ايک دفعہ جب محرّم کا مہينہ تھا، سيّدنا حضرت مسيح موعود نےبچوں کو اپنے پاس بلا کر فرمايا: ‘‘آؤ مَيں تمہيں محرّم کي کہاني سناؤں’’۔ پھر آپ نے بڑے دردناک انداز سے حضرت امام حسينؓ کي شہادت کے واقعات سنائے۔ حضور کے صاحبزادہ حضرت مرزا بشير احمد بیان فرماتے ہيں کہ آپؑ يہ واقعات سناتے جاتے تھے اور آپ کي آںکھوں سے آنسو رَواں تھے اور آپ اپني انگليوں کے پوروں سے اپنے آنسو پونچھتے جاتے تھے۔ اس دردناک کہاني کو ختم کرنے کے بعد آپ نے بڑے کرب کے ساتھ فرمايا:
‘‘يزيد پليد نے يہ ظلم ہمارے نبي کريمﷺ کے نواسے پر کروايا۔ مگر خدا نے بھي ان ظالموں کو بہت جلد اپنے عذاب ميں پکڑ ليا’’
حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے حضور کے درد و کرب کا نقشہ ان الفاظ میں کھینچا ‘‘اس وقت آپ پر عجيب کيفيت طاري تھي اور اپنے آقاﷺ کے جگر گوشہ کي المناک شہادت کے تصور سے آپ کا دل بےچين ہو رہا تھا’’۔ (سيرة طيبہ از حضرت مرزا بشير احمد صاحب صفحہ 31)
طاقتور اور کمزور کے درميان ظلم و ستم کا رشتہ آغاز سےہي رہا ہے۔ عام طور پر طاقتور کے سامنے کمزور گھٹنے ٹيک ديا کرتا ہے مگر بہت سے واقعات ايسے بھي ہيں جن ميں کمزور نے ظلم و بربریت کو برداشت تو کرليا مگر باطل کے سامنے جھکنے سے انکار کر ديا جس کے نتيجہ ميں اگرچہ وہ اپني جان سے تو ہاتھ دھو بيٹھا مگر ہميشہ کے ليے اَمر ہوگيا۔ اس کي ایک بہت بڑی مثال حضرت امام حسینؓ کي ہے جنہوں نے اپنے نانا آنحضورﷺ کے اس ارشاد کہ “ظالم و جابر بادشاہ کے سامنے کلمہ حق کہنا سب سے بڑا جہاد ہے” پر عمل کرتے ہوئے نہایت درجہ جرأت و استقامت کا مظاہرہ کیا اور اس راہ میں اپنی جان تک کا نذرانہ پیش کر دیا اور تاريخ ميں اپنا مقام پيدا کرکےاُمّت کو يہ سبق دے گئے کہ کبھي کسی باطل قوّت کے سامنے نہيں جھکنا، اس راہ میں جان کی کیا پروا، جاتی ہے اگر تو جانے دو، آپؓ کلمہ حق کا جوعَلَم بلند کرگئے، اُسے آج تک ساري اُمت کسي نہ کسي رنگ ميں بلند کئے ہوئے ہے۔
غالباً حضرت امام حسینؓ کی یہی قربانی، یہی جہاد اور یہی جرأت و استقامت تھی کہ آنحضورﷺ کو آپ سے بے انتہا محبت تھی یہا ں تک کہ آپؐ دعا کیا کرتے تھے کہ اے میرے پیارے اللہ! میں ان سے محبّت کرتا ہوں، تو بھی ان سے محبّت کر۔ آںحضرت ﷺ کے غلام صادق حضرت مسیح موعود بھی آپؐ کی اتّباع میں حضرت امام حسینؓ کے لئے اپنےقلب و روح میں بے پناہ محبّت رکھتے تھے یہاں تک کہ “خاکم نثار کوچۂ آلِ محمدؐ است” آپ کی منتہائے آرزو تھی۔ آپ اسی کیفیت میں محوہوکر کثرت سے درود شریف پڑھا کرتے تھے۔ پس آج ہمارا بھی فرض ہے کہ اس سنّت پر عمل کرتے ہوئے حضرت امام حسینؓ کی اس عظیم الشان قربانی کے پیش نظر کثرت سے درود شریف کا ورد کریں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ محرّم کے مہینہ میں اس بزرگ شہید کے ساتھ اظہارِ محبّت و عقیدت کا یہ بہترین طریق ہے۔
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّعَلیٰ اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلیٰ اِبْرَاھِیْمَ وَعَلیٰ اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ
اَللّٰھُمَّ بَارِکْ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّعَلیٰ اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارکْتَ عَلیٰ اِبْرَاھِیْمَ وَعَلیٰ اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ

متعلقہ مضمون

  • جلسہ سالانہ کےمیزبانوں اور مہمانوں کے لیے زرّیں نصائح

  • ہیں رموز و سِرّ جہاں کیا

  • قربانی وہی ہے جسے خداتعالیٰ قبول کرے

  • عہدِ خلافت خامسہ میں الٰہی تائید و نصرت