تقریر جلسہ سالانہ جرمنی 2023ء
مولانا عبدالسمیع خان صاحب، استاد جامعہ احمدیہ کینیڈا

خلافت احمدیہ اور جماعت احمدیہ کے درمیان محبّت اور پیار کا وہی تعلق ہے جو الٰہی جماعتوں میں ہوتا ہے اور جس کا کامل نمونہ ہمیں حضرت اقدس محمد مصطفیٰﷺ اور آپ کے صحابہ میں نظر آتا ہے۔ رسول کریمﷺ کو ہم ہمیشہ ان کی دینی اور دنیاوی فلاح و بہبود کے لئے سرگرم عمل دیکھتے ہیں۔ آپﷺ نے انہیں روحانی لحاظ سے آسمان کے ستارے بنا دیا اور دنیاوی لحاظ سے انہیں دنیا کی حکومتیں عطا کر دیں۔ دوسری طرف آپ صحابہ کو اپنی جان، مال، وقت، عزت، اولاد اور جذبات رسول اللہﷺ پر قربان کرتے ہوئے دیکھیں گے۔ حضرت زید بن دثنہؓ کا قول اس پر گواہ ہے جن کو کافروں نے ایک جنگ میں قید کرلیا اور انہیں شہید کرنے سے پہلے کہا کہ تمہیں یہ خیا ل نہیں آتا کہ تم گھر میں ہوتے اور تمہاری جگہ محمد (ﷺ) یہاں پر ہوتے اس صحابی نے غیرت سے جواب دیا کہ میں تو یہ بھی گوارا نہیں کرتا کہ میں گھر میں آرام سے بیٹھا ہوں اورمدینہ کی گلیوں میں چلتے ہوئے میرے آقا محمد رسول اللہﷺ کے قدموں میں کانٹا بھی چبھ جائے۔ یہ سن کر ابو سفیان نے کہا میں نے اس جیسی محبّت کبھی نہیں دیکھی۔ (سیرۃ ابن ہشام باب غزوۃ الرجیع)

یہ نظارے آج دنیا کو صرف جماعت احمدیہ میں نظر آتے ہیں۔ خلافت اور جماعت کا ایک ایسا روحانی تعلق ہے جس کی نظیر کسی اور انسانی تعلق میں نظر نہیں آتی اور اس کے گواہ آپ سارے لوگ ہیں۔ میرا یہ دعویٰ بلا دلیل نہیں ہر تعلق مشکل اور مصیبت میں آزمایا جاتا ہے آج ہم اسی حوالےسے اس سچائی کو پَرکھیں گے۔

28 مئی 2010ء کو لاہور میں جماعت احمدیہ کی 2 مساجد پر حملہ کرکے 86 احمدیوں کو شہید کر دیا گیا۔ ہمارے امام حضرت خلیفۃالمسیح الخامس نے شہیدوں کے لواحقین کے زخموں پر مرہم رکھنے کے لئے ایک عظیم الشان فیصلہ فرمایا آپ نے تمام شہداء کے گھروں میں ٹیلی فون کرکے تعزیت کی اور تسلی دی۔ شہداء کی بیویاں اور اولاد کہتی ہیں کہ اس پیاری آواز نے ہمارے سارے دکھ دور کر دیئے اور سینے سکون سے بھر گئے۔ حضور کے اس فون کی خبر ربوہ میں ایک احمدی بچی کو ملی تو اس نے اپنے والد سے کہا کہ اگر آپ بھی شہید ہو جاتے تو ہمارے گھر بھی حضور کا فون آتا۔ اس والد نے کسی دوست سے ذکر کر دیا اور یہ بات چلتے چلتے حضور اقدس تک پہنچ گئی حضور نے اس احمدی بچی کا پتہ کروا کے اسے فون کیا اور اسے فرمایا کہ تمہیں اپنے والد کو شہید کرانے کی ضرورت نہیں میں اس کے بغیر بھی تمہاری خواہش پوری کر دیتا ہوں۔

حضرات! باپ اور بیٹی کا تعلق نہایت جذباتی ہوتا ہے مگر احمدی بیٹیاں اپنے امام کی ایک آواز سننے کے لیے باپوں کو قربان کر سکتی ہیں۔ دوسری طرف امام کہتا ہے کہ جب تک پاکستان میں تمام مقامات سے جمعہ کی نماز بخیریت گزر جانے کی اطلاع نہ ملے مجھے فکر رہتی ہے۔ حضور جمعہ کے دن خاص طور پر پاکستانی احمدیوں کے لئے دعاؤں میں مصروف رہتے ہیں اور بار بار ساری دنیا میں مظلوم احمدیوں کے لئے دعا کی تحریک بھی کرتے رہتے ہیں۔

(’خلافت ‘مرتبہ حنیف احمد محمود صاحب آن لائن صفحہ 23)

پھر خلافت احمدیہ نے ان مظلوموں کی آبادکاری کا بیڑا اٹھایا۔ اور آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے اکثر بہترین زندگی گزار رہے ہیں یہ حالات دیکھ کر پاکستان کے ایک بڑے سرکاری افسر نے ہمارے امیر ضلع راولپنڈی سے کہا کہ اے کاش ہمارا بھی کوئی اس طرح کا رہنما ہوتا جو ہمارے دکھوں کو سمیٹ لیتا۔

یہی وہ نعمت ہے جو رسول کریمﷺکے ذریعہ مسلمانوں کو عطا ہوئی تھی جن کے بارہ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ لَقَدۡ جَآءَکُمۡ رَسُوۡلٌ مِّنۡ اَنۡفُسِکُمۡ عَزِیۡزٌ عَلَیۡہِ مَا عَنِتُّمۡ حَرِیۡصٌ عَلَیۡکُمۡ بِالۡمُؤۡمِنِیۡنَ رَءُوۡفٌ رَّحِیۡمٌ (التوبہ:128)

یہ تمام جہانوں کے لئے رحمت ہیں مگر مومنوں کے لئے ان کی رحمت کے چشمے ناپیدا کنار ہیں فرمایا تمہاری ہر تکلیف پر یہ وجود تڑپ اٹھتا ہے اور تمہارے لئے ہر خیر کے حصول کے لئے بے چین رہتا ہے اور خدا کی صفت رؤف اور رحیم کا مظہر کامل ہے۔ جب رسول اللہﷺ نے اپنے بعد خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کی بشارت دی تو اس کی بھی مرکزی خوبی یہی بیان فرمائی کہ

خِیَارُ أَئِمَّتِكُمُ الَّذِینَ تُحِبُّونَہُمْ وَیُحِبُّونَكُمْ، وَیُصَلُّونَ عَلَیْكُمْ وَتُصَلُّونَ عَلَیْہِمْ، وَشِرَارُ أَئِمَّتِكُمُ الَّذِینَ تُبْغِضُونَہُمْ وَیُبْغِضُونَكُمْ، وَتَلْعَنُونَہُمْ وَیَلْعَنُونَكُمْ۔ (صحیح مسلم کتاب الامارہ باب خیارالائمۃ حدیث نمبر1855، المعجم الکبیر طبرانی جلد 18 صفحہ 63 حدیث نمبر116)

رسول کریمﷺ نے فرمایا تمہارے بہترین لیڈر وہ ہیں جن سے تم محبّت کرتے ہو اور وہ تم سے محبّت کرتے ہیں اور وہ تمہارے لئے دعائیں کرتے ہیں اور تم ان کے لئے دعائیں کرتے ہو اور تمہارے بد ترین لیڈر وہ ہیں جن سے تم نفرت کرتے ہو اور وہ تم سے نفرت کرتے ہیں تم ان پر لعنت کرتے ہو اور وہ تم پر لعنت کرتے ہیں۔

پھر فرمایا أَلَا إِنَّ خِیَارَ أَئِمَّتِكُمْ خَیْرُ النَّاسِ وَشِرَارُ أَئِمَّتِكُمْ شِرَارُ النَّاسِ سنو تمہارے بہترین ائمہ انسانوں میں سے بہترین ہیں اور بُرے لیڈر لوگوں میں سے بدترین ہیں۔ (الاحاد والمثانی۔ ابن ابی عاصم۔ جلد 5 صفحہ 302 حدیث نمبر2831)

حضرت خلیفۃالمسیح الخامس نے بدری صحابہ پر خطبات میں خلفائے راشدین کے متعلق تفصیل سے بتایا ہے کہ وہ کس طرح مسلمانوں کے لئے محبّت سے پُر تھے آج یہ نعمت حضرت مسیح موعودؑ کے طفیل دوبارہ جماعت احمدیہ کو عطا ہوئی ہے اور جماعت اس کی برکتوں کا مشاہدہ کر رہی ہے دنیا کےکسی خطے میں کسی احمدی کو کوئی تکلیف ہو ان سب کے دکھ خلافت احمدیہ کے سینے میں جمع ہوتے ہیں اور وہاں سے دعاؤں کا چشمہ بہنے لگتا ہے۔

حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ کے زمانہ میں ہندوستان کے علاقہ حیدرآباد دکن میں سیلاب آیا جس میں جماعت کے کچھ لوگ بھی متاثرہوئے حضور بےقرار ہوگئے اور اس زمانہ میں متواتر تاریں دے کر احباب کی خیریت دریافت کی پھر بھی تسلی نہ ہوئی اور خاص طور پر ایک آدمی کو بھیجا۔ عام طور پر آپ جماعت کے لئے دعاؤں میں مصروف رہتے تھے مگر خاص طور پر جمعہ کے دن جمعہ کے بعد مغرب تک خصوصی دعاؤں کا سلسلہ جاری رہتا تھا۔ ایڈیٹر الحکم کی گواہی ہے کہ مَیں نے اپنی آنکھ سے دیکھا ہےکہ جب آپ کے پاس ڈاک آتی ہے تو ایک ایک خط کو آپ اپنے ہاتھ میں لے کر دعاکرتے ہیں۔ (حیات نور صفحہ 422)

ایک رات حاکم دین صاحب نے بیوی کی تکلیف کا ذکر کیا تو حضور نے دعا کر کے کھجور دی انہوں نے جا کر بیوی کو کھلا دی وہ تھوڑی دیر بعد صحت یاب ہو گئی تو دونوں سو گئے مگر حضور ساری رات دعا میں لگے رہے صبح حاکم دین صاحب نے حضور کو بتایا تو فرمایارات کو مجھے بھی بتا دیتے تو میں بھی کچھ دیر سو جا تا۔ (حیات نور صفحہ 642)

حضور 1910ء میں گھوڑے سے گر کر زخمی ہوگئے تو جماعت کے لئے قیامت کا لمحہ تھا گھر کےباہر مردوں اور عورتوں کا ہجوم اکٹھا ہو گیا فرمایا ان سب سے کہہ دو کہ میں گھبراتا نہیں سب اپنے نام لکھوا دیں اور گھروں کو چلے جائیں میں ان کے لئے دعا کرتا رہوں گا۔ (حیات نور صفحہ 472)

سیّدنا حضرت مصلح موعودؓ بھی اسی سراپا محبّت جماعت کے روحانی باپ تھے اور اس بزرگ مسیح کے بیٹے تھے جو سخت سردی کی راتوں میں اپنے گرم کپڑے مہمانوں کو دے کر خوشی محسوس کرتا تھا۔ حضرت مصلح موعودؓ نے تو خلافت کا تعارف ہی اس طرح کروایا تھا کہ تمہارے لئے ایک شخص درد رکھنے والا، تمہاری محبّت رکھنے والا تمہارے لئے راتوں کو دعائیں کرنے والاہےوہ تمہارے لئے مولیٰ کے حضور تڑپتا رہتا ہے۔ (برکات خلافت۔ انوارالعلوم جلد2 صفحہ158) اور یہ کام کسی انجمن کا نہیں صرف خدا کے خلیفہ کا ہے۔ حضور فرماتے ہیں:

’’ مَیں دیانت داری سے کہہ سکتا ہوں کہ لوگوں کے لئے جو اخلاص اور محبّت میرے دل میں میرے اس مقام پر ہونے کی وجہ سے ہے جس پر خدا نے مجھے کھڑا کیا ہے اور جو ہمدردی اور رحم میں اپنے دل میں پاتا ہوں وہ نہ باپ کو بیٹے سے ہے اور نہ بیٹے کو باپ سے ہو سکتا ہے‘‘۔

(الفضل قادیان 04 اپریل 1924ء صفحہ 7)

قادیان سے پاکستان ہجرت کے دنوں میں مشہور ہوگیا کہ قادیان کے قریب کوئی جن ہے جو رات دیر گئے چلتا پھرتا ہے بعض لوگوں نے ٹوہ لگائی تو پتہ لگا یہ حضرت مصلح موعودؓ تھے جو رات کو چھپ کر گھر سے دور تنہائی میں جماعت کے لیے دعائیں کرتے تھے۔ حضور نے قادیان سے ہجرت سے پہلے احمدیوں کی امانتوں کو لاہور بھجوا دیا جس سے ہزاروں احمدیوں کو نئی زندگی شروع کرنے میں آسانی ہوگئی حضور ہندوستان سے پاکستان ہجرت کرکے آنے والے احمدیوں کے لئے خاص طور پر 25 روپے روزانہ صدقہ دیتے تھے ان کے آنے کے وقت قرآن کی تلاوت کرتے رہتے اور بےچینی کی وجہ سے بیٹھ نہیں سکتے تھے ٹہل کر پڑھتے تھے جب تک ان کی آمد کی خبر نہ مل جاتی۔ (الفضل 16 فروری 2000ء صفحہ 11)

لاہور میں راشن کی کمی تھی اور سب کارکنان کے لئے روٹی کا کوٹہ مقرر تھا جس کی حضور بھی پابندی کرتےتھے حضور کے ایک پوتے نے کہا کہ میرا اس سے پیٹ نہیں بھرتا فرمایا جو کوٹہ عام جماعت کے لئے ہے وہی تمہارے لئے بھی ہے میری آدھی روٹی تم کھا لیا کرو۔

حضرت مصلح موعودؓ کی ازواج میں ایک نے گھر میں قالین بچھایا وہ کوئی بہت قیمتی نہیں تھا ایک خاتون حضور سے ملنے آئی اور مٹی سے لت پت پاؤں لے کر اس قالین پر چڑھ گئی اور کام کے بعد واپس چلی گئی بعد میں حضور کو احساس ہوا کہ کسی گھر والے نے اس کا برا منایا ہے تو حضور نے فوراً ایک ملازمہ کو بلا کر فرمایا یہ قالین فوراً یہاں سے لے جا کر باہر پھینک دو یہ میرے اور میری جماعت کے درمیان حائل ہو رہا ہے۔ (الفضل انٹرنیشنل 24 مئی 2019ء صفحہ69) صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب ملتان میں ڈپٹی کمشنر تھے حضور وہاں تشریف لے گئےوہاں ان کے گھر قیمتی فرنیچر دیکھا تو فرمایا تمہارا قیمتی فرنیچر غریب اور کمزور احمدیوں سے ملاقات میں روک نہیں بننا چاہیئے۔

(روزنامہ الفضل ربوہ 16 فروری 2000ء صفحہ 11)

صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب کی روایت ہے کہ جماعت کسی ابتلا سے گزر رہی ہوتی تو حضور بستر چھوڑ کر فرش پر سوتے جب تک کہ خدا کی طرف سے اشارہ نہ ہوتا۔ (روزنامہ الفضل ربوہ 16 فروری 2000ء)

حضورؓ کے بچے گھرسے باہر دوسرے بچوں کے ساتھ کھیل رہے تھےکہ حضور کے ایک لڑکے نے کسی لڑکی کو تھپڑ مار دیا۔ حضور نے دیکھ لیا۔ دونوں کو بلا لیا اور اس لڑکی سے کہا میرے بیٹے کے منہ پر اسی طرح تھپڑ مارو۔ اس لڑکی کی تو ہمت نہ پڑی مگر حضور نے اپنے بیٹے سے فرمایا میں اس کا بھی باپ ہوں اب اگر تم نے اس پر ہاتھ اٹھایا تو میں تمہیں سخت سزا دوں گا۔

(الفضل انٹرنیشنل 24 مئی 2019ء صفحہ69)

اسی لئے حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ فرمایا کرتے تھے کہ خلافت اور جماعت ایک ہی وجود کے دو نام ہیں۔ خلیفہ ثالثؒ کے پرائیویٹ سیکرٹری بیان کرتے ہیں کہ ایک احمدی بچی حضور کو اپنی کسی مشکل کے لئے روزانہ دعا کا خط لکھتی تھی ایک رات حضور دیر تک ٹہل رہے تھے پرائیویٹ سیکرٹری نے پوچھا تو فرمایا آج اس بچی کا خط نہیں ملا اس کی وجہ سے پریشان ہوں۔

1974ء میں احباب جماعت جن دکھوں سے گزر رہے تھے ان میں ان کا محبوب خلیفہ بھی ساتھ تھا حضورؒ نے کئی کئی راتیں مسلسل جاگ کر دعاؤں میں گزاریں۔ مجھے صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب نے بتایا کہ ان دنوں وہ پرائیویٹ سیکرٹری تھے ایک دن گوجرانولہ سے امیر صاحب ضلع نے فون کیا کہ حضور کو اطلاع کر دیں کہ سب احمدی ایک جگہ اکٹھے ہیں دشمن نے چاروں طرف سے گھیرلیاہے حضور دعا کریں۔ حضور دعا میں لگ گئے تھوڑی دیر بعد فون آیا کہ خطرہ اور بڑھ گیا ہے۔ کچھ دیر بعد فون آیا کہ حضور کی خدمت میں ہمارا آخری سلام قبول ہو کیونکہ اب بچنے کی کوئی صورت نہیں۔ حضور جذبات پر قابو نہ رکھ سکے اور قریبی کمرہ میں جا کر سجدہ میں گر گئے اور جب کافی دیر بعد اٹھے تو فون آیا کہ خطرہ ٹل گیا ہے اور سب احمدی خیریت سے ہیں۔ اس طرح خلافت کی بےقرار دعائیں موت کے منہ سے کھینچ لائیں۔

1974ء کے حالات میں احمدی لُٹے پٹے ربوہ میں آتے تھے طبعی طور پر افسردہ اور بےچین چہروں کے ساتھ حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ سے ملتے تھے اور ہنستے مسکراتے چہروں کے ساتھ باہر آتے تھے۔ وہ کیا چیز تھی جو ان کے چہروں کی زردی کو سرخی میں بدل دیتی تھی وہ ایک باپ کی محبّت تھی ایک ٹھنڈا سایہ تھاوہ پیار کا چشمہ تھا جس میں سارے غم دھل جاتے تھے۔

بعد میں جب یہی احمدی یورپ اور کینیڈا میں آباد ہونے لگے تو خلافت احمدیہ پھر ان کی مدد کے لیے آئی اور ہزاروں لوگوں کی آبادکاری میں پوری معاونت کی آپ میں بھی سینکڑوں لوگ اس احسان کے ذاتی طور پر گواہ ہیں۔

رسالہ لاہور کے مخلص احمدی ایڈیٹر ثاقب زیروی صاحب اور رسالہ کے غیر احمدی پرنٹر میاں محمد شفیع صاحب پر سرگودھا میں مقدمہ دائر ہوا۔ وہ لاہور سے سرگودھا جاتے ہوئے ربوہ میں رُکے۔ حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ نے رات کا کھانا پیش کیا اور دعا کرکے جاتے ہوئے فرمایا آپ جلد بَری ہو جائیں گے۔ میاں محمد شفیع کہنے لگے بَری تو ہوجائیں گے مگر تین سال بعد۔ صبح سرگودھا پہنچے تو عدالت نے حیرت انگیز طور پر باعزّت بَری کر دیا واپس دوپہر کو ربوہ آئے حضور کو اطلاع دی تو حضور فکرمندی سے ٹہل رہے تھے۔ فرمایا ہم نے ابھی کھانا نہیں کھایا آپ بیٹھیں میں نفل پڑھ کے آتا ہوں میاں محمد شفیع یہ سن کر دھاڑیں مار کر رونے لگ گئے کہ مجھ پر آج یہ راز کھلا ہے کہ تم اپنے امام کے اس قدر شیدائی کیوں ہو ایسی محبّت تو مَیں نے سگے والدین میں بھی نہیں دیکھی۔ (ماخوذ از’تجربات جو ہیں امانت حیات کی ‘، الفضل آن لائن 28 مئی 2022ء صفحہ 13)

خلافتِ رابعہ میں کلمہ مہم کے دوران گرفتاریوں کا سلسلہ شروع ہوا اور سینکڑوں احمدیوں نے امام کی آوازپر کلمہ طیّبہ کی محبّت میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ حضور کا دل ہر ایک کے ساتھ دھڑکتا تھا خطبات میں ان کا ذکر کرتے ہوئے آواز بھرا جاتی۔ ان کو تسلّی دینے کے لئے طویل خط لکھتے ایک بار حضور کو مچھلی پیش کی گئی تو حضور کو ان مظلوموں کی یاد آگئی آپ نے پیغام بھیجا کہ جیسے بھی ممکن ہو ان اسیران کو بھی مچھلی فراہم کی جائے اور ہر قیمت پر کی جائے چنانچہ اللہ کے فضل سے اس کی تعمیل کی گئی اور ان اسیران کی آنکھوں سے دریا بہہ پڑے۔

وہ اشک بن کے مری چشمِ تر میں رہتا ہے

عجیب شخص ہے پانی کے گھر میں رہتا ہے

اسیران ساہیوال کو موت کی سزا سنائی گئی تھی ان کا درد تو حد سے زیادہ تھا ان کے لیے مشہور نظم بھی کہی۔

جو درد سسکتے ہوئے حرفوں میں ڈھلاہے

شاید کہ یہ آغوش جدائی میں پلا ہے

اس دردناک نظم کے آخری شعروں نے تو کہرام مچا دیا۔

خیرات کر اب ان کی رہائی میرے آقا

کشکول میں بھر دے جو مرے دل میں بھرا ہے

حضور نے یہ نظم اپنی آواز میں ریکارڈ کرکے اسیران کو جیل میں بھجوائی۔ حضور کو اس دعا کی قبولیت کی خبر ایک رویا میں دی گئی اور غیرمعمولی حالات میں یہ سب اسیر رہا ہو کر حضور سے آ ملے اور کئی آج اس جلسہ جرمنی میں خلافت اور جماعت کی بےنظیر محبّت کی گواہی دے رہے ہیں۔

1984ء میں حکومتی پابندیوں کی وجہ سے حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کو پاکستان سے لندن ہجرت کرنی پڑی۔ 26 اپریل کو آرڈیننس جاری ہوا۔ 27کو جمعہ تھا۔ حضورؒ نے وکلاء کے مشورہ پر مسجد اقصیٰ میں جمعہ نہیں پڑھایا اور ایک اور صاحب نے جمعہ پڑھایا مگر آپ خطبہ سے پہلے منبر پر تشریف لائے اور صرف ہاتھ سے سلام کا اشارہ کیا۔ مَیں نے دیکھاکہ حضور نے دائیں سے بائیں طرف ہاتھ ہلایا زبان خاموش تھی مگر آنکھوں کی سرخی اور نمی مجھے صاف نظر آ رہی تھی۔ لوگوں کے لئے یہ ناقابلِ برداشت تھا کہ ان کا محبوب امام ان کے سامنے منبر پر کھڑا ہو اور اس کو سلام کرنے کی اجازت نہ ہو مسجد میں نمازیوں کے ضبط کے بندھن ٹوٹ گئے اور ہلکی سسکیوں کی آواز اونچی ہوتی گئی یہ سلسلہ خطبہ اور نماز کے دوران بھی جاری رہا نماز کے بعد حضورؒ پھر منبر پر تشریف لائے اب آہوں کا طوفان رکنے والا نہیں تھا۔

ہجرت سے ایک رات پہلے آپ نے مغرب کی نماز مسجد مبارک میں پڑھانے کے بعد احباب کو بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ مَیں اس مجلس میں موجود تھا فرمایا مَیں نے آپ کو اس لئے نہیں بٹھایا کہ مَیں کوئی تقریر کرنا چاہتا ہوں میں صرف آپ کو دیکھنا چاہتا ہوں کیونکہ آپ کو دیکھنے سے میری آ نکھوں کو ٹھنڈک اور دل کو تسکین ملتی ہے مجھے آپ سے پیارہے۔ حضورؒ یہ کہہ کر چلے گئے اور اس کے بعد مسجد میں آنسوؤں کا طوفان برپا ہوگیا۔ حضورؒ لندن پہنچ گئے مگر اہلِ پاکستان کی سب سے بڑی کمی حضوؒر کا خطبہ جمعہ تھا ہم لندن سے آنے والے ہر شخص سے سب سے پہلے حضور کا حال پوچھا کرتے تھے جماعت حضورؒ کو سننے اور حضور جماعت سے ملنے کے لیے بےتاب تھے پہلے آڈیو کیسٹس کا سلسلہ شروع ہوا مگر دل تسلی نہیں پاتے تھے پھر ویڈیوز آنی شروع ہوئیں تو پیاس اور بڑھ گئی تب خدا نے آسمان سے ایم ٹی اے کا نظام جاری کیا۔ یہ ہمارے لئے محض ٹی وی سٹیشن نہیں ہے یہ جماعت اور خلیفہ وقت کی محبّت کی لہروں کا نقطۂ وصال ہے وہ شخص جسے خداکے سامنے آہوں اور سسکیوں کے ساتھ رخصت کیا تھا وہ ہمارے گھروں میں اُتر آیا۔

ہوا کے دوش پہ لاکھوں گھروں میں دَر آیا

نکل گیا تھا جو گھر سے کبھی خدا کے لئے

(باقی آئندہ ان شاءاللہ)

(اخبار احمدیہ جرمنی شمارہ فروری 2024ء صفحہ 27)

متعلقہ مضمون

  • پروگرام 48 واں جلسہ سالانہ جماعت احمدیہ جرمنی 2024ء

  • جلسہ سالانہ کا ایک مقصد ’’زہد‘‘ اختیار کرنا ہے

  • جلسہ سالانہ کی اہمیت

  • ہدایات برائے جلسہ سالانہ جرمنی 2024ء