تشہّد و تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورانور نے فرمایا:
آج آپ یہاں زائن (Zion)کی مسجد کے افتتاح کے لیے جمع ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جماعتِ احمدیہ امریکہ کو توفیق دی کہ اس مسجد کی تعمیر کرے اور اس شہر میں کرے جو جماعت کی تاریخ میں ایک خاص اہمیت رکھتا ہے۔ دو دن پہلے ایک جرنلسٹ نے مجھ سے سوال کیا کہ یہ مسجد یہاں کے لیے اتنی اہم کیوں ہے؟ مسجد تو ہمارے لیے ہر ایک اہم ہوتی ہے۔ میں نے اسے یہی کہا تھا۔ تمام مساجد ہی ہمارے لیے اہم ہیں۔ اس کا خیال تھا کہ صرف اس مسجد کے لیے خاص طور پر میں یہاں آیا ہوں۔ مَیں نے کہا پہلے بھی میں مساجد کے افتتاح کے لیے جاتا رہتا تھا۔ تو بہرحال اس کو مَیں نے کہا کہ اس مسجد کی ایک اہمیت بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ یہ مسجد اس شہر میں تعمیر ہوئی ہے جو ایک مخالفِ اسلام کا آباد کیا ہوا شہر ہے اور جن لوگوں کو تاریخ سے دلچسپی ہے وہ اس تاریخ کے جاننے کی کوشش کریں گے اور کیونکہ جماعت کے علاوہ تو کوئی اس شہر کی تاریخ کو نہیں جانتا، نہ ڈوئی کو جانتا ہے۔ اس تاریخ کے بتانے کے لیے ایک نمائش کا اہتمام بھی جماعت نے کیا ہوا ہے جس سے اس تاریخ پر روشنی پڑتی ہے جو جماعت کے نزدیک اس شہر کی اہمیت ہے اور جن کو دلچسپی ہے وہ اس نمائش سے کچھ حد تک فائدہ بھی اٹھا سکتے ہیں۔ شاید وہ کل اس بارے میں آرٹیکل بھی لکھے گی۔ بہرحال جیساکہ مَیں نے کہا اس شہر کی تاریخی اہمیت اور ایک نام نہاد دعوےدار اور اس کا حضرت مسیح موعود کے خلاف غلط زبان استعمال کرنا اور پھر اس کا خاتمہ ہونا اور اس شہر میں جماعت کا قائم ہونا ہر احمدی کو اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے والا بناتا ہے اور بنانا چاہیے اور اس کے لیے آنحضرتﷺ کے ارشاد کے مطابق ہم اس شہر کے لوگوں کا بھی شکریہ ادا کرتے ہیں جنہوں نے باوجود اس کے کہ شروع میں کونسل نے مسجد کی تعمیر کی مخالفت کی تھی، بنانے سے انکار کر دیا تھا۔ لوگ ہمارے حق میں کھڑے ہوئے اور کونسل کو مجبور کیا کہ وہ ہمیں مسجد کی تعمیر کی اجازت دے دے۔
پس آنحضرتﷺکا ہی یہ ارشاد ہے کہ جو لوگوں کا شکریہ ادا نہیں کرتا وہ خداتعالیٰ کا بھی شکرگزار نہیں ہے۔
(سنن الترمذی ابواب البروالصلۃ … حدیث 1954)
پس اس ارشاد کے تحت ہمیں خداتعالیٰ، اس عظیم خدا کا شکریہ ادا کرنا چاہیے جس نے ہمیں اس مسجد کی تعمیر کی توفیق دی۔ پس اس لحاظ سے ہم احمدیوں کے لیے ایک صرف خوشی کا دن نہیں ہے بلکہ انتہائی شکرگزاری کا دن بھی ہے۔ اس خدا کی شکرگزاری کا دن جس نے ہمیں مسجد کی تعمیر کے ساتھ زمانے کے امام اور آنحضرتﷺ کے عاشقِ صادق کی سچائی کا بھی زندہ نشان دکھایا۔
تاریخ کے اوراق میں بھی، جو اس زمانے کی تاریخ ہے اس میں سے بھی چند باتیں میں بیان کروں گا جس سے اس کی اہمیت کا اور حضرت مسیح موعود کی سچائی کا اور لوگوں کے اس کو تسلیم کرنے کا پتہ چلتا ہے اور جتنا ہم شکرگزار بنیں گے اتنا ہی خداتعالیٰ ہمیں اپنے فضلوں سے نوازتا رہے گا اور حضرت مسیح موعود کی سچائی کے نشان ہم پر کھلتے جائیں گے۔
پس یہ ہماری شکرگزاری کی حالت ہے جو ہمیں ان نشانوں کی سچائی کا گواہ بنائے گی۔ بےشک حضرت مسیح موعود سے اللہ تعالیٰ کے وعدے ہیں، جماعت کی ترقی کے بےشمار وعدے ہیں وہ آپ کو جماعت کی ترقیات دکھائے گا۔ دکھائے اور دکھا رہا ہے اور آئندہ دکھائے گا لیکن ہم ان ترقیات کے دیکھنے اور ان کا حصہ بننے کے حق دار تب ہوں گے جب ہم اللہ تعالیٰ کے شکرگزار ہوں گے اور اللہ تعالیٰ کے حکموں کو بجا لانے والے ہوں گے اور اس کا حق ادا کرنےو الے ہوں گے۔
بےشمار وعدے ہیں جو ہم نے اپنی زندگیوں میں پورے ہوتے دیکھے۔ اللہ تعالیٰ اپنے وقت پر ہر وعدے کے پورا ہونے کے نظارے دکھاتا ہے۔ یہ وعدوں کے پورا ہونے کا نظارہ نہیں تو اَور کیا ہے کہ آج سے ایک سو بیس سال پہلے اللہ تعالیٰ سے خبر پا کر جس جھوٹے دعویدار اور دشمنِ اسلام کی ہلاکت کی پیش گوئی آپؑ نے فرمائی تھی آج اس کے شہر میں جس کے بارے میں اس کا اعلان تھا کہ کوئی مسلمان یہاں داخل نہیں ہو سکتا جب تک وہ عیسائی نہیں ہو جاتا اللہ تعالیٰ نے جماعت کو مسجد بنانے کی توفیق دی۔
پس یہ ہیں اللہ تعالیٰ کے کام۔ ایک ارب پتی اور دنیاوی جاہ و حشمت رکھنے والے کو اللہ تعالیٰ نے جھوٹا کردیا، ختم کردیا اور پنجاب کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں رہنے والے اپنے فرستادے کا دعویٰ جو اسلام کی نشأة ثانیہ کے ساتھ کیا گیا تھا۔ دنیا کے دو سو بیس ممالک میں گونجنے کے سامان پیدا کر دیے۔ لیکن کیا یہاں ہمارا کام ختم ہو جاتا ہے؟ کیا یہی کافی ہے کہ امریکہ کے ایک چھوٹے سے شہر میں ہم نے مسجد بنا لی اور جماعت کو ترقی مل گئی؟ نہیں۔
حضرت مسیح موعود کے لیے تو اللہ تعالیٰ نے پوری دنیا کو میدانِ عمل بنایا ہے۔ ہم نے تو چھوٹے شہر، بڑے شہر اور ملکوں کو آنحضرتﷺکی غلامی میں لانا ہے۔ ہم اگر اپنے وسائل دیکھیں تو یہ بڑا وسیع کام نظر آتا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اس سب کے باوجود ہمارے سپرد یہ کام کیا ہوا ہے اور یہ بھی اللہ تعالیٰ کا حضرت مسیح موعود سے وعدہ ہے لیکن آپؑ نے فرمایا یہ سب کام جو کیے جا رہے ہیں یہ تو ہماری معمولی کوشش ہے۔ اس کے ساتھ اصل میں تو دعاؤں کی ضرورت ہے، دعاؤں سے یہ کام ہونے ہیں۔
پس اس اہم بات کو ہمیں ہمیشہ پیشِ نظر رکھنا چاہیے کہ دعاؤں کی طرف توجہ دیں اور مساجد کی تعمیر بھی اس لیے ہوتی ہے کہ اس میں عبادت کے لیے لوگ جمع ہوں۔ پانچ وقت اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہوں۔ جمعوں میں باقاعدگی اختیار کریں۔ دنیا کے لہو و لعب اور کاموں میں اپنی عبادتوں کو نہ بھول جائیں۔ اگر ہم اپنی عبادتوں کو بھول گئے تو یہ مسجد بنانا صرف ایک ظاہری ڈھانچہ کھڑا کرنا ہے۔ دنیا کو ہم بتا رہے ہوں گے کہ یہاں مسلمانوں کی ایک مسجد بن گئی ہے، لیکن ہمارے عمل اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس قابل نہیں ہوں گے کہ اس مسجد کی برکات سے فیض پانے والے ہوں یا ہم حضرت مسیح موعود کے مددگاروں میں سے ہوں۔ آپؑ نے تو فرمایا ہے کہ مسلسل دعاؤں سے میرے مددگار بنو، تاکہ ہم اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جلد سے جلد پورا ہوتا دیکھیں۔
پس آج ہم میں سے ہر ایک کا کام ہے کہ مقبول دعاؤں کے لیے اپنی عبادتوں کو زندگیوں کا حصہ بنالیں۔ اپنے بچوں کو بھی عبادت کی عادت ڈالیں۔ اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے طریق کے مطابق اپنی نمازوں کو سنوار کر ادا کریں۔ خالص ہوکر اللہ تعالیٰ کے آگے جھکیں اور اس سے مزید فتوحات کی بھیک مانگیں۔ کتنے خوش قسمت ہوں گے ہم میں سے وہ جن کو یہ سب کچھ حاصل ہو جائے اور پھر وہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی بارش برستا دیکھیں۔ اگر ہم اپنی عبادتوں کے معیار بلند کریں گے، دین کو دنیا پر مقدم کریں گے تو حضرت مسیح موعود کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے جو وعدے ہیں انہیں اپنی زندگیوں میں پورا ہوتے دیکھیں گے۔
پس ہمیں اپنی حالتوں کی طرف توجہ کرنے کی ضرورت ہے۔ ان ترقی یافتہ ممالک میں آکر دنیا میں نہ کھو جائیں۔ اب گذشتہ کچھ عرصہ سے نئے اسائلم سیکر بھی یہاں آئے ہیں پس دنیا میں نہ ڈوب جائیں۔ یہاں ہر تعمیر ہونے والی مسجد ایک نیا جوش اور ولولہ اور اللہ تعالیٰ سے تعلق ہمارے اندر پیدا کرنے والی ہونی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے تو اپنے وعدے پورے فرمانے ہیں۔ یہ نہ ہوکہ ہمارے عملوں کی وجہ سے ان کے پورا ہونے کا وقت دُور ہو جائے یا وہ کسی اَور کے ذریعہ سے، بعد میں آنے والے لوگوں کے ذریعہ سے پورے ہوں اور ہم محروم رَہ جائیں۔ آنحضرتﷺسے اللہ تعالیٰ کا اسلام کی فتح کا وعدہ تھا اور اللہ تعالیٰ کو آپﷺسے پیارا کون نبی ہوسکتا تھا اور ہے لیکن کیا اس کے باوجود جنگِ بدر کے موقع پر آپ کی گریہ و زاری، عجز، خوف، خشیت اور دعا ایک عظیم مقام پر نہیں پہنچی ہوئی تھی؟ اس قدر گریہ و زاری تھی کہ آپؐ کی چادر بار بار کندھے سے اتر جاتی تھی اور پھر جب حضرت ابوبکر صدیق نے عرض کیا یا رسول اللہؐ! فتح و نصرت کا اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے تو پھر آپؐ اس قدر بےچینی کا کیوں اظہار فرما رہے ہیں؟ اس پر آپﷺ نے فرمایا:
اللہ تعالیٰ بےنیاز ہے۔ فتوحات میں بھی مخفی شرائط ہوتی ہیں اس لیے میرا کام نہایت تضرع سے اللہ تعالیٰ سے اس کی مدد مانگنا ہے۔
(ماخوذ از ملفوظات جلد اوّل صفحہ 11)
اور پھر دشمن کے مختلف مواقع پر بار بار حملوں اور ہر طرح سے نقصان پہنچانے کے باوجود چند سالوں کے بعد ہی اللہ تعالیٰ نے جو فتح دی اس جیسی فتح عظیم نہ تاریخ نے دیکھی نہ سنی کہ جان کے دشمن نہ صرف مسلمان ہوگئے بلکہ آپؐ کے عاشق بن گئے، اپنی جانیں آپ پر نچھاور کرنے کی عملی تصویر بن گئے۔ دنیا پر یہ ثابت کر دیا کہ کوئی دشمن ہماری لاشوں پر سے گزرے بغیر آپﷺتک نہیں پہنچ سکتا اور جن کی قسمت میں ذلت و رسوائی لکھی تھی، انہیں اللہ تعالیٰ نے تباہ و برباد کر دیا۔ حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں کہ وہ فانی فی اللہ کی دعائیں ہی تھیں جو یہ انقلاب لائیں۔
(ماخوذ از برکات الدعاء، روحانی خزائن جلد 6 صفحہ 11)
پس آج بھی فانی فی اللہ کے غلامِ صادق کی دعائیں ہی ہیں جو اپنے وقت پر پوری ہوکر دنیا کو آنحضرتﷺکے قدموں کے نیچے لائیں گی لیکن حضرت مسیح موعود نے فرمایا تم جو میری طرف منسوب ہوتے ہو اپنی دعاؤں اور اپنے عمل سے میری مدد کرو۔
آج ہم اس مسجد میں بیٹھے ہیں، اس کا افتتاح کر رہے ہیں، اس کا نام بھی ’’فتحِ عظیم‘‘ مسجد رکھا ہے اور یہ نام حضرت مسیح موعود کے الہام اور پیش گوئی کے حوالے سے رکھا گیا ہے۔ آپنے اللہ تعالیٰ سے اطلاع پاکر ڈوئی کی ہلاکت کی پیش گوئی فرمائی تھی اور آپؑ نے فرمایا تھا کہ یہ نشان جس میں فتحِ عظیم ہوگی عنقریب ظاہر ہوگا۔
(ماخوذ از حقیقۃالوحی، روحانی خزائن جلد22 صفحہ511 حاشیہ)
اور دنیا نے دیکھا کہ پندرہ بیس دن کے اندر ہی اللہ تعالیٰ نے اسے ہلاک کر دیا اور بڑی ذلت سے ہلاک کردیا۔ اس سے پہلے اللہ تعالیٰ نے اس سے کیا سلوک کیا وہ ایک علیحدہ تفصیل ہے۔ بہرحال اس کی ہلاکت کے نشان کو اللہ تعالیٰ سے اطلاع پاکر آپؑ نے فتح عظیم قرار دیا اور آج اس کا اگلا قدم ہے جو اس شہر میں ہم مسجد کا افتتاح کررہے ہیں۔ آپؑ کے الہام کے ایک حصہ کو ہم نے تقریباً ایک سو پندرہ سال پہلے پورا ہوتے دیکھا اور اس کا اگلا قدم ہم آج پورا ہوتے دیکھ رہے ہیں۔ ایک سو پندرہ بیس سال پہلے اس وقت کے اخباروں نے جو دنیاوی اخبار ہیں انہوں نے حضرت مسیح موعود کے چیلنج کو اپنے اخباروں میں جگہ دی اور پھر اس کی ہلاکت کی بھی خبر دی۔ پس یہ خداتعالیٰ کا نشان تھا جسے دنیا نے مانا۔ ایک اخبار کے کچھ حصہ کا میں یہاں ذکر کر دیتا ہوں، زیادہ تو نہیں ہوسکتا۔ 23؍جون 1907ء کے The Sunday Herald Boston نے حضرت مسیح موعود کا تعارف لکھا۔ پھر آپؑ کا دعویٰ اور چیلنج لکھا۔ پھر ڈوئی کے حوالے سے لکھا۔ اسی اخبار کے کچھ الفاظ میں پیش کر دیتا ہوں۔ وہ کہتا ہے، اس نے ہیڈنگ یہ جمایا۔
عظیم ہے مرزا غلام احمد جو مسیح ہے جنہوں نے ڈوئی کے عبرت ناک انجام کی خبر دی اور اب وہ طاعون سیلاب اور زلزلے کی پیشگوئی کر رہے ہیں۔ یہ کہتا ہے کہ اگست کے تئیس دن گزرے تھے جب قادیان ہندوستان کے مرزا غلام احمد نےالیگزینڈر ڈوئی جو ایلیا ثانی کہلاتا تھا، اس کی موت کی خبر دی جو گذشتہ مارچ میں پوری ہوگئی۔ پھر کہتا ہے کہ یہ انڈین آدمی دنیا کے مشرقی علاقوں میں کئی سالوں سے شہرت رکھتا ہے۔ اس کا دعویٰ ہے کہ آخری زمانے میں جس سچے مسیح نے آنا تھا وہ میں ہوں اور خداتعالیٰ نے اسے عزت بخشی ہے۔ امریکہ میں پہلی دفعہ اس کا ذکر 1903ء میں ہوا جب ایلیا سوم کے ساتھ اس کا تنازعہ منظرِعام پر آیا۔ ڈوئی کی وفات کے بعد سے انڈین نبی نے شہرت کی بلندیوں کو چھؤا ہے کیونکہ اس نے ڈوئی کی وفات کا بتایا تھا کہ اس کی یعنی مرزا صاحب کی زندگی میں ہی نہایت دکھ اور تکلیف کے ساتھ اس کی وفات ہو جائے گی۔ پھر حضرت مسیح موعود کی طرف سے اس نے لکھا ہے کہ مسٹر ڈوئی اگر میری درخواست مباہلہ قبول کرے گا اور سراہتاً یا اشارةً میرے مقابل پر کھڑا ہوگا، تو میرے دیکھتے دیکھتے بڑی حسرت اور دکھ کے ساتھ اس دنیائے فانی کو چھوڑ دے گا۔
پھر کہتا ہے، حضرت مسیح موعود کی طرف سے لکھ رہا ہے کہ دیکھو اگر مسٹر ڈوئی اس مقابلے سے بھاگ گیا تو آج مَیں تمام امریکہ اور یورپ کے باشندوں کو اس بات پر گواہ کرتا ہوں کہ یہ طریق اس کا بھی شکست کی صورت سمجھی جائے گی اور نیز اس صورت میں پبلک کو یقین کرنا چاہیے کہ یہ تمام دعویٰ اس کا الیاس بننے کا محض زبان کا مکر اور فریب تھا اور اگرچہ وہ اس طرح موت سے بھاگنا چاہے گا، لیکن درحقیقت ایسے بھاری مقابلے سے گریز کرنا بھی ایک موت ہے۔ پس یقینا ًسمجھو کہ اس کے صیحون پر جلد تر ایک آفت آنے والی ہے کیونکہ ان دونوں صورتوں میں سے ضرور ایک صورت اسے پکڑ لے گی۔ اب میں اس مضمون کو اس دعا پر ختم کرتا ہوں کہ اے قادر اور کامل خدا! جو ہمیشہ نبیوں پر ظاہر ہوتا رہا ہے اور ظاہر ہوتا رہے گا، یہ فیصلہ جلد کر کہ پگٹ اور ڈوئی کا جھوٹ لوگوں پر ظاہر کر دے کیونکہ اس زمانے میں تیرے عاجز بندے اپنے جیسے انسان کی پرستش میں گرفتار ہوکر تجھ سے بہت دُور جا پڑے ہیں۔
پھر اخبار لکھتا ہے کہ شروع میں ڈوئی نے مشرقِ بعید کی طرف سے اس چیلنج پر کوئی عوامی توجہ نہیں دی لیکن 26؍ستمبر 1903ء کو اس نے اپنے زائن سٹی پبلیکیشن میں کہا کہ لوگ بعض دفعہ مجھ سے کہتے ہیں کہ تم اس طرح کی چیزوں کا جواب کیوں نہیں دیتے۔ کہتا ہے کیا تم سمجھتے ہو کہ مجھے ان مکھیوں اور مچھروں کا جواب دینا چاہیے۔ اگر میں اپنے پاؤں ان پر رکھ دوں تو انہیں کچل دوں۔ مَیں انہیں موقع دیتا ہوں کہ اڑ جائیں اور زندہ رہیں۔ صرف ایک دفعہ اس نے کسی بھی طرح سے یہ ظاہر کیا کہ اسے مرزا غلام احمد کے وجود کا علم ہے۔ اس نے مرزا صاحب کا بیوقوف محمدی مسیح کے نام سے ذکر کیا۔ نعوذباللہ۔ اور 12؍دسمبر 1903ء کو وہ لکھتا ہے اگر میں خدا کا نبی نہیں ہوں تو خدا کی زمین میں اَور کوئی بھی نہیں۔ اس کے بعد آنے والے جنوری میں اس نے لکھا کہ میرا کام یہ ہے کہ لوگوں کو مشرق، مغرب، شمال اور جنوب سے باہر نکالنا ہے اور انہیں اس اور دوسرے صیحونی شہروں میں آباد کرنا ہے اس وقت تک جب تک مسلمانوں کا خاتمہ نہیں ہو جاتا۔ اللہ ہمیں وہ وقت دکھائے۔ یہ اس ڈوئی نے لکھا جبکہ مرزا صاحب نے اسے سختی سے چیلنج کیا۔
اخبار پھر لکھتا ہے کہ مرزا صاحب نے سختی سے اسے چیلنج کیا کہ اللہ سے دعا کرو کہ ہم میں سے جو جھوٹا ہے وہ پہلے ہلاک ہو جائے۔ ڈوئی اس حالت میں مرا کہ اس کے دوست اسے چھوڑ کر جانے لگے اور قسمت خراب ہوگئی۔ وہ فالج اور جنون جیسے امراض میں مبتلا ہوگیا اور اسے عبرت ناک موت ملی۔
اس کے ساتھ صیحون شہر اندرونی اختلافات کے باعث تباہ و برباد ہوگیا۔ مرزا صاحب سامنے آئے ہیں اور انہوں نے واضح طور پر بیان کیا ہے کہ وہ چیلنج یا پیشگوئی جیت گئے ہیں اور وہ ہر سچائی کے طالب کو سچائی قبول کرنے کی دعوت دیتے ہیں جیساکہ انہوں نے اعلان کیا ہے۔ وہ اس آفت کو جو اُن کے امریکہ مخالف پر پڑی خدائی انتقام کے ساتھ ساتھ خدائی انصاف کی دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ جیساکہ ایک پیرو یعنی کوئی احمدی بیان کرتا ہے کہ دشمن کے مرنے پر خوشی نہیں کرنی چاہیے کہ ہم ڈوئی کی زندگی کے بعض مخصوص حالات کی طرف اشارہ کریں۔ اس طرح کی چیزیں ہمارے دماغوں میں بہت دور ہیں۔ ہم ان حقائق کو اپنے مقصد کے لیے اور مزید سچائی کے اظہار کے لیے شائع کرتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلام کا مقدس مذہب مُردوں کی برائی کرنے کی تعلیم نہیں دیتا لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ حقائق کو اس وقت چھپا لیا جائے جب ان کا ظاہر کرنا معاشرے کے حق میں اور انسانیت، سچائی اور خدا کی خاطر ہو۔ پھر احمدی کے حوالے سے ہی لکھتا ہے کہ ڈوئی پر مصائب نازل کر کے اور بالآخر اس کی بےوقت موت کے سبب غم اور عذاب نازل کرکے خداتعالیٰ نے اپنا فیصلہ سنا دیا ہے جیساکہ اس نے اپنے رسول کو اس واقعہ کے وقوع ہونے سے تین چار سال قبل بتا دیا تھا۔
(SUNDAY HERALD-BOSTON
23.06.1907- MAGAZINE SECTION)
یہ ایک اخبار کا نمونہ ہے جو میں نے پیش کیا ہے۔ یقیناً یہ فتح تھی اور حضرت مسیح موعود کی سچائی پر دلیل بھی تھی اور ہے لیکن جیساکہ مَیں نے کہا آپ کا مشن تو بہت وسیع ہے۔ یہ تو ایک محاذ کی ایک جگہ کی فتح کا ذکر ہے۔ ہماری حقیقی خوشی تو اس وقت ہو گی، جب ہم دنیا کو آنحضرتﷺکے قدموں کے نیچے لائیں گے۔ اس کے لیے ہمیں اب اس مسجد کے بننے کے ساتھ تبلیغ کے نئے راستے تلاش کرنے ہوں گے۔
مسیح محمدیؐ کے دلائل کو دنیا کے سامنے پیش کرنا ہوگا۔ پہلے سے بڑھ کر اپنی عملی اور روحانی حالت کو بہتر بنانا ہوگا۔ جیساکہ مَیں نے کہا اصل فتح عظیم تو فتح مکہ تھی۔ کیا فتح مکہ کے بعد آنحضرتﷺ اور خلفائے راشدین نے یا بعد کے مسلمانوں نے تبلیغ کے کام کو روک دیا تھا؟ کیا اسلام کے پیغام کو دنیا کے کناروں تک پہنچانے کی بھرپور کوشش نہیں کی تھی؟ جنگوں سے علاقے فتح نہیں کیے تھے؟ ہاں جنگیں بھی ہوئیں لیکن اس لیے نہیں کہ دین پھیلے بلکہ دل جیتے تھے جس سے قربانی کرنے والے لوگ گروہ دَر گروہ اسلام میں شامل ہوتے چلے گئے۔ پس حضرت مسیح موعود کے ذریعہ حاصل ہونے والی فتح کو مستقل تبلیغ اور دعاؤں سے دائمی کرنے کی ضرورت ہے۔
حضرت مسیح موعود کے ماننے والوں کا شمار ان آخرین میں ہوتا ہے جو پہلوں سے ملے۔ تو کیا پہلوں نے تبلیغ روک دی تھی؟ اپنی روحانی اور اخلاقی حالتوں میں بہتری روک دی تھی؟ عبادتوں کے معیار کم کر دیے تھے؟ جب تک یہ چیزیں مسلمانوں میں رہیں اسلام ترقی کرتا رہا اور مسلمانوں پر زوال اس وقت آنا شروع ہوا جب دنیا غالب آنے لگی اور تقویٰ کے معیار گرنے شروع ہو گئے۔ عبادتوں کی طرف توجہ کم ہوتی چلی گئی لیکن کیونکہ یہ بھی اللہ تعالیٰ کا آنحضرتﷺسے وعدہ تھا کہ قیامت تک اس دین کو قائم رکھنا ہے اور تمکنت عطا فرمانی ہے اس لیے آخری زمانے میں مسیح موعود اور مہدی معہود کو بھیجے گا اور پھر مسیح موعود کو بھیجا اور آپؑ نے دنیا کو اپنی بعثت کی خبر دی اور باوجود وسائل نہ ہونے کے یورپ اور امریکہ اور دنیا کے کئی ملکوں میں آپ کا پیغام پہنچا اور ڈوئی کے حوالے سے ہم دیکھ ہی رہے ہیں کہ کس شان سے پہنچا۔ آپ کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے جو اسلام کی نشأةثانیہ کا بیج بویا تھا وہ ایک شان سے دنیا میں پھیلتا پھولتا چلا جا رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ سے بےشمار وعدے فرمائے ہیں۔ آپؑ کو الہاماً فرمایا: خدا ایسا نہیں جو تجھے چھوڑ دے۔ خدا تجھے غیرمعمولی عزت دے گا۔ لوگ تجھے نہیں بچائیں گے پر میں تجھے بچاؤں گا۔
(ماخوذ از ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 442)
اور اس طرح کے بےشمار وعدے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے آپؑ سے کیے اور جماعت کی ایک سوتینتیس سالہ تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ اپنے وعدے پورے فرماتا چلا جا رہا ہے۔ آج جو جماعت دنیا کے 220ممالک میں پھیلی ہوئی ہے یہ اللہ تعالیٰ کا کام ہے کہ اس نے اس پیغام کو پہنچانے کے سامان فرمائے ہیں اور دنیا آج مرزا غلام احمد قادیانیؑ کو مسیح موعود اور مہدی معہود کے طور پر جانتی ہے۔ آپؑ نے ہر مخالف کو مقابل پر بلایا اور اسے راہِ فرار اختیار کرنے کے علاوہ چارہ نہ رہا یا اللہ تعالیٰ نے اسے تباہ و برباد کر دیا۔ ہاں انبیاء کی جماعتوں کی مخالفتیں جاری رہتی ہیں لیکن دشمن جو چاہتا ہے وہ حاصل نہیں کرسکتا۔ یہی جماعت احمدیہ کے ساتھ ہو رہا ہے۔ کون سا زور ہے جو دشمن نے پورے وسائل اور طاقتوں کے ساتھ جماعت کو ختم کرنے کے لیے نہیں لگایا اور اب بھی لگا رہے ہیں۔ کمزور ایمان اس سے ٹھوکر بھی کھاتے ہیں لیکن ایک جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ ہزاروں عطا فرماتا ہے۔
پس اگر ہمیں اخلاص کا دعویٰ ہے۔ ہم یہ اعلان کرتے ہیں کہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانیؑ وہی مسیح موعود اور مہدی معہود ہیں جن کے آنے کی پیش گوئی آنحضرتﷺنے فرمائی تھی، تو پھر ہمیں اپنی تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ اس مسیح و مہدی کا مددگار بننا ہوگا۔ وہ نمونہ دکھانا ہوگا جو صحابہؓ نے دکھایا۔
ہم نے مسلمانوں کو بھی دینِ واحد پر جمع کرکے ان کے اندر سے تمام بدعات کو ختم کرنا ہے اور غیرمسلموں کو بھی اسلام کی خوبصورت تعلیم سے آشنا کروا کر، انہیں خدائےواحد کی عبادت کرنے والا اور آنحضرتﷺپر درود بھیجنے والا بنانا ہے تبھی ہم حضرت مسیح موعود کی بیعت کا حق ادا کر سکتے ہیں ورنہ ہمارے بیعت کے دعوے کھوکھلے ہیں۔ اس کے حصول کے لیے ہمیں اپنی عبادتوں کے معیار اونچے کرنے ہوں گے ورنہ مسجدیں بنانا تو بےمقصد ہے اور یہ تبھی ہوسکتا ہے جب ہم اپنی زندگی کے مقصد کو پہچانیں۔ زندگی کا مقصد کیا ہے؟ حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں کہ انسان اپنی زندگی کا مقصد خود معین نہیں کرسکتا۔ یہ خدا ہے جس نے انسان کو پیدا کیا ہے اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ۔(الذاریات:57) یعنی میں نے جن و انس کو عبادت کے لیے پیدا کیا ہے۔
حضرت مسیح موعود نے اس آیت کی بےشمار مقامات پر وضاحت فرمائی ہے۔ ایک موقع پر آپؑ اس طرح وضاحت فرماتے ہیں:
اصل غرض انسان کی خلقت کی یہ ہے کہ وہ اپنے رب کو پہچانے۔ اور اس کی فرمانبرداری کرے جیساکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ۔ مَیں نے جن اور انس کو اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں مگر افسوس کی بات ہے کہ اکثر لوگ جو دنیا میں آتے ہیں بالغ ہونے کے بعد بجائے اس کے کہ اپنے فرض کو سمجھیں اور اپنی زندگی کی غرض اور غایت کو مدّنظر رکھیں وہ خداتعالیٰ کو چھوڑ کر دنیا کی طرف مائل ہو جاتے ہیں اور دنیا کا مال اور اس کی عزتوں کے ایسے دلدادہ ہوتے ہیں کہ خدا کا حصہ بہت ہی تھوڑا ہوتا ہے اور بہت لوگوں کے دل میں تو ہوتا ہی نہیں۔ وہ دنیا ہی میں منہمک اور فنا ہو جاتے ہیں۔ انہیں خبر بھی نہیں ہوتی کہ خدا بھی کوئی ہے۔ ہاں اس وقت پتہ لگتا ہے جب قابض ارواح آکر جان نکال لیتا ہے۔ (ملفوظات جلد7 صفحہ177-178ایڈیشن1984ء) جب موت کا وقت آجاتا ہے۔ ہم جو زمانے کے امام کو ماننے کا دعویٰ کرتے ہیں ہمارا تو یہ کام نہیں کہ اس طرح زندگی گزاریں۔ ہمیں تو اس زندگی کے مقصد کو پہچاننے کی کوشش کرتے ہوئے عبادت کا حق ادا کرنا چاہیے۔ اس خوبصورت مسجد کی طرف لوگوں کی توجہ تبھی پیدا ہوگی، تبھی ہم اسلام کا پیغام حقیقی رنگ میں آگے پہنچا سکیں گے، تبھی ہم مسیح موعودؑ کے مشن کو پورا کر سکیں گے جب ہم اپنی کوششوں کو اللہ تعالیٰ کی مدد سے حاصل کرنے کی کوشش کریں اور یہ اس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک ہم اپنی عبادتوں کے حق ادا کرنے والے نہ ہوں۔ پس ہر احمدی اس پر سوچے اور اس کو اپنی زندگی کا حصہ بنانے کی کوشش کرے کہ اس کی عبادت کے حق ادا کرنے ہیں تاکہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرتے ہوئے اپنی دنیا و عاقبت سنوارنے والے بن سکیں۔
پس آج اس مسجد کا افتتاح عظیم تب بنے گا جب ہم اس حقیقت کو پہچان لیں کہ ہماری زندگی کا مقصد کیا ہے ورنہ دنیا میں بےشمار مسجدیں ہیں جو خوبصورت ہیں۔ بہت اعلیٰ ہیں لیکن وہاں آنے والے اپنے مقصد پیدائش کو پورا کرنے والے نہیں۔ عبادت صرف اتنی نہیں کہ جلدی جلدی پانچ نمازیں یا چند نمازیں ٹھونگے مار کر پڑھ لیں بلکہ عبادت یہ ہے کہ جو نماز کا حق ہے وہ ادا کیا جائے۔ اسے سنوار کر پڑھا جائے۔ آنحضرتﷺ نے ایک شخص کو تین چار مرتبہ، بار بار نماز پڑھنے کا اس لیے ارشاد فرمایا کہ آپؐ کے نزدیک وہ نماز کا حق ادا نہیں کررہا تھا اور جس طرح سنوار کر نماز پڑھنی چاہیے اس طرح نہیں پڑھ رہا تھا۔
(صحیح البخاری کتاب الاذان باب وجوب القراءۃ للامام …حدیث 757)
پس نمازوں کو بھی اس کا حق ادا کرتے ہوئے ادا کریں تو پھر اللہ تعالیٰ کا قرب بھی ہمیں ملتا ہے اور اسی طرح عبادتوں کی مقبولیت تب ہوتی ہے جب اللہ تعالیٰ کے بندوں کا بھی حق ادا کیا جا رہا ہو۔ جو لوگوں کے حق مارنے والے ہیں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ان کی نمازیں ان کے لیے ہلاکت کا سامان ہیں وہ ان کے منہ پر ماری جائیں گی۔ پس ہمارا مقصد مسجدوں کو آباد کرنا اور اللہ تعالیٰ کے حکموں پر چلتے ہوئے آباد کرنا ہے اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لیے ادا کرنا ہے اور ہوناچاہیے۔
جس شخص کو حضرت مسیح موعود نے چیلنج دیا تھا، وہ کیا چاہتا تھا؟ وہ دین کے نام پر دنیا میں اپنی حکومت چاہتا تھا۔ اس کے لیے اس نے مسیح کا نام استعمال کیا۔ بڑے دعوے کیے کہ وہ مسیحِ محمدیؐ کے ساتھ یہ کر دے گا وہ کر دے گا جیساکہ میں نے ایک اخبار کے حوالے سے بیان کیا ہے۔ اور جب حضرت مسیح موعود نے اسے دعا کا چیلنج دیا تو پھر اس کا انجام ظاہر ہوگیا۔ دنیا نے ہر طرح سے ڈوئی کی ذلت و رسوائی دیکھی۔ اتنا واضح نشان ظاہر ہوا کہ اخباروں نے بھی اعتراف کیا کیونکہ اس کے بغیر چارا نہیں تھا اور مرزا غلام احمدؑ کو عظیم قرار دینے پر مجبور ہوگئے، لیکن کیا اس عظیم فتح کی خوشی میں ہم صرف ایک یادگار مسجد بنا دیں اور خوش ہو جائیں۔ جیساکہ مَیں نے کہا ہے۔ ہم نے حضرت مسیح موعود کی دعاؤں کے پھل کھائے اور کھا رہے ہیں لیکن حضرت مسیح موعود نے اپنے ماننے والوں کو بھی انہی قدموں پر چلنے کی تلقین فرمائی ہے جو اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنےکے راستے ہیں۔ حضرت مسیح موعود نے چیلنج صرف ہلاک کرنے کے لیے نہیں دیا تھا بلکہ اسلام کی عظمت قائم کرنے کے لیے دیا تھا، دنیا کو اسلام کے جھنڈے تلے لانے کے لیے دیا تھا۔ اس لیے دیا تھا کہ اب مسیح محمدیؐ کی حکومت دنیا میں قائم ہونی ہے، جس نے حضرت محمد رسول اللہﷺکے جھنڈے کو بلند کرتے ہوئے خدائے واحد کی حکومت کو دنیا میں قائم کرنا ہے۔
پس آج یہ ہمارا کام ہے جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم مسیح موعودؑ کی جماعت میں شامل ہوئے ہیں کہ مسیح محمدیؐ کے پیغام کو ملک کے کونے کونے میں پھیلا دیں یہ ہمارا کام ہے۔ خداتعالیٰ کی وحدانیت ان پر ثابت کریں اور یہ کام اس وقت ہوگا جب ہم اپنا بھی خداتعالیٰ سے تعلق پیدا کریں گے۔ تقویٰ میں بڑھیں گے۔
حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں:
ہماری جماعت کے لئے خاص کر تقویٰ کی ضرورت ہے۔ خصوصاً اس خیال سے بھی کہ وہ ایک ایسے شخص سے تعلق رکھتے ہیں… جس کا دعویٰ ماموریت کا ہے تا وہ لوگ جو خواہ کسی قسم کے بغضوں، کینوں یا شرکوں میں مبتلا تھے یا کیسے ہی رو بہ دنیا تھے ان تمام آفات سے نجات پاویں۔(ملفوظات جلد اوّل صفحہ 10ایڈیشن1984ء)
پس اپنی اندرونی صفائی بھی بہت ضروری ہے اور جب یہ اندرونی صفائی ہوگی تو تقویٰ پیدا ہوگا تو پھر دنیا دیکھے گی کہ نشانات پر نشانات ظاہر ہوتے چلے جائیں گے اور یہی وہ مقام ہے جہاں فتوحات کے مزید راستے کھلتے چلے جائیں گے،ان شاءاللہ۔ اور یہی وہ حالت ہے کہ فتحِ عظیم کی حقیقت کو بھی ہم دیکھیں گے۔
پس اے مسیح محمدیؐ کے غلامو! ہر فتح کا نشان ہمارے اندر ایک انقلاب پیدا کرنے والا ہونا چاہیے۔ پس یہ عہد کریں کہ آج کا دن ہمارے اندر ایک روحانی انقلاب لانے کا دن ہوگا۔ ہمارے بچوں کے لیے، ہماری نسلوں کے لیے بھی روحانی انقلاب لانے کا دن ہوگا اور ہونا چاہیے ورنہ ڈوئی کی ہلاکت سے یا اس شہر کے لوگوں کی ڈوئی کے نام سے عدم واقفیت سے ہمیں کیا فائدہ پہنچ سکتا ہے کہ ہم نے ان کو متعارف کرا دیا یہ جانتے نہیں تھے۔ فائدہ تو تبھی ہے جب اس فتح عظیم کی پیش گوئی کے پورا ہونے سے ہمارے اندر بھی ایک انقلاب پیدا ہو، ایک انقلابِ عظیم پیدا ہو اور ہمارے اہلِ وطن بھی اور دنیا بھی حضرت محمد رسول اللہﷺکی غلامی کا جُوا اپنی گردن پر ڈال لے۔ خداتعالیٰ کی وحدانیت کی قائل ہو جائے اور اس کے لیے ہر قربانی کرنے کے لیے تیار ہو جائے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اور ہماری نسلوں کو یہ مقام حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (خطبہ جمعہ فرمودہ مؤرخہ 30 ستمبر 2022ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 21؍اکتوبر 2022ء صفحہ5)

متعلقہ مضمون

  • جلسہ روحانی پیاس بجھانے کا موقع

  • خطبہ جمعہ فرمودہ 10 اپریل 2009ء کا متن

  • کیا اللہ تعالیٰ اپنے بندے کے لیے کافی نہیں؟

  • جِن کو نِشانِ حضرتِ باری ہوا نصیب