ہر سال کے آخر پر دسمبر کا مہینہ خوشی اور اُداسی کا ملا جُلا ایک پیغام لے کر آتا ہے۔ گھر سے باہر دیکھیں تو درختوں کی شاخیں خزاں کا شکار ہو کر سرد موسم کا مقابلہ کر رہی ہوتی ہیں۔ پہاڑوں کی چوٹیاں اور وادیاں برف کا لبادہ اوڑھ چکی ہوتی ہیں۔ پرندے اور جانور گرم جگہوں میں رُوپوش ہوجاتے ہیں۔ لوگ بھی عموماً سرِ شام گھروں میں انگیٹھیوں کے سامنے بیٹھ کر ہاتھ تاپ رہے ہوتے ہیں۔ ایسے میں دنیا کا ایک بہت بڑا طبقہ نئے سال کا استقبال کرنے کی تیاریوں میں بھی مصروف ہوتا ہے اور یہ ماحول غالب آ کر اُداسی کی کیفیت کو بہت حد تک زائل کر دیتا ہے۔ نئے سال کے استقبال کی یہ تیاریاں اس قدر زور پکڑ جاتی ہیں کہ حضرت انسان اِن میں کھو کر بھول ہی جاتا ہے کہ یہ اپنے محاسبہ کا بھی وقت ہوتا ہے۔ سالِ نَو اگر خوشی کا نشان ہے تو جانے والا سال جاتے جاتے یہ سوال کر رہا ہوتا ہے کہ ذرا سوچو تو سہی کہ تم نے اس گزرے سال کے دوران کیا کھویا اور کیا پایا؟ اسی طرح آنے والے سال کے دوران تم نے اپنی گزشتہ کوتاہیوں کی کیسے تلافی کرنی ہے اور کن اچھی باتوں کو اختیار کرنا ہے تاکہ تم ترقی کرتے ہوئے آگے سے آگے بڑھتے چلے جاؤ۔ قرآنِ کریم ہمیں ہدایت فرماتا ہے کہ اے ایمان والو! تم اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور تم میں سے ہرجان یہ نظر رکھے کہ وہ کل کے لئے کیا آگے بھیج رہی ہے۔ (الحشر:19)
جماعت احمدیہ میں بھی دسمبر کے ان دنوں کا انتظار سارا سال رہتا ہےکہ اس کے آخری عشرہ میں حضرت مسیحِ موعود کا جاری فرمودہ جلسہ سالانہ ہوا کرتا ہے۔ پاکستان میں ہونے والے جلسہ سالانہ کی حاضری لاکھوں تک پہنچ گئی تھی جس کےلئے بہت بڑے پیمانے پر تیاریاں ہوتیں جو دسمبر کا مہینہ شروع ہوتے ہی عروج پر پہنچ جاتیں۔ ربوہ میں ہرطرف گہما گہمی نظرآنے لگتی، اس چھوٹے سے شہر کو غریب دلہن کی طرح سجایا جانے لگتا۔ پھر جلسہ کے دن آتے تو پاکستان کے کونے کونے اور دنیا کے دور و دراز ملکوں سے آئے ہوئے مسیحِ محمدی کے پروانے اپنے امام کی اقتداء میں دعائیں کرتے، عبادات بجا لاتے، مؤمنانہ اخوّت کا منظر پیش کرتے، اپنے سینوں اور قلب و روح کو علم و معرفت سے سیراب کرتےہوئے رگ و ریشہ میں رَچ بَس جانے والی عاشقانہ کیفیت سے سرشار ہو کر اپنے گھروں کو لَوٹتے۔ لیکن افسوس کہ 1983ء کے بعد حکومتِ پاکستان کی طرف سے لگائی جانے والی پابندی کے نتیجہ میں ربوہ کی فضاؤں کو یہ روحانی ماحول میسّرنہیں۔ لیکن ہر احمدی کا دل اس یقین سے پُر ہے کہ یہ پابندیاں اگرچہ بہت شاق ہیں مگر عارضی ہیں اور بہت جلد ظلم و ستم کے یہ بادل چھٹ جائیں گے جیسا کہ امامِ زمانہ فرما چکے ہیں:
‘‘خداتعالیٰ کے صحیفۂ قدرت پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جب بات حد سے گزر جاتی ہے تو آسمان پر تیاری کی جاتی ہے۔ یہی اس کا نشان ہے کہ یہ تیاری کا وقت آ گیا ہے۔ سچے نبی و رسول و مجدّد کی بڑی نشانی یہی ہے کہ وہ وقت پر آوے اور ضرورت کے وقت آوے۔ لوگ قسم کھا کر کہیں کہ کیا یہ وقت نہیں کہ آسمان پر کوئی تیاری ہو؟ مگر یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ سب کچھ آپ ہی کیا کرتا ہے۔ ہم اور ہماری جماعت اگر سب کے سب حُجروں میں بیٹھ جائیں تب بھی کام ہو جائے گا اور دَجّال کو زوال آجائے گا۔ تِلْکَ الْاَیَّامُ نُدَاوِلُھَا بَیْنَ النَّاسِ۔ (یعنی اس طرح دن آپس میں پھرا کرتے ہیں،ناقل) اس کا کمال بتاتا ہے کہ اب اس کے زوال کا وقت قریب ہے۔ اس کا اِرتفاع ظاہر کرتا ہے کہ اب وہ نیچا دیکھے گا۔ اس کی آبادی اس کی بربادی کا نشان ہے۔ ہاں ٹھنڈی ہوا چل پڑی۔ اللہ تعالیٰ کے کام آہستگی کے ساتھ ہوتے ہیں’’۔ (ملفوظات جلد اوّل صفحہ 359 طبع 2018ء)

متعلقہ مضمون

  • جلسہ سالانہ کےمیزبانوں اور مہمانوں کے لیے زرّیں نصائح

  • ہیں رموز و سِرّ جہاں کیا

  • قربانی وہی ہے جسے خداتعالیٰ قبول کرے

  • عہدِ خلافت خامسہ میں الٰہی تائید و نصرت