اُسے دے چکے مال و جاں بار بار

مکرم مباہل احمد منیب صاحب۔ مربی سلسلہ

لفظ قربانی اپنے اندر ایک عجیب سی کشش رکھتا ہے۔ دنیا کی ہر قوم نےقربانی کی بے مثال تاریخیں رقم کی ہیں۔ ہرقوم نے اپنے طور طریق، اپنی حریت، اپنے مذہب، اپنی قوم، اپنے وطن، اپنے علاقہ کے لیے قربانی پیش کی ہے۔ بعض قربانیاں دنیاوی طور پر تاریخ کے صفحات میں محفوظ ہیں اور بعض مذہبی دنیا کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں جو حیران کن ہیں اور ایک دنیا دار شخص کے لیے حیرت کا باعث ہیں کہ لوگ کس طرح دین کے لیے اپنی قیمتی جان اور مال کو وقف کر دیتے ہیں۔

قربانی کے اصطلاحی معنی ایسی چیز کے ہیں جو اللہ تعالیٰ کا قرب عطا کر دے۔ اللہ تعالیٰ سے نزدیک کر دے۔

گویا ایک مذہبی شخص محبت الٰہی کے حصول کے لیے قربانی پیش کرتا ہےاور قربانی کے واقعات کے پیچھے اصل مقصد ایمان لانے والوں کے ایمان و ایقان کو مضبوط کرنا ہوتا ہے یا یوں سمجھ لیں کہ خدا کی رضا کو پانے کے لیے قربانی کرنا ایک لازمی شرط ہے۔ ہر دور میں خدا کی طرف سے مختلف قربانی کا مطالبہ کیا گیا تا خدا کے صادق بندے ان راہوں سے خدا کی کامل محبت کو پا لیں۔ قربانی کی اہمیت قرآن و احادیث کی رو سے روزِ روشن کی طرح عیاں ہے۔

قرآن کریم

وَ اَنۡفِقُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِ اللہِ وَ لَا تُلۡقُوۡا بِاَیۡدِیۡکُمۡ اِلَی التَّہۡلُکَۃِۚ وَ اَحۡسِنُوۡاۚ اِنَّ اللہَ یُحِبُّ الۡمُحۡسِنِیۡنَ۔ (البقرۃ:196)

اور اللہ کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے ہاتھوں (اپنے تئیں) ہلاکت میں نہ ڈالو۔ اور احسان کرو یقیناً اللہ احسان کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔

مَنۡ ذَا الَّذِیۡ یُقۡرِضُ اللہَ قَرۡضًا حَسَنًا فَیُضٰعِفَہٗ لَہٗۤ اَضۡعَافًا کَثِیۡرَۃً ؕ وَ اللہُ یَقۡبِضُ وَ یَبۡصُۜطُ وَ اِلَیۡہِ تُرۡجَعُوۡنَ۔ (البقرۃ:246)

کون ہے جو اللہ کو قرضہ حسنہ دے تاکہ وہ اس کے لئے اسے کئی گنا بڑھائے۔ اور اللہ (رزق) قبض بھی کرلیتا ہے اور کھول بھی دیتا ہے۔ اور تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔

لَنۡ تَنَالُوا الۡبِرَّ حَتّٰی تُنۡفِقُوۡا مِمَّا تُحِبُّوۡنَ وَ مَا تُنۡفِقُوۡا مِنۡ شَیۡءٍ فَاِنَّ اللہَ بِہٖ عَلِیۡمٌ۔ (اٰل عمران:93)

تم ہرگز نیکی کو پا نہیں سکو گے یہاں تک کہ تم اُن چیزوں میں سے خرچ کرو جن سے تم محبت کرتے ہو۔ اور تم جو کچھ بھی خرچ کرتے ہو تو یقیناً اللہ اس کو خوب جانتا ہے۔

احاديثِ نبوی ﷺ

آنحضورﷺ نے بھی مالی قربانی کی بہت سی برکات بیان فرمائی ہیں، فرمایا:

جو شخص اللہ تعالیٰ کے راستے میں کچھ خرچ کرتا ہے۔ اسے اس کے بدلہ میں سات سو گنا زیادہ ثواب ملتا ہے۔

(ترمذی باب فضل النفقة فی سبیل اللہ)

دو شخصوں کے سوا کسی پر رشک نہیں کرنا چاہیے۔ ایک وہ آدمی جس کو اللہ تعالیٰ نے مال دیا اور اس نے اسے راہ حق میں خرچ کر دیا۔ دوسرے وہ آدمی جسے اللہ تعالیٰ نے سمجھ، دانائی اور علم و حکمت دی جس کی مدد سے وہ لوگوں کے فیصلے کرتا ہے اور لوگوں کو سکھاتا بھی ہے۔

(صحیح بخاری کتاب الزکوة)

حضرت جریر بن عبداللہنے بیان کیا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا جب تمہارے پاس زکوٰة وصول کرنے والا (محصل) آئے تو اسے تمہارے ہاں سے راضی ہوکر لوٹنا چاہیے۔ (صحیح مسلم کتاب الزکوة)

حضرت ابوہریرہبیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ آنحضرتﷺ نے یہ قصہ بیان فرمایا کہ ایک آدمی بےآب و گیاہ جنگل میں جا رہا تھا، بادل گھرے ہوئے تھے۔ اس نے بادل میں سے آواز سنی کہ اے بادل فلاں انسان کے باغ کو سیراب کر۔ وہ بادل اس طرف کو ہٹ گیا، پتھریلی سطح مرتفع پر بارش برسی۔ پانی ایک چھوٹے سے نالے میں بہنے لگا۔ وہ شخص بھی اس نالے کے کنارے کنارے چل پڑا۔ کیا دیکھتا ہے کہ یہ نالہ ایک باغ میں جا داخل ہوا ہے اور باغ کا مالک کدال سے پانی ادھر اُدھر مختلف کیاریوں میں لگا رہا ہے۔ اس آدمی نے باغ کے مالک سے پوچھا۔ اے اللہ کے بندے! تمہارا نام کیا ہے؟ اس نے وہی نام بتایا جو اس مسافر نے اس بادل میں سے سنا تھا۔ پھر باغ کے مالک نے اس مسافر سے پوچھا۔ اے اللہ کے بندے! تم مجھ سے میرا نام کیوں پوچھتے ہو؟ اس نے کہا مَیں نے اس بادل میں سے جس کی بارش کا تم پانی لگا رہے ہو یہ آواز سنی تھی کہ اے بادل فلاں آدمی کے باغ کو سیراب کر۔ تم نے کون سا ایسا نیک عمل کیا ہے جس کا یہ بدلہ تجھ کو ملا ہے؟ باغ کے مالک نے کہا۔ اگر آپ پوچھتے ہیں تو سنیں۔ میرا طریق کار یہ ہے کہ اس باغ سے جو پیداوار ہوتی ہے اس کا ایک تہائی خداتعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتا ہوں، ایک تہائی اپنے اور اپنے اہل وعیال کے گزارہ کے لئے رکھتا ہوں اور باقی ایک تہائی دوبارہ ان کھیتوں میں بیج کے طور پر استعمال کرتا ہوں۔

دین کی راہ میں قربانی کے

چند ایمان افروز واقعات

حضرت عکرمہؓ بن ابوجہل نے قبولِ اسلام کے بعد یہ عہد کیا تھا کہ جتنی دولت اسلام کی مخالفت میں صرف کرچکا ہوں۔ اس سے دو گنا خدمتِ اسلام میں صَرف کروں گا اور اسلام کی مخالفت میں جتنی لڑائیاں لڑا ہوں اس سے دو گنا اسلام کی تائید میں لڑوں گا۔ چنانچہ آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعد جو فتنہ اَرتداد اٹھا اس میں شام کی معرکہ آرائیوں میں ان کے کارہائے نمایاں سے تاریخ اسلام کے صفحات مزیّن ہیں۔ اور اس طرح لڑائیوں کے متعلق انہوں نے اپنا عہد پورا کیا۔ مالی قربانی کا یہ حال ہے کہ ان سب لڑائیوں کی تیاری اور اخراجات کے لیے آپ نے کبھی ایک حبہ بھی بیت المال سے نہیں لیا۔ جب لشکرِاسلامی شام پر فوج کشی کے لیے تیار ہو رہا تھا تو حضرت ابوبکرؓ فوج کے معائنہ کے لیے تشریف لے گئے۔ ایک خیمہ کے باہر آپ نے دیکھا کہ چاروں طرف گھوڑے بندھے ہوئے ہیں۔ تلواریں اور دوسرا سامانِ جنگ با افراط رکھا ہے۔ آپ قریب پہنچے تو معلوم ہوا کہ یہ خیمہ حضرت عکرمہؓ کا ہے اور سب سامان ان کا اپنا ہے۔ آپ نے کچھ رقم اخراجاتِ جنگ کے لیے ان کو دینا چاہی۔ مگر انہوں نے لینے سے صاف انکار کردیا اور کہا کہ میرے پاس تا حال دو ہزار دینار موجود ہیں اس لیے بیت المال پر بوجھ ڈالنے کی مجھے ضرورت نہیں۔

(اسدالغابہ جلد3صفحہ568)

حضرت عبداللہ بن زیدؓ کے پاس جائیداد بہت قلیل تھی۔ اور نہایت تنگی کے ساتھ بال بچوں کا پیٹ پالتے تھے لیکن ایک وقت ایسا آیا کہ اسلام کے لیے مال کی ضرورت تھی۔ جسے پورا کرنے کے لیے چندہ کی تحریک کی گئی۔ حضرت عبداللہ کے پاس گو مال کی کمی تھی لیکن دل میں ایمانی حرارت موجود تھی۔ ا س سے مجبورہوکر آ پ کے پاس جو کچھ بھی تھا آپ نے سب کا سب خداتعالیٰ کی راہ میں دے دیا۔ ان کے باپ نے آکر آنحضرتﷺ سے شکایتاً اس کا ذکر کیا۔ تو آپﷺ نے ان کو ان کا مال واپس کرتے ہوئے فرمایا کہ خداتعالیٰ نے تمہارا صدقہ قبول کرلیا ہے لیکن اب تمہارے باپ کی میراث کے طور پر تم کو واپس کرتا ہے۔ تم اس کو قبول کرلو۔

(اسد الغابہ جلد2صفحہ138، 139)

8ھ میں مسلمانوں کو ایک معرکہ پیش آیا جسے سریّہ جیش الخبط کہتے ہیں۔ مسلمانوں کی تعداد تین سو تھی لیکن زادِ راہ ختم ہوگیا اور مجاہدین کو سخت پریشانی کا سامنا ہوا اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ درختوں کے پتے جھاڑ جھاڑ کر کھانے لگے۔ حضرت قیس بن سعدؓ بن عبادہ بھی اس لشکر میں شریک تھے۔ آپ نے تین مرتبہ تین تین اونٹ قرض لے کر ذبح کیے اور سارے لشکر کو دعوت دی۔

(بخاری کتاب المغازی باب غزوۃسیف البحر)

حضرت صہیبؓ ابتدائی مسلمانوں میں سے تھے۔ مگر نہایت مسکین اور بےکس آدمی تھے۔ قریشِ مکہ ان کو طرح طرح کی تکالیف پہنچاتے تھے۔ تنگ آکر آپ نے ہجرت کا ارادہ کیا تو مشرکین نے کہا کہ تم جب یہاں آئے تھے تو بالکل مفلس اور قلاش تھے۔ اب ہماری وجہ سے مالدار ہوگئے ہوتو چاہتے ہو کہ تمام مال و اسباب لےکر یہاں سے نکل جاؤ۔ ہم ہرگز تمہیں ایسا نہ کرنے دیں گے۔ آپ کے دل میں ایمان کی جو لگن تھی وہ ایسی نہ تھی کہ مال و دولت کی زنجیر ان کو اللہ تعالیٰ کی راہ میں ہجرت کرنے سے باز رکھ سکتی۔ آپ نے فرمایا کہ اگر میں تمام مال و دولت تمہارے حوالہ کر دوں تو پھر تو تم کو میرے جانے پر کوئی اعتراض نہ ہوگا۔ وہ رضامند ہوگئے۔ چنانچہ آپ نے سب مال و اسباب ان کے حوالے کیا اور بالکل مفلس ہوکر ہجرت اختیار کی۔ آنحضرتﷺ کو جب اس کا علم ہوا تو فرمایا۔ رَبِحَ صُہیبٌ یعنی صہیبؓ نفع میں رہے۔ (طبقات ابن سعدجلد3صفحہ162)

حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ نے جوانی کے وقت اسلام قبول کیا۔ آپ بہت بڑے تاجر اوربہت بڑے مالدار تھے لیکن دولت سے پیار بالکل نہ تھا۔ بلکہ اسے راہ خدا میں خرچ کرنے میں ہی خوشی محسوس کرتے تھے۔ ایک دفعہ ان کا تجارتی قافلہ مدینہ آیا تو اس میں سات سو اونٹوں پر گیہوں، آٹا اوردیگر اشیاء خوردنی بار تھیں۔ چونکہ یہ ایک غیرمعمولی بات تھی۔ تمام مدینہ میں چرچا ہونے لگا۔ حضرت عائشہؓ نے فرمایا کہ آنحضرتﷺ فرماتے تھے عبدالرحمٰنؓ جنت میں رینگتے ہوئے داخل ہوں گے۔ حضرت عبدالرحمٰنؓ تک بھی یہ بات پہنچی۔ تو حضرت عائشہؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ آپ گواہ رہیں مَیں نے یہ پورا قافلہ مع اسباب و سامان حتّٰی کہ کجاوے تک راہ خدا میں وقف کردیا۔

(اسدالغابہ جلد3 صفحہ377، 378)

مذکورہ بالا مثال پر ہی آپ کی مالی قربانی ختم نہیں ہوتی بلکہ آپ زندگی بھر راہِ دین میں کثرت سے قربانیاں کرتے رہے۔ چنانچہ دو مرتبہ آپ نے یک مشت چالیس چالیس ہزار دینار دئیے اور ایک غزوہ کے موقع پر جہاد کے لیے پانچ سو گھوڑے اور اتنے ہی اونٹ حاضر کیے۔

(اسدالغابہ جلد3 صفحہ379)

دین کی راہ میں صحابہؓ کی قربانیاں کئی رنگ میں ہوتی تھیں۔ ایک متموّل انسان کا خدا کی راہ میں مال خرچ کرنا اور بات ہے لیکن ایک معمولی حیثیت کے آدمی کا اپنے ہی سرمایہ اور پونجی سے اپنے آپ کو محروم کرلینا بہت بڑا ابتلاء ہے۔ اور شیطان نے اس راہ سے بھی صحابہؓ کے ایمان میں تزلزل پیدا کرنے کی کوششیں کی لیکن باقی تمام راہوں کی طرح وہ اس راہ سے بھی ان کے ایمان کو متزلزل نہ کرسکا۔

حضرت خبابؓ ایک نوجوان صحابی تھے جن کا ایک مشرک عاص بن وائل کے ذمہ قرض تھا۔ آپ نے اسلام قبول کرنے کے بعد جب اس سے قرض کا مطالبہ کیا تو اس نے کہا کہ جب تک محمدﷺ کی نبوّت کا علی الاعلان انکار نہ کرو گے مَیں یہ روپیہ تم کو ہرگز ادا نہ کروں گا۔ لیکن آپ نے جواب دیا کہ روپیہ ملے یا نہ ملے لیکن یہ تو قیامت تک نہیں ہوسکتا کہ میں ایک معمولی دنیوی فائدہ کے لیے نبوت و رسالت سے انکار کردوں۔

(بخاری کتاب الاجارہ باب ھل یواجر الرجل نفسہ من مشرک)

حضرت منشی اروڑے خان صاحبؓ کے با رہ میں حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ فرماتے ہیں: ‘‘مجھے وہ نظارہ نہیں بھولتا اور نہیں بھول سکتا کہ حضرت مسیح موعود کی وفات پر ابھی چند ماہ ہی گزرے تھے کہ ایک دن باہر سے مجھے کسی نے آواز دے کر بلوایا اور خادمہ یا کسی بچہ نے بتایا کہ دروازہ پر ایک آدمی کھڑا ہے اور وہ آپ کو بلا رہا ہے۔ مَیں باہر نکلا تو منشی اروڑے خان صاحبؓ مرحوم کھڑے تھے۔ وہ بڑے تپاک سے آگے بڑھے، مجھ سے مصافحہ کیا اور اس کے بعد انہوں نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا۔ جہاں تک مجھے یاد ہے انہوں نے اپنی جیب سے دو یا تین پونڈ نکالے اور مجھے کہا کہ یہ اماں جان کو دے دیں اور یہ کہتے ہی ان پر ایسی رِقّت طاری ہوئی کہ چیخیں مار کر رونے لگ گئے۔… جب ان کو ذرا صبر آیا تو مَیں نے ان سے پوچھا کہ آپ روئے کیوں ہیں۔ وہ کہنے لگے میں غریب آدمی تھا مگر جب بھی مجھے چھٹی ملتی، مَیں قادیان آنے کے لیے چل پڑتا تھا۔ سفر کا بہت سا حصہ مَیں پیدل ہی طے کرتا تھا تاکہ سلسلہ کی خدمت کے لیے کچھ پیسے بچ جائیں۔ مگر پھر بھی روپیہ ڈیڑھ روپیہ خرچ ہو جاتا۔ یہاں آکر جب مَیں امراء کو دیکھتا کہ وہ سلسلہ کی خدمت کے لیے بڑا روپیہ خرچ کر رہے ہیں تو میرے دل میں خیال آتا کہ کاش میرے پاس بھی روپیہ ہو اور مَیں حضرت مسیح موعودؑ کی خدمت میں بجائے چاندی کا تحفہ لانے کے سونے کا تحفہ پیش کروں۔ آخر میری تنخواہ کچھ زیادہ ہوگئی اور مَیں نے ہر مہینے کچھ رقم جمع کرنی شروع کر دی اور مَیں نے اپنے دل میں یہ نیّت کی یہ رقم اس مقدار تک پہنچ جائے گی جو میں چاہتا ہوں تو مَیں اسے پونڈوں کی صورت میں تبدیل کرکے حضرت مسیح موعودکی خدمت میں پیش کروں گا… مگر جب میرے دل کی آرزو پوری ہوگئی اور پونڈ میرے پاس جمع ہوگئے تو… حضرت مسیح موعودؑ کی وفات ہوگئی۔

(روزنامہ الفضل 28 اگست 1941ء۔خطبہ جمعہ فرمودہ 22 اگست 1941ء)

متعلقہ مضمون

  • جلسہ سالانہ کی اہمیت

  • جماعتِ احمدیہ جرمنی کے ایک جفا کش دیرینہ خادم

  • جرمنی میں رہتے ہوئے سوئٹزرلینڈ میں کام کے مواقع