گناہ گاروں کے دردِ دل کی بس اک قرآن ہی دوا ہے
یہی ہے خضرِ رہِ طریقت یہی ہے ساغر جو حق نما ہے
ہر اک مخالف کے زور و طاقت کو توڑنے کا یہی ہے حربہ
یہی ہے تلوار جس سے ہر ایک دیں کا بدخواہ کانپتا ہے
تمام دنیا میں تھا اندھیرا کیا تھا ظلمت نے یاں بسیرا
ہوا ہے جس سے جہان روشن وہ معرفت کا یہی دیا ہے
نگاہ جن کی زمین پر تھی نہ آسماں کی جنہیں خبر تھی
خدا سے اُن کو بھی جا ملایا دکھائی ایسی رہِ ھدیٰ ہے
بھٹکتے پھرتے ہیں راہ سے جو، انہیں یہ ہے یار سے ملاتا
جواں کے واسطے یہ خضرِ رہ ہے، تو پیر کے واسطے عصا ہے
مصیبتوں سے نکالتا ہے بلاؤں کو سر سے ٹالتا ہے
گلے کا تعویذ اسے بناؤ، ہمیں یہی حکمِ مصطفیٰ ہے
یہ ایک دریائے معرفت ہے لگائے اس میں جو ایک غوطہ
تو اس کی نظروں میں ساری دنیا فریب ہے جھوٹ ہے دغا ہے
مگر مسلمانوں پر ہے حیرت جنہوں نے پائی ہے ایسی نعمت
دلوں پہ چھائی ہے پھر بھی غفلت نہ یادِ عقبیٰ ہے نے خدا ہے
سو ساری باتیں ہوئی ہیں پوری نہیں کوئی بھی رہی ادھوری
دلوں میں اب بھی رہے جو دُوری تو اس میں اپنا قصور کیا ہے
خدا نے لاکھوں نشاں دکھائے، نہ پھر بھی ایمان لوگ لائے
عذاب کے منتظر ہیں ہائے، نہیں جو بدبختی یہ تو کیا ہے
نہیں ہے محموؔد فکر اس کا، کہ یہ اثر کس قدر کرے گا
سخن کہ جو دل سے ہے نکلتا، وہ دل میں ہی جا کے بیٹھتا ہے

(اخبار بدر۔ جلد 6۔ 21 فروری1907ء، کلام محمود صفحہ25)

متعلقہ مضمون

  • خدا نے ہم کو دی ہے کامرانی

  • اُسی کو پا کے سب کچھ ہم نے پایا

  • دشمن کو ظلم کی برچھی سے تم سینہ و دل بَر مانے دو