مرتبّہ: محمد انیس دیالگڑھی

2 فروری 1900ء کو حضرت مسیح موعودؑ نے خطبہ عیدالفطر ارشاد فرمایا جو بعد میں ’’روئداد جلسہ دعا‘‘کے نام سے شائع ہوا۔ اس میں انگریز حکومت سے قبل کے حالات بیان کرتے ہوئے فرمایا:

ہم پر سکھوں کا ایک زمانہ گذرا ہے اس وقت مسلمانوں پر جس قدر آفتیں حائل تھیں وہ پوشیدہ نہیں ہیں اُن کی یاد سے بدن پر لرزہ پڑتا ہے اور دل کانپ اٹھتا ہے۔ اُس وقت مسلمانوں کو عبادات اور فرائض مذہبی کی بجا آوری سے جن کا بجا لانا ان کو جان سے عزیز تر ہے روکا گیا تھا۔ بانگِ نماز جو نماز کا مقدمہ ہے اس کو بآواز بلند پکارنے سے منع کیا گیا تھا۔ اگر کبھی مؤذّن کے منہ سے سہواً اللہ اکبر بآواز بلند نکل جاتا تو اُس کو مار ڈالا جاتا تھا اِسی طرح پر مسلمانوں کے حلال و حرام کے معاملہ میں بیجا تصرّف کیا گیا تھا۔ ایک گائے کے مقدّمہ میں ایک دفعہ پانچ ہزار غریب مسلمان قتل کئے گئے۔ بٹالہ کا واقعہ ہے کہ ایک سیّد وہیں کا رہنے والا باہر سے دروازہ پر آیا وہاں گائیوں کا ہجوم تھا اس نے تلوار کی نوک سے ذرہ ہٹایا ایک گائے کے چمڑے کو اتفاق سے خفیف سی خراش پہنچ گئی اس بیچارہ کو پکڑ لیا گیا اوراِس امر پر زور دیا گیا کہ اس کو قتل کردیا جائے۔ آخر بڑی سفارشوں کے بعد جان سے بچ گیا لیکن اُس کا ہاتھ ضرور کاٹا گیا۔ مگر اب دیکھو کہ ہر قوم و مذہب کے لوگوں کو کیسی آزادی ہے۔

(روئیداد جلسہ دعا۔ روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 605)

پھرانگریزی گورنمنٹ کے امن اور آزادی کے دور کا ذکر کرتے ہوئے اس خطبہ میں بیان فرماتے ہیں:

یہ اَمن کی شرط انسان کے اپنے اختیار میں نہیں ہے جب سے دنیا پیدا ہوئی ہے اس کا انحصار علی الخصوص سلطنت پر رکھا گیا ہے۔ جس قدر سلطنت نیک نیّت اور اس کا دل کھوٹ سے پاک ہوگا اسی قدر یہ شرط زیادہ صفائی سے پوری ہوگی اب اس زمانہ میں امن کی شرط اعلیٰ درجہ پر پوری ہو رہی ہے۔ مَیں خوب یقین رکھتا ہوں کہ سِکھوں کے زمانہ کے دن انگریزوں کے زمانہ کی راتوں سے بھی کم درجہ پر تھے یہاں سے قریب ہی’بوٹر‘ ایک گاؤں ہے وہاں اگر یہاں سے کوئی عورت جایا کرتی تھی تو رو رو کر جایا کرتی تھی کہ خدا جانے پھر واپس آنا ہوگا یا نہیں۔ اب یہ حالت ہوگئی ہے کہ انسان زمین کی انتہا تک چلاجائے اس کو کسی قسم کا خطرہ نہیں سفر کے وسائل ایسے آسان کردیئے گئے ہیں کہ ہر ایک قسم کا آرام حاصل ہے گویا گھر کی طرح ریل میں بیٹھا ہوا یا سویا ہوا جہاں چاہے چلا جائے۔ مال و جان کی حفاظت کے لئے پولیس کا وسیع صیغہ موجود ہے۔ حقوق کی حفاظت کے لئے عدالتیں کھلی ہیں جہاں تک چاہے چارہ جوئی کرتا چلا جائے۔ یہ کس قدر احسان ہیں جو ہماری عملی آزادی کا موجب ہوئے ہیں۔ پس اگر ایسی حالت میں جبکہ جسم و رُوح پر بے انتہا احسان ہو رہے ہوں ہم میں صلح کاری اور شکرگزاری کا مادہ پیدا نہیں ہوتا تو تعجب کی بات ہے؟ جو مخلوق کا شکر نہیں کرتا وہ خداتعالیٰ کا بھی شکر ادا نہیں کرسکتا۔

آپ نے آزادی اور اَمن کے ماحول اور حکومت کے دیگر احسانات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:

یہ سب اُمور جو میں نے بیان کئے ہیں ایک نیک دل انسان کو مجبور کر دیتے ہیں کہ وہ ایسے محسن کا شکرگذار ہو یہی وجہ ہے کہ ہم بار بار اپنی تصنیفات میں اور اپنی تقریروں میں گورنمنٹ انگلشیہ کے احسانوں کا ذکر کرتے ہیں کیونکہ ہمارا دل واقعی اس کے احسانات کی لذّت سے بھرا ہوا ہے احسان فراموش نادان اپنی منافقانہ فطرتوں پر قیاس کرکے ہمارے اِس طریق عمل کو جو صدق و اخلاص سے پیدا ہوتا ہے جھوٹی خوشامد پر حمل کرتے ہیں۔

(روئیدادجلسہ دعا۔ روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 616،617)

جو یہ گمان رکھتا ہے کہ حضورؑ نے انگریزی حکومت کی خوشامد کے لئے یہ باتیں لکھی ہیں تو اس کو جان لینا چاہئے کہ حضرت مسیح موعودؑ کی ساری زندگی جھوٹے خداؤں کو مارنے میں صرف ہوئی اور خصوصاً عیسائیت کے عقیدے پر ایسی کاری ضرب لگائی کہ اس کا زور ٹوٹ گیا۔ آپ کی بےشمار تحریریں اور مناظرے اس بات کے شاہد ہیں کہ اگر کوئی مرد حق عیسائیت کے مقابلہ پر کھڑا ہوا تو وہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانیؑ ہی تھے۔ اور اس بات کے معترف غیراز جماعت لوگ بھی ہیں بلکہ ایسے لوگ بھی جو کہ احمدیت کے مخالف تھے۔

(اخبار احمدیہ جرمنی اپریل 2024ء صفحہ17)

متعلقہ مضمون

  • کتاب البریہ

  • ہر مخالف کو مقابل پہ بلایا ہم نے

  • الموعود

  • قادیان کے آریہ اور ہم