prussia کے علاقے کو (جو جرمنی سے مشرق میں واقع تھا) اپنے قبضے میں لے لیا تھا اور انہیں یہ اجازت حاصل تھی کہ وہ خود ان علاقوں پر حکومت کرسکتے ہیں۔ اب ان کی اگلی نسلیں جوان ہوچکی تھیں۔ اور وہ خود سپاہیوں کی اولادیں تھیں، سو وہ حاکم ہونے کے ساتھ ساتھ سپاہی اور سالار بھی تھے۔ ان کو Junker کہا جاتا ہے۔ Junker اب Prussians تھے۔ اور یہی ان کی پہچان تھی۔ جرمنی اور دریائے ایلب کے مشرق میں آباد اقوام میں جو فرق تھا، اب وہ نہ صرف عوام کی حد تک محدود تھا بلکہ خواص میں بھی یہ فرق نمایاں ہوچکا تھا۔ Prussians اورPrussian Junker کی اہمیت تاریخ میں آگے چل کر قائم رہتی ہے۔ ان کا ذکر تاریخ میں کچھ صدیوں کے بعد بہت اہمیت اختیار کرجاتا ہے۔ (باقی آئندہ)
حوالہ جات:
Die kürzeste Geschichte Dutschlands, James Hawes, Ullstein 2019, Berlin
Deutsche Geschichte, Dudenverlag 2020, Berlin

متعلقہ مضمون

  • جلسہ سالانہ کی اہمیت

  • جماعتِ احمدیہ جرمنی کے ایک جفا کش دیرینہ خادم

  • جرمنی میں رہتے ہوئے سوئٹزرلینڈ میں کام کے مواقع