تشہّد و تعوّذ اور سورة فاتحہ کي تلاوت کے بعد حضورانور نے فرمايا:

20فروري کا دن جماعت احمديہ ميں پيشگوئي مصلح موعودؓ کے حوالے سے جانا جاتا ہے۔ حضرت مسيح موعود کو اپنے ايک بيٹے کي پيدائش کي خبر دي گئي تھي جو دين کا خادم ہوگا۔ عمر پائے گا اور بےشمار دوسري خصوصيات کا حامل ہوگا۔

حضرت مسيح موعود اس پيشگوئي کي اہميت کے بارے ميں فرماتے ہيں کہ: يہ صرف پيشگوئي ہي نہيں بلکہ ايک عظيم الشان نشانِ آسماني ہے جس کو خدائےکريم جلّ شانہٗ نے ہمارے نبي کريم رؤوف و رحيم محمدمصطفيٰﷺ کي صداقت و عظمت ظاہر کرنے کے لئے ظاہر فرمايا ہے اور دَر حقيقت يہ نشان ايک مُردہ کے زندہ کرنے سے صدہا درجہ اعليٰ و اَوليٰ و اکمل و افضل و اَتم ہے کيونکہ مُردہ کے زندہ کرنے کي حقيقت يہي ہے کہ جنابِ الٰہي ميں دعا کرکے ايک روح واپس منگوايا جاوے… جس کے ثبوت ميں معترضين کو بہت سي کلام ہے۔ … مگر اس جگہ بفضلہ تعاليٰ و احسانہٖ و بہ برکت حضرت خاتم الانبياءﷺ خداوندکريم نے اس عاجز کي دعا کو قبول کرکے ايسي بابرکت روح بھيجنے کا وعدہ فرمايا جس کي ظاہري و باطني برکتيں تمام زمين پر پھيليں گي۔ سو اگرچہ بظاہر يہ نشان احيائےموتي کے برابر معلوم ہوتا ہے مگر غور کرنے سے معلوم ہوگا کہ يہ نشان مُردوں کے زندہ کرنے سے صدہا درجہ بہتر ہے۔ مُردہ کي بھي روح ہي دعا سے واپس آتي ہے اور اس جگہ بھي دعا سے ايک روح ہي منگائي گئي ہے مگر اُن روحوں اور اِس روح ميں لاکھوں کوسوں کا فرق ہے۔

(مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ 114-115۔ اشتہار 22 مارچ 1886ء)

پھر اپنوں اور غيروں نے ديکھا کہ حضرت مسيح موعود کي جو يہ پيشگوئي تھي بڑي شان سے پوري ہوئي۔ اس پيشگوئي کے مِصداق جيسا کہ وقت نے ثابت کيا حضرت مرزا بشيرالدين محمود احمد خليفةالمسيح الثانيؓ تھے۔ جماعت کے علماء اور افراد جماعت تو يقين رکھتے تھے کہ يہ پيشگوئي حضرت خليفةالمسيح الثانيؓ کے بارے ميں ہي ہے ليکن حضرت خليفةالمسيح الثانيؓ نے خود کبھي اس بات کا اظہار يا اعلان نہيں کيا تھا کہ پيشگوئي ميرے بارے ميں ہے اور مَيں ہي مصلح موعودؓ کا مِصداق ہوں يہاں تک کہ آپ کي خلافت پر تقريباً تيس سال گزر گئے۔ آخر 1944ء ميں آپ نے اس بات کا اعلان فرمايا کہ مَيں مصلح موعود ہوں۔ آج ميں حضرت مصلح موعودؓ کے اس بارے ميں دو خطبات سے خلاصةً آپ کے ہي الفاظ ميں عموماً کچھ بيان کروں گا۔ حضرت مصلح موعودؓ نے اپنے 28؍جنوري 1944ء کے خطبہ ميں فرمايا کہ آج مَيں ايک ايسي بات کہنا چاہتا ہوں جس کا بيان کرنا ميري طبيعت کے لحاظ سے مجھ پر گراں گزرتا ہے ليکن چونکہ بعض نبوّتيں اور الٰہي تقديريں اس بات کے بيان کرنے سے وابستہ ہيں اس لئے مَيں اس کے بيان کرنے سے باوجود اپني طبيعت کے انقباض کے رُک بھي نہيں سکتا۔ پھر آپ نے اپني ايک لمبي رؤيا کا ذکر فرمايا ہے اور اس کي تعبير کرتے ہوئے آپ نے فرمايا کہ وہ پيشگوئي جو مصلح موعودؓ کے متعلق تھي خداتعاليٰ نے ميري ہي ذات کے لئے مقدر کي ہوئي تھي۔ اس سے پہلے کبھي آپ نے اس بارے ميں واضح اظہار نہيں فرمايا تھا۔ آپؓ فرماتے ہيں کہ لوگوں نے کہا اور بار بار کہا کہ آپ کي ان پيشگوئيوں کے بارے ميں کيا رائے ہے؟ مگر ميري يہ حالت تھي کہ ميں نے کبھي سنجيدگي سے ان پيشگوئيوں کو پڑھنے کي کوشش بھي نہيں کي تھي اس خيال سے کہ ميرا نفس مجھے کوئي دھوکہ نہ دے اور مَيں اپنے متعلق کوئي ايسا خيال نہ کرلوں جو واقعہ کے خلاف ہو۔

پس ديکھيں جو اصل ہے وہ تو اتني احتياط کرتا ہے اور دوسرے جن کے دماغ اُلٹے ہوئے ہيں بغير نشان کے ہي اس کے اظہار کرتے رہتے ہيں تو سوائے اس کے کہ ان کو پاگل کہا جائے اور کيا کہا جا سکتا ہے۔ بہرحال اس پيشگوئي کے بارے ميں اپني شرم اور جھجک کا ايک جگہ آپ نے اس طرح ذکر فرمايا ہے کہ حضرت خليفہ اوّل نے ايک دفعہ مجھے ايک خط ديا اور فرمايا کہ يہ خط جو تمہاري پيدائش کے متعلق ہے حضرت مسيح موعود نے مجھے لکھا تھا۔ اس خط کو تشحيذالاذہان ميں چھاپ دو۔ يہ رسالہ تشحيذالاذہان حضرت مصلح موعودؓ نے ہي شروع کيا تھا اور آپ ہي اس کي اشاعت بھي کرتے تھے۔ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہيں کہ مَيں نے حضرت خليفہ اوّل کے احترام ميں وہ خط لے ليا اور شائع بھي کر ديا۔ مگر مَيں نے اس وقت بھي اسے غور سے نہيں پڑھا۔ لوگوں نے اس وقت بھي خط شائع ہونے پر کئي قسم کي باتيں کيں مگر مَيں خاموش رہا۔ مَيں يہي کہتا تھا کہ ضروري نہيں کہ جس شخص کے بارے ميں يہ باتيں ہيں انہيں اس کے سامنے بھي لايا جائے اور بتايا جائے يا ضروري نہيں کہ جس شخص کے بارے ميں يہ پيشگوئياں ہيں وہ ضرور بتائے بھي کہ مَيں ان پيشگوئيوں کا مِصداق ہوں۔ مثال کے طور پر آپ فرماتے ہيں کہ ريل کے متعلق آنحضرتﷺ کي پيشگوئي تھي۔ آپﷺ نے فرمايا تھا ايک زمانے ميں ريل شروع ہوجائے گي اور ماننے والے مانتے ہيں کہ يہ پيشگوئي پوري ہوگئي کيونکہ واقعات کو اپني آنکھوں سے ديکھ رہے ہيں۔ ضروري نہيں کہ ريل خود بھي دعويٰ کرے کہ مَيں آنحضرتﷺکي پيشگوئي کي مِصداق ہوں۔ بہرحال آپؓ فرماتے ہيں کہ لوگوں نے مختلف پيشگوئياں ميرے بارے ميں ميرے سامنے رکھيں اور اصرار کيا کہ مَيں ان کا اپنے آپ کو مِصداق قرار دوں۔ مگر مَيں نے ہميشہ يہي کہا کہ پيشگوئي اپنے مِصداق کو آپ ظاہر کرتي ہے۔ اگر يہ پيشگوئياں ميرے متعلق ہيں تو زمانہ خود بخود ديکھ لے گا کہ مَيں ان کا مِصداق ہوں اور اگر ميرے متعلق نہيں تو زمانے کي گواہي ميرے خلاف ہوگي۔ دونوں صورتوں ميں مجھے کچھ کہنے کي ضرورت نہيں ہے۔ اگر ميرے متعلق نہيں تو مَيں کيوں گناہگار بنوں۔ اور اگر ميرے متعلق ہيں تو مجھے جلد بازي کي ضرورت نہيں ہے خداتعاليٰ خود بخود حقيقت ظاہر کر دے گا۔ جيسے الہام ميں کہا گيا تھا کہ انہوں نے کہا آنے والا يہي ہے يا ہم دوسروں کي راہ تکيں۔ يہ الہام کے فقرے تھے۔ دنيا نے يہ سوال اتني دفعہ کيا، اتني دفعہ کيا کہ اس پر ايک لمبا عرصہ گزر گيا۔ اس لمبے عرصے کے متعلق بھي حضرت مسيح موعود کے الہامات ميں خبر موجود ہے۔ مثلاً حضرت يعقوب کے متعلق حضرت يوسفؑ کے بھائيوں نے حضرت يعقوبؑ کو کہا تھا کہ تُو اسي طرح يوسفؑ کي باتيں کرتا رہے گا يہاں تک کہ قريب المرگ ہو جائے گا يا ہلاک ہو جائے گا۔ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہيں کہ يہي الہام حضرت مسيح موعود کو بھي ہوا۔ اسي طرح يہ الہام ہونا کہ يوسفؑ کي خوشبو مجھے آ رہي ہے۔ (آپ کو يہ الہام بھي ہوا۔ آپؑ نے اس کا ايک شعر ميں بھي ذکر کيا ہوا ہے) يہ بتاتا تھا کہ خداتعاليٰ کي مشيت کے ماتحت يہ چيز ايک لمبے عرصے کے بعد ظاہر ہوگي کيونکہ حضرت يوسفؑ بھي اپنے باپ کو بڑے لمبے عرصے کے بعد ملے تھے يا وہ پيشگوئي پوري ہوئي تھي۔ آپؓ نے فرمايا کہ مَيں تو اس يقين پر قائم ہوں کہ اگر موت تک بھي مجھ پر يہ ظاہر نہ کيا جاتا کہ يہ پيشگوئياں ميرے متعلق ہيں تب بھي واقعات خود بخود بتا ديتے کہ يہ پيشگوئياں ميرے ہاتھ سے اور ميرے زمانے ميں پوري ہوئي ہيں اس لئے ميں ہي ان کا مِصداق ہوں۔ ليکن اللہ تعاليٰ نے اپني مشيت کے تحت اس امر کو ظاہر کرديا اور مجھے علم بھي دے ديا کہ مصلح موعود سے تعلق رکھنے والي پيشگوئياں ميرے بارے ميں ہيں۔ آپؓ نے بعض پيشگوئيوں کا مختصر ذکر کيا ہے مثلاً وہ تين کو چار کرنے والا ہو گا۔ اس کے متعلق آپؓ يہ فرماتے ہيں کہ ہميشہ يہ سوال کيا جاتا ہے کہ اس کا کيا مطلب ہے۔ اسي طرح ہے دوشنبہ ہے مبارک دوشنبہ۔ اس کے متعلق سوال کيا جاتا ہے۔ ان دونوں باتوں کي آپ نے اس طرح وضاحت فرمائي کہ حضرت مسيح موعود کا ذہن تين کو چار کرنے والا کي پيشگوئي کے بارے ميں اس طرف گيا ہے کہ وہ تين بيٹوں کو چار کرنے والا ہوگا۔ اگر يہ مطلب ليا جائے تو چوتھے بيٹے کے لحاظ سے بھي مطلب صاف ہے۔ مجھ سے پہلے مرزا سلطان احمد صاحب، مرزا فضل احمد صاحب اور مرزا بشير احمد اوّل پيدا ہوئے اور چوتھا ميں ہوا۔ اور ميرے بعد حضرت مسيح موعود کے تين بيٹے ہوئے اس لحاظ سے بھي مَيں تين کو چار کرنے والا ہوا۔ پھر ميري خلافت کے ايام ميں اللہ تعاليٰ نے مرزا سلطان احمد صاحب کو احمديت ميں داخل ہونے کي توفيق دي اس طرح بھي مَيں تين کو چار کرنے والا ہوا۔ اگر يہ اولاد کے لحاظ سے ديکھا جائے تو گويا تين کو چار کرنے والا مَيں تين طرح سے ہوا۔ ليکن فرماتے ہيں کہ ميرا ذہن اللہ تعاليٰ نے اس طرف بھي منتقل کيا ہے کہ الہامي طور پر يہ نہيں کہا گيا کہ وہ تين بيٹوں کو چار کرنے والا ہوگا۔ الہام ميں صرف يہ بتايا گيا تھا کہ وہ تين کو چار کرنے والا ہوگا۔ پس ميرے نزديک يہ اس کي پيدائش کي تاريخ بتائي گئي ہے۔ يہ پيشگوئي ابتداءً 1886ء ميں کي گئي تھي۔ مصلح موعود کي جو پيشگوئي ہے يہ ابتداءً 1886ء ميں ہوئي تھي۔ اور آپؓ نے فرمايا کہ ميري پيدائش 1889ء ميں (eighteen eighty-nine) ميں ہوئي۔ پس تين کو چار کرنے والي پيشگوئي ميں يہ خبر دي گئي تھي کہ اس کي پيدائش چوتھے سال ميں ہوگي اور ايسا ہي ہوا۔

اور يہ جو آتا ہے دوشنبہ ہے مبارک دوشنبہ۔ اس کے اَور معني بھي ہوسکتے ہيں مگر ميرے نزديک اس کي ايک واضح تشريح يہ ہے کہ دوشنبہ ہفتے کا تيسرا دن ہوتا ہے۔ دوسري طرف روحاني سلسلوں ميں انبياء اور ان کے خلفاء کا الگ الگ دَور ہوتا ہے اور جس طرح نبي کا زمانہ اپني ذات ميں ايک مستقل حيثيت رکھتا ہے اسي طرح خليفہ کا زمانہ اپني ذات ميں ايک مستقل حيثيت رکھتا ہے۔ اس لحاظ سے غور کرکے ديکھو۔ پہلا دَور حضرت مسيح موعود کا تھا۔ دوسرا دَور حضرت خليفةالمسيح الاوّل کا تھا۔ اور آپؓ فرماتے ہيں کہ تيسرا دَور ميرا ہے۔ ادھر اللہ تعاليٰ کا ايک اور الہام بھي اس تشريح کي تصديق کر رہا ہے۔ حضرت مسيح موعودؑ کو الہام ہوا تھا اور وہ الہام يہ ہے کہ فضلِ عمر۔ حضرت عمر بھي رسولِ کريمﷺ سے تيسرے نمبر پر خليفہ تھے۔ پس دوشنبہ ہے مبارک دوشنبہ سے يہ مرادنہيں کہ کوئي خاص دن خاص برکات کا موجب ہوگا بلکہ مراد يہ ہے کہ اس موعود کے زمانے کي مثال احمديت کے دَور ميں ايسي ہي ہوگي جيسے دو شنبہ کي ہوتي ہے۔ يعني اس سلسلہ ميں اللہ تعاليٰ کي طرف سے خدمتِ دين کے لئے جو آدمي کھڑے کئے جائيں گے ان ميں وہ تيسرے نمبر پر ہوگا۔ فضلِ عمر کے الہامي نام ميں بھي اسي طرف اشارہ ہے۔ گويا کلام اللہ ميں يُفَسِّرُ بَعْضُہٗ بَعْضًا کے مطابق فضلِ عمر کے لفظ نے دوشنبہ ہے مبارک دوشنبہ کي تفسير کر دي۔ فرمايا کہ مگر الہام ميں ايک اور خبر بھي ہے اور خداتعاليٰ مبارک دوشنبہ ايک ايسے ذريعہ سے بھي لانے والا ہے جو (فرماتے ہيں کہ) ميرے اختيار ميں نہيں تھا اور کوئي انسان نہيں کہہ سکتا تھا کہ مَيں نے اپنے ارادے سے اور جان بوجھ کر اس کا اجراء کيا ہے۔ يعني تحريکِ جديد کا اِجراء جسے 1934ء ميں ايسے حالات ميں جاري کيا گيا جو آپ فرماتے ہيں کہ ميرے اختيار ميں نہيں تھے۔ گورنمنٹ کے ايک فعل نے جس ميں جماعت کے خلاف بعض سخت اقدامات کرنے کے منصوبے تھے اور احرار کي فتنہ انگيزي کي وجہ سے آپ فرماتے ہيں کہ اللہ تعاليٰ نے اس تحريک کا ميرے دل ميں القاء فرمايا تھا اور اس تحريک کے پہلے دَور کے لئے مَيں نے دس سال مقرر کئے۔ ہر انسان جب قرباني کرتا ہے تو قرباني کے بعد اس پر ايک عيد کا دن آتا ہے۔ چنانچہ ديکھ لو رمضان کے روزوں کے بعد عيد کا دن ہوتا ہے۔ اسي طرح جب ہماري دس سالہ تحريکِ جديد ختم ہوگي (اس وقت تک ابھي ختم نہيں ہوئي تھي) تو اس سے اگلا سال (آپؓ فرماتے ہيں) ہمارے لئے عيد کا سال ہوگا۔ اور يہ سال 1944ء ميں ختم ہوئے۔ آپؓ فرماتے ہيں کہ تحريکِ جديد کے حوالے سے جو پہلے دس سال کي تاريخ تھي اُسے اگر اس لحاظ سے ديکھا جائے تو عجيب بات ہے کہ 1945ء کا سال گيارھواں سال ہے اور وہ عيد کا سال ہے اور يہ سال پير کے روز سے شروع ہو رہا ہے اور پير کا دن دوشنبہ کہلاتا ہے۔ (ماخوذ از خطباتِ محمود جلد25 صفحہ 49 تا 63 خطبہ بيان فرمودہ 28 جنوري 1944ء)

پس اللہ تعاليٰ نے ان الفاظ ميں يہ خبر بھي دي تھي کہ ايک زمانے ميں اسلام کي نہايت کمزور حالت ميں اس کي اشاعت کے لئے ايک اہم تبليغي ادارے کي بنياد رکھي جائے گي اور جب اس کا پہلا دور کاميابي سے مکمل ہوگا تو يہ جماعت کے لئے مبارک وقت ہوگا اور حالات نے اب ديکھيں ثابت بھي کر ديا کہ تحريکِ جديد کے ذريعہ سے دنيا کے ہر کونے ميں اسلام اور احمديت کي تبليغ پہنچ رہي ہے۔ اور آج ہم ديکھتے ہيں کہ تحريکِ جديد کي تحريک بھي اپني کئي دہائياں مکمل کرکے دنيا کے ہر ملک ميں جہاں بھي احمديت کا پودا لگ چکا ہے وہاں قائم ہے۔

پھر اس لمبي رؤيا جس کے بارے ميں مَيں نے بتايا کہ اس کے بعد حضرت مصلح موعودؓنے مصلح موعود ہونے کا اعلان کيا تھا اس کے بارے ميں حضرت مصلح موعود فرماتے ہيں کہ اس رؤيا ميں ميري زبان پر يہ فقرہ جاري ہوا تھا کہ اَنَا الْمَسِيْحُ الْمَوْعُوْدُ مَثِيْلُہٗ وَخَلِيْفَتُہٗ۔ ان الفاظ کا ميري زبان پر جاري ہونا عجوبہ تھا۔ آپؓ فرماتے ہيں کہ جاگتے ہوئے تو ہونا ہي تھا کہ ميرے بارے ميں يہ عجيب قسم کے الفاظ ہيں ليکن خواب ميں بھي مجھے يہ احساس ہوا کہ يہ عجيب الفاظ ميري زبان پر جاري ہوئے ہيں۔ فرماتے ہيں کہ بعد ميں بعض لوگوں نے جب يہ رؤيا سني تو کہا کہ مسيحي نفس ہونے کا ذکر حضرت مسيح موعود کے اشتہار 20؍فروري 1886ء ميں ہے۔ فرمايا کہ دوسرے دن حضرت مولوي سرور شاہ صاحب نے کہا کہ اشتہار ميں يہ الفاظ ہيں کہ وہ دنيا ميں آئے گا اور اپنے مسيحي نفس اور روح الحق کي برکت سے بہتوں کو بيماريوں سے صاف کرے گا۔ آپؓ فرماتے ہيں کہ مَيں نے بھي رؤيا ميں ديکھا تھا کہ مَيں نے بُت تڑوائے ہيں۔ بہت سارے بُت ہيں جو مَيں نے تڑوا دئيے۔ اس ميں بھي يہي اشارہ ہے کہ وہ روح الحق کي برکت سے بہتوں کو بيماريوں سے صاف کرے گا۔ روح الحق توحيد کي روح کو کہتے ہيں اور آپ نے تبليغ اسلام کي دنيا ميں بنياد ڈال کر دنيا کے دلوں کو شرک سے پاک کيا۔ فرمايا کہ تيسرے ميں نے رؤيا ميں ديکھا تھا کہ مَيں بھاگ رہا ہوں۔ يہي نہيں کہ مَيں تيزي سے چلتا ہوں بلکہ دوڑتا ہوں اور زمين ميرے قدموں تلے سمٹتي چلي جاتي ہے۔

پسرِموعود کي پيشگوئي ميں يہ بات ہے کہ وہ جلد جلد بڑھے گا۔ اس طرح رؤيا ميں ديکھا کہ مَيں بعض غيرملکوں کي طرف گيا ہوں اور پھر مَيں نے وہاں جا کے اپنے کام کو ختم نہيں کر ديا بلکہ ميں اَور آگے جانے کا ارادہ کر رہا ہوں۔ مَيں نے رؤيا ميں کہا کہ اے عبدالشکور اب مَيں آگے جاؤں گا اور جب سفر سے واپس آؤں گا تو ديکھوں گا کہ تُو نے توحيد کو قائم کر ديا ہے، شرک کو مٹا ديا ہے اور اسلام اور حضرت مسيح موعود کي تعليم کو دلوں ميں راسخ کر ديا ہے۔ حضرت مسيح موعود پر جو اللہ تعاليٰ نے کلام نازل فرمايا اس ميں اسي طرف اشارہ پايا جاتا ہے کہ وہ زمين کے کناروں تک شہرت پائے گا۔ يعني تبليغ کے کاموں کو آگے بڑھانے والا ہوگا اور ہم ديکھتے ہيں کہ يہ پيشگوئي بھي يقيناً حضرت مصلح موعود کے زمانے ميں بڑي شان سے پوري ہوئي ہے۔ اسي طرح آپ کي اس طويل رؤيا ميں پيشگوئي مصلح موعود سے ملتي جلتي بہت سي باتيں ہيں جو مختلف پيرائے ميں آپ کو رؤيا ميں دکھائي گئيں۔

(ماخوذ از خطبات محمود جلد 25صفحہ 71)

بہرحال اب مَيں رؤيا کے حوالے سے بيان کرنے کے بجائے حضرت مصلح موعودؓ نے واقعات کے حوالے سے حضرت مسيح موعود کي اس پيشگوئي کا جو تطابق بيان کيا ہے کہ آپ کے زمانے سے اور اب اس پيشگوئي کو پورا کرنے والے جو واقعات ہوئے وہ کس طرح اس سے مطابقت رکھتے ہيں ان کا مختصراً ذکر کروں گا۔

آپؓ فرماتے ہيں کہ لوگ کہتے تھے يہ بچہ ہے۔ اس زمانے ميں اللہ تعاليٰ نے خلافت کے مقام پر مجھے کھڑا کيا۔ اس کي طرف بھي پيشگوئي ميں اشارہ کيا گيا تھا کہ وہ جلد جلد بڑھے گا۔ پھر آپ نے ايک واقعہ بيان کيا کہ ايک دفعہ ميں حضرت امّاں جان کے کمرے ميں نماز کے انتظار ميں ٹہل رہا تھا اور يہ کمرہ مسجد کے ساتھ تھا تو مجھے مسجد سے اونچي اونچي آوازيں بھي آئيں جن ميں سے ايک شيخ رحمت اللہ صاحب کي آواز مَيں نے پہچان لي جو يہ کہہ رہے تھے کہ ايک بچے کو آگے کرکے جماعت کو تباہ کيا جا رہا ہے۔ ايک بچے کے لئے يہ فساد برپا کيا جا رہا ہے۔ تو آپؓ فرماتے ہيں کہ مجھے حيرت ہوئي کہ وہ بچہ کون ہے۔ آخر مسجد ميں جا کر مَيں نے ايک دوست سے پوچھا کہ وہ بچہ کون ہے؟ تو وہ دوست ہنس کر کہنے لگے کہ وہ بچے تم ہي ہو۔ فرماتے ہيں کہ مخالفين کا يہ قول حضرت مسيح موعود کے الہام کي تصديق کر رہا تھا کہ وہ جلد جلد بڑھے گا۔ آپؓ فرماتے ہيں خدا نے مجھے اتني جلدي بڑھايا کہ دشمن حيران رہ گيا کيونکہ چند ماہ قبل مجھے بچہ کہنے والے چند ماہ کے بعد ہي مجھے ايک شاطر تجربہ کار کہہ کر ميري برائي کر رہے تھے۔ بالکل اُلٹ گئے وہ۔ گويا بچپن ميں ہي اللہ تعاليٰ نے ميرے ہاتھوں سے سلسلہ ميں رَخنہ ڈالنے والوں کو شکست دلوا دي۔ فرماتے ہيں کہ باوجود اس کے کہ لوگ مجھے بچہ سمجھتے تھے اور باوجود اس کے کہ ميں واقعہ ميں بچہ ہي تھا اللہ تعاليٰ نے پچيس سال کي عمر ميں ايک حکومت پر قائم کر ديا اور حکومت بھي ايسي جو روحاني حکومت تھي۔ جسماني حکومت ميں تو بادشاہ کے پاس تلوار ہوتي ہے، طاقت ہوتي ہے، جتھہ ہوتا ہے، فوجيں ہوتي ہيں، جرنيل ہوتے ہيں، جيل خانے ہوتے ہيں، خزانے ہوتے ہيں وہ جس کو چاہتا ہے پکڑ کر سزا بھي ديتا ہے ليکن روحاني حکومت ميں جس کا جي چاہتا ہے مانتا ہے اور جس کا جي چاہتا ہے انکار کرتا ہے اور طاقت کا کوئي سوال ہي نہيں ہوتا۔ پھر اللہ تعاليٰ نے حکومت روحاني پر ايسي حالت ميں کھڑا کيا جب خزانے ميں صرف چند آنے تھے، چند پيسے خزانے ميں رہ گئے تھے اور خزانے پر ہزارہا روپيہ کا قرض تھا اور پھر خداتعاليٰ نے يہ کام ايسي حالت ميں سپرد کيا جب جماعت کے ذمہ دار افراد تقريباً سب کے سب مخالف تھے اور يہاں تک مخالف تھے کہ ان ميں سے ايک نے مدرسہ ہائي سکول کي طرف اشارہ کرکے کہا کہ ہم تو جاتے ہيں ليکن عنقريب تم ديکھو گے کہ ان عمارتوں پر عيسائيوں کا قبضہ ہوگا۔ پس ايک پچيس برس کا لڑکا جس کے لئے تمام ظاہري اسباب مخالفت ميں کھڑے تھے، نہ خزانہ، نہ تجربہ کار کام کرنے والے اور ميدان دشمن کے قبضے ميں تھا اور وہ خوشياں منا رہا تھا کہ عنقريب يہاں عيسائيوں کا قبضہ ہو جائے گا اور وہ لوگ يہ کہتے تھے کہ جس کو حکومت دي گئي ہے اس کے دن تنزل اور ادبار ميں بدل جائيں گے۔ وہ ذلت و رسوائي ديکھے گا۔ ايک انسان غور کر سکتا ہے کہ ايسے حالات ميں قوم کا کيا حال ہو سکتا ہے۔ مگر وہ دن گيا اور آج کا دن آيا۔ ديکھنے والے ديکھ رہے ہيں کہ جماعت کي جو تعداد اس وقت تھي جب وہ ميرے سپرد کي گئي آج خداتعاليٰ کے فضل سے اس سے سينکڑوں گنا زيادہ ہے۔ جن ممالک ميں حضرت مسيح موعود کا نام پہنچ چکا تھا آج اس سے بيسيوں گنا زيادہ ممالک ميں حضرت مسيح موعود کا نام پہنچ چکا ہے۔ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہيں کہ جس خزانے ميں صرف اٹھارہ آنے تھے آج لاکھوں روپے اس خزانے ميں موجود ہيں۔ فرماتے ہيں کہ آج مَيں اگر مَر بھي جاؤں تب بھي خزانے ميں لاکھوں روپے چھوڑ کر جاؤں گا۔ اس سلسلہ کي تائيد ميں اس سے بہت زيادہ کتابيں چھوڑ کر جاؤں گا جو مجھے مليں يعني لٹريچر ميں اور مَيں سلسلہ کي خدمت کے لئے اس سے بہت زيادہ علوم چھوڑ کر جاؤں گا جو مجھے اس وقت ملے تھے جب خدا نے مجھے خلافت کے مقام پر کھڑا کيا تھا۔ پس وہ خدا جس نے کہا تھا کہ وہ جلد جلد بڑھے گا اور خدا کا سايہ اس کے سر پر ہوگا اس کي وہ پيشگوئي ايسے عظيم الشان رنگ ميں پوري ہوئي ہے کہ دشمن سے دشمن بھي اس کا انکار نہيں کر سکتا۔

حضرت مسيح موعود نے اس پيشگوئي کو تو اتنا اہم قرار ديا ہے جيسا کہ مَيں نے شروع ميں بھي اقتباس پيش کيا تھا کہ يہ صرف پيشگوئي ہي نہيں بلکہ عظيم الشان نشان ہے۔ اس لڑکے کي پيدائش پيشگوئي کے مطابق نو برس ميں ہوني تھي۔ يہ بھي اس پيشگوئي ميں الفاظ تھے جو اصل پيشگوئي ہے۔ حضرت مسيح موعود فرماتے ہيں کہ نو برس کے عرصے تک تو خود اپنے زندہ رہنے کا ہي حال معلوم نہيں اور نہ ہي يہ معلوم کہ اس عرصہ تک کسي قسم کي اولاد خواہ مخواہ ہوگي چہ جائيکہ لڑکا پيدا ہونے پر کسي اٹکل سے قطع اور يقين کيا جائے۔ پھر صرف لڑکا ہي پيدا نہيں ہونا تھا بلکہ يہ بھي پيشگوئي تھي کہ وہ لڑکا اسلام کي شان و شوکت کا موجب ہوگا۔ وہ کيا زمانہ تھا جب حضرت مسيح موعود پر دشمن چاروں طرف سے حملے کر رہے تھے محض اس بناء پر کہ آپؓ نے الہام کا دعويٰ کيا تھا۔ آپؓ نے فرمايا تھا کہ مجھے الہام ہوتا ہے۔ مجددّيت کا دعويٰ نہيں تھا۔ ماموريت کا دعويٰ بھي نہيں تھا۔ اس وقت ايک لڑکے کي پيشگوئي ان اعليٰ صفات کے ساتھ آپ نے بيان فرمائي۔

حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہيں کہ جب کسي کے نائب کي شہرت کا کہا جائے تو اس کا مطلب يہ ہوتا ہے کہ اس کے آقا و مطاع کي شہرت ہوگي۔ پس جب خداتعاليٰ نے پيشگوئي ميں يہ کہا کہ وہ زمين کے کناروں تک شہرت پائے گا تو اس کے يہ معني تھے کہ اس کے ذريعہ سے حضرت محمد رسول اللہﷺ اور حضرت مسيح موعود کا نام بھي دنياکے کناروں تک پہنچے گا۔ اب ديکھ لو پيشگوئي کتني واضح ہے۔ حضرت مسيح موعود کے زمانے ميں افغانستان صرف ايسا ملک تھا جہاں کسي اہميت کے ساتھ يا کچھ حد تک حضرت مسيح موعود کا پيغام پہنچا تھاکيونکہ دو شہداء بھي تھے۔ دوسرے ممالک ميں صرف اُڑتي ہوئي خبريں تھيں وہ يا مخالفين کي پھيلائي ہوئي تھيں يا کسي کے ہاتھ کوئي کتاب پہنچي تو اس نے آگے کسي کو دکھا دي۔ باقاعدہ جماعت کسي ملک ميں قائم نہيں تھي۔ خواجہ کمال الدين صاحب انگلستان گئے تھے (يہاں آئے تھے) مگر حضرت مسيح موعود اور جماعت کا نام لينا، کہتے تھے يہ تو زہر کے برابر ہوگا اس لئے جماعت کا نام نہيں لينا اور حضرت مسيح موعود کا نام نہيں لينا۔ پس اگر انگلستان ميں نام پھيلا تو خواجہ صاحب کا نام پھيلا۔ جماعت کا نہيں، نہ حضرت مسيح موعود کا اور جب حضرت مصلح موعودؓ کو اللہ تعاليٰ نے خليفہ بنايا تو خداتعاليٰ کے فضل سے آپ فرماتے ہيں کہ سماٹرا ميں، جاوا ميں، سٹريٹس سٹلمنٹ ميں، چين ميں احمديت پھيلي۔ ماريشس ميں، افريقہ کے دوسرے ممالک ميں احمديت پھيلي۔ مصر ميں، فلسطين ميں، ايران ميں، دوسرے عرب ممالک ميں اور يورپ کے کئي ممالک ميں احمديت پھيلي۔ بعض جگہ حضرت مصلح موعودؓ کے وقت بھي جماعت کي تعداد ہزاروں تک پہنچ گئي اور افريقہ کے ممالک ميں لاکھوں ميں بھي تھي۔

پھر اس پيشگوئي ميں اللہ تعاليٰ کي طرف سے ايک يہ خبر بھي دي گئي تھي کہ وہ علوم ظاہري و باطني سے پُر کيا جائے گا۔ آپؓ فرماتے ہيں کہ مَيں دعوے کرنے کا عادي نہيں ليکن اس کے باوجود اس حقيقت کو چھپا نہيں سکتا کہ اسلام کے وہ مہتم بالشان مسائل جن پر روشني ڈالنا اس زمانے کے لحاظ سے نہايت ضروري تھا خداتعاليٰ نے ان کے متعلق ميري زبان اور ميري قلم سے ايسے مضامين نکلوائے ہيں کہ مَيں دعويٰ کرکے کہہ سکتا ہوں کہ ان تحريروں کو اگر ايک طرف کر ديا جائے تو اسلام کي تبليغ دنيا ميں نہيں کي جا سکتي۔ قرآنِ کريم ميں بہت سے ايسے امور ہيں جن کو اس زمانے کے لحاظ سے لوگ سمجھ نہيں سکتے تھے جب تک کہ دوسري آيات سے ان کي تشريح نہ کر دي جاتي اور يہ خداتعاليٰ کا فضل ہے کہ اس نے ميرے ذريعہ سے ان مشکلات کو حل کيا۔ آپؓ فرماتے ہيں کہ اسلام اس وقت ايک ايسے دَور سے گزر رہا ہے جو ضعف اور کمزوري کا دَور ہے۔ حضرت مسيح موعود کے ذريعہ پھر اللہ تعاليٰ نے اسلام کي حفاظت کي بنياد رکھي۔ ليکن حضرت مسيح موعود کے زمانے ميں اسلام پر وہ تمدّني حملہ نہيں ہوا تھا جو آج کيا جا رہا ہے۔ پس اللہ تعاليٰ نے چاہا کہ آپؑ کي پيشگوئي کے مطابق اس زمانے ميں ايک ايسے شخص کو اپنے کلام سے سرفراز فرمائے جو روح الحق کي برکت اپنے اندر رکھتا ہو يا اپنے ساتھ رکھتا ہو جو علومِ ظاہري اور باطني سے پُر ہو۔ جو دشمن کے ان تمدّني حملوں کو حضرت مسيح موعود کي تشريح اور رسولِ کريمﷺ کي بيان فرمودہ تشريح اور قرآنِ کريم کے منشاء کے مطابق دُور کرے اور اسلام کي حفاظت کا کام سرانجام دے۔ سو خداتعاليٰ نے اپنا کام کر ديا اور ميري تحريروں پر اپني مُہرِتصديق کر دي۔ آپؓ نے فرمايا کہ جب تک خداتعاليٰ نے مجھے نہيں کہا مَيں چُپ رہا اور جب خداتعاليٰ نے بتا ديا اور نہ صرف بتا ديا بلکہ ارشاد فرمايا کہ لوگوں کو بھي بتا دوں تو مَيں بتا رہا ہوں کہ يہ پيشگوئي ہر لحاظ سے مجھ پر پوري ہوتي ہے۔ آپؓ فرماتے ہيں کہ نہ صرف خداتعاليٰ نے مجھے ارشاد کيا کہ بتا دوں بلکہ اپنے فضل سے ايسے حالات پيدا فرمائے جو اس پيشگوئي کي صداقت کے لئے بطور دليل کے ہيں۔ جس طرح آسمان پر چاند چمکتا ہے تو اللہ تعاليٰ اس کے ارد گرد ستارے پيدا کر ديتا ہے اسي طرح ان دنوں ميں بہت سے لوگوں کو ايسي خوابيں آئي ہيں جن ميں اس خواب کا مضمون دُہرايا گيا ہے جو مَيں نے ديکھي تھي۔ چنانچہ ميري رؤيا کے بعد ايک دوست ڈاکٹر محمد لطيف صاحب نے مجھے بتايا کہ انہوں نے رؤيا ميں ديکھا ہے کہ ايک فرشتہ ميرا نام لے کر کہہ رہا ہے کہ انبياء و رُسل کے ساتھ اس کا نام ليا جائے گا۔ انبياء و رُسل کے ساتھ نام لئے جانے کے وہي معني ہيں جس کي طرف حضرت مسيح موعود کي پيشگوئي ميں بھي اشارہ کيا گيا ہے کہ وہ مثيلِ مسيح ہوگا۔ يعني حضرت مسيح موعود جو نبي اور رسول ہيں ان کے ساتھ ميرا بھي نام ليا جائے گا۔ اسي طرح ايک اور دوست نے لکھا کہ رؤيا ميں ميں نے ديکھا کہ مينار پر کھڑے ہو کر آپ اَلَيْسَ اللہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ کا اعلان کر رہے ہيں۔ اَلَيْسَ اللہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ حضرت مسيح موعود کے ابتدائي الہاموں ميں سے الہام ہے۔ اور مينار پر اس الہام کے اعلان کرنے کے معني يہ ہيں کہ اللہ تعاليٰ تبليغِ احمديت کو ميرے ذريعہ سے اور بھي مضبوط کر دے گا۔ چنانچہ جيسے ابھي پہلے بيان بھي ہوا ہے کہ کس طرح مختلف ممالک ميں حضرت مصلح موعود کے زمانے ميں تبليغ کا کام وسيع پيمانے پر شروع ہوا اور وہي بنياديں ہيں جن پر آج بھي آگے کام چلتا چلا جا رہا ہے۔

پھر آپ نے اپنے بعض رؤيا اور الہامات کا اپني تائيد ميں ذکر فرمايا۔ آپؓ فرماتے ہيں کہ اللہ تعاليٰ نے مجھے اپني وحي سے نوازا اور اس بات کي بھي کہ اس نے اس کام کے لئے جو حضرت مسيح موعود کي پيشگوئي ميں ہے مجھے تيار کيا ہے(شہادت) يہ ہے کہ مجھے ايک رؤيا ہوا جو غالباً زمانہ حضرت مسيح موعود يا ابتدائےخلافت حضرت خليفہ اوّل ميں مَيں نے ديکھا تھا۔ (يہ رؤيا ميں نے اسي وقت ميجر سيّد حبيب اللہ شاہ صاحب حال سپرنٹنڈنٹ سينٹرل جيل لاہور کو اور دوسرے احباب کو سنا دي تھي۔ فرماتے ہيں ابھي چند دن ہوئے انہوں نے خود بخود مجھ سے اس رؤيا کا ذکر کيا کہ) مَيں نے ديکھا تھا کہ مَيں مدرسہ احمديہ ميں ہوں اور اسي جگہ مولوي محمد علي صاحب بھي کھڑے ہيں۔ اتنے ميں شيخ رحمت اللہ صاحب آگئے اور ہم دونوں کو ديکھ کر کہنے لگے کہ آؤ مقابلہ کريں۔ آپ کا قد لمبا ہے يا مولوي محمد علي صاحب کا۔ مَيں اس مقابلے سے کچھ ہچکچاہٹ محسوس کرتا ہوں مگر وہ زبردستي مجھے کھينچ کر اس جگہ پر لے گئے جہاں مولوي محمد علي صاحب کھڑے ہيں۔ يوں تو مولوي محمد علي صاحب قد ميں مجھ سے چھوٹے نہيں بلکہ غالباً کچھ لمبے ہي ہيں۔ ليکن جب شيخ صاحب نے مجھے ان کے پاس پاس کھڑا کيا تو وہ بےاختيار کہہ اُٹھے (يعني شيخ صاحب کہہ اٹھے) کہ مَيں تو سمجھتا تھا کہ مولوي صاحب اونچے ہيں ليکن اونچے تو آپ نکلے۔ چنانچہ رؤيا ميں مَيں ديکھتا ہوں کہ بمشکل ميرے سينے تک ان کا سر پہنچتا ہے۔ پھر شيخ رحمت اللہ صاحب ايک ميز لائے اور اس پر ان کو کھڑا کر ديا مگر تب بھي وہ مجھ سے چھوٹے ہي رہے۔ اس کے بعد انہوں نے اس ميز پر ايک سٹول رکھا اور اس پر مولوي صاحب کو کھڑا کيا مگر پھر بھي مولوي صاحب مجھ سے چھوٹے ہي رہے۔ اس کے بعد انہوں نے مولوي صاحب کو اٹھا کر ميرے سر کے برابر کرنا چاہا ليکن وہ پھر بھي نيچے ہي رہے بلکہ مزيد برآں ان کي ٹانگيں اس طرح ہوا ميں لٹک گئيں گويا کہ وہ ميرے مقابل پر بالکل ايک بچے کي حيثيت رکھتے ہيں اور بمشکل ميري کہنيوں تک پاؤں آئے۔ اب ديکھو اس ميں کس طرح اس تمام مقابلہ اور پھر اس کے انجام کي بھي خبر دي گئي ہے جو مولوي محمد علي صاحب سے ہونے والا تھا۔ حالانکہ اگر ابتدائے خلافتِ اوليٰ کے وقت کي رؤيا ہے تو اس وقت جماعت ميں خواجہ کمال الدين صاحب سَر اُٹھا رہے تھے، نہ کہ مولوي محمد علي صاحب۔ ليکن اللہ تعاليٰ نے اس ميں عجيب طريق پر بعد ميں پيدا ہونے والے جھگڑوں کا نقشہ کھينچ کر رکھ ديا۔ چنانچہ ديکھ لو مولوي محمدعلي صاحب ميرے مقابلے ميں اتنے نيچے ہوئے، اتنے نيچے ہوئے کہ اب ان کا سارا زور ہي اس بات کو ثابت کرنے پر صرف ہوتا ہے کہ خداتعاليٰ کے حضور وہي لوگ معزز ہوتے ہيں جو چھوٹے ہوں۔ پہلے کہا کرتے تھے کہ ہم پچانوے فيصدي ہيں اور يہ چار پانچ فيصدي ہيں اور جماعت کي اکثريت کبھي ضلالت پر نہيں ہوسکتي۔ (يہ پہلے مولوي صاحب کہا کرتے تھے) مگر اب کہتے ہيں کہ بےشک قاديان کي جماعت زيادہ ہے اور ہم تھوڑے ہيں ليکن ان کا زيادہ ہونا ہي ان کے جھوٹے ہونے کا ثبوت ہے کيونکہ اللہ تعاليٰ فرماتا ہے کہ ميرے حقيقي بندے تو تھوڑے ہوا کرتے ہيں۔ يہ بالکل وہي نقشہ ہے جو اس رؤيا ميں بتايا گيا تھا۔ وہ اتنے چھوٹے ہوئے، اتنے چھوٹے ہوئے کہ اب انہيں اپنا چھوٹا ہونا ہي اپني صداقت کي دليل نظر آتا ہے۔

(ماخوذ از خطبات محمود جلد 25صفحہ 92۔ 93)

پھر ايک اور رؤيا بلکہ الہام کا ذکر ہے۔ فرمايا کہ جس وقت جماعت ميں اختلاف پيدا ہوا اللہ تعاليٰ نے مجھے الہاماً بتايا کہ لَنُمَزِّقَنَّھُمْ کہ ہم ان کو ٹکڑے ٹکڑے کرديں گے۔ اس وقت يہ لوگ اپنے آپ کو پچانوے فيصدي کہا کرتے تھے مگر اب ان کي کيا حالت ہے۔ خدا نے ان کو اس پيشگوئي کے مطابق حقيقت ميں ٹکڑےٹکڑے کر ديا ہے۔ چنانچہ خواجہ کمال الدين صاحب نے اپني وفات سے پہلے لکھا کہ مرزا محمودنے ہمارے متعلق جو الہام شائع کيا تھا وہ بالکل پورا ہو گيا ہے اور ہم واقعہ ميں ٹکڑےٹکڑے ہوگئے ہيں۔ تو اللہ تعاليٰ نے ان کو جيسا کہ الہام ميں خبر دي گئي تھي ميرے مقابلہ ميں ٹکڑے ٹکڑے کر ديا۔

مَيں اس کلامِ الٰہي کي مثاليں جو مجھ پر خداتعاليٰ نے اپنے فضل سے نازل فرمايا (آپ فرماتے ہيں کہ) اس وقت اسي قدر بيان کرتا ہوں۔ بعض اَور بھي بيان کي ہيں۔ يہاں تو مَيں نے دو بيان کي ہيں۔ آپؓ فرماتے ہيں کہ ميرا ارادہ ہے کہ تحديثِ نعمت کے طور پر ايک مختصر رسالہ ميں کسي قدر تفصيل کے طور پر اپنے بعض الہاموں اور کشوف اور رؤيا کا ذکر کر دوں۔

(ماخوذ از خطباتِ محمود جلد 25 صفحہ93)

اب تو يہ کتاب کي صورت ميں چَھپي ہوئي ہے۔ کافي ضخيم کتاب ہے۔

حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہيں کہ اللہ تعاليٰ نے متعدد مرتبہ مجھ پر اپنے غيب کو ظاہر کرکے اس پيشگوئي کو سچا کر ديا ہے کہ مصلح موعودؓ خداتعاليٰ کي روح حق سے مشرف ہوگا۔ يہ اللہ تعاليٰ کے نشانات ہيں جو اس نے مجھ پر ظاہر فرمائے۔ لوگ کہتے ہيں کہ اس ميں کيا حکمت تھي کہ دوست تو پہلے ہي مجھے ان پيشگوئيوں کا مِصداق قرار ديتے رہے اور مَيں نے اب ان پيشگوئيوں کا مِصداق ہونے کا دعويٰ کيا ہے۔ (اس ميں کيا حکمت ہے؟) مَيں کہتا ہوں اس ميں حکمت وہي ہے جو قرآنِ کريم کہتا ہے کہ مَا کَانَ اللہُ لِيُضِيْعَ اِيْمَانَکُمْ کہ اللہ تعاليٰ جب نبي کي بعثت کے بعد موعود کھڑا کرتا ہے تو اللہ تعاليٰ يہ پسندنہيں کرتا کہ اس کي قائم کردہ جماعت کفر کا شکار ہو جائے اور ان کا ايمان ضائع ہو جائے۔ اس لئے وہ ايسے حالات پيدا کر ديتا ہے کہ اکثريت اسے موعود ماننے پر مجبور ہو جاتي ہے۔ پس لوگوں نے حضرت مسيح موعود کي پيشگوئيوں کو مجھ پر پورا ہوتے ديکھا تو ايمان اور يقين ميں کامل ہوئے، مزيد بڑھے، ان کا حضرت مسيح موعود پر ايمان بھي مزيد بڑھا۔ آپؓ فرماتے ہيں کہ ميري طرف سے بعد ميں اعلان ہونے اور جماعت کي طرف سے پہلے مجھے اس پيشگوئي کا مِصداق قرار دينے ميں اللہ تعاليٰ کي حکمت يہي ہے کہ اللہ تعاليٰ مومنوں کو دوسري دفعہ کفر و اسلام کے امتحان ميں ڈال کر ان کے ايمان کو ضائع کرنے کے لئے تيار نہ تھا اور نہيں چاہتا تھا کہ دو مَوتيں اپني جماعت پر وارد کرے۔ پہلي موت تو وہ تھي جب انہوں نے حضرت مسيح موعود کو نہ مانا۔ مسيح موعودؑ کو جھٹلايا۔ پھر اللہ تعاليٰ نے ان کي کسي نيکي کي وجہ سے رحم کرکے انہيں زندہ کر ديا۔ اور انہيں حضرت مسيح موعود کي جماعت ميں شامل فرما ديا۔ انہوں نے رشتہ داروں کو چھوڑا۔ تکاليف برداشت کيں ليکن اپنے ايمان کو سلامت رکھا۔ اس کے بعد يہ خيال کرنا کہ اس ابتلاء ميں سے گزرنے والے لوگوں کي زندگي ميں خداتعاليٰ ايک ايسا موعود بھيج دے گا جس کي صداقت کے نشان اس کے دعوے کے ايک لمبے عرصے بعد ظاہر ہوں گے اس کا مطلب يہ ہے کہ مومن کو پھر کفر کے گڑھے ميں دھکيل ديا جائے اور صحابہ کو پھر کافر و منکر بنا ديا جائے۔ جماعت ابتلاء ميں پڑ جائے۔ يہ خداتعاليٰ کي سنّت کے خلاف ہے۔ اس لئے اللہ تعاليٰ نے مصلح موعودؓ کے متعلق جو حضرت مسيح موعود کي تيارکردہ جماعت تھي کي زندگي ميں آنے والا تھا(يعني جس نے صحابہ کے وقت ميں آنا تھا) يہ تدبير اختيار کي کہ پہلے اسے جماعت کا خليفہ بنا کر ان سے عہد اطاعت لے ليا اور ان پيشگوئيوں کو پورا کرنے کے سامان پيدا کر دئيے جو اس کے متعلق بتائي گئي تھيں اور جب حقيقت جماعت پر روزِ روشن کي طرح کھل گئي تو پھر اسے بھي يعني خليفةالمسيح کو بھي يا مصلح موعود ہونے والے کو بھي اس حقيقت سے بذريعہ آسماني اخبار کے علم دے ديا تا آسمان اور زمين دونوں کي گواہي جمع ہو جائے اور مومنوں کي جماعت کفر و انکار کے داغ سے بھي محفوظ کر دي جائے۔

(ماخوذ از خطباتِ محمود جلد 25 صفحہ 69 تا 95خطبہ بيان فرمودہ 4 فروري 1944ء)

اللہ تعاليٰ اس زمانے ميں بھي سب کے ايمان کو سلامت رکھے۔ ہر احمدي کے ايمان کو سلامت رکھے اور کفر و انکار کے داغ سے ہميشہ محفوظ رکھے۔ احبابِ جماعت کو حضرت مصلح موعود کے علم و معرفت کے کلام سے بھي زيادہ سے زيادہ استفادہ کرنا چاہئے جو اردو ميں بھي ہے اور باقي زبانوں ميں بھي کچھ لٹريچر ہے، اس کو پڑھنا چاہئے۔ اللہ تعاليٰ اس کي سب کو توفيق دے۔

(روزنامہ الفضل ربوہ 29 مارچ 2016ء خطبہ جمعہ 19؍ فروري 2016ء)

 

متعلقہ مضمون

  • جلسہ روحانی پیاس بجھانے کا موقع

  • خطبہ جمعہ فرمودہ 10 اپریل 2009ء کا متن

  • کیا اللہ تعالیٰ اپنے بندے کے لیے کافی نہیں؟

  • جِن کو نِشانِ حضرتِ باری ہوا نصیب