مجلس صحت جرمنی کے تحت گزشتہ سال سے ہائیکنگ کی جا رہی ہے۔ امسال دو روزہ ہائیکنگ (25 تا 27 اگست 2022ء) کے لئے آسٹریا اور اٹلی کی سرحد پر واقع بلند و بالا پہاڑیوں (Alpen)کا انتخاب کیا گیا اور اس علاقہ کی دوسری بلند ترین چوٹی Weißkugel (میٹر 3738) کو سَر کرنے کا ہدف رکھا گیا۔
اس پروگرام کا آغاز 25 اگست کو بیت الشکور ناصرباغ میں نماز فجرسے ہوا۔ جس کے بعد مکرم باسل اسلم صاحب مربی سلسلہ نے مختصر درس میں گزشتہ سال ماؤنٹ ایورسٹ پر لوائے احمدیت لہرانے والے مکرم عبدالوحید وڑائچ صاحب شہید کا ذکر خیر کیا اور تمام حصہ لینے والے احباب کو اس سفر کے نیک مقصد کی طرف توجہ دلائی۔ روانگی سے قبل مکرم سجیل احمد صاحب مربی سلسلہ نے دعا کروائی جس کے بعد جماعت جرمنی کے آئرن مین مکرم عبداللہ واگس ہاؤزر صاحب کی قیادت میں سفر کا آغاز ہوا۔
آٹھ گھنٹے کے طویل سفر کے بعد قافلہ اٹلی کے علاقہ (میٹر1824) Glieshof پہنچا۔ نماز ظہروعصر کی ادائیگی اور کھانے کے بعد یہاں گاڑیاں پارک کرکے ساڑھے تین گھنٹے کی ہائیکنگ کے بعد ہم 2680 میٹر کی بلندی پر واقع ہوٹل Oberetteshütte پہنچے اور رات قیام کیا۔ ہائیکنگ کے دوران جوں جوں بلندی کی طرف بڑھتے جاتے تو ایک سے بڑھ کر ایک دلفریب نظارہ دیکھنے کو ملتا۔ آغاز میں ہی بائیں جانب گلیشیر کے پانیوں سے تیز رفتار بہتی ندی تو کہیں چشموں کا پانی اور کہیں خوبصورت آبشاریں دیکھ کر تھکان جاتی رہتی۔
اگلے دن 26 اگست کی صبح پونے پانچ بجے ہوٹل میں باجماعت نماز فجر ادا کی گئی جس کے بعد مکرم سجیل احمدصاحب مربی سلسلہ نے قیام الصلوٰۃ کے موضوع پر مختصر درس دیا۔ ناشتہ کے بعد پہاڑ کی چوٹی Weißkugel کو سَر کرنے کے لیے دشوار گزار ہائیکنگ کی تیاری کے بعد دعا کے ساتھ سفر شروع ہوا۔ آغاز میں مکرم نیشنل امیر صاحب نے تمام شاملین کو بتایاکہ یہ ایک مشکل منزل ہے کیونکہ آدھا راستہ خشک پہاڑ ہیں جبکہ آدھے راستے میں گلیشیر اور برف ہوگی اس لیے سب کے لیے لازم نہیں ہے کہ وہ چوٹی تک ضرور پہنچیں۔ جس کی جتنی ہمت ہو وہ اتنا سفر کرلے اور اردگرد کے ماحول سے محظوظ ہو۔
ہوٹل سے چوٹی تک ایک ہزار میٹرکی بلندی کا یہ راستہ انتہائی دشوار گزار اور توقع سے بہت زیادہ مشکل تھا۔ اپنی منزل مقصود کے لیے چٹیل پہاڑوں پر پتھریلی پگڈنڈیوں اور گلیشیرز سے گزرنا تھا جس کی وجہ سے ہرقدم سوچ سمجھ کر رکھنے کی ضرورت تھی۔ کسی کا ایک غلط قدم بھی سینکڑوں فٹ گہری کھائی میں گرا سکتا تھا۔ پہاڑ پر کسی حفاظتی رسّی کا بھی انتظام نہ تھا۔ اس دوران جہاں ہمّت جواب دینے لگتی تو پُر جوش نعرہ ہائے تکبیر بلند کیے جاتے۔ ہرطرف خاموشی میں پہاڑوں سے ٹکرانے والے نعروں کی گونج دُور دُور تک سنائی دیتی رہی۔

 


بہرحال ایک کے بعد دوسرا بلند پہاڑ سَر کرنے کے بعد ہمیں کئی کلومیٹر دُور سے اپنی منزل نظر آنا شروع ہوگئی یعنی وہ چوٹی جسے سَر کرنے کے لیے ہم نکلے تھے۔ دور سے کئی کلومیٹر پر پھیلے گلیشئیرز نظر آنے لگے۔ پہاڑوں کا سفر کرنے والے جانتے ہیں کہ سامنے نظر آنے والا پہاڑ بظاہر بہت قریب معلوم ہوتا ہے لیکن دراصل وہ خاصا دُور اور گھنٹوں کی مسافت پر ہوتا ہے۔ خیر چلتے چلتے ہم گلیشیر کے قریب ایک جھیل پر پہنچے جس میں گلیشیر کا پانی جمع ہو کر آبشار بن کر گہرائی میں گر رہا تھا۔ یہاں سے ہمارا گلیشیر پر سفر شروع ہوا جس پر چلنے کے لیے ہم نے جوتوں کے نیچے لوہے کے نوک دار تلوےلگا لئے کہ اب ان کے بغیر چلنا ممکن نہ تھا۔
یہاں پہنچنے پر احساس ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے پانی کے کس قدر بڑے ذخیرے کو اس طرح محفوظ کر رکھا ہے اور سال بھر اپنی مخلوق کے لیے اس برف کو قطرہ قطرہ پگھلا کر دریاؤں اور ندی نالوں کو رَواں رکھا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی ایک اور بات کا احساس بڑی شدّت سے ہوا کہ ہم سطح سمندر سے قریباً تین ہزار میٹر کی بلندی تک پہنچ چکے ہیں لیکن اس کے باوجود ہمیں ارد گرد کے بلند و بالا پہاڑوں پر چند گلیشیر ہی نظر آئے جو غیرمعمولی بات تھی۔ مختلف ذرائع ابلاغ پر تو ہم خبریں سنتے اور دیکھتے رہتے ہیں کہ سال بہ سال زمین کا درجہ حرارت بڑھتا جا رہا ہے اور اس کی وجہ سے گلیشیر اپنی معمول کی رفتار سے بہت تیزی سے پگھل رہے ہیں، اس کا نظارہ ہم اپنی آنکھوں سے کر رہے تھے۔ ایسے لگتا جیسے پہاڑوں کی ننگی اور بےرونق چوٹیاں ہم انسانوں کو منہ چڑا کر کہہ رہی ہوں کہ تمہاری بے لگام ترقی کی دوڑ میں ہم برف کی خوبصورت سفید چادر سے محروم ہوچکی ہیں۔ گلیشیرکے بہت تیزی سے پگھلنے کی وجہ سے برف کے بڑے تودوں کے درمیان انتہائی گہری اور خوفناک کھائیاں پیدا ہوچکی تھیں جس کی وجہ سے ان دراڑوں کو پار کرنا خطرے سے خالی نہ تھا۔ کسی بھی لمحہ ایک معمولی سی لغزش بھی ہمیں کسی مشکل امتحان میں ڈال سکتی تھی۔ لیکن تمام مہم جُو ایک دوسرے کی ہمّت بندھاتے اور قدرت کے اس شاہکار سے لطف اندوزہوتے، ذکرِ الٰہی اور دعاؤں کا وِرد کرتے آگے بڑھتے رہے اور دائیں بائیں نظریں دوڑا کر ایسی جگہ کی تلاش کرتے جہاں برف کے تودوں کا درمیانی فاصلہ کم ہو۔ کچھ دیر گلیشیر پر سفر کرنے کے بعد حفاظتی بیلٹ پہن کر سب نے ایک دوسرے کو ایک مضبوط رَسّے کے ذریعہ باندھ لیا تاکہ اگر خدانخواستہ کوئی پھسل جائے تو سب مل کر اس کی مدد کر سکیں۔
تین ہزار میٹر سے زائد بلندی پر آکسیجن کی کمی کا احساس ہونے لگا۔ یہ تجربہ بھی بہت سے غیرتجربہ کار مہم جوؤں کے لیے نیا تھا۔ چند دوستوں کے لیے اس قدر بلندی پر پہنچنا مشکل تھا اس لیے وہ قریباً تین ہزار میٹرتک ہی پہنچ پائے۔
چھوٹے چھوٹے قدم اُٹھاتے ہم 3500 میٹر سے زائد بلندی تک پہنچ چکے تھے جبکہ ہماری منزل 3738 میٹر تھی۔ اس بلندی پر پہنچے تو وہی مسئلہ ایک بار پھر دَرپیش تھا کہ گلیشیر کے پگھلاؤ کی وجہ سے چوٹی سے قریباً دو سو میٹر پہلے ایک بہت بڑی دراڑ حائل ہوگئی اور آگے چوٹی پر چڑھنے کے لیے جسم و جان کو انتہائی خطرہ میں ڈالنے والی بات تھی۔ چوٹی پر چڑھنے کے لیے جس رَسی کی ضرورت تھی وہ ہم لوگ اپنا وزن کم کرنے اور چوٹی کے پاس اس مشکل صورتِ حال کا اندازہ نہ ہونے کی وجہ سےکافی پیچھے چھوڑ آئے تھے۔ چند دوست ہمّت کرکے جان ہتھیلی پر رکھتے ہوئے اس دراڑ کو پار کرنے میں کامیاب تو ہوگئے جن میں مکرم امیر صاحب جرمنی و امیر قافلہ بھی تھے لیکن انہوں نے صورتِ حال کا جائزہ لینے کے بعد دیگر ساتھیوں کو سمجھایا کہ ضروری نہیں کہ ہم چوٹی تک پہنچ سکیں۔ ہم جس حد تک کامیاب ہوگئے ہیں یہ ہی ہماری بہت بڑی کامیابی ہے۔ اس مرتبہ گیارہ افراد 3500میٹر سے زائد بلندی تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔
اب سب نے اکٹھے ہوکر تصاویر بنائیں اور جماعت احمدیہ کا جھنڈا لہرا کر نعرہ ہائے تکبیر بلند کئے۔ سب مہم جوؤں کے ویڈیو انٹرویوز کرکے ان کے جذبات اور تأثرات کو محفوظ کیا گیا۔ اکثر افراد کے لیے یہ ایک نیا تجربہ تھا جس کی وجہ سے سب خوش تھے۔
بعد دوپہر 3500 میٹر سے زائد بلندی پرایک گھنٹہ کا وقت گزارنےاور دلفریب بلند و بالا پہاڑی سلسلوں کے نظاروں سے لطف اندوز ہونے کے بعد واپسی کا سفر شروع کیا گیا۔ جہاں اس بلندی تک چڑھنا آسان کام نہیں تھا وہاں اُترنا بھی سہل اور خطروں سے خالی نہ تھا۔ ہر قدم نہایت احتیاط کے ساتھ اُٹھانا پڑتا تھا۔ جن دشوار گزار پہاڑوں سے ہوتے ہوئے ہم اس جگہ پر پہنچے تھے انہی کو ایک مرتبہ پھر پار کرنا تھا۔ گلیشیر کے مشکل سفر کے بعد ہم شام چھ بجے کے قریب جھیل پر رُکے اور بہتے یخ بستہ پانی سے وضو کرکے پتھریلی جگہ پر بیٹھ کر ظہر و عصر کی نمازیں باجماعت ادا کی گئیں۔ رات پونے نَو بجے آخری گروپ ہوٹل(2680میٹر) پہنچا۔ اب حال یہ تھا کہ شدید تھکاوٹ کی وجہ سے آگے پارکنگ تک جانا انتہائی مشکل مرحلہ دکھائی دے رہا تھا۔ ہوٹل میں کھانا کھا یا اور نماز مغرب و عشاء ادا کرکے 10:50 پر گھپ اندھیرے اور بارش میں ٹارچوں کی روشنی میں پارکنگ(1824میٹر) کی طرف سفر شروع کیا گیا۔ تاریکی اور بارش کی وجہ سے جنگل والے حصہ سے گزرنے کی بجائے کافی حد تک نیچے جا کر جیپوں کے لیےیا ٹریکٹر وغیرہ کے لیے بنائے گئے چوڑے مگر قدرے طویل راستہ کا انتخاب کیا گیا۔ مگر سفر تھا کہ ختم ہونے کا نام نہیں لیتا تھا۔ سارا راستہ بارش کی وجہ سے ہر کوئی بھیگا ہوا تھا، پاؤں درد کر رہے تھے، نیند غالب آ رہی تھی اور چلتے رہنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔ یہ پیدل سفر رات دو بجے کے بعد ختم ہوا اور اس طرح تین گھنٹے سے زائد وقت ہمیں گاڑیوں تک پہنچنے میں لگا۔
رات پونے تین بجے ناصر باغ کی طرف پانچ گھنٹے سے زائد کا سفر شروع کیا اور 27 اگست 2022ء کی صبح قریباً ساڑھے دس بجے آخری گاڑی بخیرو عافیت ناصرباغ پہنچ گئی۔ یہاں ناشتہ کے بعد سب دوست اس مشکل مہم کی کامیابی پر اللہ کے حضور سجدہ شکر بجا لاتے ہوئے خوشی خوشی رخصت ہوئے کہ اس مہم میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے کسی بھی حادثہ سے محفوظ رہے، الحمدللہ۔ فوٹو گرافی کے لیے شعبہ سمعی و بصری جرمنی کے کارکنان مکرم عبدالسمیع شاد صاحب اور مکرم باصر احمد صاحب شریک سفر رہے۔
اس مہم میں مندرجہ ذیل سولہ افراد نے حصہ لیا جن میں سےاوّل الذکر گیارہ دوست 3500میٹر سے زائد بلندی تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔
مکرم عبداللہ واگس ہاؤزر صاحب(امیرجماعت جرمنی)
مکرم میاں عمر عزیز صاحب (صدر مجلس صحت ہائیکنگ گروپ)
مکرم ملک سجیل احمد ملک صاحب مربی سلسلہ،
مکرم واصل احمد صاحب، مکرم فاتح احمد عزیز صاحب،
مکرم مظہراقبال صاحب، مکرم راحیل احمد صاحب،
آفاق احمد زاہد (خاکسار)، مکرم لقمان احمد وڑائچ صاحب، مکرم محمدیوسف صاحب، مکرم حامد احمد صاحب،
مکرم راشدغفّار صاحب، مکرم مرزا لقمان احمد صاحب،
مکرم ارباز خان صاحب، مکرم باصر احمد صاحب،
مکرم عبدالسمیع شاد صاحب

متعلقہ مضمون

  • جلسہ سالانہ کی اہمیت

  • جماعتِ احمدیہ جرمنی کے ایک جفا کش دیرینہ خادم

  • جرمنی میں رہتے ہوئے سوئٹزرلینڈ میں کام کے مواقع