لاہور کے منٹو پارک (موجودہ اقبال پارک) میں 22 سے 24 مارچ 1940ء تک آل انڈیا مسلم لیگ کا 27واں سالانہ اجلاس منعقد ہوا جس کی صدارت قائداعظم محمدعلی جناحؒ نے کی تھی۔

اس تاریخی اجلاس میں بنگالی لیڈر مولوی فضل الحق نے 24 مارچ 1940ء کو ایک متفقہ قرارداد پیش کی جو تاریخ میں پہلے ’’قراردادِ لاہور‘‘اور پھر’’قرارداد ِپاکستان‘‘ کے نام سے مشہور ہوئی۔ اس قرارداد میں برصغیر کے مسلمانوں کے سیاسی نصب العین کا فیصلہ کیا گیا تھا اور برطانوی ہندوستان کی آئینی حدود میں رہتے ہوئے یہ مطالبہ کیا گیا تھا کہ

” آل انڈیا مسلم لیگ کا یہ اجلاس نہایت غور و خوض کے بعد اس ملک میں مسلمانوں کے لیے صرف ایسے آئین کو قابلِ عمل اور قابلِ قبول قرار دیتا ہے جو جغرافیائی اعتبار سے باہم متصل خطوں کی صورت میں حدبندی کا حامل ہو اور بوقتِ ضرورت ان میں اس طرح ردوبدل ممکن ہو کہ جہاں جہاں مسلمانوں کی اکثریت بہ اعتبار تعداد ہو، جیسے کہ ہندوستان کے شمال مغربی اور مشرقی علاقے ہیں، انہیں آزاد ریاستوں کی صورت میں یکجا کردیا جائے اور ان میں شامل ہونے والی وحدتیں خودمختار اور حاکمیت کی حامل ہوں ‘‘۔

جب قرارداد لاہور، قرارداد پاکستان بنی

” قرارداد لاہور“کو پہلی بار”قرارداد پاکستان“ کا نام آل انڈیا مسلم لیگ کے مخالف وطن پرست مسلمان سیاسی اتحاد، آل انڈیا آزاد مسلم کانفرنس نے اپنے اپریل 1940ء کے جلسہ میں دیا تھا جس کی ہندو پریس نے بڑے مزے لے لے کر طنزیہ تشہیر کی تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ 1933ء میں چودھری رحمت علی نے جب ہندوستان میں 15 خیالی مسلمان ریاستیں ’’پاکستان“کے نام سے تشکیل دے دی تھیں تو ان کا خوب مذاق اڑایا گیا تھا۔ یہاں تک کہ مسلم لیگی حلقوں نے بھی چودھری صاحب کو کبھی سنجیدگی سے نہیں لیا تھا۔ ہندو پریس کی اس معاندانہ تنقید سے ضد میں آکر مسلم لیگ نے 1941ء میں اپنے اگلے اجلاس میں’’قرارداد لاہور“ کو”قرارداد پاکستان“کا نام دے کر اپنا نصب العین قرار دے دیا تھا۔

قرارداد لاہور کا مکمل متن

آل انڈیا مسلم لیگ کا یہ اجلاس، آئینی مسائل پر 27 اگست، 17 اور 18 ستمبر اور 22 اکتوبر 1939ء اور 3 فروری 1940ء کی قراردادوں کی روشنی میں یہ مطالبہ کرتا ہے کہ گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935ء میں شامل وفاق کی تجویز، اس ملک کے مخصوص حالات میں مکمل طور پر نامناسب اور ناقابل عمل ہے۔

کوئی بھی آئینی منصوبہ اس ملک میں قابل عمل یا مسلمانوں کے لیے قابل قبول نہیں ہوگا کہ جب تک جغرافیائی طور پر متصل اکائیوں کی حد بندی نہ کی جائے۔ ان خطوں میں جہاں مسلمان عددی طور پر اکثریت میں ہیں، جیسا کہ ہندوستان کے شمال مغربی اور مشرقی علاقوں میں، ان کو”آزاد ریاستوں“ کی شکل دی جائے جن میں تمام اکائیاں آزاد اور خود مختار ہوں۔

آئین میں مسلم اکائیوں اور خطوں میں غیرمسلم اقلیتوں اور دیگر علاقوں کے مسلم اقلیتوں کے مذہبی، ثقافتی، اقتصادی، سیاسی، انتظامی اور دیگر حقوق اور مفادات کے تحفظ کے لیے باہمی مشاورت سے مناسب اور موثر اقدامات کی ضمانت دی جائے۔

آئین میں یہ گنجائش رکھی جائے کہ مسلم خطے، دفاع، خارجی امور، رسل و رسائل پر عملدرآمد اور دوسرے ضروری امور کے اختیارات پر بھی قابض ہو سکیں۔

(مرسلہ چودھری حمیداللہ ظفر صاحب)

(اخبار احمدیہ جرمنی، شمارہ مارچ 2024ء صفحہ 36)

متعلقہ مضمون

  • ایک احمدی خاتون صحافی کی عدالتی کامیابی

  • جرمنی میں رہتے ہوئے سوئٹزرلینڈ میں کام کے مواقع

  • ملکی و عالمی خبریں

  • سالانہ تقریب تقسیم انعامات جامعہ احمدیہ جرمنی