نوافل، ذکرِ الٰہی اور دعائیں

فدیہ کن حالات میں واجب ہوتا ہے اور اس کا صحیح مصرف کیا ہے

(از افاضات حضرت مرزا بشیر احمد صاحب قمرالانبیاء)

آج سے رمضان کا مبارک مہینہ شروع ہو رہا ہے۔ جو روزوں کے علاوہ نوافل اور دعاؤں اور ذکر الٰہی اور صدقہ و خیرات کا خاص مہینہ ہے اور اس میں کلام پاک کی تلاوت کا بھی زیادہ اہتمام کیاجاتا ہے۔ یہ عبادتیں ایسی ہیں کہ انہیں ملحوظ رکھ کر رمضان گزارنے والے انسان کے لئے (بشرطیکہ اس کی نیت صالح اور پاک ہو اور اس میں کوئی پہلو ریا وغیرہ کا نہ پایا جاوے) ناممکن ہے کہ وہ اس مبارک مہینہ کی برکات سے حصہ نہ پائے۔ اور خدائے رحیم و کریم کے دربار سے خالی ہاتھ لَوٹ جائے۔ بلکہ ہر شخص اپنی نیّت اور اپنے مجاہدہ کے مطابق پھل پاتا ہے اور محروم صرف وہی شخص رہتا ہے جس کی یا تو نیّت میں فتور ہے اور یا اس کی سعی و جہد ناقص ہے۔ پس دوستوں کو چاہئے کہ اس مبارک مہینہ کو ان تمام برکات سے معمور کرنے کی کوشش کریں جو میں نے اوپر بیان کی ہیں۔ یعنی:

(1) مسنون طریق پر روزہ رکھیں جو رمضان کی اصل اور بنیادی عبادت ہے اور جس کے متعلق خدا فرماتا ہے کہ اس کی جزاء میں خود ہوں۔

(2) فرض نمازوں کے علاوہ نفل نمازوں پر بھی زیادہ زور دیں۔ جن میں دو نمازیں خاص طور پر اہم ہیں۔ یعنی نماز تہجد اور نماز ضحی۔

(3) دعاؤں میں بڑھ چڑھ کر شغف دکھائیں اور انفرادی اور خاندانی دعاؤں کے علاوہ جماعتی دعاؤں کو بھی ہرگز نہ بھولیں بلکہ انہیں مقدّم کریں۔ جن میں اسلام اور احمدیت کی ترقی، آنحضرتﷺ اور حضرت مسیح موعود پر درود، حضرت خلیفۃالمسیح الثانی ایدہ اللہ کی صحت اور درازیٔ عمر، مبلغین سلسلہ کی کامیابی وکامرانی، دیگر کارکنانِ جماعت کی نصرت اور سلامت روی، قادیان اور ربوہ کی حفاظت اور استحکام کو خصوصیت سے ملحوظ رکھا جائے۔ دعاؤں کے متعلق مجھے آنحضرتﷺ کے یہ الفاظ نہیں بھولتے ’’اَلدُّعَاءُ مُخّْ الْعِبَادَۃِ‘‘یعنی دعا عبادت کے لئے گویا گودے کا حکم رکھتی ہے۔ جس طرح گودہ کے بغیر ایک ہڈی انسانی خوراک کے لحاظ سے ایک بیکار سی چیز ہوتی ہے اسی طرح وہ عبادت بھی ایک بےجان عبادت ہے جس میں دعا شامل نہ ہو۔

(4) ذکر الٰہی پر بہت زور دیا جائے اور نماز کے علاوہ دیگر اوقات کو بھی اس ذکر سے معمور رکھا جائے۔ اور جہاں تک ممکن ہو چلتے پھرتے، اُٹھتے بیٹھتے ذکرِالٰہی کی شیرینی سے اپنے دل و زبان کو تروتازہ رکھنے کی کوشش کی جائے۔ ذکرِ الٰہی میں کلمہ طیّبہ لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللہُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللہِ اور تسبیح و تحمید یعنی سُبْحَانَ اللہ وَبِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللہ الْعَظِیمِ بہترین اذکار ہیں۔ اسی طرح لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ إِلَّا بِاللہِ بھی بہت عمدہ اذکار میں سے ہے۔ اور خداتعالیٰ کی مختلف صفات یعنی اسماء حسنیٰ کو ان کی حقیقت پر غور کرتے ہوئے یاد کرنا اور ان کا ورد رکھنا روح کی بالیدگی کا ایک نہایت مجرب ذریعہ ہے۔

(5) رمضان کی ایک خصوصی برکت صدقہ و خیرات ہے۔ جس کے ذریعہ نہ صرف صدقہ دینے والاخدا کی عظیم الشان نعمتوں سے حصہ پاتا ہے اور تلخ تقدیریں دور ہوتی ہیں اور انسان کی کمزوریوں پر خدا کی ستاری کا پردہ پڑتا ہے بلکہ قوم کے غریب افراد کی ضروریات کے پورا ہونے کا بھی سامان پیدا ہوتا ہے۔ اور چونکہ رمضان میں غرباء کی ضروریا ت غیرمعمولی طور پر بڑھ جاتی ہیں اس لئے لازماً رمضان کا صدقہ و خیرات بہت زیادہ ثواب کا موجب ہوتا ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ رمضان میں آنحضرتﷺ کا دستِ مبارک صدقہ و خیرات میں اس طرح چلتا تھا جس طرح کہ ایک ایسی تیز آندھی چلتی ہے جو کسی روک کو خیال میں نہ لائے۔ اس صدقہ و خیرات کا بہترین مصرف اپنے ماحول کے غرباء اور مساکین ہیں۔ کیونکہ اس سے آپس کی محبّت اور اخوت اور ہمدردی اور مواخات کو ترقی حاصل ہوتی ہے۔ لیکن حسب حالات مرکز میں بھی صدقہ کی رقوم بھجوائی جاسکتی ہیں۔

(6) رمضان میں قرآن مجید کی تلاوت پر بھی خاص طور پر زور دیا جاتا ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ حضرت جبریل ہر رمضان میں آنحضرتﷺ کے ساتھ قرآن مجید کی تلاوت کا ایک دَور مکمل کرتے تھے۔ لیکن آخری سال جب کہ قرآن کا نزول مکمل ہوگیا تھا آپ نے تلاوت کے دو دَور مکمل کئے۔ چونکہ ہمارے لئے بھی قرآن مجید مکمل صورت میں ہے اس لئے ہمیں بھی حتی الوسع دو دَور پورے کرنے چاہئیں۔ اور ایک دور تو بہرحال ضروری ہے۔ اور قرآن کریم پڑھنے کا عمدہ طریق یہ ہے کہ ہر رحمت کی آیت پر دل میں دعا کی جائے اور ہر عذاب کی آیت پر استغفار کیا جائے۔ اس طرح تلاوت گویا ایک زندہ حقیقت بن جاتی ہے بلکہ ایک مجسم دعا۔

(7) ان عبادات کے علاوہ جن دوستوں کو توفیق ملے اور وہ اپنے فرائض منصبی سے فرصت پاسکیں اور ان کی صحت اور دیگر حالات بھی اجازت دیں تو انہیں رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف کی برکات سے بھی فائدہ اٹھانا چاہئے۔ اعتکاف گویا ایک وقتی اور محدود رہبانیت ہے۔ جس میں انسان چند دن کے لئے دنیا سے کٹ کر کلیتہً خدا کے لئے وقف ہو جاتا ہے اور اس میں ان تمام عبادات پر خاص زور دیا جاتا ہے جو رمضان کے عام ایام کے لئے اوپر بیان کی گئی ہیں۔

رمضان کا ایک خاص مسئلہ فدیہ کا مسئلہ ہے لیکن افسوس ہے کہ کئی لوگ فدیہ کی حقیقت سے واقف نہیں۔ اور ہربیماری یاسفر کی صورت میں فدیہ دے کر خیال کرنے لگ جاتے ہیں کہ اب ہم روزوں کی ذمہ داری سے آزاد ہوگئے ہیں۔ حالانکہ عام بیماری یا سفر کی صورت میں عِدَّۃٌ مِّنۡ اَیَّامٍ اُخَرَ کا حکم ہے نہ کہ فدیہ کا۔ یعنی ایسے لوگوں کو بیماری سے شفا پانے یا سفر کی حالت ختم ہونے کے بعد دوسرے ایام میں روزوں کی گنتی پوری کرنی چاہئے۔ فدیہ صرف ان لوگوں کے لئے ہے جو ضعف پیری یا دائم المرض ہونے کی وجہ سے دوسرے ایام میں روزوں کی گنتی پوری کرنے کی امید نہ رکھتے ہوں۔ یا وہ ایسی عورتوں کے لئے ہے جو حمل اور رضاعت کے طویل زمانہ کی وجہ سے گنتی پوری کرنے سے عملاً معذور ہوں۔ اسی لئے قرآن مجید میں فَعِدَّۃٌ مِّنۡ اَیَّامٍ اُخَرَ اور عَلَی الَّذِیۡنَ یُطِیۡقُوۡنَہٗ فِدۡیَۃٌ طَعَامُ مِسۡکِیۡنٍ کے احکام کو علیحدہ علیحدہ صور ت میں بیان کیا ہے۔

بہرحال جو بھائی بہن ضعف پیری یا دائم المرض ہونے کی وجہ سے یا حمل اور رضاعت کی مجبوری کی بناء پر رمضان کے بعد روزوں کی گنتی پوری کرنے کی امید نہ رکھتے ہوں ان کو روزوں کے بدل کے طور پر فدیہ ادا کرنا چاہئے جو فدیہ دینے والے کی حیثیت کے مطابق ہونا ضروری ہے۔ لیکن یاد رکھنا چاہئے کہ فدیہ صرف روزہ کا بدل ہے۔ رمضان کی باقی عبادات (مثلاًنوافل، دعائیں، تلاوت اور صدقہ و خیرات وغیرہ) اس طرح قائم رہتی ہیں اور ان میں فدیہ دینے کے باوجود حتی المقدور اور حسب استطاعت غفلت نہیں ہونی چاہئے۔ لَا یُکَلِّفُ اللہُ نَفْساً اِلَّا وُسْعَھَا۔ فدیہ نقدی کی صورت میں بھی دیا جاسکتا ہے اور طعام کی صورت میں بھی۔

فدیہ کی رقم تین طرح خرچ کی جاسکتی ہے: (اوّل) اپنے ماحول کے غرباء اور مساکین میں۔ (دوم) ربوہ کے مساکین کے لئے مرکز میں بھجوا کر۔ اور (سوم) قادیان کے غریب درویشوں کی مدّ میں ادا کرکے۔ جن میں سے آج کل کئی انتہائی تنگی میں گزارہ کر رہے ہیں۔ پس فدیہ دینے والے اصحاب قادیان کے غریب درویشوں کو بھی ضرور یاد رکھ کر ثواب کمائیں۔ گو بہرحال ان تینوں قسم مصارف کے علیحدہ علیحدہ فوائد اور ان کی علیحدہ علیحدہ برکات ہیں۔

فدیہ کے متعلق یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ گو اصل مسئلہ کے لحاظ سے فدیہ صرف ان لوگوں پر واجب ہوتا ہے جو اپنے حالات کے لحاظ سے بعد میں روزوں کی گنتی پوری کرنے کی امید نہ رکھتے ہوں۔ مگر بعض اولیاء اور صوفیاء کا یہ طریق بھی رہا ہے کہ بعد میں گنتی پوری کرنے کی امید رکھنے کے باوجود وہ فدیہ بھی ادا کرتے رہے ہیں۔ پس اگر کسی صاحب کو توفیق ہو تو روحانی لحاظ سے (نہ کوئی فریضہ کے طور پر) یہ طریق زیادہ ثواب کا موجب ہے اور اس میں دوہری نیکی ہے۔ کہ چونکہ زندگی کا اعتبار نہیں فدیہ بھی دے دیا اور پھر توفیق پانے پر دوسرے ایام میں گنتی بھی پوری کرلی۔

بالآخر یہ خاکسار اپنے احباب کی خدمت میں پھر دوبارہ عرض کرنا چاہتا ہے کہ رمضان ایک نہایت ہی مبارک مہینہ ہے۔ اس کی برکات سے پورا پورا فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں۔ اور نوافل اور ذکر الٰہی اور دعاؤں کے ذریعہ خداتعالیٰ کے قریب تر ہو جائیں۔ آنحضرتﷺ کے متعلق حدیث میں کیا پیارا فقرہ آتا ہے کہ ’’اَحْیٰ لَیْلَۃً‘‘یعنی آپ نوافل اور ذکرالٰہی اور دعاؤں کے ذریعہ رات جیسی تاریک اور مردہ اور غافل گھڑی کوبھی زندگی کے انوار سے معمورکر دیتے تھے۔ اَللّٰھُمَ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّبَارِكْ وَسَلِّمْ۔

(مطبوعہ روزنامہ الفضل ربوہ 4 اپریل 1957ء)

(اخبار احمدیہ جرمنی، شمارہ مارچ 2024ء صفحہ 17)

متعلقہ مضمون

  • جلسہ سالانہ کی اہمیت

  • فیصلہ جات مجلس شوریٰ جماعت احمدیہ جرمنی 2024

  • تیری مدد وہ لوگ کریں گے جن کے دلوں میں ہم اپنی طرف سے الہام کریں گے

  • خلافت اور جماعت کے باہمی پیار کا تعلّق