جرمن مشن کا احیائے نَو

اس سلسلہ مضامین کی گزشتہ قسط مطبوعہ اخباراحمدیہ جرمنی ماہ اکتوبر 2021ء میں ذکر ہو چکا ہےکہ عبداللہ Kuhne کی 1949ء کے اَواخر میں جماعت سے علیحدگی کے بعد ہمبرگ کے اکثر نَو احمدیوں نے بھی، جو اس کی وساطت سے ہی جماعت میں شامل ہوئے تھے، جماعت سے علیحدگی اختیار کرلی تھی۔ ان میں سے صرف ایک مکرم عبدالکریم Dunker صاحب ہی جماعت سے وابستہ رہے جن کا وجود ہمبرگ مشن کے لئے اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت مفید رہا۔ آپ محترم چودھری صاحب کی تمام معاملات میں اخلاص سے مدد کرتے اور ہر کام کے لئے اپنے آپ کو خوشی سے پیش کرتے رہے۔

جماعت سے علیحدگی کے بعد Kuhne اور اس کے ساتھیوں نے حکام کو یہ باور کروانے کی کوشش کی کہ احمدی مبلغ جن لوگوں کی تعلیم و تربیت کے لیے آئے تھے چونکہ اب وہ اس جماعت سے علیحدگی اختیار کرچکے ہیں اس لئے احمدی مبلغ کے ہمبرگ میں قیام کا اب کوئی جواز نہیں رہا، لہٰذا انہیں واپس بھیج دیا جائے۔ لیکن اس کے کچھ عرصہ بعد اللہ کے فضل سے مکرم Dünger Hans صاحب کو بیعت کرنے کی توفیق ملی اور اس کے جلد بعد مکرم Nowak Earnst صاحب بھی جماعت میں شامل ہوگئے جس کے نتیجہ میں پھر سے ایک چھوٹی سی جماعت وجود میں آگئی جس کے ساتھ مبلغ سلسلہ مکرم چودھری عبداللطیف صاحب نے اپنا کام اَزسرِنو شروع کردیا۔

محترم چودھری صاحب کی مختلف رپورٹس سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ آپ انفرادی تبلیغی و تربیتی روابط کے علاوہ مختلف تبلیغی لیکچرز اور اخبارات کے ذریعہ جماعت کا تعارف وسیع پیمانہ پر پھیلانے میں مصروف رہتے۔ چنانچہ مختلف اخبارات میں شائع ہونے والی خبروں کے حوالہ سے چودھری صاحب کے کاموں کا ذکر گزشتہ قسط میں بھی ہوا ہے۔ اس کے علاوہ چودھری صاحب نے مختلف موضوعات پر تبلیغی لیکچرز بھی دینے شروع کیے۔ آپ کو British Information Centre کی طرف سے لیکچرز کے لیے ہر ماہ بلایا جاتا تھا۔ اس ادارہ کی متعدد شاخیں برطانوی حکومت کی طرف سے جرمنی کے مختلف شہروں میں اس مقصد کے لیے قائم کی گئی تھیں تا جرمن قوم سے نازی سوچ کو مغربی جمہوری اقدار سکھا کر ختم کیا جا سکے۔ چنانچہ ان سینٹرز میں جمہوریت، اِنسانی حقوق اور رَواداری سے متعلق تعلیمات پر مشتمل لیکچرز کا اِنتظام کیا جاتا تھا اور ان مراکز میں لائبریریاں بھی میں قائم کی جاتی تھیں جن سے جرمن شہریوں کی ایک کثیر تعداد مستفید ہوتی تھی۔ اِن مراکز کو Die Brücke کا نام دیا گیا تھا۔ برطانوی حکومت نے 1950ء کی دہائی میں جب ان مراکز کی مالی اور تنظیمی معاونت ختم کر دی تو کئی جگہوں پر یہ مراکز مقامی شہری اِنتظامیہ کے سپرد کر دئیے گئے۔ آج بھی جرمنی کے کئی شہروں میں Die Brücke کے نام سے بعض ادارے قائم ہیں، جو اسی تاریخی پسِ منظر کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ اسی طرز کے ادارے امریکہ نے بھی قائم کیے جن کا نام Amerika Haus ہوا کرتا تھا۔ ان میں بھی چودھری صاحب کے لیکچرز کا ذکر ملتا ہے۔ ان اداروں کے علاوہ آپ کو مختلف تنظیمیں بھی لیکچرز کے لیے بلاتی تھیں مثلاً یونیورسل لیگ (اس تنظیم کی تفصیل ابھی معلوم نہیں)، مختلف چرچ سوسائٹیز اور یونورسٹی میں بھی لیکچر کا ذکر ملتا ہے۔

غرض ابتداءً ہمبرگ کے اس British Information Centre سے مبلغ سلسلہ محترم چودھری عبداللطیف صاحب کے لیکچرز کا سلسلہ شروع ہوا، پھر اس کی وساطت سے دوسرے شہروں میں بھی آپ کو لیکچرز کے لئے بلایا جانے لگا۔ چنانچہ دوسرے شہروں مثلاً Göttingen اور Hannover، Neumünster, Flensburg میں بھی میں چودھری صاحب نے لیکچرز دیئے۔ گویا زیادہ تر لیکچرز جرمنی کے شمالی علاقوں میں ہوتے رہے۔ ان لیکچرز کا تمام خرچ مذکورہ ادارہ ہی ادا کرتا تھا۔ ان لیکچرز کے موضوعات کی تفصیل بھی مختلف اخباری رپورٹس سے ملتی ہے۔ چنانچہ چودھری صاحب Die Brücke میں پہلا لیکچر اسلام کی تعلیمات کے بعد آنحضرتﷺ سے متعلق بائیبل کی پیشگوئیوں پر تھا۔ ایک موقع پر اسلام اور پاکستان پر تقریر کی، جس کے دوران اسلام کے اقتصادی نظام اور کمیونزم کے نقصانات پربھی بات کی۔ بعض لیکچرز میں اسلام میں عورت کا مقام اور بعض میں اسلام کے عقائد اور امن اور رواداری کی تعلیم پر بات کی۔ اسی طرح کچھ لیکچرز میں اسلام کی تعلیمات کے ایک عالمگیر مذہب ہونے کے ساتھ ساتھ حضرت مسیح موعود کی بعثت اورتثلیث کے عقیدہ کا رَدّ بیان کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمبرگ سے باہر بھی جرمنی کے مختلف اخبارات میں آپ کے کاموں سے متعلق خبریں شائع ہونی شروع ہوئیں، جس سے رابطوں میں غیرمعمولی وسعت آئی۔

مختصر یہ کہ محترم چودھری صاحب موصوف نے جرمنی میں موجود انتظامی، تعلیمی اور سماجی ذرائع کو اپناتے ہوئے اپنے تبلیغ کے کام کو آگے بڑھایا اور اس طریق سے جرمنوں کی ایک وسیع تعداد تک اپنا پیغام پہنچانے میں کامیاب ہوئے۔

ان تمام تبلیغی کاموں میں یہ بات یاد رہے کہ شروع شروع میں چودھری صاحب کو جرمن زبان پر پوری طرح عبور حاصل نہیں تھا مگر اس کے باوجود آپ نے اس مشکل کو تبلیغ کی راہ میں رکاوٹ نہ بننے دیا۔ آپ نے مختلف موضوعات پر تقاریر کا جرمن ترجمہ کروا لیا تھا جسے مختلف مواقع پر لیکچرز میں پڑھتے اور تبلیغ کرتے اور اس طرح زبان سے عدم واقفیت آپ کی تبلیغی سرگرمیوں کی راہ میں روک نہ بن سکی۔ تاہم اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ کو جرمن زبان پر بھی آہستہ آہستہ عبور حاصل ہو گیا۔

اپریل 1950ء میں جرمن نَو احمدی عبدالکریم Dunker صاحب نے پاکستان کا ایک کاروباری سفربھی کیا۔ جرمنی سے روانگی سے قبل محترم چودھری عبداللطیف صاحب نے موصوف کے اعزاز میں 8 اپریل 1950ء کو ایک دعوت کا انتظام کیا جس میں احباب جماعت کے علاوہ بعض زیرِتبلیغ دوست بھی شامل ہوئے۔ بعدازاں 11 اپریل کو محترم چودھری صاحب انہیں رخصت کرنے ہوائی اڈے پر بھی گئے۔

موصوف کے پاکستان میں قیام کا بندوبست مکرم غلام محمد اختر صاحب کے ہاں لاہور میں کیا گیا تھا۔ آپ جرمنی کی یونیورسل ٹریڈنگ اور مینوفیکچرنگ کمپنی کی لاہور میں قائم شاخ کے دفتر میں کام کرتے رہے۔ اس دوران موصوف جماعت کے ساتھ رابطہ میں رہے اور وکیل التجارت تحریکِ جدید کی طرف سے آپ کے بارہ میں اخبار الفضل ربوہ میں اعلان بھی شائع کیا گیا۔

جماعت جرمنی کا پہلا مشن ہاؤس

جرمنی آمد کے بعد محترم چودھری عبداللطیف صاحب کی پہلی رہائش عبداللہ Kuhne کے ہاں تھی۔ اُن کی جماعت سے علیحدگی کے بعد محترم چودھری صاحب نے فوری طور پر ہمبرگ کے ایک اچھے محلے Harvestehude میں Isestraße میں ایک کمرہ کرایہ پر حاصل کیا مگرکچھ عرصہ بعد مہمانوں کی کثرت کی وجہ سے مالکن نے یہ کمرہ بھی چھوڑنے کو کہا، جس پر بڑی تگ و دو کے بعد 18 Oderfelder Straße میں ایک علیحدہ مکان بطور مشن ہاؤس حاصل کرنے میں کامیابی ہوئی۔ پھر مسجد ہمبرگ کی تعمیر تک یہی جگہ جماعت کا مرکز رہی۔

چودھری صاحب کے اہلِ خانہ کی جرمنی آمد

1951ء کے اَواخر میں چودھری صاحب چھ سال کے بعد پاکستان گئے تاکہ اپنی اہلیہ اور بیٹی کو اپنے ساتھ جرمنی لا سکیں۔ جنوری 1952ء میں موصوف اپنے اہل خانہ کے ہمراہ ہمبرگ واپس پہنچے۔ چودھری صاحب کی بیٹی محترمہ امۃالمجید صاحبہ(جو اس وقت ہمبرگ میں مقیم ہیں) تاریخ کمیٹی کے ممبران کے ساتھ حالیہ ایک گفتگو میں بیان کیا کہ اپنی جرمنی آمد سے متعلق بیان کرتی ہیں بذریعہ سمندری جہاز ہالینڈ تک پہنچے اور اس کے بعد بذریعہ ٹرین ہمبرگ کا سفر کیا جہاں پر مکرم Duncker صاحب اپنی اہلیہ اور بیٹی گیزیلا کے ساتھ استقبال کے لیے موجود تھے۔ مکرمہ Gisela صاحبہ اِس وقت Essen میں رہائش پذیر ہیں۔ انہوں نے کچھ سال بعد اپنے سکول کے ایک مقالہ میں چودھری صاحب کی فیملی کے ساتھ اپنے تعلقات کا ذکر کیا۔ محترمہ امۃالمجید صاحبہ مزید بیان کرتی ہیں کہ اس وقت چودھری صاحب کی رہائش Oederfelder Str. پر تین بڑے بڑے کمروں کے ایک مکان میں تھی۔ ان تین کمروں میں سے ایک مبلغ کا دفتر اور ملاقاتیوں کے لیے مخصوص تھا۔ اسی کمرے میں جمعہ یا عید کی نمازوں کا بھی انتظام کیا جاتا تھا۔ ایک میں بچوں کی رہائش تھی اور ایک میں والدین رہتے۔ باورچی خانہ اور غسل خانہ تہ خانہ میں تھے جہاں جانے کے لیے ایک لمبی سیڑھی ہوتی تھی۔ یہ ایک بڑے Villa میں ایک فلیٹ تھا جو چودھری صاحب کو اس وجہ سے ملا کہ آپ کے پاس برٹش پاسپورٹ تھا اور ہمبرگ اس وقت برٹش فوج کے زیرِانتظام تھا۔ گھر کو گرم رکھنے کا کوئی انتظام نہیں تھا۔ سردیوں میں کوئلے سے چلنے والا ایک ہیٹر رکھ دیا جاتا تھا۔

محترمہ امۃالمجید صاحبہ کا داخلہ پہلے ایک برٹش سکول میں ہوا لیکن غالباً اس کی فیس زیادہ ہونے کی وجہ سے انہیں پھر جرمن سکول میں داخل کروا دیا گیا جہاں ان کو ایک استانی Frau Rosenberg سکول کے بعد جرمن سکھاتی تھیں۔ اس طرح انہوں نے جلد ہی جرمن سیکھ لی اور سودا سلف خود قریب کی دکانوں سےلانے کے قابل ہوگئیں۔ موصوفہ مزید بیان کرتی ہیں کہ اس وقت زندگی بہت سادہ ہوا کرتی تھی۔ پاکستان سے اخراجات کے لئے رقوم بھیجنے میں بھی بہت دِقّت ہوتی تھی جس سے مالی حالات بھی تنگ رہتے تھے۔ مالی حالات سے متعلق اگلی قسطوں میں بھی تفصیل سے ذکر آئے گا۔ محترمہ امۃالمجید صاحبہ نے مزید یہ بات بیان کی کہ ایک دفعہ ایسے حالات میں ایک جاننے والے پاکستانی تاجر نے ان کو کہا کہ پڑوسیوں کو قالین بیچ کرگزارے کے لیے کچھ رقم حاصل کرو۔ جس پرانہوں نے قالین بیچا۔ کھانے کے لیے جو میسر ہوتا اس کو کھانے میں بنا لیا جاتا تھا۔ جو چیز اس وقت لوگوں کو بہت متأثر کرتی تھی وہ مبلغ کی فیملی کی مہمان نوازی اور لوگوں سے خوش اخلاقی سے ملنا تھا۔ اس وجہ سے وہ اپنے محلے اور نَواحمدیوں میں بہت مقبول تھے۔

یہاں پر اس بات کا ذکر بھی ضروری ہے کہ جس وقت محترم چودھری عبداللطیف صاحب اپنے اہلِ خانہ کے پاس پاکستان گئے تو محترم ملک عمر علی صاحب ان کی نمائندگی میں مشن کا کام چلاتے رہے بلکہ اس کا غالباً متعلقہ دفتر کے افسروں کے پاس اندراج بھی کروایا گیا تھا۔

نیورن برگ میں جماعت کا قیام

1950ء کے آغاز تک جماعت صرف ہمبرگ اور اس کے گرد و نواح میں ہی قائم تھی مگر جماعت کا تعارف اخبارات کے ذریعے جرمنی کے دوسرے حصوں میں بھی پہنچ چکا تھا اور روابط کافی وسیع ہوچکے تھے۔ چودھری صاحب کی فائلوں سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ جرمنی بھر سے لوگ بذریعہ ڈاک آپ سے رابطہ کرتے تھے۔ غالباً اسی طرح صوبہ بائرن کے شہر Nürnberg میں بھی بعض لوگوں سے رابطہ ہوا اور فروری 1952ء میں وہاں پر تین افراد کی جماعت میں شمولیت سے باقاعدہ ایک جماعت قائم کی گئی۔ اس طرح سے ہمبرگ کے بعد جرمنی کی دوسری جماعت Nürnberg میں قائم ہوئی۔

(باقی آئندہ ان شاءاللہ)

متعلقہ مضمون

  • جلسہ سالانہ کی اہمیت

  • جماعتِ احمدیہ جرمنی کے ایک جفا کش دیرینہ خادم

  • جرمنی میں رہتے ہوئے سوئٹزرلینڈ میں کام کے مواقع