قسط دوم

(مرتّبہ:مکرم مولانا نصیر احمد قمرصاحب۔ ایڈیشنل وکیل الاشاعت لندن)

سلطان القلم حضرت امام آخرالزماں علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیان فرمودہ سورۃ الفاتحہ کی پُر معارف تفسیر

علاوہ ازیں اس سورت کی آیات کا سات کی تعداد میں منحصر ہونا مبدء و معاد کے زمانہ کی طرف اشارہ ہے۔ میری مراد یہ ہے کہ اس کی سات آیات دنیا کی عمر کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ وہ سات ہزار سال ہے اور ہر آیت ہزار سال کی کیفیت پر دلالت کرتی ہے اور یہ کہ آخری ہزار سال گمراہی میں بڑھ کر ہوگا اوریہ مقام اسی طرح اظہار کا مقتضی تھا جس طرح یہ سورۃ شروع دنیا سے لے کر آخرت تک کے ذکر کی کفیل ہے۔

اعجاز المسیح۔ روحانی خزائن جلد 18صفحہ 74-79

سورۃ فاتحہ اور قرآنِ شریف میں ایک اور خاصہ بزرگ پایا جاتا ہے کہ جو اسی کلام پاک سے خاص ہے اور وہ یہ ہے کہ اس کو توجہ اور اخلاص سے پڑھنا دل کو صاف کرتا ہے اور ظلمانی پردوں کو اٹھاتا ہے اور سینے کو منشرح کرتا ہے اور طالبِ حق کو حضرتِ احدیّت کی طرف کھینچ کر ایسے انوار اور آثار کا مورد کرتا ہے کہ جو مقرّبان حضرتِ احدیت میں ہونی چاہئے اور جن کو انسان کسی دوسرے حیلہ یا تدبیر سے ہرگز حاصل نہیں کرسکتا۔

براہینِ احمدیہ چہار حصص، روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 402۔ حاشیہ نمبر 11

فاتحہ فتح کرنے کو بھی کہتے ہیں۔ مومن کو مومن اور کافر کو کافر بنادیتی ہے یعنی دونوں میں ایک امتیاز پیدا کر دیتی ہے اور دل کو کھولتی، سینہ میں ایک انشراح پیدا کرتی ہے۔ اس لئے سورہ فاتحہ کو بہت پڑھنا چاہئے اور اس دُعا پر خوب غور کرنا ضروری ہے۔

الحکم 24؍ دسمبر 1900ء صفحہ 1-2

سورۃ فاتحہ تو ایک معجزہ ہے اس میں امر بھی ہے، نہی بھی ہے، پیشگوئیاں بھی ہیں۔ قرآن شریف تو ایک بہت بڑا سمندر ہے۔ کوئی بات اگر نکالنی ہو تو چاہئے کہ سورۃ فاتحہ میں بہت غور کرے کیونکہ یہ اُمُّ الْکِتَاب ہے۔ اس کے بطن سے قرآن کریم کے مضامین نکلتے ہیں۔

الحکم 10؍ فروری 1901ء صفحہ 12

سورۂ فاتحہ میں جو پنج وقت ہر نماز کی ہر رکعت میں پڑھی جاتی ہے اشارہ کے طور پر کل عقائد کا ذکر ہے جیسے فرمایا اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ یعنی ساری خوبیاں اس خدا کے لئے سزا وار ہیں جو سارے جہانوں کو پیدا کرنے والا ہے۔ اَلرَّحْمٰنُ وہ بغیر اعمال کے پیدا کرنے والا ہے اور بغیر کسی عمل کے عنایت کرنے والا ہے۔ اَلرَّحِیْم اعمال کا پھل دینے والا مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ جزا سزا کے دن کا مالک۔ ان چار صفتوں میں کل دنیا کے فرقوں کا بیان کیا گیا ہے۔

بعض لوگ اس بات سے منکر ہیں کہ خدا ہی تما م جہانوں کا پیدا کرنے والا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جیو یعنی ارواح اور پرمانو یعنی ذرا ت خود بخود ہیں اور جیسے پرمیشر آپ ہی آپ چلا آتا ہے ویسے ہی وہ بھی آپ ہی آپ چلے آتے ہیں اور ارواح اور اُن کی کل طا قتیں، گُن اور خواص جن پر دفتروں کے دفتر لکھے گئے خود بخود ہیں اور باوجود اس کے کہ ان میں قوتِ اتّصال اور قوتِ انفصال خود بخود پائی جاتی ہے وہ آپس میں میل ملاپ کرنے کے لئے ایک پرمیشر کے محتاج ہیں۔ غرض یہ وہ فرقہ ہے جس کی طرف اللہ تعالیٰ نے رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ کہہ کر اشارہ کیا ہے۔

دوسرا فرقہ وہ ہے جس کی طرف اَلرَّحْمٰن کے لفظ میں اشارہ ہے اور یہ فرقہ سناتن دھرم والوں کا ہے گو وہ مانتے ہیں کہ پرمیشر سے ہی سب کچھ نکلا ہے مگر وہ کہتے ہیں کہ خدا کا فضل کوئی چیز نہیں وہ کرموں کا ہی پھل دیتا ہے۔ یہاں تک کہ اگر کوئی مر دبنا ہے تو وہ بھی اپنے اعمال سے اور اگر کوئی عورت بنی ہے تو وہ بھی اپنے اعمال سے اور اگر ضروری اشیاء حیوانات نباتات وغیرہ بنے ہیں تو وہ بھی اپنے اپنے کرموں کی وجہ سے۔ الغرض یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی صفتِ رَحمٰن سے منکر ہیں۔ وہ خدا جس نے زمین، سورج، چاند ستارے وغیرہ پیدا کئے اور ہوا پیدا کی تاکہ ہم سانس لے سکیں اور ایک دوسرے کی آواز سن سکیں اور روشنی کے لیے سورج چاند وغیرہ اشیاء پیدا کیں اور اس وقت پیداکیں جب کہ ابھی سانس لینے والوں کا وجود اور نام و نشان بھی نہ تھا۔ تو کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ یہ سب کچھ ہمارے ہی اعمال کی وجہ سے پیدا کیا گیا ہے؟ کیا کوئی اپنے اعمال کا دَم مار سکتا ہے؟ کیا کوئی دعویٰ کرسکتا ہے کہ یہ سورج چاند ستارے ہوا وغیرہ میر ے اپنے عملوں کا پھل ہے؟ غرض خد ا کی صفت رحمانیت اس فرقہ کی تردید کر تی ہے جو خدا کو بلا مبادلہ یعنی بغیر ہماری کسی محنت اور کو شش کے بعض اشیاء کے عنایت کرنے والا نہیں مانتے۔

اس کے بعد خداتعالیٰ کی صفت اَلرَّحِیْم کا بیان ہے یعنی محنتوں کو ششوں اور اعمال پر ثمراتِ حسنہ مرتب کرنے والا۔ یہ صفت اس فرقہ کو رَدّ کرتی ہے جو اعمال کو بالکل لغو خیال کرتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں کہ میاں نماز کیا توروزے کیا؟ اگر غَفُوْرٌ الرَّحِیْم نے اپنا فضل کیا تو بہشت میں جائیں گے۔ نہیں تو جہنم میں۔ اور کبھی کبھی یہ لوگ اس قسم کی باتیں بھی کہہ دیا کرتے ہیں کہ میاں عبادتاں کرکے ولی تو ہم نے کچھ تھوڑا ہی بننا ہے۔ کچھ کِیتا کِیتا، نہ کِیتا نہ سہی۔ الغرض اَلرَّحِیْمِ کہہ کر خدا ایسے ہی لوگوں کا رَد ّکرتا ہے اور بتایا ہے کہ جو محنت کرتا ہے اور خدا کے عشق اور محبّت میں محو ہو جاتا ہے وہ دوسروں سے ممتاز اور خدا کا منظور نظر ہو جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ ایسے شخص کی خود دستگیری کرتاہے جیسے فرمایا۔ وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَالَنَہْدِیَنَّہُمْ سُبُلَنَا (العنکبوت:70) یعنی جو لوگ ہماری خاطر مجاہدات کرتے ہیں آخر ہم ان کو اپنا راستہ دکھا دیتے ہیں۔ جتنے اولیاء اور انبیاء اور بزرگ لوگ گزرے ہیں انہوں نے خدا کی راہ میں جب بڑے بڑے مجاہدات کئے تو آخر خدا نے اپنے دروازے ان پر کھول دئیے۔ لیکن وہ لوگ جو خداتعالیٰ کی اس صفت کو نہیں مانتے۔ عموماً ان کا یہی مقولہ ہوتا ہے کہ میاں ہماری کوششوں میں کیا پڑا ہے جو کچھ تقدیر میں پہلے روز سے لکھا ہے وہ تو ہو کر رہے گا۔ ہماری محنتوں کی کوئی ضرورت نہیں جو ہونا ہے وہ آپ ہی ہو جائے گا۔ اور شاید چوروں اور ڈاکوؤں اور دیگر بدمعاشوں کا اندر ہی اندر یہی مذہب ہوتا ہوگا۔

الحکم 2؍ جنوری 1908ء صفحہ 6

سورۃ فاتحہ کی سات آیتیں اسی واسطے رکھی ہیں کہ دوزخ کے سا ت دروازے ہیں۔ پس ہر ایک آیت گویا ایک دروازہ سے بچاتی ہے۔

حق بات یہی ہے کہ سورت فاتحہ ہر علم اور معرفت پر محیط ہے وہ سچائی اور حکمت کے تمام نکات پر مشتمل ہے اور یہ ہر سائل کے سوال کا جواب دیتی اور ہر حملہ آور دشمن کو تباہ کرتی ہے۔ نیز ہر مسافر کو جو مہمان نوازی چاہتا ہے کھلاتی اور آنے اور جانے والوں کو پلاتی ہے۔ بےشک وہ ہر شبہ کو جو ناکامی کی حد تک پہنچانے والا ہو زائل کر دیتی ہے اور ہرغم کو جس نے بوڑھا کر دیا ہو جڑ سے اکھیڑ دیتی ہے اور ہر گمشدہ راہنما کو (راہِ راست پر)واپس لاتی ہے اور ہر خطرناک دشمن کو شرمندہ کرتی ہے۔ طالبانِ ہدایت کو بشارت دیتی ہے۔ گناہوں کے زہر اور دلوں کی کجی کے لیے اس جیسا کوئی اور معالج نہیں اور وہ حق اور یقین تک پہنچانے والی ہے۔

کرامات الصادقین۔ روحانی خزائن جلد 7 صفحہ 145

ایک خاصہ روحانی سورہ فاتحہ میں یہ ہے کہ دلی حضور سے اپنی نماز میں اس کو ورد کرلینا اور اس کی تعلیم کو فی الحقیقت سچ سمجھ کر اپنے دل میں قائم کرلینا تنویر باطن میں نہایت دخل رکھتا ہے۔ یعنی اس سے انشراح خاطر ہوتا ہے اور بشریت کی ظلمت دور ہوتی ہے اور حضرت مبدءفیوض کے فیوض انسان پر وارد ہونے شروع ہوجاتے ہیں اور قبولیتِ الٰہی کے انوار اس پر احاطہ کرلیتے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ ترقی کرتا کرتا مخاطباتِ الٰہیہ سے سرفراز ہوجاتا ہے اور کشوفِ صادقہ اور الہاماتِ واضحہ سے تمتع تام حاصل کرتا ہے اور حضرت الوہیت کے مقربین میں دخل پالیتا ہے اور وہ وہ عجائبات القائے غیبی اور کلام لا ریبی اور استجابت ادعیہ اور کشفِ مغیبات اور تائید حضرت قاضی الحاجات اُس سے ظہور میں آتی ہیں کہ جس کی نظیر اس کے غیر میں نہیں پائی جاتی۔

(براہین احمدیہ چہار حصص۔ روحانی خزائن جلد اوّل حاشیہ نمبر11 صفحہ 626-629)

یہ عاجز اپنے ذاتی تجربہ سے بیان کرتا ہے کہ فی الحقیقت سورہ فاتحہ مظہرِ انوارِ الٰہی ہے۔ اس قدر عجائبات اس سورۃ کے پڑھنے کے وقت دیکھے گئے ہیں کہ جن سے خدا کے پاک کلام کا قدر و منزلت معلوم ہوتا ہے۔ اس سورہ مبارکہ کی برکت سے اور اس کے تلاوت کے التزام سے کشفِ مغیبات اس درجہ تک پہنچ گیا کہ صدہا اخبار غیبیہ قبل از وقوع منکشف ہوئیں اور ہریک مشکل کے وقت اس کے پڑھنے کی حالت میں عجیب طور پر رفع حجاب کیا گیا اور قریب تین ہزار کے کشف صحیح اور رؤیا صادقہ یاد ہے کہ جو اب تک اس عاجز سے ظہور میں آچکے اور صبح صادق کے کھلنے کی طرح پوری بھی ہوچکی ہیں۔ اور دو سو جگہ سے زیادہ قبولیتِ دُعا کے آثار نمایاں ایسے نازک موقعوں پر دیکھے گئے جن میں بظاہر کوئی صورت مشکل کشائی کی نظر نہیں آتی تھی اور اسی طرح کشفِ قبور اور دوسرے انواع اقسام کے عجائبات اسی سورۃ کے التزامِ ورد سے ایسے ظہور پکڑتے گئے کہ اگر ایک ادنیٰ پرتوہ اُن کا کسی پادری یا پنڈت کے دل پر پڑجائے تو یک دفعہ حُبِّ دنیا سے قطع تعلق کرکے اسلام کے قبول کرنے کے لئے مرنے پر آمادہ ہوجائے۔ اسی طرح بذریعہ الہاماتِ صادقہ کے جو پیشگوئیاں اس عاجز پر ظاہر ہوتی رہی ہیں جن میں سے بعض پیشگوئیاں مخالفوں کے سامنے پوری ہوگئی ہیں اور پوری ہوتی جاتی ہیں اس قدر ہیں کہ اس عاجز کے خیال میں دو انجیلوں کی ضخامت سے کم نہیں اور یہ عاجز بطفیل متابعت حضرت رسولِ کریم مخاطبات حضرت احدیّت میں اس قدر عنایات پاتا ہے کہ جس کا کچھ تھوڑا سا نمونہ حاشیہ دَر حاشیہ نمبر 3 کے عربی الہامات وغیرہ میں لکھا گیا ہے۔ خداوند کریم نے اسی رسول مقبول کی متابعت اور محبّت کی برکت سے اور اپنے پاک کلام کی پیروی کی تاثیر سے اس خاکسار کو اپنے مخاطبات سے خاص کیا ہے اور علومِ لدُنّیہ سے سرفراز فرمایا ہے اور بہت سے اسرارِ مخفیہ سے اطلاع بخشی ہے اور بہت سے حقائق اور معارف سے اس ناچیز کے سینہ کو پُر کردیا ہے اور بارہا بتلا دیا ہے کہ یہ سب عطیّات اور عنایات اور یہ سب تفضّلات اور احسانات اور یہ سب تلطّفات اور توجہات اور یہ سب انعامات اور تائیدات اور یہ سب مکالمات اور مخاطبات بیمن متابعت و محبت حضرت خاتم الانبیاءﷺہیں۔ (براہین احمدیہ چہارحصص۔ روحانی خزائن جلد1صفحہ 642 تا646حاشیہ نمبر 11)

سورۃ فاتحہ ایک محفوظ قلعہ، نُورمبین اور استاد و مددگار ہے اور یہ احکامِ قرآنیہ کو بڑے اہتمام سے کمی بیشی سے محفوظ رکھتی ہے جس طرح سرحدوں کی حفاظت کی جاتی ہے اور اس کی مثال اس اونٹنی کی ہے جس کی پیٹھ پر تیری ضرورت کی ہر چیز لدی ہوئی ہو اور وہ اپنے سوار کو دیارِمحبوب تک پہنچا دے۔ نیز اس پر ہر قسم کا زادِ راہ، نفقہ اورلباس و پوشاک لدی ہوئی ہو۔ یا پھر اس کی مثال اس چھوٹے سے حوض کی ہے جس میں بہت سا پانی ہو گویا کہ وہ متعدد دریاؤں کا منبع ہے، یا وہ ایک عظیم دریا کی گذر گاہ ہے۔ اور مَیں دیکھتا ہوں کہ اس سورۂ کریمہ کے فوائد اور خوبیاں اَن گنت ہیں اور ان کا شمار انسانی طاقت میں نہیں خواہ کوئی اس خواہش کی تکمیل میں اپنی عمر گزار دے۔ گمراہ اوربدبخت لوگوں نے اپنی جہالت اورکند ذہنی کی بناء پر اس کی صحیح قدر نہیں کی۔ انہوں نے اسے پڑھا تو سہی لیکن باوجود بار بار پڑھنے کے وہ اس کی خوبی اور خوبصورتی کو نہ پا سکے۔ یہ سورت منکروں پر شدّت سے حملہ کرنے والی اور صحت مند دلوں پر سُرعت سے اثر کرنے والی ہے۔ ہر وہ شخص جس نے اس پر ایک پرکھنے والے کی طرح نظر ڈالی اور چمکتے ہوئے چراغ کی مانند روشن فکر کے ساتھ اس کے قریب ہوا اس نے اس کو آنکھوں کا نور اور اسرار کی کلید پایا۔ بلا شک و شبہ یہی بات حق ہے اور نہ یہ کوئی ظنی بات ہے۔ اگر تمہیں کوئی شک ہو تو اُٹھو اور خود اس کا تجربہ کرلو اور ماندگی و سستی کو چھوڑ دو اور یہ سوال نہ کرو کہ یہ کیسے اور کہاں ہوسکتا ہے۔ اس سورت کے عجائبات میں سے یہ بات بھی ہے کہ اس نے اللہ تعالیٰ کی تعریف ایسے الفاظ میں بیان کی ہے کہ اس سے زیادہ بیان کرنا انسان کی طاقت میں نہیں۔ ہم دُعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے اور ہماری قوم کے درمیان اس سورۃ فاتحہ کے ذریعہ فیصلہ کر دے۔ ہمارا اُسی پر توکل ہے۔ آمین یا ربّ العالمین۔

اعجاز المسیح۔ روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 79-81

سورۃ فاتحہ کا نماز میں پڑھنا لازمی ہے اور یہ دُعا ہی ہے جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اصل دُعا نماز ہی میں ہوتی ہے۔ چنانچہ اس دُعا کو اللہ تعالیٰ نے یوں سکھایا ہے۔ اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ اِلٰی اٰخِرِہٖ یعنی دُعا سے پہلے یہ ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ کی حمدو ثنا کی جاوے۔ جس سے اللہ تعالیٰ کے لئے روح میں ایک جوش اور محبت پیدا ہو۔ اس لئے فرمایا اَلْحَمْدُلِلہِ سب تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں۔ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ سب کو پیدا کرنے والا اور پالنے والا۔ اَلرَّحْمٰنِ جو بلا عمل اور بن مانگے دینے والا ہے۔ اَلرَّحِیْمِ پھر عمل پر بھی بدلہ دیتا ہے۔ اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی دیتا ہے۔ مٰلِكِ یَوْمِ الدِّیْنِ ہر بدلہ اسی کے ہاتھ میں ہے۔ نیکی بدی سب کچھ اللہ تعالیٰ ہی کے ہاتھ میں ہے۔ پورا اور کامل موحّد تب ہی ہوتا ہے جب اللہ تعالیٰ کو مٰلِكِ یَوْمِ الدِّیْنِ تسلیم کرتا ہے۔ دیکھو حکّام کے سامنے جاکر ان کو سب کچھ تسلیم کرلینا یہ گناہ ہے اور اس سے شرک لازم آتا ہے۔ اس لحاظ سے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو حاکم بنایا ہے۔ ان کی اطاعت ضروری ہے مگر ان کو خدا ہر گز نہ بناؤ۔ انسان کا حق انسان کو اور خداتعالیٰ کا حق خداتعالیٰ کو دو۔ پھر یہ کہو۔ اِیَّاكَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور ہم تجھ سے ہی مدد مانگتے ہیں۔ اِھدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ…الخ ہم کو سیدھی راہ دکھا۔ یعنی ان لوگوں کی راہ جن پر تُو نے انعام کئے اور وہ نبیوں، صدّیقوں، شہیدوں اور صالحین کا گروہ ہے۔ اس دُعا میں ان تمام گروہوں کے فضل اور انعام کو مانگا گیا ہے۔ ان لوگوں کی راہ سے بچا جن پر تیرا غضب ہوا اور جو گمراہ ہوئے۔

الحکم نمبر 23 جلد 6 مؤرخہ 24جون 1902ء صفحہ 2

اس سورہ میں تین لحاظ رکھنے چاہئیں۔ (1) ایک یہ کہ تمام بنی نوع کو اس میں شریک رکھے۔ (2)تمام مسلمانوں کو (3)تیسرے ان حاضرین کو جو جماعت نماز میں داخل ہیں۔ پس اس طرح کی نیّت سے کل نوع انسان اس میں داخل ہوں گے اور یہی منشاء خداتعالیٰ کا ہے۔

مکتوب حضرت مسیح موعودؑ بنام شیخ غلام نبیؓ صاحب مندرجہ الحکم نمبر 20، 21 جلد40مؤرخہ 28 ؍جولائی۔ 7 ؍اگست 1937ء صفحہ 3

نما ز میں سورۃ فاتحہ کی دُعا کا تکرار نہایت مؤثر چیز ہے۔ کیسی ہی بےذوقی و بےمزگی ہو اس عمل کو برابر جاری رکھنا چاہئے۔ یعنی کبھی تکرار آیت اِیَّاكَ نَعْبُدُ وَاِیَّاكَ نَسْتَعِیْنُ کا اور کبھی تکرار آیت اِھدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ کا اور سجدہ میں یَاحَیُّ یَا قَیُّوْمُ بِرَحْمَتِکَ اَسْتَغِیْثُ۔

الحکم نمبر 1 جلد2مؤرخہ 20 ؍فروری 1898ء صفحہ 9

سورۃ فاتحہ کا ورد نماز میں بہتر ہے۔ بہتر ہے کہ نماز تہجد میں اِھدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ کا بدلی توجہ و خضوع و خشوع تکرار کریں اور اپنے دل کو نزول انوارِالٰہیہ کے لئے پیش کریں اور کبھی تکرار آیت اِیَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاكَ نَسْتَعِیْنُ کا کیا کریں۔ ان دونوں آیتوں کا تکرار ان شاءاللہ القدیر تنویر قلب و تزکیہ نفس کا موجب ہوگا۔

الحکم نمبر 23 جلد7مؤرخہ 24 ؍جون1903ء صفحہ3

قرآنِ شریف میں چار سورتیں ہیں جو بہت پڑھی جاتی ہیں۔ اُن میں مسیحِ موعودؑ اور اس کی جماعت کا ذکر ہے۔ (1)سورۃ فاتحہ جو ہر رکعت میں پڑھی جاتی ہے اس میں ہمارے دعوے کا ثبوت ہے۔ جیساکہ اس تفسیر میں ثابت کیا جائے گا۔ (2)سورہ جمعہ جس میں اٰخَرِیْنَ مِنْہُمْ مسیح موعودؑ کی جماعت کے متعلق ہے یہ ہر جمعہ میں پڑھی جاتی ہے۔ (3)سورہ کہف جس کے پڑھنے کے واسطے رسول اللہﷺ نے تاکید فرمائی ہے۔ اس کی پہلی اور پچھلی دس آیتوں میں دجال کا ذکر ہے۔ (4)آخری سورت قرآن کی جس میں دَجّال کا نام خنّاس رکھا گیا ہے۔ یہ وُہی لفظ ہے جو عبرانی توریت میں دجال کے واسطے آیا ہے۔ یعنی نحاش ایسا ہی قرآنِ شریف کے اور مقامات میں بھی بہت ذکر ہے۔

(الحکم جلد5 نمبر3 مورخہ24؍ جنوری1901ء صفحہ11)

متعلقہ مضمون

  • روئداد جلسہ دعا

  • کتاب البریہ

  • ہر مخالف کو مقابل پہ بلایا ہم نے

  • الموعود