قسط سوم

تقریر جلسہ سالانہ جرمنی 2023ء

1928ء کے جلسہ سالانہ کے پہلے روز سیّدنا حضرت مصلح موعودؓ نے احباب جماعت کا غیرمعمولی ہجوم دیکھ کر حکم فرمایا کہ تمام جلسہ گاہ حسب ضرورت وسیع کردی جائے۔ چنانچہ افسر جلسہ سالانہ حضرت میر محمد اسحٰق صاحب کی زیرِنگرانی طالب علموں نے ساری رات نہایت محنت اور جانفشانی سے کام کیا اور صبح ہونے تک جلسہ گاہ کو حسب ضرورت وسیع کرکے دوبارہ تعمیر کر دیا۔ حضرت مصلح موعودؓ نے اگلے روز خوشنودی کا اظہار فرمایا اور خاص دعا کی نیز تمام کارکنوں اور طالب علموں کو بطور انعام چاندی کے خاص تمغے عطا کئے گئے۔ (روح پرور یادیں صفحہ144)

حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کو یورپ کے بعض احمدی دکانداروں کے متعلق معلوم ہوا کہ ان کے ہوٹل کے کاروبار ہیں اور وہاں شراب بھی بکتی ہے چنانچہ حضور نے اس کا سختی سے نوٹس لیا کہ آپ کو یہ کاروبار چھوڑنا ہوگا تو اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ بڑی بھاری تعداد ایسی تھی جنہوں نے اس کاروبار کو ترک کر دیا بعضوں کو خداتعالیٰ نے فوراً بہتر کاروبار بھی عطا کئے بعضوں کو ابتلاء میں بھی ڈالا۔ وہ لمبے عرصے تک دوسرے کاروبار سے محروم رہے لیکن وہ پختگی کے ساتھ اپنے اس فیصلے پر قائم رہے۔

(الفضل17 جنوری 1989ء)

سلسلہ کی خاطر قربانیوں کا وقت آئے تو خلفا اور جماعت کی محبت کا ایک عجیب منظر نظر آتا ہے حضرت مصلح موعودؓ کے 13 بیٹے تھے سب کے سب دین کی خدمت کے لئے وقف کر دیئےتقسیم ہند کے بعد حضرت مصلح موعودؓ پاکستان میں لاہور تشریف لے آئے تھے مگر آپ کے سارے بچے ابھی قادیان میں تھےکچھ دنوں بعد قادیان کا محاصرہ کر لیا گیا تو حضور نے اپنے بچوں کے نام ایک خط میں لکھا جہاں تک ظاہری حالات اور ہماری معلومات کا تعلق ہے ہندوستان کی فوج کی مدد سے سکھوں کے جتھے قتل عام شروع کرنے والے ہیں۔ جس کے نتیجہ میں تم سب بھی قتل کر دیئے جاؤ گے۔ میں نصیحت کرتا ہوں کہ تم سب بھائی بشاشت سے اور ہنستے مسکراتے خدا کی راہ میں جان دینا۔ کسی قسم کا خوف تمہارے چہروں پر بھی نہ آئے۔

(یادوں کے دریچے از مرزا مبارک احمد۔ صفحہ58)

قادیان کی حفاظت کے لئے ایک احمدی خاتون نے اپنے بیٹے کو بھیجا اور جاتے ہوئے یہ وصیت کی’’بیٹا دیکھنا پیٹھ نہ دکھانا‘‘ سعادت مند بیٹے نے ماں کے فرمان کی لاج رکھ لی اور شہادت سے چند لمحے پہلے اپنی ماں کے نام یہ پیغام دیا ’’میری ماں سے کہہ دینا کہ تمہارے بیٹے نے تمہاری وصیت پوری کر دی ہے اور لڑتے ہوئے مارا گیا ہے‘‘۔ (الفضل 11 اکتوبر 1947ء)

پھر حضور نے تحریک فرمائی کہ ہم قادیان کسی صورت میں مکمل طور پرنہیں چھوڑیں گے اور ایسے 313 جانبازوں کی ضرورت ہے جو جان ہتھیلی پر رکھیں اور مقاماتِ مقدّسہ کی حفاظت کریں حضور نے فرمایا میرا ایک بیٹا میری نمائندگی میں ان کے ساتھ رہے گا چنانچہ اس خوش قسمت بیٹے مرزا وسیم احمد نے ساری عمر وہیں گزار دی انہوں نے مجھے بتایا کہ ایسے وقت بھی آئے جب سب درویشوں کے قتل کا فیصلہ ہو چکا تھا صرف خدا کی رحمت نے انہیں بچایا۔ عہد درویشی میں احمدیوں نے جس ایمان، استقامت اور فدائیت کا مظاہرہ کیا اس کا تذکرہ کرتے ہوئے ایڈیٹر اخبار ریاست نے لکھا: ان لوگوں کو انسان نہیں فرشتہ قرار دیا جانا چاہئے جو اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر اپنے شعار پر قائم رہیں اور موت کی پروا نہ کریں۔اب بھی…… قادیان کے درویشوں کے اسوۂ حسنہ کا خیال آتا ہے تو عزت و احترام کے جذبات کے ساتھ گردن جھک جاتی ہے۔ اور ہمارا ایمان ہے کہ یہ ایسی شخصیتیں ہیں جن کو آسمان سے نازل ہونے والے فرشتے قرار دینا چاہئے۔

(مرکز احمدیت قادیان۔ برہان احمد ظفر صفحہ280)

حضرت مصلح موعودؓ نے فرقان بٹالین قائم کی تو حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کو اس کا نگران بنایا اس بٹالین میں شرکت کی تحریک کے لئے ایک بزرگ تحریک کر رہے تھے مجلس میں ایک نوجوان بھی تھا جس کی بیوہ ماں پردے کے پیچھے سن رہی تھی جب لوگ نام لکھوا رہے تھے تو اس عورت نے اپنے بیٹے کو آواز دی کہ خلیفہ کا نمائندہ تمہیں بلا رہا ہے تم اپنا نام کیوں نہیں لکھوا رہے حضرت مصلح موعودؓ کو جب یہ خبر پہنچی تو آپ نے دعاکی کہ اے خدا! اگر جان لینی مقدر ہو تو اس بچے کی جان نہ لینا میرے بیٹے کی جان لے لینا۔ خدا نے یہ بات سن لی اور وہ سلامت واپس آ گیا۔

تحریک شدھی 1923ء کے موقع پر ایک بنگالی نے حضور کی خدمت میں عرض کیا کہ مَیں بوڑھا ہوں اور میرے بیٹے راجپوتانہ میں دعوت الیٰ اللہ کے لئے شاید اس لئے وقف نہ کر رہے ہوں کہ مجھے تکلیف ہوگی مگر خدا کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ اگر میرے 10 بیٹے ہوں اور وہ سارے کے سارے خدمت دین کرتے ہوئے مارے جائیں تب بھی میں کوئی غم نہیں کروں گا بلکہ میں خود بھی خدا کی راہ میں مارا جاؤں تو میرے لئے عین خوشی کا موجب ہوگا۔ (الفضل 15 مارچ 1923ء)

1974ء کے حالات میں احمدی طلبہ کو تعلیمی اداروں میں جان کا خطرہ تھا اور حکومت کوئی انتظام نہیں کر رہی تھی مگر اعلان کر دیا کہ احمدی طلبہ اپنی مرضی سے غیر حاضر ہیں تو حضرت خلیفۃالمسیح الثالث نے سب سے پہلے اپنے خاندان کے طلبہ کو بلایا اور سخت خطرناک حالات میں اپنی اپنی یونیورسٹی جانے کا حکم دیا جن میں ہمارے محبوب امام حضرت مرزا مسرور احمد صاحب بھی تھے کئیوں کو مشکلات بھی پیش آئیں مگر عمومی طور پر اللہ تعالیٰ نے سب کی حفاظت فرمائی۔ (‘خلافت’ صفحہ 65)

1970ء میں حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ نے نصرت جہاں سکیم جاری فرمائی۔ جس میں ڈاکٹرز اور اساتذہ کو خصوصی خدمت کی توفیق ملی۔ ان میں خاندان مسیح موعودؑ کے بہت سےافراد نے بھی حصہ لیا خود ہمارے موجودہ امام نے گھانا میں نہایت تکلیف دہ حالات میں خدمت کی توفیق پائی سکول کے ہیڈ ماسٹر تھے نہ صاف پانی ملتا تھا نہ سبزی نہ گندم نہ دودھ نہ کوئی خادم نہ کوئی سیکورٹی۔ الاؤنس بہت کم تھا گھر کے ساتھ جو خالی جگہ تھی اس میں سبزیاں لگا لیں کچھ مرغیاں رکھ لیں اور گزارہ کرلیا اور نہایت اخلاص و وفا کے ساتھ امام وقت کی رہنمائی میں کام پر لگے رہے۔

حضور نے 1980ء میں فرمایا: اس سکیم کے تحت بہت سے احباب نے جانی قربانی کا جو نمونہ پیش کیا وہ بھی کچھ کم اہم نہیں ہے۔ بہت سے ڈاکٹروں نے مغربی افریقہ میں نئے کلینک کھولنے اور انہیں چلانے کے لئے تین تین سال وقف کئے۔ مَیں نے ان سے کہا تم خدمت کے لئے جا رہے ہو۔ جاؤ ایک جھونپڑا ڈال کر کام شروع کر دو اور مریضوں کی ہر ممکن خدمت بجالاؤ۔ مَیں ابتدائی سرمائے کے طور پر انہیں صرف پانچ سو پونڈ دیتا تھا۔ انہوں نے اخلاص سے کام شروع کیا۔ غریبوں سے ایک پیسہ لئے بغیر ان کی خدمت کی۔ دو سال کے اندر اندر 16 ہسپتال کھولنے کی توفیق مل گئی۔ پھر ان کی تعداد بڑھتی چلی گئی۔ وہاں لوگ ہمارے پیچھے پڑے رہتے ہیں کہ ہمارے علاقہ میں بھی ہسپتال قائم کرو۔

ڈاکٹر عبدالقدوس صاحب کے چھوٹے بھائی ڈاکٹر عبدالقدیر صاحب کو اللہ تعالیٰ کی راہ میں شہید کر دیا گیا تو انہوں نے حضرت خلیفۃالمسیح الرابع کی خدمت لکھا کہ: انہوں نے میرا ایک بھائی شہید کیا ہے مگر مَیں قسم کھا کے کہتا ہوں کہ میری ساری اولاد بھی اس راہ میں شہید ہوتی چلی جائے تو مجھے اس کا دکھ نہیں ہوگا۔ خدا نے ان کی یہ آرزو سن لی اور انہیں بھی جلد ہی شہادت کا رتبہ عطا فرمایا اور یہ خط حضور کی خدمت میں پہنچنے سے پہلے وہ شہید ہوچکے تھے۔ (الفضل 4 دسمبر 1989ء صفحہ5)

لاہور میں شہادتیں ہوئیں تو بیواؤں نے اپنے بچوں سے کہا کہ تم اگلا جمعہ وہیں کھڑے ہو کر پڑھو گے جہاں تمہارا باپ یا بھائی شہید ہؤا تھا چنانچہ دونوں مسجدیں پہلے سے زیادہ پر رونق تھیں اور حضور کے خاص نمائندوں نے ربوہ سے آ کر جمعہ پڑھایا اور حضور کا سلا م پہنچایا۔ حضرت خلیفۃ ا لمسیح الخامس اپنے خطبات میں ہر شہید کا تذکرہ ضرور کرتے ہیں اور مستقل ہدایت فرمائی ہے کہ جہاں بھی جماعتی سطح پر نمائشیں لگیں وہاں شہدائے احمدیت کی تصاویر ضرور لگائی جائیں۔

جب بھی جماعت غیر معمولی ابتلاؤں سے گزری تو خلیفۃالمسیح نے اپنے نمائندوں کے ذریعہ جماعت کو سلام بھجوایا۔ 1971ء میں جنگی حالات کی وجہ سے جلسہ سالانہ منعقد نہیں ہو سکا تھا۔ اس وقت بھی ایسا ہؤا 1984ء میں مجھے بھی یہ سعادت نصیب ہوئی خلافتِ خامسہ کے دَور میں بھی کئی دفعہ حضور کے نمائندے گھر گھر پہنچ کر حال پوچھتے رہے اور تحائف بھی تقسیم کرتے رہے۔

جلسہ سالانہ 1965ء پر سیّدنا حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ نے فضل عمر فاؤنڈیشن کے لئے تحریک حضرت چودھری محمد ظفراللہ خان صاحب سے کروائی اور اس کے لئے 25 لاکھ روپے کا جماعت سے مطالبہ کیابعض احباب نے حضرت مصلح موعودؓ کے دَورِ خلافت کے سالوں کی تعداد کو مدِّنظر رکھتے ہوئے یہ رائے دی کہ اس تحریک کی مالی حد پچیس لاکھ کی بجائے باون لاکھ مقرر کی جائے اور بعض احباب نے عملاً باون کے عدد کو مدِّنظر رکھتے ہوئے اپنی قربانی کو اس معیار کے مطابق بنانے کو موجب سعادت تصور کیا۔ حضرت چودھری محمد ظفراللہ خان صاحب نے باون ہزار روپیہ حضرت مصلح موعودؓ کی اس یادگار تحریک میں ادا فرمایا۔ ضلع ملتان کے ایک دوست نے اپنے وعدہ کو بڑھا کر باون سو کردیا۔ لاہور کے ایک دوست باون سالوں پر دس روپے فی سال کے حساب سے 520 روپے ادا کئے۔ کم استطاعت رکھنے والے دوستوں نے اپنی محبّت کے اظہار کے لئےباون باون روپے پیش کئے۔

(تاریخ احمدیت جلد23 صفحہ 472)

حضرت مصلح موعودؓ نے وقارِعمل کی تحریک فرمائی اور نمونہ دکھانے کے لئے کسی پکڑی تو مخلصین کی جان پر بن آئی تو کئی مخلصین ایسے تھے جو کانپ رہے تھے اور دوڑے دوڑے آئے اور کہتے حضور تکلیف نہ کریں ہم کام کرتے ہیں اور حضور کے ہاتھ سے کَسّی اور ٹوکری لینے کی کوشش کرتے۔ لیکن حضور ان کے ساتھ مل کر کام کرتے رہے۔ (تاریخ احمدیت جلد 8صفحہ 50)

حضرت مصلح موعودؓ نے 1944ء میں وقف جائیداد کی تحریک فرمائی تھی۔ حضرت مسیح موعود کے ایک صحابی حضرت میاں خدا بخش صاحب نے سرگودھا سےحضور کی خدمت میں لکھا: جائیدادیں وقف کرنے کی تحریک پڑھ کر دل کو اس قدر خوشی ہوئی کہ اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے۔ میری جائیداد قریب قریب اس وقت دولاکھ کی ہے۔ مَیں خدا کے دین کی اشاعت کے لئے بسم اللہ کرکے وقف کرتا ہوں۔ یہ جائیداد کیا چیز ہے میرا سر بھی اس کام کے لئے حاضر ہے… 1954ء میں آپ نے اپنی زرعی زمین سے ایک کنال کا رقبہ صدر انجمن احمدیہ کے نام رجسٹری کرا دیا مسجد احمدیہ کی تعمیر شروع کی ادھر یہ مسجد پایہ تکمیل تک پہنچی ادھر واپسی کا بلاوا آگیا۔

(تاریخ احمدیت جلد10 صفحہ539)

حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ نے تبلیغ اور فولڈرز کی تقسیم کی تحریک فرمائی اس پر جماعت احمدیہ ہالینڈ نے 2001ء میں بھرپور دعوت الیٰ اللہ کرکے 14 لاکھ پچاس ہزار فولڈرز تقسیم کئے۔ اس کام کے لئے مسلسل طویل فاصلے پیدل طے کئے گئے بعض کے پاؤں اس کام کے دوران چھلنی ہوئے اور وہ پٹیاں باندھ کر دعوت الیٰ اللہ میں مصروف رہے۔ ایک دعوت الیٰ اللہ معذور تھے مگر انہوں نے وہیل چیئر (Wheel Chair) پر بیٹھ کر لوگوں کے گھروں میں یہ فولڈرز پہنچائے۔ کئی احباب نے اپنے کاموں، کاروبار وغیرہ سے چھٹیاں لے لیں۔ ایک دوست کو کام سے چھٹی دینے سے انکار کردیا گیا تو انہوں نے وہ کام ہی چھوڑ دیا خدا نے محبّت امام کے اس جذبہ کو پیار سے قبول فرمایا اور فولڈرز کی تقسیم کا کام مکمل ہوتے ہی پہلے سے بہتر کام ان کو عطا فرما دیا۔ (الفضل 10نومبر 2001ء)

برطانیہ کے ایک 58 سالہ مخلص احمدی جو دل کے مریض ہیں اور ان کا بائی پاس کا آپریشن ہو چکا ہے، انہوں نے نے اپنے جواں سال بیٹے کے ساتھ مسلسل آٹھ گھنٹے یہ کام کیا اور پسینے سے شرابور ہوگئے اسی رات کو خواب میں حضرت اقدس مسیح موعودؑ اور حضرت خلیفۃالمسیح الاوّل کی زیارت نصیب ہوئی۔

(الفضل سالانہ نمبر 28 دسمبر2001ء صفحہ35)

مکرم غلام محمد لون صاحب کاٹھ پوری کشمیر کے باسی تھے۔ 1954ء تا 1994ء (وفات تک) جلسہ قادیان میں شرکت کی توفیق پائی۔ آپ کاجوان بیٹا محمد اقبال دسمبر 1988ء میں کار کے حادثہ میں وفات پاگیا۔ اس وقت بھی آپ یہ کہتے ہوئے جلسہ پر جانے کی تیاری میں لگ گئے کہ میرا بیٹا ہمیں چھوڑ کر چلا گیا، مَیں امام سے ملنے اور جلسہ سالانہ کی برکات کیوں چھوڑ دوں۔

(الفضل انٹرنیشنل 12 ستمبر 2014ء صفحہ18)

حضرت بھائی عبدالرحمٰن صاحب قادیانی صحابی حضرت مسیح موعودؑ نے آنے والی نسل کو اس خدائی امانت کی حفاظت کی تاکید کرتے ہوئے فرمایا:

جب تک یہ الٰہی امانت ہمارے پاس رہی اور جہاں تک ہم سے ہوسکا ہم نے خدمت کی۔ اب حکمتِ الٰہیہ کے ماتحت یہ امانت آپ کے سپرد ہے۔ اس کا حق ادا کرنا آپ لوگوں کے ذمہ ہے۔ پس دیکھنا اسے اپنے سے عزیز رکھنا اور کسی قربانی سے دریغ نہ کرنا۔

(اصحاب احمد جلد نمبر9 صفحہ279)

حضرت شیخ محمد اسماعیل سرساوی صاحب صحابی حضرت مسیح موعودؑ نے نوجوانوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:

ہم نے خلافت کی حقیقت کو سمجھا تھا کہ خلافت ہی ایسی ضروری ہے کہ جس کے بغیراسلام کی حفاظت ہو نہیں سکتی۔ پس ہم نے اپنے وقت میں اپنے خلیفہ کی بھی حفاظت کماحقّہ کرکے دکھا دی تھی اور حفاظت بھی کماحقّہ کرکے اپنے پیارے خدا کی خوشنودی حاصل کرلی تھی۔ اب ہم تو بوڑھے ہوگئے اور ہڈیاں بھی ہماری کھوکھلی ہوگئیں۔ ٹھوکریں ہی کھاتے رہے اور ٹھوکریں کھاتے ہی اس دنیا سے گزر جائیں گے۔ اب تمہارا نوجوانوں کا ہی کام ہے کہ آگے آگے قدم رکھو اور اپنے پیارے خلیفہ کی بھی حفاظت کرو اور خلافت کی بھی حفاظت کرو۔

(رجسٹر روایات صحابہ نمبر6 صفحہ78)

1935ء کے آغاز میں دعوت الیٰ اللہ کے لئے قصبات اور دیہات کا جائزہ لینے کے لئے فارم چھپوائے گئے اور یہ جائزہ سائیکل سواروں کے ذریعہ لیا جاتا تھا ابتداء میں 4سائیکل سوار بھجوائے گئے ایک کے پاس اپنی ذاتی سائیکل تھی 2سائیکلیں ہدیہ آئی تھیں اور ایک سائیکل دفتر تحریکِ جدید نے خریدی تھی۔ 11 جنوری1935ء کے خطبہ میں حضور نے 16سائیکلوں کی تحریک فرمائی۔ اس پر جماعت نے اس کثرت سے سائیکلیں بھیج دیں کہ آئندہ سائیکل نہ بھجوانے کی ہدایت کرنا پڑی۔

خلافت اور جماعت کی باہمی محبّت کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ جماعت نے 1939ء میں خلافت جوبلی یعنی حضرت مصلح موعودؓ کی خلافت کے 25 سال پورے ہونے پر کے موقع پر 3 لاکھ روپے بطور تحفہ حضور کی خدمت میں پیش کئے۔ حضورؓ نے اس تمام رقم کو سلسلہ کی ترقی پر خرچ کرنے کے حوالہ سے کئی مصارف کا ذکر کیا جن میں ایک تعلیم بھی ہے۔ حضور نے ذہین طلبہ کو وظائف دینے کا اعلان فرمایا۔ (انوارالعلوم جلد15صفحہ 436) اس سلسلہ میں نہایت ایمان افروز امر یہ ہے کہ ڈاکٹر عبدالسلام صاحب بھی یہ وظیفہ حاصل کرنے والوں میں شامل تھے اورکچھ حکومتی وظیفہ کے ساتھ یورپ پڑھنے کے لئے گئے اورنئے سنگ میل قائم کئے۔

1940ء میں ڈاکٹر سلام نے میٹرک کےامتحان میں اوّل آکر ریکارڈ توڑا۔ حضور بہت خوش ہوئے اور وظیفہ کے علاوہ ایک سو روپے نقد ریکارڈ توڑنے پر دیا۔ بی اے میں نئے ریکارڈ پر حضور نے علاوہ وظیفہ کے دو سوروپیہ نقد انعام دیا۔

(عالمی شہرت یافتہ سائنسدان عبدالسلام از عبدالحمید چودھری صفحہ 35)

اعلیٰ تعلیم کے لئے یہ وہ پودا تھا جو 1939ء میں لگایاگیا اور 1979ء میں اللہ تعالیٰ نے انہیں نوبل انعام حاصل کرکے دنیا میں احمدیت کا وقار بلند کرنے کا موقع عطافرمایا۔ اس موقع پر خلیفہ ثالثؒ نے ساری جماعت کے بچوں کے لئے عظیم تعلیمی منصوبہ کا اعلان کیا اور فرمایا کہ کوئی احمدی بچہ ضائع نہیں کیا جائے گا اس پروگرام کے تحت آج بھی سینکڑوں بچوں اور بچیوں کو تعلیمی وظائف اور انعامات دیئے جا رہے ہیں۔

ہمارے موجودہ امام کو بھی2008ء میں خلافتِ احمدیہ صد سالہ جوبلی پر 10 لاکھ پاؤنڈ پیش کئے گئے حضور نے وہ ساری رقم تبلیغ اور خدمت خلق کے منصوبوں پر خرچ کر دی مجلس انصاراللہ پاکستان نے انصاراللہ کے 75 سال پورے ہونے پر حضور کی خدمت میں 75 لاکھ روپے تحفہ کے طور پر دینے کا منصوبہ بنایا مگر عملاً ایک کروڑ سے زیادہ رقم پیش کر دی مگر حضور نے فرمایا کہ اسے انصار کے لئے کسی منصوبہ پر لگائیں چنانچہ اس کے ذریعہ ایک نیا ہال بنایا گیا۔

(اخبار احمدیہ جرمنی اپریل 2024ء صفحہ23)

متعلقہ مضمون

  • پروگرام 48 واں جلسہ سالانہ جماعت احمدیہ جرمنی 2024ء

  • جلسہ سالانہ کا ایک مقصد ’’زہد‘‘ اختیار کرنا ہے

  • جلسہ سالانہ کی اہمیت

  • ہدایات برائے جلسہ سالانہ جرمنی 2024ء