مضمون: مکرم مولانا عبدالباسط طارق صاحب
مربی سلسلہ، جرمنی

………………………………………………………..

اللہ تعاليٰ قرآنِ کريم ميں فرماتا ہے

اَحَسِبَ النَّاسُ اَنۡ يُّتۡرَکُوۡۤا اَنۡ يَّقُوۡلُوۡۤا اٰمَنَّا وَہُمۡ لَا يُفۡتَنُوۡنَ۔ وَلَقَدۡ فَتَنَّا الَّذِيۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ فَلَيَعۡلَمَنَّ اللہُ الَّذِيۡنَ صَدَقُوۡا وَلَيَعۡلَمَنَّ الۡکٰذِبِيۡنَ۔

کيا (اس زمانہ کے) لوگوں نے يہ سمجھ رکھا ہے کہ ان کا يہ کہہ دينا کہ ہم ايمان لے آئے ہيں (کافي ہوگا) اور وہ چھوڑ ديئے جائيں گے اور ان کو آزمايا نہ جائے گا۔ حالانکہ جو (لوگ) ان سے پہلے گذر چکے ہيں ان کو ہم نے آزمايا تھا (اور اب بھي وہ ايسا ہي کرے گا) سو اللہ ظاہر کر دے گا ان کو بھي جنہوں نے سچ بولا اور ان کو بھي جنہوں نے جھوٹ بولا۔ (عنکبوت:3-4)

مذہبي جماعتوں کي تاريخ بتاتي ہے کہ ہر دَور ميں خدا کے سچےّ نبيوں پر ايمان لانے والوں کو کبھي اموال کي قرباني سے کبھي جانوں کي قرباني سے کبھي اولاد، جائيداد اور تجارتوں ميں نقصان سے اور کبھي منافقين کے گمراہ کن پروپيگنڈے سے آزمايا گيا۔ ان آزمائشوں کا مقصد صرف يہ تھا کہ مضبوط ايمان والوں اور سچے وفا داروں کو کمزور ايمان والوں، منافقين اور بے وفاؤں سے ممتاز کر ديا جائے اور دنيا ديکھ لے کہ خداتعاليٰ کي تائيد و نصرت کِس کے ساتھ ہے۔

اسلام کي نشاة ثانيہ کے ليے ہمارے دَور ميں اللہ تعاليٰ نے حضرت مسيح موعود اور امام مہدئ دَوراں حضرت مرزا غلام احمد قادياني کو مبعوث فرمايا اور آپ کي تائيد ميں آسمان و زمين سے ظاہر ہونے والے نشانات نے ثابت کر ديا کہ باني جماعت احمديہ خداتعاليٰ کي ايک مجسم قدرت کے رنگ ميں ظاہر ہوئے اور آپ نے ہي يہ خوشخبري بھي دي کہ ميرے بعد کچھ اور مقدّس وجود ظاہر ہوں گے جو خدا کي قدرتِ ثانيہ کے مظہر ہوں گے اور يہ قدرتِ ثانيہ قيامت تک تمہارے ساتھ رہے گي۔ حضرت مسيح موعود فرماتے ہيں:

غرض دو قسم کي قدرت ظاہرکرتا ہے۔ اوّل خود نبيوں کے ہاتھ سے اپني قدرت کا ہاتھ دکھاتا ہے دوسرے ايسے وقت ميں جب نبي کي وفات کے بعد مشکلات کا سامنا پيدا ہوجاتا ہے…… پس وہ جو اخير تک صبر کرتا ہے خداتعاليٰ کے اس معجزہ کوديکھتا ہے جيسا کہ حضرت ابوبکرؓ کے وقت ميں ہوا…… تمہارے ليے دوسري قدرت کا ديکھنا بھي ضروري ہے اور اس کا آنا تمہارے ليے بہتر ہے کيونکہ وہ دائمي ہے جس کا سلسلہ قيامت تک منقطع نہيں ہوگا اور وہ دوسري قدرت نہيں آسکتي جب تک مَيں نہ جاؤں ليکن جب مَيں جاؤں گا تو پھر خدا اس دوسري قدرت کو تمہارے ليے بھيج دے گا جو ہميشہ تمہارے ساتھ رہے گي۔

(رسالہ الوصيت، روحاني خزائن جلد 20 صفحہ 304-305)

مَيں خدا کي طرف سے ايک قدرت کے رنگ ميں ظاہر ہوا اور مَيں خدا کي ايک مجسم قدرت ہوں اور ميرے بعد بعض اور وجود ہوں گے جو دوسري قدرت کا مظہر ہوں گے۔ چاہيے کہ جماعت کے بزرگ جو نفس پاک رکھتے ہيں ميرے نام پر ميرے بعد لوگوں کي بيعت ليں۔

(الوصيت رسالہ، روحاني خزائن جلد20، صفحہ 307)

مذکورہ بالا حوالہ ميں حضرت مسيح موعود نے حضرت ابوبکر صديقؓ کا ذکر کرکے نظامِ خلافت واضح کرديا ہے پھر پاک نفس بزرگوں کا آپ کے نام پر بيعت لينا پھر قدرتِ ثانيہ کي صورت ميں بعض وجودوں کے ظہور کا ذکر کرنا شخصي خلافت کي طرف واضح اشارہ ہے کيا کوئي انجمن قدرتِ ثانيہ کي مظہر ہوسکتي ہے کيا انجمن کسي کي بيعت لے سکتي ہے پھر کيا کوئي انتظامي ادارہ کسي قوم کي روحاني راہ نمائي کرسکتا ہے۔ ليکن سچ بات يہ ہے کہ جب علم اور تجربہ کا جھوٹا گھمنڈ سر پر سوار ہو اور اپني خدمات دينيہ کا احساس انسان کو اونچي ہواؤں ميں اُڑا رہا ہو تو پھر انسان کو صرف اپني ذات ہي نظر آتي ہے اور اپنے افکار اور طرزِفکر ہي درست معلوم ہوتي ہے۔ تکبر وہ بيماري ہے جو انسان کو اندھا اور بہرہ کر ديتي ہے انسان ديکھتے ہوئے بھي نہيں ديکھتا اور سوچنے سمجھنے کي صلاحيت بھي معطل ہوجاتي ہے۔ قرآنِ کريم ميں اللہ تعاليٰ نے ايسے ہي لوگوں کا ذکر فرمايا ہے۔

فَاِنَّہَا لَا تَعۡمَي الۡاَبۡصَارُ وَلٰکِنۡ تَعۡمَي الۡقُلُوۡبُ الَّتِيۡ فِي الصُّدُوۡرِ۔ (الحج:47)

ترجمہ: اصل بات يہ ہے کہ ظاہري آنکھيں اندھي نہيں ہوتيں بلکہ دل جو سينوں ميں ہيں اندھے ہوتے ہيں۔

خواجہ کمال الدين صاحب، مولوي محمد علي صاحب، سيّد محمد حسين صاحب اور شيخ رحمت اللہ صاحب نے حضرت مسيح موعود کي يہ واضح تحرير اور نظامِ خلافت کے قيام کي خوشخبري کے مطالعہ اور سمجھنے کے بعد بھي حضرت اقدس کے وصال کے فوراً بعد اگرچہ ظاہري طور پر حضرت مولوي نورالدينؓ جيسي عظيم بزرگ شخصيت کو خليفةالمسيح مان کر ان کے ہاتھ پر بيعت تو کرلي تھي ليکن اندر ہي اندر وہ خفيہ پراپيگنڈے ميں مصروف تھے کہ اصل جانشين انجمن ہے۔ جس کے سربراہ مولوي محمد علي صاحب تھے اور خليفۂ وقت کا کام صرف نمازوں کي امامت کرنا اور درس و تدريس ہے اس کے علاوہ اور کچھ نہيں اور اسے انجمن کے معاملات ميں مداخلت کا بھي کوئي حق نہيں ہے۔

حضرت خليفةالمسيح الاوّل کے دَورِ خلافت ميں

فتنہ انکار خلافت

حضرت مسيح موعود کے وصال کے فوراً بعد الٰہي نَوِشتوں کے عين مطابق قدرتِ ثانيہ کا آغاز حضرت مولوي نورالدينؓ صاحب کي خلافت سے ہوگيا۔ اللہ تعاليٰ نے اس وقت مومنين کے غمزدہ دلوں کو خلافت کے بابرکت نظام کے ذريعہ ڈھارس دي اور تصرفِ الٰہي سے مومنين کے دِلوں کو حضرت مولوي نورالدينؓ کي خلافت کي طرف پھير ديا چنانچہ جماعت کي بھاري اکثريت نے حضرت مولوي صاحب کي دَستي بيعت کرکے خلافتِ احمديہ کي بنياد رکھ دي۔ 27 مئي 1908ء کا دن کيا ہي روشن اور بابرکت دن تھا جس دن خداتعاليٰ نے نوعِ انساني کے ليے دائمي طور پر روحاني راہ نمائي کا سامان خلافتِ احمديہ کي شکل ميں مہيا فرما ديا۔ فتنہ انکارِ خلافت کا آغاز حضرت مسيح موعود کے وصال کے فوراً بعد ہي ہوگيا تھا۔ مولوي محمد علي صاحب، خواجہ کمال الدين صاحب، شيخ رحمت اللہ صاحب اور سيّد محمد حسين صاحب اپنے ہم نواؤں کے ساتھ باوجود حضرت مولوي نورالدين صاحب کے ہاتھ پر بيعت کرنے کے اندر ہي اندر خفيہ کارروائيوں ميں مصروف تھے۔ مسلسل چھوٹے اور بڑے پيمانے پر ميٹنگيں بلائي جاتيں، خفيہ کتابچے اور پمفلٹ لکھ کر احباب جماعت ميں تقسيم کئے جاتے۔ ان تمام کارروائيوں کا صرف ايک ہي مقصد تھا اور وہ يہ کہ احباب جماعت کو اس بات کا قائل کيا جائے کہ حضرت مسيح موعودؑ کي جاں نشين انجمن ہے نيز خليفہ کے مقام کو گرايا جائے اور اس کي طرف بعض ايسي باتيں منسوب کي جائيں جن کا علم ہونے پر خليفۂ وقت سے دل متنفّر ہوجائيں اور خلافت کي اہميت بالکل ختم ہوجائے۔

حضرت خليفةالمسيح الثانيؓ فرماتےہيں:

حضرت مسيح موعود کي وفات کو ابھي پندرہ دن بھي نہ گزرے تھے کہ خواجہ صاحب(خواجہ کمال الدين) نے مولوي محمد علي صاحب کي موجودگي ميں مجھ سے سوال کيا کہ مياں صاحب آپ کا خليفہ کے اختيارات کے متعلق کيا خيال ہے؟ مَيں نے کہا کہ اختيارات کے فيصلے کا وہ وقت تھا جب کہ ابھي بيعت نہ ہوئي تھي جبکہ حضرت خليفہ اوّل نے صاف صاف کہہ ديا تھا کہ بيعت کے بعد تم کو پوري اطاعت کرني ہوگي اور اس تقرير کو سُن کر ہم نے بيعت کي تو اب آقا کے اختيار مقرر کرنے کا حق غلاموں کو کب حاصل ہے۔

(اختلافات سلسلہ کي تاريخ بحوالہ سوانح فضل عمرجلد اوّل صفحہ 186)

بعض سوالات کے جواب ميں مولوي محمد علي صاحب سيکرٹري صدرانجمن احمديہ اور ان کے ہم نواؤں خواجہ کمال الدين صاحب ڈاکٹر مرزا يعقوب علي صاحب، شيخ رحمت اللہ صاحب اور ڈاکٹر سيّد محمد حسين شاہ صاحب نے مشترکہ طور پر لکھا۔

حضرت مسيح موعود کي وصيت کے رُو سے ان کي جانشين انجمن ہے حضرت صاحب نےکسي فرد واحد کو اپنا جانشين نہيں بنايا۔ اور يہ ضروري نہيں کہ خليفہ ايک ہي شخص ہو بلکہ ايک جماعت بھي ہوسکتي ہے۔

(حقيقت اختلافات بحوالہ سوانح فضلِ عمر جلداوّل صفحہ 191)

خواجہ کمال الدين صاحب نے حضرت خليفہ اوّل کے ہاتھ پر بيعت کرنے کے باوجود لاہور ميں اپنے ذاتي مکان ميں لاہور ميں رہنے والے احمديوں کو ايک جلسہ پر آنے کي دعوت دي اور تقرير ميں کہا سلسلہ کي تباہي کا خطرہ ہے۔ اصل جانشين حضرت مسيح موعود کي انجمن ہي ہے اور اگر يہ بات نہ رہي تو جماعت خطرہ ميں پڑ جائے گي اور سلسلہ تباہ ہوجائے گا۔

(حقيقت اختلاف بحوالہ سوانح فضلِ عمر جلداوّل صفحہ 191)

حضرت مولوي نورالدين صاحبؓ جنہيں خلافت کا اعزازي چولہ خداتعاليٰ نے اپنے ہاتھ سے پہنايا تھا اپني خدائي فراست سے ان لوگوں کو اچھي طرح پہچان گئے تھے جو اپني خفيہ کارروائيوں سے احباب جماعت کے ذہنوں کو زہر آلود کر رہے تھے آپ نے ان کو متعدد بار بلا کر سخت ناراضگي کا اظہار فرمايا اور ان کي دوبارہ بيعت لي آپؓ نے اپنے دل ہلا دينے والے مؤثر و پُرجوش خطابات اور تقارير کے ذريعہ احباب جماعت پر خلافت کي اہميت اس نظام کي عظمت اور خليفۂ وقت کے مقام کو واضح کيا جس سے جماعت مومنين کے دلوں سے شکوک و شبہات کي گرد دُھل گئي اور اذہان زہريلے پراپيگنڈا سے پاک ہوگئے۔ آپ نے فرمايا:

پس اگر مجھے خليفہ بنايا ہے تو خدا نے بنايا ہے… خداکے بنائے ہوئے خليفہ کو کوئي طاقت معزول ںہيں کرسکتي۔ اس ليے تم ميں سے کوئي مجھے معزول کرنے کي طاقت نہيں رکھتا۔ اگر اللہ تعاليٰ نے مجھے معزول کرنا ہوگا تو مجھے موت دے دے گا… پس مجھ کو نہ کسي انجمن نے(خليفہ) بنايا ہے اور نہ مَيں اس کے بنانے کي قدر کرتا ہوں اور اس کے چھوڑ دينے پر تھوکتا بھي نہيں۔

(بدر قاديان 25 جنوري اور 28 جنوري

بحوالہ سوانح فضلِ عمر جلد اوّل صفحہ 203،206)

حضرت خليفةالمسيح الاوّل نے اپنے ايک اَور خطاب ميں جو آپؓ نے مسجد مبارک قاديان ميں ڈھائي سو افراد کي موجودگي ميں ديا، منکرينِ خلافت کو مخاطب کرکے فرمايا:

تم نے اپنے عمل سے مجھے اتنا دُکھ ديا ہے کہ مَيں اس حصہ مسجد ميں بھي کھڑا نہيں ہوا جو تم لوگوں کا بنايا ہوا ہے بلکہ مَيں اپنے مرزا کي مسجد ميں کھڑا ہوا ہوں۔ ميرا فيصلہ ہے کہ قوم اور انجمن دونوں کا خليفہ مطاع ہے اور يہ دونوں خادم ہيں۔

(خلافت احمديہ کے مخالفين بحوالہ سوانح فضلِ عمر جلداوّل صفحہ 195)

منکرينِ خلافت نے حضرت خليفةالمسيح الاوّل پر نہايت دل آزار حملے کئے۔ آپ پر الزام لگايا گيا کہ آپ ايک ڈکٹيٹر اور آمر ہيں اور اپنے حکموں کو زبردستي احباب جماعت پر ٹھونستے ہيں آپ پر يہ بھي الزام لگايا گيا کہ آپ نے نعوذباللہ حضرت مسيح موعود کي منشاء اور وصيت کے خلاف انجمن کي بجائے خلافت کو جماعت پر ٹھونس ديا ہے نيز آپ نے قومي اموال ميں بدديانتي سے اس کا غلط استعمال کيا ہے نيز يہ کہ آپ نے اپني پسند کے لوگوں کو بعض عہدوں پر مسلّط کيا ہے آپ پر يہ الزام بھي لگايا گيا کہ بڑھاپے اور جسماني کمزوري کے باعث آپ بطور خليفةالمسيح اپنے فرائض ادا نہيں کرسکتے چنانچہ ڈاکٹر مرزا يعقوب بيگ صاحب ايک خط ميں لکھتے ہيں۔ خليفہ صاحب کا تلوّن طبع بہت بڑھ گيا ہے…… اگر ذرا بھي تخالف خليفہ صاحب کي رائے سے ہو تو برا فروختہ ہوجاتے ہيں… ڈاکٹر سيّد محمد حسين شاہ صاحب ايک خط ميں لکھتے ہيں۔ حضرت مولوي صاحب کي طبيعت ميں ضِد اس حد تک بڑھ گئي ہے کہ دوسرے کي سن ہي نہيں سکتے۔ وصيت کو پس پشت ڈال کر خدا کے فرستادہ کے کلام کي بےپرواہي کرتے ہوئے شخصي وجاہت اور حکومت ہي پيش نظر ہے۔ سلسلہ تباہ ہوتو ہو مگر اپنے منہ سے نکلي ہوئے بات نہ ٹلے۔

(سوانح فضلِ عمر جلداوّل صفحہ347-357)

حضرت خليفةالمسيح الاوّلؓ کي

حضرت مصلح موعودؓ سے محبّت

حضرت خليفةالمسيح الاوّل کے دَور خلافت ميں منکرينِ خلافت نے اپنے اختيارات اور اثر و رُسوخ کا فائدہ اُٹھا کر جماعتي اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کي سَرتوڑ کوشش کي خفيہ ميٹنگوں خطوط اور پمفلٹ شائع کرکے احبابِ جماعت کو نظامِ خلافت سے متنفرکرنے کي پوري کوشش کي گئي اور اس رويہ سے حضرت مولوي نورالدين صاحب خليفہ اوّل کو شديد ذہني اذيت پہنچائي گئي آپ نے اس فتنہ کے سرکردہ افراد کو بلا کر سخت ناراضگي کا اظہار کيا اور اپنے خطبات اور تقارير سے اس فتنے کا قلع قمع کرنے کي کوشش فرماتے رہے۔ اس دوران صاحبزادہ مرزا بشيرالدين محمود احمد صاحبؓ نے دلي اخلاص سے اطاعت و فرمانبرداري کا بہترين نمونہ دکھايا۔ دل سے خلافت کي تائيد کي۔ آپ کو جماعتي حالات سے سخت صدمہ پہنچا۔ آپؓ نے دن رات اپني متضرّعانہ دعاؤں سے تحريرات سے اور عملي روّيہ سے حضرت خليفةالمسيح الاوّلؓ کا ساتھ ديا۔ منکرينِ خلافت کي دلائل کي رُو سے ان کي غلطياں ثابت کيں۔ حضرت خليفةالمسيح الاوّلؓ نے اپنے نُورِ فراست سے حضرت صاحبزادہ مرزا بشيرالدين محمود احمد صاحبؓ کے دِلي اخلاص کو ديکھ ليا۔ ايک دفعہ آپؓ نے اپني علالت کے دوران حضرت صاحبزادہ صاحب کو امام الصلوٰة مقرر فرمايا تو مولوي محمد علي صاحب نے اعتراض کيا کہ جيّد علماء کي موجودگي ميں ايک نوجوان کو امام الصلوٰة بنانا مناسب نہيں ہے۔ اس پر حضرت مولوي صاحب نے فرمايا: اِنَّ اَکۡرَمَکُمۡ عِنۡدَ اللہِ اَتۡقٰکُمۡ(الحجرات:14) مجھے محمود جيسا ايک بھي متّقي نظر نہيں آتا۔ پھر فرمايا کيا ميں مولوي محمد علي صاحب سے کہوں کہ وہ نماز پڑھايا کريں؟

(سوانح فضلِ عمر جلد اوّل صفحہ 314)

19 سال کي عمر ميں حضرت صاحبزادہ صاحب نے جلسہ سالانہ پر تقرير کي۔ حضرت مولوي صاحب نے تقرير سُن کر فرمايا مياں نے بہت سي آيات کي ايسي تفسير کي ہے جو ميرے ليے بھي نئي تھي۔(سوانح فضل عمرجلد اوّل صفحہ 218)

حضرت خليفةالمسيح الاوّل کي وفات سے چھ ماہ قبل حضرت پير منظور محمد صاحبؓ مصنف قاعدہ يسّرناالقرآن نے آپ کي خدمت ميں عرض کي۔ مجھے آج حضرت اقدسؑ کے اشتہارات کو پڑھ کر پتہ مل گيا ہے کہ پسرِموعود مياں صاحب ہي ہيں اس پر حضرت خليفہ اوّلؓ نے فرمايا ہميں تو پہلے ہي سے معلوم ہے کيا تم نہيں ديکھتے کہ ہم مياں صاحب کے ساتھ کس خاص طرز سے ملا کرتے ہيں اور ان کا ادب کرتے ہيں۔ (حياتِ نور صفحہ 399)

حضرت مولوي صاحب نے شيخ عبدالرحمٰن مصري صاحب لاہوري کو جو اس وقت مصر ميں تعليم حاصل کررہے تھے تحريراً فرمايا: تمہيں وہاں کسي شخص سے قرآن پڑھنے کي ضرورت نہيں جب تم واپس قاديان آؤ گے توہمارا علم قرآن پہلے سے بھي ان شاءاللہ بڑھا ہوا ہوگا اور اگر ہم نہ ہوئے تو مياں محمود صاحب سے قرآن پڑھ لينا۔

(حيات نور صفحہ 401)

حضرت مولوي صاحبؓ عورتوں ميں قرآن کا درس ديا کرتے تھے آپ نے اپني بيٹي امةالحئي کو وصيت کي ميرے مرنے کے بعد مياں سے کہہ دينا کہ وہ عورتوں ميں درس ديا کريں۔ (حيات نور صفحہ402)

حضرت مولوي صاحب نے احمديہ بلڈنگ لاہورميں تقرير کرتے ہوئے کہا: مَيں سچ کہتا ہوں کہ جتني فرمانبرداري ميرا پيارا محمود، بشير، شريف، نواب ناصر، نواب محمدعلي خان کرتا ہے تم ميں سے ايک بھي نظر نہيں آتا۔ (سوانح فضلِ عمر جلد اوّل صفحہ206)

1911ء ميں آپ گھوڑے سے گر کر شديد زخمي ہوئے۔ اس حادثہ کے گيارہ دن بعد آپ نے ايک بند لفافے ميں اپني ايک لکھي ہوئي وصيت اپنے شاگرد شيخ تيمور کے سپرد کي جنہوں نے چھپ کر لفافہ کھول کر وصيت پڑھ لي۔ اس ميں لکھا تھا خليفہ محمود پھر اس لفافے کو بند کر ديا حضرت مولوي صاحبؓ نے صحت ياب ہونے کے بعد اس لفافے کو تلف کر ديا۔

(سوانح فضل عمرجلد اوّل صفحہ 336، حيات نور صفحہ 397)

 

 

متعلقہ مضمون

  • جلسہ سالانہ کی اہمیت

  • فیصلہ جات مجلس شوریٰ جماعت احمدیہ جرمنی 2024

  • تیری مدد وہ لوگ کریں گے جن کے دلوں میں ہم اپنی طرف سے الہام کریں گے

  • خلافت اور جماعت کے باہمی پیار کا تعلّق