1955ء میں حضرت مصلح موعود کے کامیاب دورہ جرمنی کے بعد، حضور کی خواہش پر جرمنی میں مسجد کی تعمیر کے منصوبہ کو حتمی شکل دی گئی۔ لہٰذا 1956ء کے سال کی زیادہ تر جماعتی مصروفیات مسجد کی تعمیر اور اس سے منسلک معاملات پر مرکوز رہیں، جن کی تفصیل اگلی قسط میں دی جائے گی۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ ہمبرگ میں مسجد کی زمین 8 جون 1956ء کو خریدی گئی جبکہ تعمیر کی اجازت 13 نومبر 1956ء کو موصول ہوئی۔

 

 محترم چودھری عبداللطیف صاحب کی عارضی طور پر ہالینڈ روانگی

جنوری 1956ء کے شروع میں مبلغ انچارج ہالینڈ محترم حافظ قدرت اللہ صاحب رخصت پر پاکستان گئے تو ہالینڈ مشن کی نگرانی بھی محترم چودھری عبداللطیف صاحب کے سپرد کر دی گئی۔ چنانچہ آپ ماہ مارچ تک ہیگ (ہالینڈ) میں مقیم رہے اور جرمنی کے ساتھ ساتھ ہالینڈ مشن میں بھی خدمت سر انجام دیتے رہے۔

سربرآوردہ شخصیات کے لئے تحفہ قرآنِ کریم

1۔ مارچ 1956ء کے اوائل میں پاکستان کے جرمنی میں تعینات ہونے والےنئے سفیر جناب جلال الدین عبدالرحیم صاحب چند دنوں کے لئےہمبرگ آئے۔ اس دوران چودھری عبداللطیف صاحب نے 13 مارچ 1956ء کو ان سے ملاقات کی اورقرآنِ کریم کاجرمن ترجمہ پیش کیا نیز مشن کے کاموں کے بارہ میں بتایا۔
2۔ اکتوبر 1956ءمیں صدر لائبیریا Mr.Tubman سرکاری دورہ پر ہمبرگ آئے۔ اس وقت چودھری عبداللطیف صاحب سویڈن کے دورہ پر تھے۔ تاہم محترم سیّد میرداؤد احمد صاحب مرحوم اپنی اہلیہ کے علاج کے سلسلہ میں ہمبرگ آئے ہوئے تھے، اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مبلغ انچارج جرمنی کی طرف سے جماعت کی نمائندگی میں محترم میر صاحب موصوف صدر مملکت سے ملے اور قرآنِ کریم انگریزی ترجمہ تحفہ میں دیا۔

جرمنی میں عیدین کی تقریبات

جیسا کہ پہلے بھی ذکر ہو چکا ہےمشن کے دوسرے کاموں کے علاوہ عیدین کی نمازیں جماعتی سرگرمیوں کا ایک خاص حصہ ہوتی تھیں، جن کا خصوصی اہتمام کیا جاتا تھا۔ مقامی احباب جماعت یا ان کے خاندان کے غیرمسلم افراد بھی ان تقریبات میں شامل ہوتے تھے۔ نماز عید کی ادائیگی مشن ہاؤس Oderfelder Straße 18 میں ہوتی تھی اور عموماً نماز عید کے بعد چائے وغیرہ کا انتظام بھی کیا جاتا جس میں تمام احباب شامل ہوتے۔ اس سال عیدالفطر 12 مئی کو منائی گئی۔ ان دنوں سیّد کمال یوسف صاحب مبلغ سلسلہ سکینڈے نیویا بغرض عملی تربیت ہمبرگ مشن میں مقیم تھے۔ آپ عیدالفطر کی رپورٹ میں تحریر کرتے ہیں:
‘‘خداتعالیٰ کے فضل سے 12 مئی 1956ء ساڑھے دس بجے صبح عیدالفطر کی تقریب عمل میں لائی گئی۔ اس تقریب میں شمولیت کے لئے متعدد دعوت نامے جاری کئے گئے۔ مقامی جماعت احمدیہ کے دوستوں کے علاوہ زیرِتبلیغ معزز غیرمسلم اصحاب، پاکستان سے آئے ہوئے مسلمان بھائی اور جرمن پریس کے نمائندے ہمارے خاص مدعووین میں سے تھے۔ ہفتہ کا دن ہمبرگ میں بہت مصروف سمجھا جاتا ہے مگر خداتعالیٰ کے فضل سے ساڑھے دس بجے سے قبل ہی احمدیہ مشن میں آنے والوں کی تعداد کافی ہو چکی تھی۔ آنے والوں میں مقامی جماعت احمدیہ کے احباب کے علاوہ باہر سے دوست بھی آئے۔ پاکستان سے آئے ہوئے مسلمان اور اس طرح انڈونیشیا کے مسلمان اور غیرمسلم احباب نے بھی شرکت کی۔ ہندوستان سے آئے ہوئے طلبا اور ایک ہندو ڈاکٹر بھی تشریف لائے۔ زیرِتبلیغ احباب اور ایک مشہور مستشرق جو جرمن نیوز ایجنسی میں اسلامی ممالک کے نمائندہ ہیں شامل ہوئے۔ دو پریس نمائندے بھی آئے۔ پریس کے فوٹوگرافر نے اس تقریب کے بہت سے فوٹو اتارے۔ ساڑھے دس بجے مکرم چودھری عبداللطیف صاحب انچارج احمدیہ مشن جرمنی نے نماز عید کی امامت فرمائی۔ نماز کے بعد مکرم چودھری عبداللطیف صاحب نے خطبہ عید پڑھا…… عید کےبعد مکرم عبداللطیف صاحب انچارج مشن نے مشن کی طرف سے ٹی پارٹی کا انتظام کیا ہوا تھا۔ اس پارٹی کی تیاری میں چودھری عبداللطیف صاحب کی بیگم صاحبہ اور احمدی جرمن خواتین نے نمایاں حصہ لیا’’۔ ہمبرگ کے دو اخبارات نے اُس سال نماز عید کی خبر شائع بھی کی۔
نیورن برگ کی جماعت نے بھی اس سال پہلی دفعہ عیدالفطر کا انتظام کیا اور وہاں پر بھی اخبار میں خبر شائع ہوئی۔ یاد رہے کہ حضرت مصلح موعود کے دَورہ کے بعد نیورنبرگ میں تیونس کے ایک احمدی دوست محترم محمدترکی صاحب کو اعزازی مبلّغ کے طور پر نیورنبرگ کی جماعت کی نگرانی سونپی گئی تھی۔ ریکارڈ سے پتہ لگتا ہے کہ ترکی صاحب موصوف مارچ 1957ء تک اس منصب پر کام کرتے رہے، اس کے بعد تیونس واپس چلے گئے جہاں ان کو غالباً بطور اعزازی مبلّغ مقرر کیاگیا تھا اور نیورنبرگ جماعت کی نگرانی جرمن نَو احمدی دوست مکرم عمر ہوفر Omar Hofer صاحب کے سپرد کر دی گئی۔ 1956ء میں عید کی نماز کا انتظام ترکی صاحب کی طرف سے ہی کیا گیا تھا۔


اسی طرح عیدالاضحی کی تقریب بھی ہمبرگ میں منعقد ہوئی۔ جس میں جرمنی، پاکستان اور سیلون کے احباب نے شرکت کی۔ نماز عید کے بعد تمام مہمانوں کی خدمت میں کھانا بھی پیش کیا گیا۔ اس موقع پر ایک یورپی خاتون نے اسلام بھی قبول کیا۔

سویڈن میں احمدیہ مشن کا قیام

1956ء کے اہم واقعات میں سے ایک سویڈن میں احمدیہ مشن کا قیام ہے، جس کے لیے محترم سیّد کمال یوسف صاحب کو بطور مبلغ مقرر کیا گیا تھا۔ محترم سیّد کمال یوسف صاحب پہلے ہمبرگ تشریف لائے اور یہاں کچھ عرصہ مکرم چودھری عبداللطیف صاحب کے ساتھ مل کر کام کیا اور عملی تربیت حاصل کی۔ جون 1956ء میں موصوف نے محترم چودھری عبداللطیف صاحب کے ہمراہ سویڈن کا پہلا دورہ کیا اور وہاں پر رہائش وغیرہ کے انتظامات کے علاوہ مختلف لوگوں سے ملاقاتیں کیں اور ایک اخبار کو انٹرویو بھی دیا۔ آغاز میں سویڈن کا مشن جرمن جماعت کے ہی تحت کام کرتا تھا اور چودھری صاحب موصوف وقتاً فوقتاً یہاں دورہ کرتے رہے۔
صاحبزادی امۃالباسط صاحبہ کی بغرض علاج آمد
اس سال حضرت مصلح موعودؓ کی صاحبزادی امۃالباسط بیگم صاحبہ بغرض علاج ہمبرگ تشریف لائیں۔ آپ کا لندن میں لمبا عرصہ علاج ہوتا رہا تھا۔ حضرت مصلح موعودؓ کے ارشاد کے تحت انہیں علاج کے لئے ہمبرگ کے ہسپتال میں داخل کیا گیا جہاں ڈاکٹروں نے معائنہ کے بعد علاج تجویز کیا اور آپ کی صحت بہتر ہونے لگی۔

جرمنی میں تیسری جماعت کا قیام

اسی سالGöppingen میں نئی جماعت قائم ہوئی جس کے بعد جرمنی میں جماعتوں کی تعداد تین ہوگئی۔ اسی طرح ایک کیتھولک پادری کے حلقہ بگوش احمدیت ہونے کا ذکر بھی ملتاہے۔ ڈاکٹر کُرٹ ٹلٹاک اس سال جرمنی کے شمالی شہر کیل کے رہنے والے ڈاکٹر کرٹ ٹلٹاک صاحب (Dr. Curt Tiltack) نے جماعت احمدیہ سے متعلق ایک کتاب میں مضمون شائع کیا۔ جماعت احمدیہ سے آپ کا تعارف 1952ء میں ہواتھا۔ ٹلٹاک صاحب ایک کتاب میں جماعت کا ذکر کرنا چاہتے تھے جس کے لیے انہوں نے جماعتی لٹریچر پڑھنے کے علاوہ حضرت مصلح موعود کو کچھ سوالات بھی بھجوائے تھے۔ جن کا جواب حضرت مصلح موعودؓ نے عنایت فرمایا۔
ٹلٹاک صاحب کی پیدائش 1909ء میں ہوئی اور بعد میں فلسفہ اور عیسائی مذہب کی تعلیم Halle یونیورسٹی سے مکمل کرنے کے بعد Kiel کی یونیورسٹی سے PhD کی سند حاصل کی۔ جنگ عظیم دوم کے بعد غالباً سکولوں میں عیسائیت کے استاد کے طور پر کام کرتے رہے۔ 1955ء میں حضرت خلیفۃالمسیح الثانی کے دست ِمبارک پر بیعت کرنےکے بعد متعدد جماعتی کتب اور رسائل کے ترجمہ وغیرہ کے کام میں مدد کی اور بعض کتابچے بھی لکھے۔ 1956ء میں جلسہ سالانہ ربوہ میں شرکت کے لیے پاکستان گئے جہاں جماعتی روایات کے مطابق ان کا بھرپور استقبال کیا گیا۔ قیام کے دوران آپ نے وکالت تبشیر کی طرف سے دئیے جانے والے استقبالیہ میں بھی شرکت کی۔ اپنے تین ہفتے کےقیام کے دوران اسلامی علوم کا مطالعہ بھی کیا مگر واپسی کے کچھ عرصہ بعد جماعت سے علیحدگی اختیار کرلی جس کا سبب یہ بیان کیا کہ بیعت کے بعد ان کی بطور استاد فراغت ہوگئی جس کا سبب ان کے خیال میں ان کی بیعت سے متعلق خبر شائع ہونا تھا اور وہ اپنے ذریعہ معاش کو جاری رکھنے کے لئے جماعت سے علیحدگی اختیار کر رہے ہیں۔ بعد میں یہ صاحب بطور پروٹسٹنٹ پادری کام کرتے رہے۔ ان کی وفات 1983ء میں Bad Ems میں ہوئی۔

محترمہ ڈاکٹر امۃ الکریم صاحبہ

اس سال کی ایک خاص بات مکرمہ امۃالکریم صاحبہ بنت ڈاکٹر غلام علی صاحب کی پاکستان سے بغرض تعلیم جرمنی آمد ہے۔ انہوں نے برلن یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔ موصوفہ سے متعلق تفصیلی مضمون اسی شمارہ میں شامل ہے۔ اسی طرح اس سال محترم عبدالحمید اختر صاحب ابن مکرم غلام محمد اختر صاحب کی بھی جرمنی آمد ہوئی۔ آپ کے تفصیلی حالات اخبار احمدیہ جرمنی شمارہ اکتوبر 2023ء میں شائع ہوچکے ہیں۔
اس کے علاوہ سال کے دوران جرمنی بھر سے لوگ مختلف خطوط اور پوسٹ کارڈ مشن کو بھیجتے رہے جن میں اسلام سے متعلق استفسارات ہوتے تھے۔ دفتر تاریخ احمدیت جرمنی میں ایسے بہت سے خطوط محفوظ ہیں۔ اس طریقے سے جرمنی بھر میں تبلیغ کا سلسلہ جاری رہتا۔

متعلقہ مضمون

  • جرمنی سے پی ایچ ڈی کرنے والی پہلی احمدی خاتون محترمہ پروفیسر ڈاکٹر امۃالکریم طلعت قریشی صاحبہ

  • رمضان المبارک و عیدالفطر کی رونقیں

  • ہم احمدی انصار ہیں

  • ہم احمدی انصار ہیں