اگر آپ کو جرمنی کے چوتھے بڑے شہر کولون جانے کا اتفاق ہو تومرکزی ریلوے سٹیشن سے باہر نکلتے ہی آپ کی نظر ایک بلندوبالا عمارت پر پڑے گی جو جرمن زبان میں  Kölner Dom کہلاتی ہے یعنی کولون کا کیتھیڈرل۔ جرمنی کے شیردریا ’’رائن‘‘کے کنارے واقع اس تاریخی Domکی تعمیر چھ سو سال سے زائد عرصہ تک جاری رہنے کے بعد 1880ء میں مکمل ہوئی۔ یہ اپنی اونچائی میں جرمنی کا دوسرا بڑا Dom ہے۔ دُنیا بھر سے اس کلیسا کو دیکھنے کے لئے ہر سال لاکھوں لوگ کولون آتے ہیں۔

دسمبر 2023ء کے آخر میں  Kölner کا یہ کلیسا خبروں کا مرکز بنا رہا۔ کیونکہ چند دہشت گردوں نے اسے تباہ کرنے کی دھمکی دی اور بعض خبروں کے مطابق منصوبہ بھی بنایا تھا۔ افسوس اس امر کا ہے کہ یہ لوگ خود کو مسلمان کہتے ہیں حالانکہ اسلام ہر مذہب کی عبادت گاہ کے تحفّظ اور تعظیم وتکریم کا حکم دیتا ہے اور ہر اسلامی حکومت کا فرض قرار دیتا ہے کہ وہ ہر مذہب کی عبادت گاہ کو تحفظ فراہم کرے۔

یہ خبر سنتے ہی کولون کے ریجنل مربی سلسلہ مکرم مولانا محمود احمد ملہی صاحب نے فوراً جماعت احمدیہ کی نمائندگی میں اس کی حفاظت کے لئے اپنی خدمات پیش کر دیں۔ اس کے لئے موصوف نے ہنگامی طور پر بینرز تیارکروائے اور احمدی خدام و انصار کو جمع کرکے کہا کہ اسلام تمام عبادت گاہوں کے تحفظ کی تعلیم دیتا ہے لہٰذا ہم عملاً بھی اس کام کو انجام دیں گے۔ پھر متعلّقہ انتظامیہ سے رابطہ کرکے اپنے پروگرام سے آگاہ کیا اور اپنے ساتھیوں کو Dom پر لے جاکر کھڑے ہوگئے اور اعلان کیا کہ قرآن کریم کی تعلیم کے مطابق ہم اس کی حفاظت کریں گے۔ انہوں نے بڑے بڑے بینرز اُٹھا رکھے تھے جن پر بزبان جرمن جلی حروف میں لکھا تھا:

’’ مَیں مسلمان ہوں اور میرا فرض ہے کہ عبادت گاہوں کو تحفظ دوں لہٰذا مَیں چرچ کی حفاظت کروں گا “۔

احمدیوں کے اس ردِّعمل سے دہشت گردی کی منفی خبر فوراً مثبت خبر میں بدل گئی اور بہت سے اخبارات اور TV چینلز کےنمائندے وہاں پہنچ گئے اور انہوں نے ان دیوانوں کی تصاویر نشر کرنی شروع کردیں اور اس قدر جلد یہ خبر پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر شہرت پکڑ گئی کہ خاکسار جب کام سے گھر واپس لَوٹا تو میرے جرمن ہمسائے کلاؤس وولف نے مجھے کہا کہ آج تو تم لوگوں نے کمال کردیا۔ مَیں نے حیرت واستعجاب کے عالم میں پوچھا کہ کونسا کمال؟ تواُس نے مجھے اس کی تفصیل بتائی۔ خاکسار نے فوراً مکرم ملہی صاحب مربی سلسلہ کولون کو فون کیا تو انہوں نے اس واقعہ اور پروگرام کی تفصیل بتائی کہ وہاں اس قدر اخباری نمائندے اور TVرپورٹر آگئے تھے کہ وقت کا احساس رہا اور نہ ہی کھانے پینےیا کسی سے رابطہ کرنے کا موقع ملا۔ اس طرح سے ہر قسم کے ذرائع ابلاغ پر اس خبر کا بہت چرچا ہوا ہے اور ہر شخص کی زبان پر ہے کہ اسلام کی نہایت خوبصورت تصویر تم لوگوں نے اپنے عمل سے پیش کی ہے۔ جس سےدہشت گردی والی اُس منفی خبر کا اثر ختم ہوگیا ہے بلکہ اب خبریں سراسر اسلام کے حق میں ہوگئی ہیں اور ہر طرف یہ شہرت ہو رہی ہے کہ مسلمان چرچ کی حفاظت کر رہے ہیں۔

یہ اللہ تعالیٰ کا بےحد احسان ہے کہ آج صرف جماعت احمدیہ ہی ہے جو اسلام کی خوبصورت، پُرامن اور محبّت کی تعلیم دنیا میں پھیلا رہی ہے اور خدا اس جماعت کی خاطر ہوا کا رُخ ہی بدل دیتا ہے اور خود احمدیت کا پیغام چہاردانگ عالم میں پھیلا رہا ہے۔ حیرت ہے ان لوگوں پر جو احمدیوں کو مسلمان نہیں سمجھتے حالانکہ احمدی خود کو مسلمان بھی کہتے ہیں اور اسلام اور بانی اسلامﷺ کی تعلیم کو دل و جان سے مانتے اور اس پر عمل کرکے بھی دکھاتے ہیں اور اسلام اور رسول کریمﷺ کی طرف چلنے والا ہر تیر اپنے سینے پر لیتے ہیں اور عزم لئے ہوئے ہیں کہ جب تک جان ہے ہم طلحہ کا ہاتھ بن کر رسول کریمﷺ اور آپ کے پاک دین کا دفاع کرتے رہیں گے۔ اس راہ میں گالیاں بھی کھانی پڑیں اور ماریں بھی مگر اسلام کی پُرامن تبلیغ سے ایک قدم پیچھے نہیں ہٹیں گے۔

کچھ ایسے مست ہیں وہ رُخ خوب یار سے

ڈرتے کبھی نہیں ہیں وہ دشمن کے وار سے

دوسرے ممالک کی طرح جرمنی کے طول وعرض میں بھی تبلیغی سٹالز لگائے جاتےہیں اور اکثر یہ واقعہ ہوا کہ دشمن اسلام لوگوں نے آکر وہ سٹال اُلٹ دیا یا کتابیں اُٹھاکر پھینک دیں یا گالیاں دینی شروع کردیں کہ اسلام کا اس ملک میں کیا کام ہے؟ صبر و تحمل سے بات کرنے کے بعد اور اسلام کی سچی اور حقیقی تعلیم پیش کرنے کے بعد بسااوقات ایسے لوگوں کے دل نرم بھی ہوگئے۔ مگر ابھی تک یہ سلسلہ جاری ہے۔

کولون میں ہونے والے ایسےمواقع پر مجھے ہمیشہ یہ خیال آتا ہے کہ وہ مسلمان کہاں ہیں جو اسلام اور بانی اسلام سے محبّت کا دعویٰ کرتے ہیں؟ وہ کہاں جاکر سو رہے ہیں جو جہاد کے داعی ہیں اور جماعت احمدیہ کو جہاد کا منکر کہتے ہیں لیکن جب عملاً جہاد کا وقت آتا ہے تو وہ صرف اپنے ملکوں میں آگیں لگاکر یہ سمجھ لیتےہیں کہ انہوں نے اسلام کی خدمت انجام دے دی اور صرف زبانی بڑیں ہانکتے رہتے ہیں۔

شمشیر زباں سے گھر بیٹھے دشمن کومارے جاتے ہوں

میدان عمل کا نام بھی لو تو جھینپتے ہوں گھبراتے ہوں

مگر احمدی جہاد کے وقت چھاتی تان کر ان کے ملکوں میں کھڑے ہوتے ہیں اور دشمن کے وار جھیلتے ہیں اور خدا بھی اس کےبدلے اپنے انعاموں سے نوازتا ہے۔

ہم نے کانٹوں کی سختیاں جھیلیں

ہم ہی پھولوں سے بہرہ مند ہوئے

جماعت احمدیہ ان ملکوں کی ہر گلی محلے میں موجود ہے اور اسلام کا پیارا چہرہ پیش کرنے اوراسلام کی حسین تعلیم پھیلانے کے لئے قرآن کریم کے تراجم کر رہی ہے۔ اسلامی لٹریچر شائع کر رہی ہے۔ مساجد تعمیر کررہی ہے۔ ٹی وی اور ریڈیو کے مذاکرات میں سوالات کےتیر ونشتر کا سامنا کرتی ہے۔ اخبارات و رسائل میں خطوط اور مضامین لکھ کر اسلام کے خلاف پھیلائی گئی غلط فہمیاں دورکررہی ہے اور ساتھ ساتھ بےآسرا، بےیار و مددگار لوگوں کی خدمت بھی کر رہی ہے۔ اور جب بھی اسلام پر کوئی کڑا وقت آتا ہے تو جماعت احمدیہ مسلمہ ہی پہلی صف میں کھڑی ہوتی ہے اور اسلام کے خلاف ہر ظلم وستم کے خلاف آواز بھی بلند کرتی ہے مگر جاہلانہ ردّعمل اور بےکار احتجاج سے گریز کرتی ہے۔ احمدی مسلمانوں نے ہمیشہ دلائل کا ایسا انداز اپنایا کہ اسلام کی شان اورسچائی بھی ثابت کردی اور کسی کے جذبات بھی مجروح نہ ہوئے۔

ایسے بہت سے نظارے پچھلے چند ماہ سے پوری دنیا میں دیکھنے کو آرہےہیں کہ جب سے فلسطینیوں پر ظلم وستم اور بربریت جاری ہے اور ان کو بےگناہ مارا جا رہا ہے جماعت احمدیہ مسلمہ ہر لحاظ سے اس ظلم کے خلاف آواز اٹھا رہی ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ہر خطبہ جمعہ میں اس ظلم و بربریت کا ذکر فرما رہے ہیں خود بھی دعا کررہے ہیں اور احمدیوں کو بھی دعا کی تحریک فرمارہے ہیں اور ساتھ ساتھ ہدایات بھی دے رہے ہیں کہ اس ظلم وستم کو بند کروانے کےلئے اپنی آواز بھی بلند کریں۔ چنانچہ دنیا کے کونےکونے اور ہر ملک و دیار میں احمدی مسلمان، فلسطینیوں کے حق میں آواز بلند کررہے ہیں اور ظلم بند کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں اور بتا رہے ہیں کہ یہ جنگ دہشت گردوں کے خلاف نہیں بلکہ سراسر معصوم اور بےگناہ لوگوں کے خلاف ہے جس میں معصوم بچوں، عورتوں، مردوں کو بےدریغ اور سفاکانہ طریق سے قتل کیا جا رہا ہے۔

اخبارات، ریڈیو اور ٹی وی میں بھی احمدی لوگ ہی اس ظلم کے خلاف آواز بلند کرتے نظر آتےہیں گو دوسرے مسلمان بھی ہیں مگر احمدی مسلمانوں کی آواز بہت بلند ہے۔ جرمنی کے سب سے زیادہ دیکھےجانے والی ٹی وی چینل ZDF میں محترمہ خولہ ہبش صاحبہ کا انٹرویو بہت عمدہ تھا اور انہوں نے فلسطینیوں کا کیس بہت اچھے انداز میں پیش کیا۔ مکرم محمود ملہی صاحب مربی سلسلہ کا انٹرویو بھی اسی ٹی وی نے نشر کیا۔ اسی طرح دوسرے ٹی وی چینلز پر بھی جماعت کے علماء اور مربیان کے انٹرویو نشر ہوئے۔ نیز بے شمار سیاسی پارٹیوں اور سیاسی لیڈروں سے رابطہ کرکے ان کے ضمیر کو جھنجوڑا گیا۔ آخر کیوں احمدی مسلمان ہی ہر موقع پر اسلام کے دفاع کے لئے نکل کھڑے ہوتے ہیں اور کیوں دوسرے دعویٰ دارانِ محبّت کو یہ توفیق نہیں ملتی؟ یہ اس لئے ہے کہ بانی جماعت احمدیہ حضرت مسیح موعود نے اسلام اور بانی اسلامﷺ کی ایسی محبّت احمدی مسلمانوں کے دل میں بھر دی ہے کہ وہ چین سے سونہیں سکتے اور ہر وقت خدمتِ اسلام اور خدمتِ انسانیت کے مواقع اور بہانے ڈھوندتے ہیں اور اسلام کا ضعف اور تنزل نہیں دیکھ سکتے اور اسلام کا پرچم سربلند دیکھنا چاہتے ہیں اور ایسا اس لیے ہے کہ حضرت مسیح موعود نے اپنے دل کی تپش احمدیوں کے دلوں میں منتقل کر دی ہے مگر اس کو غیر نہیں سمجھ سکتا کہ

اس تپش کو میری وہ جانے جو رکھتا ہے تپش

اس اَلم کو میرے وہ سمجھے کہ ہے وہ دل فگار

(محمد انیس دیالگڑھی)

(اخبار احمدیہ جرمنی شمارہ فروری 2024ء صفحہ 31)

متعلقہ مضمون

  • جلسہ سالانہ کی اہمیت

  • جلسہ گاہ میں ایک تعارفی پروگرام

  • پہلا جلسہ سالانہ جرمنی

  • جماعتِ احمدیہ جرمنی کے ایک جفا کش دیرینہ خادم