روئے زمین پر اب کوئی کتاب نہیں مگر قرآن

سیدنا حضرت مسیحِ موعودؑ فرماتے ہیں

اور تمہارے لئے ایک ضروری تعلیم یہ ہے کہ قرآن شریف کو مہجور کی طرح نہ چھوڑ دو کہ تمہاری اسی میں زندگی ہے جو لوگ قرآن کو عزت دیں گے وہ آسمان پر عزت پائیں گے جو لوگ ہر ایک حدیث اور ہر ایک قول پر قرآن کو مقدم رکھیں گے ان کو آسمان پر مقدم رکھا جائے گا۔ نوع انسانی کے لئے روئے زمین پر اب کوئی کتاب نہیں مگر قرآن۔ (کشتی نوح، روحانی خزائن جلد 19صفحہ 15)

حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ فرماتے ہیں

مَیں نے تو آج تک نہ کوئی ایسی کتاب دیکھی اور نہ مجھے کوئی ایسا آدمی ملا جس نے مجھے کوئی ایسی بات بتائی جو قرآنِ کریم کی تعلیم سے بڑھ کر ہو یا کم از کم قرآنِ کریم کی تعلیم کے برابر ہو۔ محمدﷺکو خداتعالیٰ نے وہ علم بخشا ہے جس کے سامنے تمام علوم ہیچ ہیں۔ چودھویں صدی علمی ترقی کے لحاظ سے ایک ممتاز صدی ہے۔ اس میں بڑے بڑے علوم نکلے۔ بڑی بڑی ایجاد یں ہوئیں اور بڑے بڑے سائنس کے عقدے حل ہوئے مگر یہ تمام علوم محمد عربیﷺکے علم کی گر د کو بھی نہیں پہنچ سکتے۔ (الفضل 30؍جون 1939ء)

حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ فرماتے ہیں

یہ قرآن اللہ کے سوا اور کا بنایا ہوا نہیں۔ لیکن تصدیق ہے اس کتاب کی جو اس کے آگے ہے۔ عیسائی علماء نے عدم فہمیٔ قرآن سے تصدیق و مصدق کو جو قرآن میں جابجا آیا ہے کچھ اور سمجھ کر خامہ فرسائی کی ہے۔ اصل مطلب یہ ہے کہ موسیٰؑ نے پیشن گوئی کی کہ میرے مثل ایک نبی پیدا ہوگا۔ اور خدا کا کلام اس کے منہ میں ڈالا جائے گا۔ اور یہ خبر اپنے وقوع کی محتاج تھی۔ ضرور تھا کہ موسیٰؑ کی پیشن گوئی پوری ہو۔ پس آنحضرتﷺ کے وجودِ مبارک اور قرآنِ کریم نے اس کو پورا کر دیا۔ اب موسیٰؑ کی پیشن گوئی کی تصدیق ہوگئی۔ پس تصدیق و مصدّق کے لفظ کے یہی معنی ہیں۔ اب اگر قرآن کو سچّا نہ مانیں اور آنحضرتﷺکو حضرت موسیٰؑ کا مثیل ہونا تسلیم نہ کریں۔ بایں کہ آپؐ نے یہ دعویٰ بڑے زور سے کیا اور خدا نے انہیں کامیاب کیا۔ تو کتبِ مقدّسہ کی اقدم و اعظم کتاب توریت کی تکذیب لازم آتی ہے۔ (فصل الخطاب، ایڈیشن دوم حصہ دوم صفحہ92)

حضرت خلیفۃ المسیح الثالث فرماتے ہیں

آئندہ نسلیں بھی نیک نام سے یاد کریں۔ ہمارے لیے دعا کرنے والی ہوں اور خدا کے حضور گڑگڑانے والی ہوں کہ اے خدا ان لوگوں پر اپنی زیادہ سے زیادہ رحمتیں نازل کرتا چلا جا۔ تو ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم قرآن کریم کو سیکھیں، جانیں اور اس کی اتباع کریں اور اس کو ہروقت اپنے سامنے رکھیں۔ اس لیے مَیں نے قرآن کریم سیکھنے اور سکھانےکی طرف جماعت کو توجہ دلائی تھی۔ (خطباتِ ناصر جلد اوّل صفحہ 298، یکم جولائی 1966ء)

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع فرماتے ہیں

قرآنِ کریم کی تذکیر کے رنگ بھی بڑے نرالے، انوکھے اور بہت پیارے ہیں۔ انسانی فطرت کا کوئی ایک پہلو بھی ایسا نہیں جس کی طرف توجہ دلا کر انسان کی اصلاح ممکن ہو اور قرآنِ کریم نے اس کی طرف نہ دلائی ہو۔ چنانچہ قرآنِ کریم انسانی فطرت کے بہت باریک اور لطیف نکتے اٹھاتا ہے اور ان کی طرف انسان کی توجہ مبذول کرواتا ہے، انسان کو اپنی حقیقت اور کم مائیگی سے آگاہ کرتا ہے، اس کی حیثیت یاد کراتا ہے اور پھر اس کے لیے مایوسی کی بجائے امید کی نئی کھڑکیاں کھول دیتا ہے یعنی انسان جب اپنی حقیقت سے پوری طرح آگاہ ہو کر مٹی ہوجاتا ہے تو پھر اسے اٹھاتا ہے۔ (خطبات طاہر، جلد دوم صفحہ 375، 15 جولائی 1982ء)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

آج ہم احمدیوں کی ذمہ داری ہے، ہر احمدی کی ذمہ داری ہے کہ وہ قرآنی تعلیم پر نہ صرف عمل کرنے والا ہو، اپنے پرلاگو کرنے والا ہوبلکہ آگے بھی پھیلائے اور حضرت مسیح موعود کے مشن کو آگے بڑھائے۔… ہمیشہ حضرت مسیح موعود  کا یہ فقرہ ہمارے ذہن میں ہونا چاہئے کہ جو لوگ قرآن کو عزّت دیں گے وہ آسمان پر عزت پائیں گے۔ ہم ہمیشہ قرآن کے ہر حکم اور ہر لفظ کو عزت دینے والے ہوں۔ اور عزّت اس وقت ہوگی جب ہم اس پر عمل کر رہے ہوں گے۔ اور جب ہم اس طرح کررہے ہوں گے تو قرآنِ کریم ہمیں ہر پریشانی سے نجات دلانے والا اور ہمارے لئے رحمت کی چھتری ہوگا۔ جیسا کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ وَنُنَزِّلُ مِنَ الۡقُرۡاٰنِ مَا ہُوَ شِفَآءٌ وَّرَحۡمَۃٌ لِّلۡمُؤۡمِنِیۡنَ ۙ وَلَا یَزِیۡدُ الظّٰلِمِیۡنَ اِلَّا خَسَارًا (بنی اسرائیل:83)۔ (خطبہ جمعہ فرمودہ 21؍ اکتوبر 2005ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 11؍نومبر2005ء صفحہ 6)