محمدانیس دیالگڑھی

عاشق اپنے محبوب کا نام لیتے نہیں تھکتے۔ اگر زبان سے ذکر نہ بھی کریں تو بھی ہر لمحہ اس کے خیال میں غرق رہتے ہیں۔ خدا سے محبت کرنے والوں کا بھی یہی حال ہوتا ہے بلکہ وہ دوسروں سے بھی بڑھے ہوتے ہیں۔ ہروقت اپنے خالق و مالک کی یاد میں محو رہتے ہیں اور اس کا نام جپنے کے بہانے ڈھونڈتے ہیں۔

ایک شاعر کہتا ہے کہ؎

ایک چاندی کی انگوٹھی کے حوالےسے فقط

اپنی انگلی میں تیرا نام پہن لیتا ہوں

عارف باللہ بھی اپنے محبوب کے نام کی انگوٹھی پہن لیتے ہیں تا اس کے فضل و احسان اور اس کی حسن بہارکا جوش ہمیشہ ان کے دل میں موجزن رہے اور اگراپنے دل رُبا کی کوئی بات بہت پیاری لگے تو اس کو حرزِجان بنا لیتے ہیں؎

کیا مہربنائی ترے یاقوتِ سخن کی

مانند نگیں ہم نے انگوٹھی میں جَڑی بات

حضرت مسیح موعودنے بھی اللہ تعالیٰ کے تین الہامات کو اپنی تین انگوٹھیوں کے نگینوں میں کندہ کرایا جو قیامت تک خدائی وعدوں کے پورا ہونے کی شہادت دیتی رہیں گی،ان شاءاللہ۔

حضرت مسیح موعود کی ان انگوٹھیوں کے بارے میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب تحریر فرماتے ہیں:

بسم الله الرحمٰن الرحیم۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود کی تین انگوٹھیاں تھیں۔ ایک ‘اَلَیۡسَ اللہُ بِکَافٍ عَبۡدَہٗ’ والی جس کا آپ نے کئی جگہ اپنی تحریرات میں ذکر کیا ہے یہ سب سے پہلی انگوٹھی ہے جو دعویٰ سے بہت عرصہ پہلے تیار کرائی گئی تھی۔ دوسری وہ انگوٹھی جس پر آپ کا الہام ‘غَرَسْتُ لَکَ بِیَدِیْ رَحْمَتِیْ وَ قُدْرَتِیْ۔ الخ درج ہے۔ یہ آپ نے دعویٰ کے بعد تیار کروائی تھی اور یہ بھی ایک عرصہ تک آپ کے ہاتھ میں رہی۔ الہام کی عبارت نسبتاً لمبی ہونے کی وجہ سے اس کا نگینہ سب سے بڑا ہے۔ تیسری وہ جو آخری سالوں میں تیار ہوئی اور جو وفات کے وقت آپ کے ہاتھ میں تھی۔ یہ انگوٹھی آپ نے خود تیار نہیں کروائی بلکہ کسی نے آپ سے عرض کیا کہ مَیں حضور کے واسطے ایک انگوٹھی تیار کروانا چاہتا ہوں اس پر کیا لکھواؤں حضور نے جواب دیا ‘‘مولیٰ بس’’ چنانچہ اس شخص نے یہ الفاظ لکھوا کر انگوٹھی آپ کو پیش کر دی۔ حضرت مسیح موعود کی وفات کے وقت ایک شخص نے یہ انگوٹھی آپ کے ہاتھ سے اتار لی تھی پھر اس سے والدہ صاحبہ نے واپس لے لی۔ حضرت مسیح موعود کی وفات کے ایک عرصہ بعد والدہ صاحبہ نے ان تینوں انگوٹھیوں کے متعلق ہم تینوں بھائیوں کے لئے قرعہ ڈالا۔ ‘اَلَیۡسَ اللہُ بِکَافٍ عَبۡدَہٗ’ والی انگوٹھی بڑے بھائی صاحب یعنی حضرت خلیفۃالمسیح ثانی کے نام نکلی۔ ‘غَرَسْتُ لَکَ بِیَدِیْ رَحْمَتِیْ وَقُدْرَتِیْ’(تذکرہ صفحه 428) والی خاکسار کے نام اور ‘‘مولیٰ بس’’ والی عزیزم میاں شریف احمد صاحب کے نام نکلی۔ ہمشیرگان کے حصہ میں دو اور اسی قسم کے تبرک آئے۔(سیرت المہدی صفحہ13 روایت 16)

حضرت مسیح موعود کی مبشر نرینہ اولاد میں تقسیم ہونے والی ان تین انگوٹھیوں میں سے ‘اَلَیۡسَ اللہُ بِکَافٍ عَبۡدَہٗ’ والی انگوٹھی حضرت مصلح موعودؓ کے حصہ میں آئی۔ جس کے لیے آپؓ نے وصیت فرمائی کہ یہ انگوٹھی میری نرینہ اولاد کو نہیں بلکہ آنے والے خلفاء کو ملے گی۔ خداتعالیٰ کو یہ ادا ایسی پسند آئی کہ آپ کے دو صاحبزادے یکے بعد دیگرے خلیفۃالمسیح کے منصب پر فائز کئے گئے۔

یوں یہ انگوٹھی آپ کے دوصاحبزادوں کے پاس ہی رہی اور ان کے بعد آپ کے نواسے حضرت صاحبزادہ مرزا مسرور احمد صاحبکے منصب خلافت پر متمکن ہونے کے بعد آپ کے پاس آئی۔

حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی وفات کے بعد دوسری انگوٹھی صاحبزادہ مرزا مظفر احمد (M.M.Ahmad)صاحب کو قرعہ اندازی کے ذریعہ ملی۔ لیکن آپ سے یہ انگوٹھی گم ہوگئی اور ابھی تک اس کا کوئی سراغ نہیں ملا۔ تیسری انگوٹھی حضرت مرزا شریف احمد صاحب کے بعد حضرت صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب کے حصہ میں آئی اور آپ کی وفات کے بعد آپ کے چھوٹے صاحبزادےحضرت مرزا مسرور احمد صاحب کو ملی اور یوں آپ واحد ایسے خلیفہ ہیں جن کے ہاتھ میں حضرت مسیح موعودؑکی دو بابرکت انگوٹھیاں ہیں اور دونوں کا مفہوم یہی ہے کہ خداتعالیٰ ہرلحاظ سے کافی ہے اور وہ اپنے بندہ کی ضرور مدد فرمائے گا، ان شاءاللہ۔

متعلقہ مضمون

  • جلسہ سالانہ کی اہمیت

  • جماعتِ احمدیہ جرمنی کے ایک جفا کش دیرینہ خادم

  • جرمنی میں رہتے ہوئے سوئٹزرلینڈ میں کام کے مواقع