(منور علی شاہد۔ جرمنی)

 

پاکستان کے فوجی آمرضیاءالحق نے سیاہ قانون “امتناع قادیانیت آرڈیننسXX 26 اپریل 1984ء کو نافذ کیا تھا، یہ اس وقت سے ایک ہتھیار کے طور پر جماعت احمدیہ کے مخالفوں اور مذہبی جنونیوں کے ہاتھ لگا ہوا ہے اور وہ اس کا اندھا دھند استعمال کر رہے ہیں۔ ریاست، حکومت، سیاسی جماعتیں اور قائدین سبھی چپ سادھے بیٹھےہیں۔ ان سب کی خاموشی دَرحقیقت ان انتہا پسندوں کی حمایت کرنے کے مترادف ہے۔ اگر کوئی کارروائی کرتے بھی ہیں تو وہ محض اشک پوشی کے طورپرجس سے متأثرین کو پہنچنے والی اذیتوں کا کوئی مداوا نہیں ہوتا۔ ہر شہادت کے بعد ’’نامعلوم‘‘ ہی کا ڈھنڈورا پیٹ کر معاملے پر مٹی ڈال دی جاتی ہے۔ مذہبی تعصّب ایسا ہے کہ ذرائع ابلاغ پر بھی خبریں شائع اور نشر نہیں کی جاتیں۔ کچھ انگریزی اخبار و جرائد کے علاوہ عالمی نشریاتی ادارے انہیں اپنی خبروں میں جگہ دیتے ہیں تو دنیا کو پتہ چلتا ہے کہ پاکستان میں احمدیوں کی مساجد، ان کے میناروں اور قبرستانوں کی کیسے کیسےبےحرمتی کی جارہی ہے۔ یہ خود ساختہ زمینی خدا، آسمانی خدا کی پکڑ سے زیادہ دور دکھائی نہیں دیتے۔ جماعت کو کشکول پکڑانے والے حکمران آج خود کشکول ہاتھ میں لئے ملک، ملک قرضے اور مدد کی بھیک مانگ رہے ہیں۔ عقلمندوں کے لئے اس میں بہت نشانیاں، اشارے اور عبرت کے سامان ہیں، کاش کوئی بصیرت کی آنکھ رکھتا ہو۔
حال ہی میں کراچی سے یکایک شروع ہونے والی جماعت احمدیہ کی مخالفت ایک سوچی سمجھی سازش لگتی ہے۔ شرّانگیزی کی یہ لہر کراچی سے نکل کر سندھ سے ہوتی ہوئی پنجاب میں پہنچ گئی ہے۔ جس کا آغاز کراچی میں نکاح فارموں میں ختم نبوت کا خانہ شامل کرنے کی تجویز کے بارے میں حکومت سندھ کو خط لکھے جانے سے ہوا۔ اس طرح سے تخت حکومت پر بیٹھنے والوں نے تحریک ختم نبوت سے اپنی وابستگی کا اظہار کیا تھا۔ اس سے ان کے مذہبی منافرت پھیلانے کے عزائم کا پتہ چلتا ہے۔ موجودہ واقعات اسی سوچ کا تسلسل دکھائی دیتے ہیں۔
سال رواں کا ابھی یہ دوسرا ماہ شروع ہوا ہے اورکراچی اور سندھ میں مساجد کے میناروں کی توڑ پھوڑ اور ان پر حملے روز کا معمول بن گئے ہیں۔ جنوری کے وسط میں مارٹن روڈ کراچی کی احمدیہ مسجد کے میناروں کو شرپسندوں نے نقصان پہنچایا اور اس کے بعد بزدلانہ طور پرفرار ہوگئے۔ 2 فروری کو کراچی صدر میں واقع احمدیہ ہال کے میناروں کو منہدم کر دیا گیا کہ جماعت احمدیہ کو 1984ء میں بننے والے سیاہ قانون کے تحت اسلامی شعار اپنانے کا کوئی حق نہیں جب کہ اس مسجد کی تعمیر 1947ء سے پہلےہوئی تھی۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق دس، پندرہ نامعلوم افراد کے خلاف پرچہ درج کیا گیا ہے مگر کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی۔ فروری کے پہلے ہفتہ میں اندرون سندھ بھی جماعت کی متعدد مساجد پر حملے کئے گئے۔ نورنگر ضلع عمر کوٹ سندھ میں احمدیہ مسجد کی دیوار پھلانگ کر نامعلوم افراد اندر داخل ہوئے اور مسجد کو آگ لگا دی جس سے مسجد کی صفیں اور کرسیاں جل گئیں۔ گوٹھ جاوید احمد ضلع میرپور خاص میں احمدیہ مسجد کے مینار توڑے گئے اور مسجد کو آگ لگائی گئی۔ ہفتہ کی رات 4 فروری کو سٹیلائٹ ٹاؤن میرپور خاص میں احمدیہ مسجد پر فائرنگ کی گئی۔ مسجد کی دیواروں اور بیرونی دروازے پر گولیاں لگیں جب کہ اس وقت متعدد احمدی اندر موجود تھے۔
(ہفت روزہ انگریزی فرائڈے ٹائمز لاہور)
اس صورتحال میں حکومت اور دیگر ریاستی اداروں کی طرف سے جماعت احمدیہ کے احباب کی جانوں اور اموال کو کتنا تحفظ دیا گیا، اس کا اندازہ کراچی کے ایڈیشنل انسپکٹر جنرل آف پولیس جاوید عالم اوڈھو کے اس بیان سے لگایا جاسکتا ہے جو انہوں نے “انڈیپنڈنٹ اردو” کو دیا۔ انہوں نے کہا کہ مذہبی اقلیتوں کو تحفّظ فراہم کیا جاتا ہے لیکن 24 گھنٹے سیکورٹی نہیں دی جاتی ہے، انہوں نے مزید کہا احمدیوں کی عبادت گاہوں پر عبادت کے لئے مخصوص اوقات میں سیکورٹی فراہم کی جاتی ہے۔ کتنی عجیب بات ہےکہ شرپسندوں کی طرف سے حملوں کا خطرہ تو چوبیس گھنٹے رہتا ہے اور حملے ہوتے بھی ہیں، لیکن سیکورٹی صرف عبادت کے وقت ہی دی جاتی ہے۔ یہ محض رَسمی کارروائی ہے۔
احمدیت کے مخالف گروہوں کی کارروائیوں میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ مساجد کے بعد اب بات احمدیوں پر حملوں تک پہنچ چکی ہے۔ 17 فروری 2023ءکو گجرات کے علاقے گوٹریالہ میں شام کے وقت ایک احمدی ہومیوپیتھی ڈاکٹر رشید احمد صاحب کو گولی مار کر شہید کردیا گیا ان کی عمر 75 سال تھی اور وہ ناروے کی قومیت رکھتے تھے۔ شہید اپنے گاؤں کے لوگوں کی خدمت کرنے کے جذبہ سے یورپ کو چھوڑ کر گجرات واپس لوٹ آئے تھے۔ علاوہ ازیں ضلع قصور میں ایک مذہبی جماعت کے کارکنوں نے جمعہ کے روز مقامی عبادت گاہ میں نماز جمعہ کے بعد مکرم شیخ محمدیوسف قمر صاحب ایڈووکیٹ کو گھیرے میں لیا اور سخت نعرے بازی کی اور ان کو اپنے نام کے ساتھ محمد ختم کرنے کی وارننگ دی، یہ ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہے جس سے مخالفین کے عزائم بالکل واضح ہوتے ہیں۔ گزشتہ سال بھی اسی قسم کی متعدّد کارروائیاں شرپسندوں کی جانب سے کی گئیں تھیں۔ 4 جون 2022ء کو پنڈدادن خان(ضلع جہلم) میں مسجد کے مینار شہید کئے گئے۔ 18 جون کو گوجرانوالہ میں باغبانپورہ کے مقام پر پولیس نے لوگوں کی شکایت پر مسجد کے میناروں پر پردے چڑھا دیئے مبادا کسی “مسلمان” کو نظر آکر اس کے مذہبی جذبات مجروح ہوں، بعدازاں دسمبر میں پولیس نے یہ مینار توڑ بھی ڈالے۔ 31 اگست 2022ء کو ضلع جہلم میں متیال نامی علاقے میں ایسا ہی واقعہ پیش آیا۔ 13 ستمبرکو ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ میں گوجرہ کے مقام پر بھی ایسا واقعہ رونما ہوا۔ 12 اکتوبر کو اوکاڑہ شہر کے ایف بلاک میں بھی پولیس نے میناروں پر پردے چڑھائے (بی بی سی اردو نیوز 4 فروری 2023ء)۔ سیالکوٹ میں سائیلان موضع پیرو چک، تحصیل ڈسکہ میں احمدیہ قبرستان میں داخل ہوکر انتہا پسندوں نے قبروں کی بےحرمتی کی، کتبوں کو توڑنے کے بعد اس پر باقاعدہ قبضہ بھی کرلیا ہے اور احمدی میّتوں کی تدفین ہونے نہیں دی جاتی حالانکہ یہ قبرستان 1947ء سے جماعت احمدیہ کی ملکیت ہے لیکن اب حکومت کی طرف سے جماعت کی کسی قسم کی کوئی مدد نہیں کی جارہی۔
اس وقت پنجاب سمیت پاکستان میں تمام احمدیوں کی مساجد، ان کے میناروں اور قبرستانوں پر خطرات کے بادل منڈلا رہے ہیں۔ ملک کے بدترین سیاسی عدم استحکام سے گھناؤنا فائدہ اٹھانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ملک کے موجودہ معاشی و سیاسی حالات میں مذہب کارڈ کے اِس استعمال سے پاکستان مخالف قوتوں کو ہی فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ بی بی سی اردو نیوز اپنی ایک رپورٹ مطبوعہ 4 فروری 2023ء میں لکھتا ہے کہ پنجاب اور سندھ میں جماعت احمدیہ کی عبادت گاہوں پر حملوں میں تیزی، یہ ایک منظّم مہم لگتی ہے۔ پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق کی طرف سے بھی پاکستان میں ہونے والے ان مذہبی جرائم کے حوالے سے ایک سالانہ رپورٹ جاری کی گئی ہے جس میں پاکستان میں احمدیوں پر ہونے والے ان مظالم پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔ اسی طرح بی بی سی اردو نیوز نے احمدی برادری پر حملے کے عنوان سے ایک رپورٹ 11 فروری کو جاری کی جس میں بعض احمدیوں کے واقعات بیان کئے گئے ہیں۔ جس سے پتہ چلتا ہے کہ کس طرح احمدی خواتین اوربوڑھوں کا گھروں سے باہر نکلنابھی دن بدن مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔
کراچی جہاں بانی پاکستان نے پہلی دستور ساز اسمبلی میں 11 اگست کو تاریخی تقریر کرکے پاکستان کا تصوّر پیش کیا تھا۔ جس میں یہ واضح کردیا تھا کہ ہر شہری کے مذہب و عقیدہ سے ریاستی امور کا کوئی تعلق نہ ہوگا ۔ اسی تاریخی تقریر میں ہر حکومت کے اوّلین فرض کی نشاندہی کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ “پہلی بات جو مَیں کہنا چاہوں گا اور بلاشبہ آپ مجھ سے اتفاق کریں گے کہ ایک حکومت کا پہلا فرض یہ ہوتا ہے کہ وہ امن و امان برقرار رکھے تاکہ مملکت اپنے عوام کی جان و مال اور ان کے مذہبی عقائد کو مکمل طور پر تحفظ دے سکے اور ہر شہری کی جان و مال کی حفاظت حکومت کا اوّلین فریضہ ہوگا۔
کراچی وہ شہر ہے جہاں بانی پاکستان ابدی نیند سو رہے ہیں۔ لیکن آج اسی کراچی کے علاوہ ملک بھر میں ہو کیا رہا ہے؟ بانی پاکستان کے فرمان کی پامالی کے ساتھ ساتھ ان کی توہین بھی کی جا رہی ہے شہرِ قائد میں احمدیوں کی مساجد کے مینار توڑے اور گرائے جا رہے ہیں، کوئی روکنے والا نہیں۔ یکے بعد دیگرے متعدد واقعات ہوئے ہیں۔ شرپسند عناصر کو کھلی چھٹی ملنے پر وہ اندرون سندھ تک پہنچ گئے اور وہاں شرپسندی شروع کر رکھی ہے۔ پاکستان کے تشخص کو مجروح کرنے کی اس سے زیادہ خطرناک اور گھناؤنی سازش اور کیا ہو سکتی ہے۔ایک باشعور، امن پسند اور محبِّ وطن پاکستانی سوچنے پر مجبور ہے کہ پاکستان کن کے ہتھے چڑھ گیا ہے؟

متعلقہ مضمون

  • جرمنی میں رہتے ہوئے سوئٹزرلینڈ میں کام کے مواقع

  • سالانہ تقریب تقسیم انعامات جامعہ احمدیہ جرمنی

  • حرمت والےمہینے اور حج

  • حضورانورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے لیے دعائیہ تحریک