محترمہ ڈاکٹر امةالکريم صاحبہ جرمني ميں ڈاکٹريٹ (PhD) کرنے والي پہلي احمدي خاتون تھيں۔ آپ 1955ء ميں اُس وقت پاکستان سے جرمني آئيں جب يہاں احمدي احباب و خواتين کي تعداد بہت کم تھي۔ جرمني کے قيام کے دوران آپ اعليٰ تعليم حاصل کرنے کے ساتھ جرمن مشن سے مسلسل رابطہ ميں رہيں۔ ڈگري مکمل کرنے کے بعد 1959ء ميں آپ پاکستان واپس تشريف لے گئيں جہاں آپ طويل عرصہ تک ملک و قوم کي تعليمي خدمت ميں مصروف رہيں۔

خانداني تعارف

محترمہ امةالکريم صاحبہ کے والد محترم ڈاکٹر غلام علي صاحب کا تعلق چہور ضلع لائلپور سے تھا جو تعليم الاسلام ہائي سکول قاديان کے پرانے طالبعلم تھے اور حضرت خليفةالمسيح الاولؓ کے زمانہ ميں قاديان آئے تھے۔ پھر لاہور ميڈيکل سکول ميں داخل ہوئے اور چار سال کا کورس پاس کرنے کے بعد فوجي ملازمت اختيار کي۔ بلوچستان، سيستان اور ہندوستان کي مختلف چھاؤنيوں ميں کام کرتے رہے۔ آپ نہايت مخلص خادم دين تھے۔ منارةالمسيح کي تعمير ميں يکصد روپيہ اپني طرف سے اور اتنے ہي اپني اہليہ کي طرف سے ادا کئے۔ ڈاکٹر صاحب کو تبليغ کا بہت شوق تھا۔ ملازمت کے دوران باوجود مصروف ہونے کے فريضہ تبليغ نہايت عمدگي سے ادا کرتے۔ اللہ تعاليٰ نے آپ کو دستِ شفا عطا فرمايا تھا اور علاج نہايت محنت اور محبّت سے کرتے۔ انگريز افسروں پر بھي آپ کي دين داري کا اثر تھا۔ فوج ميں ملازمت کي وجہ سے مختلف چھاؤنيوں ميں آپ کا تبادلہ ہوتا رہتا تھا جس کي وجہ سے بچوں کي ديني و دنياوي تعليم و تربيت ميں دشواري ہو رہي تھي لہٰذا 1936ء ميں آپ نے اپنے بچوں کو قاديان منتقل کر ديا تاکہ خالص ديني ماحول ميں تربيت پائيں۔ آپ موصي بھي تھے۔ آپ کي وفات چاليس سال کي عمر ميں 9 جولائي 1938ء کو کلکتہ ميں ہوئي اور وہيں تدفين ہوئي۔ بہشتي مقبرہ قاديان ميں آپ کا يادگاري کتبہ نصب ہے[1]۔

آپ کي اہليہ محترمہ زينب بيگم صاحبہ حضرت مسيح موعودؑ کے صحابي حضرت عبدالرزاق سيالکوٹي صاحبؓ کي بيٹي تھيں جن سے آپ کي درج ذيل اولاد ہے۔

1۔ محترمہ امةالکريم طلعت صاحبہ اہليہ مکرم طلعت علي شيخ صاحب۔

2۔ محترمہ امةالحفيظ بھٹي صاحبہ اہليہ مکرم محمود احمد بھٹي صاحب۔

3۔ محترمہ آمنہ بيگم صاحبہ۔ 4۔ مکرم عبدالکريم صاحب۔

5۔ مکرم عبد الرشيد صاحب۔ 6۔ مکرم عبداللطيف صاحب

 

محترمہ امةالکريم طلعت صاحبہ

آپ کي پيدائش 17 جولائي 1930ء کو ايران کے شہر زاہدان ميں ہوئي جہاں ڈاکٹر غلام علي صاحب اُن دنوں ڈيپوٹيشن پر کام کر رہے تھے۔ محترمہ امةالکريم صاحبہ نے قاديان سے ميٹرک کيا اور پھر قيامِ پاکستان کے بعد لاہور منتقل ہوگئيں جہاں اسلاميہ کالج فار ويمن سے B.A کي ڈگري اعزاز کے ساتھ حاصل کي۔ پھر پنجاب يونيورسٹي کے اوريئنٹل کالج سےايم۔اے (عربي) کي ڈگري فرسٹ ڈويژن ميں حاصل کي اور صوبہ بھر کي خواتين ميں اوّل قرار پائيں۔ اس کے بعد 1953ء تا 1955ء آپ اسلاميہ کالج فار ويمن لاہور ميں عربي زبان کي ليکچرار رہيں۔ اسي دوران آپ کو ڈاکٹر شيخ عنايت اللہ صاحب کي زيرِنگراني ريسرچ سکالر کے طور پر عربي زبان ميں لکھي گئيں سوانح عمريوں پر تحقيق کرنے کا موقع بھي ملا۔ اس دوران آپ کو جرمني ميں پي ايچ ڈي کے لئے سکالرشپ ملا جس کي تفصيل بيان کرتے ہوئے لکھتي ہيں:

‘‘جب مَيں نے M.A عربي کا امتحان پنجاب يونيورسٹي ميں فرسٹ کلاس پوزيشن سے پاس کيا ان دنوں حکومت مغربي جرمني نے پاکستان کو دو اسکالر شپ پي ايچ ڈي کے طلبا کے لئے دئيے۔ ايک مشرقي پاکستان کے لئے دوسرا مغربي پاکستان کے لئے۔ ميري تعليمي قابليت کے مدِّنظر پنجاب يونيورسٹي نے جرمني کے لئے ميرا انتخاب کيا۔ سکالرشپ حاصل کرنے والوں کو برلن يونيورسٹي جرمني ميں ايک مقررہ وقت ميں رپورٹ کرنا لازم تھا۔ جب مجھے سکالرشپ ملا ان دنوں مَيں نے پاکستان پبلک سروس کميشن کے ذريعہ لائلپور گورنمنٹ کالج برائے خواتين ميں عربي ليکچرار کي پوسٹ حاصل کي تھي۔ جب مجھے وظيفہ کي اطلاع موصول ہوئي تو ميري والدہ اور نانا جان نے مجھے مشورہ کے لئے حضرت خليفةالمسيح الثانيؓ کے پاس بھجوايا۔ حضورؓ سے ميري ملاقات آپا مريم صديقہ صاحبہ کے ذريعہ سے ہوئي۔ ميري بات سن کر حضورؓ نے فرمايا کہ ‘‘جرمني ميں مردوں سے ہاتھ نہ ملانا’’۔ يہ اس طرف اشارہ تھاکہ مجھے جرمني جانے کي اجازت مل گئي ہے۔ اس پر آپا مريم صديقہ صاحبہ نے کہا کہ ‘‘پردے کا کيا ہوگا؟’’ مَيں نے جواب ديا جيسے مَيں نے ايم اے برقعے ميں کيا تھا ويسے ہي وہاں تعليم حاصل کر لوں گي۔ اس پر حضورؓ نے فرمايا کہ برقعے ميں تمہيں کوئي يونيورسٹي ميں داخل بھي نہيں ہونے دے گا۔ زيادہ سے زيادہ تم لمبا کوٹ پہن سکو گي۔ سر پر رومال باندھ لينا۔ مَيں نے کالج کي نوکري سے Resign کيا اور جرمني پہنچ گئي’’[2]۔

محترمہ امةالکريم صاحبہ نے نومبر 1955ء ميں جرمني آ کر Nuns جيسا کوٹ سلوا ليا اور سر پر سکارف لے کر يونيورسٹي جانا شروع کر ديا۔ آغاز ميں نومبر 1955ء تا اگست 1957ء آپ نے برلن ميں تعليم حاصل کي اور بعدازاںBonnآ گئيں جہاں سے 1959ء ميں درج ذيل تين مضامين ميں اعليٰ ترين اعزاز کے ساتھ Ph.D. کي ڈگري حاصل کي۔ مشرقي علوم (Oriental Studies)، بشريات (Anthropology) اور موازنہ مذاہب (Comparative Religions)۔ آپ نے پي۔ايچ۔ڈي کے مقالہ کے لئے قاضي ابو محمدالحسن بن عبدالرحمان بن خلاد الرامھرمزي کي ‘‘کتاب امثال الحديث’’ پر تحقيق و تعليق کي۔ بعدازاں 1968ء ميں يہ مقالہ کتابي شکل ميں شائع کيا۔ اس کے نسخے جرمني کي مختلف لائبريريوں ميں دستياب ہيں۔

آپ کي تعليم مکمل ہونے کے بعد وہاں کي يونيورسٹي کے ريکٹر نے پنجاب يونيورسٹي کے وائس چانسلر کو ايک خط لکھا جس ميں محترمہ امةالکريم صاحبہ کي تعليمي قابليت کو سراہتے ہوئے اس بات کا مطالبہ کيا کہ آئندہ بھي ايسے قابل طلبا کو ہي بھيجا جائے۔ محترمہ امةالکريم صاحبہ نے جرمن، عربي، اردو اور انگريزي ميں کتب تحرير کيں۔ ان ميں سے ايک انگريزي کتاب Makhdum Abdal Wahid Al-Sewistani And His Arbu’na Hadithan ہے جس کا ذکر صہيب بن عبدالغفار حسن نے ‘‘ببلوغرافيا لکتب الحديث والسنة باللغة الانکليزية’’ ميں کيا ہے۔ اسي طرح عربي زبان ميں کتاب النھج الجديد في قراءة العربية لتلامذة الفصل التاسع و العشر بھي لکھي۔ ان ميں سے بعض کتب ترکي کي يونيورسٹيوں ميں حوالہ جاتي کتب کي حيثيت سے استعمال ہوتي ہيں۔

جرمني ميں قيام کے دوران محترمہ امةالکريم صاحبہ نے حضرت مصلح موعودؓ کي خدمت ميں خط تحرير کرتے ہوئے اپني خواب کا ذکر کيا جس ميں ايک فتنہ (فتنہ منافقين)کي طرف اشارہ تھا۔ يہ خط الفضل 6 ستمبر 1956ء ميں شائع ہوا جس کا متن درج ذيل ہے۔

ميرے مقدّس آقا!

السلام عليکم و رحمة اللہ و برکاتہ

آج رات مَيں نے ايسا خواب ديکھا جس کي تعبير کا علم تو خدا کو ہي ہے۔ ليکن بظاہر وہ کسي فتنہ کي طرف اشارہ کرتا ہے۔

‘‘مَيں نے ديکھاکہ آپ ايک بہت بڑا مکان تعمير کروا رہے ہيں کوئي 5 بجے شام کا وقت ہےمعمار غالباً کام سے فارغ ہو کر گھروں کو واپس جا چکے ہيں اور ميري چند ہمجولياں جن ميں آپ کي بيٹي امةالنصير بھي ہے (کئي سالوں سے ميں امةالنصير کو اکثر خواب ميں اپنے ساتھ ديکھتي ہوں) اس جگہ ٹہل رہي ہيں۔ اس وقت مَيں اس حصہ ميں ہوں جو زيرِتعمير ہے۔ اور بہت سے کمروں پر مشتمل ہے۔ جن کي بنياديں رکھي جا چکي ہيں۔ ليکن عمارت تعمير نہيں ہوئي۔ اس کے ايک کونے سے بنيادوں کي اينٹوں کے اندر سے دھواں نکلتا ہوا نظر آتا ہے۔ مَيں چونک جاتي ہوں کہ شايد اس کے نيچے کسي نے آگ سلگائي ہے چنانچہ مَيں بنيادوں کو بغور ديکھنا شروع کر ديتي ہوں۔ دو تين کمروں کے فاصلہ پر ايک کونہ سے پھر دھواں نکل رہا ہے۔ پھر بنيادوں کي دوسري طرف درميان سے تھوڑے تھوڑے فاصلہ پر دھوئيں کے آثار نظر آتے ہيں۔ مجھے احساس ہوتا ہے کہ يہ کسي کي سازش ہے جو اس عمارت کو تباہ کرنا چاہتا ہے۔ چنانچہ مَيں اپني ہمجوليوں کي توجہ اس طرف مبذول کرنے کي کوشش کرتي ہوں ليکن وہ دھيان نہيں ديتيں۔ مَيں اکيلي دوبارہ بنيادوں کے گرد چکر کاٹنا شروع کر ديتي ہوں اور اس مقام پر پہنچ جاتي ہوں جہاں سب سے پہلے دھواں ديکھا تھا۔ اس وقت دھواں زيادہ بن گيا ہے۔ دھوئيں کي اصليت معلوم کرنے کے لئے مَيں نيچے جھک کر بنياد کي اينٹوں کے درمياني دَرز جہاں سے دھواں نکل رہا ہےکو بغور ديکھتي ہوں۔ کيا ديکھتي ہوں کہ بنياد کے ساتھ ہي زمين کھود کر کمرہ سا بنا ہوا ہے جس ميں مزدوروں کے کچھ اوزار اور کچھ کٹے ہوئے درختوں کي سوکھي ہوئي ٹہنياں پڑي ہيں۔ مجھے خطرہ کا فوراً احساس ہوتا ہےکہ اگر دھنکي ہوئي لکڑي پر جلد پاني نہ ڈالا گيا تو يہ جلد آگ کي صورت اختيار کرلے گي اور پھر ساري عمارت کو اپني لپيٹ ميں لے لے گي۔ مَيں فوراً پاني کے لئے دَوڑتي ہوں اور مٹي کي واڑي (جسے ہم جلسہ کے دنوں ميں بطور لوٹا استعمال کرتے ہيں) پاني سے بھر کر لاتي ہوں۔ اسي اَثنا ميں آپ چھوٹي آپا (محترمہ مريم صديقہ صاحبہ) اور چند افراد خاندان کے ہمراہ بنيادوں کو ديکھنے کے لئے تشريف لا چکے ہوتے ہيں۔ مَيں اس مقام پر جلدي سے پاني اُنڈيل کر دوڑ کر آپ کے پاس پہنچتي ہوں اور دھوئيں کا ذکر کرتي ہوں۔ چھوٹي آپا فوراً اس طرف توجہ مبذول کرتي ہيں اور ہم ان مقامات پر پاني ڈالنے کا کام تيزي سے شروع کر ديتے ہيں۔ خاکسارہ امةالکريم بنت ڈاکٹر غلام علي مرحوم’’[3]۔

محترمہ امةالکريم صاحبہ برلن اور بون ميں رہائش کے دوران جرمن مشن کے ساتھ مستقل رابطہ ميں تھيں۔ چودھري عبداللطيف صاحب کے نام لکھے گئے آپ کے خطوط سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ يونيورسٹي ميں تبليغ کرتيں اور آپ کے ذريعہ ايک جرمن خاتون Jutta Muth نے اسلام قبول کيا۔ تاہم خانداني دباؤ کي وجہ سے بعدازاں لاتعلقي کا اظہار کر ديا۔ محترمہ امةالکريم صاحبہ کو جرمني ميں قيام کے دوران مسجد فضل عمر ہمبرگ کے افتتاح کي تقريب ميں شامل ہونے کا موقع بھي ملا[4]۔

پاکستان واپس جانے کے بعد محترمہ امةالکريم صاحبہ کو سندھ يونيورسٹي کے شعبہ عربي ميں سينئر ليکچرار کي نوکري کي پيشکش ہوئي۔ اس سلسلہ ميں حضرت مصلح موعودؓ سے اجازت لينے کےضمن ميں آپ لکھتي ہيں:

‘‘يونيورسٹي ميں Co-education ہوتي ہے۔ وہاں پڑھانے کے لئے حضورؓ سے اجازت کے بغير کام کرنے کا تصوّر بھي نہيں کيا جا سکتا تھا۔ چنانچہ مَيں اپني والدہ اور نانا جان کے حکم پر حضورؓ کے پاس گئي۔ اور يونيورسٹي ميں کام کرنے کے لئے اجازت طلب کي۔ مجھے بي اے آنرز اور ايم اے کي کلاسيں ليني تھيں۔ جہاں عورتوں کے علاوہ مرد طلبا بھي تھے۔ حضورؓ نے ايک ہي بات کي۔ فرمايا ‘‘مَردوں کو پڑھا لو گي؟’’ اس پر مَيں نے جواب ديا وَما توفيقي الا باللہ۔ اس پر مجھے اجازت مل گئي۔ مَيں جب بھي حضورؓ کے پاس جاتي وہاں سے ان کي دعاؤں کے ساتھ لَوٹتي’’[5]۔

آپ نے سندھ يونيورسٹي ميں دس سال تدريس کے فرائض سرانجام ديئے اور اپنے طلبا و طالبات کو M.A. اور Ph.D. کرواتي رہيں۔ اسي طرح پاکستان پبلک سروس کميشن ميں عربي زبان کے ماہر کي حيثيت سے ممبر بھي رہيں۔ اس دوران پاکستان کي تمام يونيورسٹيوں ميں ايم۔اے عربي اور اسلاميات کي ممتحن بھي رہيں۔ 1970ء ميں ملکي حالات کے پيش نظر آپ کو يونيورسٹي کي ملازمت چھوڑني پڑي اور پھر کنٹونمنٹ کالج برائے خواتين پشاور ميں پرنسپل مقرر ہوئيں۔ يہ کالج بعد ميں فيڈرل گورنمنٹ کالج بن گيا اور پاکستان آرمي ايجوکيشن کور کے زيرِانتظام کام کرتا رہا۔ يہاں بيس برس تک کام کرنے کے بعد بيسويں گريڈ ميں ريٹائرڈ ہوئيں۔ دورانِ ملازمت آپ ڈيپوٹيشن پر فرانکفرٹ يونيورسٹي جرمني، علامہ اقبال اوپن يونيورسٹي اسلام آباد (پاکستان) اور نائيجيريا ميں بھي بحيثيت پروفيسر عربي اور اسلاميات پڑھاتي رہيں۔ علامہ اقبال اوپن يونيورسٹي ميں تقرري کے دوران آپ پاکستان ٹيليويژن پر ‘‘العربي سہلًا’’ پروگرام ميں عربي کے اسباق ديتي رہيں۔ آپ اردو، پنجابي اور انگريزي کے علاوہ عربي اور جرمن زبانيں بھي رواني سے بولتي تھيں، سندھي زبان بھي لکھ پڑھ ليتي تھيں۔ آپ کا ذکر Biographical Encyclopaedia of Pakistan ميں نماياں طور پر شائع ہوا۔ حکومت پاکستان کي طرف سےآپ کي خدمات کے اعتراف ميں ايک نوٹيفيکيشن ميں آپ کے بارہ ميں لکھا گيا:

Highest qualified lady in her subject and most qualified and experienced Principal of Federal Govt. Colleges of Pakistan[6].

محترمہ امةالکريم صاحبہ کي شادي اندازاً 1960ء کي دہائي کے اواخر ميں مکرم ڈاکٹر طلعت علي شيخ صاحب سے ہوئي جو حضرت شيخ عزيزالدين صاحبؓ صحابي حضرت مسيح موعود کي نسل سے تھے۔ آپ کي اولاد نہ تھي۔

مرحومہ موصيہ تھيں۔ آپ کے والد محترم نے آپ کي طرف سے چندہ تحريکِ جديد ادا کيا جس کے نتيجہ ميں آپ بھي پانچ ہزاري مجاہدين ميں شامل ہوگئيں۔ 18؍مارچ 2002ء کو بعارضہ کينسر لندن ميں وفات پائي اور احمديہ قبرستان بروک وُڈ (Brookwood) کے قطعہ موصيان ميں تدفين عمل ميں آئي۔

مآخذ و مصادر: الفضل 6 ستمبر 1956ء، ريکارڈ تاريخ احمديت کميٹي جرمني، اخبار احمديہ لندن ستمبر 2002ء صفحہ 20، رسالہ انصارالدين برطانيہ جنوري فروري2023ء

[1]۔ الفضل 14 جولائي 1938ء صفحہ 8

[2]۔ ريکارڈ تاريخ احمديت کميٹي جرمني

[3]۔ الفضل 6 ستمبر 1956ء صفحہ4

[4]۔ ريکارڈ تاريخ احمديت کميٹي جرمني سال 1956ء

[5]-ريکارڈ تاريخ احمديت کميٹي جرمني

[6]– اخبار احمديہ لندن ستمبر 2002ء صفحہ 20،

متعلقہ مضمون

  • جلسہ گاہ میں ایک تعارفی پروگرام

  • پہلا جلسہ سالانہ جرمنی

  • جماعتِ احمدیہ جرمنی کے ایک جفا کش دیرینہ خادم

  • جماعتی سرگرمیاں