مضمون: مکرم سیّد حسن طاہر بخاری صاحب مربی سلسلہ

انچارج رشین ڈیسک جرمنی

 

سیّدنا حضرت مسیح موعود نے اپنی جماعت کا شناختی نشان نماز کو قرار دیا ہے، فرمایا:
تم پنجوقتہ نماز اور اخلاقی حالت سے شناخت کئے جاؤگے۔ (مجموعہ اشتہارات جلد 9 صفحہ 45)
حضرت میر محمد اسماعیل صاحبؓ نےبیان کیا ہے:
حضرت مسیح موعود ارکان دین میں سب سے زیادہ زور نماز پر دیتے تھے اور فرماتے تھے کہ نمازیں سنوار کرپڑھا کرو۔ (سیرت المہدی جلد 3 صفحہ 126)
اِس معیار کو سب سے عمدگی اور بلندی سے حاصل کرنے والے خود حضرت مسیح موعودؑ تھے۔ آپؑ کی ابتدائی زندگی پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپؑ کی دلچسپیوں کا واحد محوراور مرکز نماز اور مسجد تھی۔ اگر خداتعالیٰ آپؑ کو اس گوشہ گمنامی سے نکال کر توحید کا پرچم بلند کرنے کا حکم نہ دیتا تو آپؑ اسی طرح ساری عمرگزار دیتے۔ دعویٰ ماموریت کے بعد تو آپؑ نے قیام نماز اور عبودیتِ الٰہی کے ایسے نمونے دکھائے جو رہتی دنیا تک مشعل راہ رہیں گے۔ آئیے! خشوع و خضوع سے معمور آپؑ کی نمازوں کے کچھ نظاروں سے اپنے ایمانوں کو گرمائیں۔
حضرت مسیح موعودؑ کو شروع سے آخری سانس تک نماز کے ساتھ گہرا تعلق رہا۔ آپؑ کے سوانح میں یہ واقعہ ملتاہے کہ جب آپؑ کی عمر نہایت چھوٹی تھی تو اُس وقت آپؑ اپنی ہم عمر رشتہ دار لڑکی سے (جو بعد کو آپؑ سے بیاہی گئی) فرمایا کرتے تھے کہ دعا کر کہ خدا میرے نماز نصیب کرے۔ یہ فقرہ بظاہرنہایت مختصر ہے مگر اس سے عشقِ الٰہی کی اس کیفیت کا پتہ چلتا ہے جو شروع سے ہی آپؑ کےقلب صافی پر طاری تھی۔ حضرت مسیح موعودؑ نے اپنے انہی رحجانات کا نقشہ کھینچتے ہوئے ایک مقام پر لکھا ہے کہ:
اَلْمَسْجِدُ مَکَانیِ وَالصَّالِحُوْنَ اِخْوَانِیْ
وَذِکْرُ اللہِ مَالِیْ وَ خَلْقُ اللہِ عَیَالِیْ
یعنی مسجد میرا مکان، صالحین میرے بھائی، یاد الٰہی میری دولت اور مخلوق خدا میرا عیال اور خاندان ہے۔
(تاریخ احمدیت جلد اوّل صفحہ 53)
پنڈت دیوی رام صاحب جو 1875ء میں نائب مدرس ہوکر قادیان آئے، حضورؑ کے بارے میں بیان کرتے ہیں:
آپ کی عمر اُس وقت 30،25 سال کے درمیان تھی۔ مرزا صاحب پانچ وقت نماز کے عادی تھے۔ روزہ رکھنے کے عادی تھے اور خوش اخلاق، متقی اور پرہیزگار تھے۔” (سیرت المہدی جلد 3 صفحہ 179)
اُس دَور میں آپؑ نے حافظ معین الدین صاحبؓ کو اپنے خرچ پر محض اس مقصد کے لئے اپنےپاس رکھا کہ ان کے ساتھ مل کر نمازباجماعت ادا کرلیا کریں گے۔اس وقت حافظ صاحب نے یہ سمجھ کر کہ شاید مجھے کوئی کام کرنا پڑے، عرض کیا کہ مجھ سے کوئی کام تو ہونہیں سکے گا کیونکہ میں معذور ہوں۔ حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا کہ حافظ! کام تم نے کیا کرنا ہے۔ اکٹھے نماز پڑھ لیا کریں گے۔
اس سے حضرت مسیح موعود کے جوش عبادت کا بھی پتہ لگتا ہے جو باجماعت نماز کا آپ کے دل میں تھا۔
(اصحاب احمد جلد 13 صفحہ 287-288)
اس وقت آپؑ کی سیروتفریح بھی مسجد سے وابستہ تھی۔ عمومًا مسجد میں ہی ٹہلتے رہتے اور محو ہوکر اتنا ٹہلتے کہ جس زمین پر ٹہلتے وہ دب دب کر باقی زمین سے متمیّز ہوجاتی۔
(سیرت مسیح موعود از شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی ص 69)
عبادت الٰہی سے متعلق حضرت مرزا دین محمد صاحبؓ آف لنگروال کی چشم دید شہادت ہے کہ:
قریبًا 1872ء کا ذکر ہے میں چھوٹا تھا۔ مرزا نظام الدین صاحب وغیرہ میرے پھوپھی زاد بھائی ہیں۔ میں عام طور پر حضرت مرزاصاحب کے والد صاحب کے گھر بوجہ رشتہ داری آتا جاتا تھا…… مگر حضرت مرزا صاحب کی گوشہ نشینی کی وجہ سے میں یہی سمجھتا تھا کہ مرزا غلام مرتضیٰ صاحب کا ایک ہی لڑکا غلام قادر ہے۔ مگر مسجد میں مَیں مرزا صاحب کو بھی دیکھتا… ایک دن میں نے دیکھا… کہ آپ نماز پڑھ کر گھر تشریف لے جارہے ہیں… میں بھی جلدی سے اُٹھ کر آپ کی طرف گیا… اس کے بعد مجھے آپ کی واقفیت ہوگئی۔ آپ ایک بالاخانہ پر عبادت میں مصروف رہتے تھے… اس کے بعد آپ سے مجھے اُنس ہوگیا… میں آپ کے پاس ہی رہتا تھا اور اُسی کمرہ میں سوتا تھا… آپ مسجد میں فرض نماز ادا کرتے۔ سنّتیں اور نوافل مکان پر ہی ادا کرتے تھے۔ عشاء کی نماز کے بعد آپ سوجاتے تھے اور نصف رات کے بعد آپ جاگ پڑتے اور نفل ادا کرتے… فجر کی اذان کے وقت آپ پانی کے ہلکے ہلکے چھینٹوں سے مجھے جگاتے تھے۔ ایک دفعہ میں نے دریافت کیا کہ حضور مجھے ویسے ہی کیوں نہیں جگا دیتے۔ آپ نے فرمایا حضور رسول کریمﷺ کا یہی طریق تھا اس سنّت پر میں کام کرتا ہوں تاکہ جاگنے میں تکلیف محسوس نہ ہو۔ نماز فجر کے بعد آپ واپس آکر کچھ عرصہ سوجاتے تھے کیونکہ رات کا اکثر حصّہ عبادتِ الٰہی میں گزرتا تھا۔ (تاریخ احمدیت جلد اوّل صفحہ 120-121)
حضرت مسیح موعودؑ کو بار ہامختلف مصالح کے لیے سفر کرنے پڑے مگر ان میں بھی آپ نماز کا بھر پور اہتمام کرتے۔ حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحب نے بیان کیا کہ:
حضرت مسیح موعودؑ کے ملازم غفّار کا کام اتنا ہی تھا کہ جب آپ مقدّمات کے لئے سفر کرتے تو وہ ساتھ ہوتا اور لوٹا اور مصلّی اس کے پاس ہوتا۔ ان دنوں آپ کا معمول یہ تھا کہ رات کو بہت کم سوتے اور اکثر حصہ جاگتے اور رات بھر نہایت رِقّت آمیز لہجہ میں گنگناتے رہتے۔
(شمائل احمدصفحہ 28)
آپؑ کے یہ سفر مقدمات کے لئےبھی ہوتے اور مقدمات خواہ کتنے پیچیدہ، اہم اور آپ کی ذات یا خاندان کے لئے دور رَس نتائج کے حامل ہوتے، آپ نماز کی ادائیگی کو ہر صورت میں مقدّم رکھتے تھے اور کبھی نماز ضائع نہیں ہونے دی۔ عین کچہری میں نماز کا وقت آتا تو اس کمال محویت اور ذوق شوق سے مصروف نماز ہو جاتے کہ گویا آپ صرف نماز پڑھنے کے لئے آئے ہیں، کوئی اور کام آپ کے مدّنظر نہیں ہے۔ بسا اوقات ایسا ہوتا کہ آپ خداتعالیٰ کے حضور کھڑے عجز و نیاز کر رہے ہوتے اور مقدمہ میں طلبی ہو جاتی مگر آپ کے استغراق، توکل علیٰ اللہ اور حضورِقلب کا یہ عالم تھا کہ جب تک مولائےحقیقی کے آستانہ پر جی بھر کر الحاح وزاری نہ کرلیتے اس کے دربار سے واپسی کا خیال تک نہ لاتے۔ چنانچہ خود فرماتے ہیں:
مَیں بٹالہ ایک مقدمہ کی پیروی کے لئے گیا۔ نماز کا وقت ہو گیا اور میں نماز پڑھنے لگا۔ چپڑاسی نے آواز دی مگر میں نماز میں تھا۔فریقِ ثانی پیش ہو گیا اور اس نے یک طرفہ کارروائی سے فائدہ اٹھانا چاہا اور بہت زور اس بات پر دیا۔ مگر عدالت نے پروا نہ کی اور مقدّمہ اس کے خلاف کردیا اور مجھے ڈگری دے دی۔ مَیں جب نماز سے فارغ ہو کر گیا تو مجھے خیال تھا کہ شاید حاکم نے قانونی طور پر میری غیرحاضری کو دیکھا ہو۔ مگر جب میں حاضر ہوا اور مَیں نے کہا کہ میں تو نماز پڑھ رہا تھا تو اس نے کہامیں تو آپ کوڈ گری دے چکا ہوں۔
(حیات احمد صفحہ74)
عدالت سے غیر حاضری کے باوجود آپ کے حق میں فیصلہ ہو جانا ایک بھاری الٰہی نشان تھا جو آپ کے کمال درجہ انقطاع و ابتہال کے نتیجہ میں نمودار ہوا۔
گورداسپور میں 21 جولائی 1904ء کی ایک مبارک تقریب میں ایسی ہی ایک نماز کا وجد آفرین اور روح پرور منظر حضرت منشی محمد افضل صاحبؓ مدیر البدر نے کچھ اس طرح رقم کیا:
ایک بجے کا وقت تھا۔ کہ حضرت مسیح موعودؑ نے چند ایک موجودہ خدام کو ارشاد فرمایا کہ نماز پڑھ لی جاوے۔ سب نے وضو کیا۔ نماز کے لئے چٹائیاں بچھیں۔ حاضرین منتظر تھے کہ حسب دستور سابقہ حضور کسی حواری کو امامت کے لئے ارشادفرماویں گے کہ اسی اثناء میں آگے بڑھے۔ اور اقامت کہے جانے کے بعد آپ نے نماز ظہر اور عصر قصر اور جمع کرکے پڑھائیں۔ حضور کوامام اور خود کومقتدی پا کر حاضرین کے دل باغ باغ تھے۔ ان مقتدیوں میں کئی ایسے احباب تھے۔ جن کی ایک عرصہ سے آرزوتھی کہ حضرت مسیح موعودؑ نماز میں خود امام ہوں اور ہم مقتدی۔ ان کی امید آج برآئی اور مجھ پر بھی یہ راز کھلاکہ امام نماز کی جس قدر توجہ الیٰ اللہ زیادہ ہوتی ہےاسی قدر جذب قلوب بھی زیادہ ہوتا ہے۔ چونکہ خدا کے فضل سے اس مبارک نماز میں مَیں خود بھی شریک تھا۔ اس لئے دیکھا گیا کہ بےاختیار دلوں پر عاجزی اور فروتنی اور حقیقی عجز و انکسار غالب آتا جاتا تھا۔ اور دل اللہ تعالیٰ کی طرف کھچا جاتا تھا۔ اور اندر سے ایک آواز آتی تھی کہ دعا مانگو۔ قلب رقیق ہوکر پانی کی طرح بہہ بہہ جاتا تھا۔ اور اس پانی کو آنکھوں کے سوا کوئی راستہ نکلنے کا نہ ملتا تھا اور اس مبارک وقت کے ہاتھ آنے پر شکریہ الٰہی میں دل ہرگز گوارا نہ کرتا تھا کہ سجدہ سے سر اُٹھایا جاوے۔ غرضیکہ عجیب کیفیت تھی۔ اور ایک متقی امام کے پیچھے نماز ادا کرنے سے جو جو بخششیں اور رحمت از روئے حدیث شریف مقتدیوں کے شامل حال ہوتی ہیں۔ ان کا ثبوت دست بدست مل رہا تھا۔
(البدر 24 جولائی 1904ء)
حضرت اماں جانؓ بیان کرتی ہیں:
حضرت مسیح موعودؑ جب کبھی مغرب کی نماز گھر میں پڑھاتے تھے تو اکثر سورہ یوسف کی وہ آیات پڑھتے تھے جس میں یہ الفاظ آتے ہیں اِنَّمَاۤ اَشۡکُوۡا بَثِّیۡ وَحُزۡنِیۡۤ اِلَی اللہِ
(سیرت المہدی جلد اوّل صفحہ 68)
حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ فرماتے ہیں:
حضرت مسیح موعودؑ لوگوں پر اپنے جذبات کو کبھی ظاہر نہ ہونے دیتے تھے۔ مَیں نے کبھی نہیں دیکھا کہ آپ نماز با جماعت میں یا لوگوں کے سامنے کسی نماز میں اپنے خشوع وخضوع کو اس حد تک ظاہرکر یں کہ آپؑ کے آنسو ٹپکنے لگیں یا آپؑ کی گریہ کی آواز سنائی دے۔ ایک دفعہ سورج کو جب پورا گرہن لگا اور اس طرح رسول کریمﷺ کی پیشگوئی پوری ہوئی تو مسجد اقصیٰ قادیان میں نماز کسوف ادا کی گئی۔امام نماز مولوی محمد احسن صاحبؓ مرحوم تھےانہوں نے سورۃ فاتحہ اور قرأت بالجہر پڑھی اور بعض دعائیں بالجہر بھی کیں جس سے اکثر نمازیوں پر حالت وجد طاری ہوئی۔ بہتیر ے نماز میں رو رہے اور دعائیں کر رہے تھے۔ یا اللہ تعالیٰ کے اس احسان کے شکر میں ان کے دل رقیق ہو رہے تھے کہ ہم رسولِ پاکﷺ کی ایک پیش گوئی کو پورا ہوتا اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ اور ہمیں اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور رحم سے یہ توفیق عطا ہوئی کہ ہم اس سے فائدہ اٹھانے والے اور خداتعالیٰ کے فرستادہ کو قبول کرنے والے ہیں۔ غرض اکثر لوگ گریہ وبکا میں مصروف تھے مگر حضرت مسیح موعودؑ جو ہمارے ساتھ اُس نماز میں شامل تھے اور میں حضورؑ کے پہلو بہ پہلو کھڑا تھا، آپ کی کوئی آواز سنائی نہ دیتی تھی اور نہ جسم میں ایسی حر کات تھیں جو ایسی رِقّت کی حالت میں بعض دفعہ انسان پر طاری ہوجاتی ہیں۔ (الفضل 3 جنوری 1931ءصفحہ 5)
فرض نمازوں کے ساتھ نفل نمازوں کی بھی ایک خاص اہمیت ہے۔حضرت اماں جانؓ حضرت مسیح موعودؑ کی نفل نمازوں کے متعلق بیان فرماتی ہیں کہ:
حضرت مسیح موعودؑ نماز پنجوقتہ کے سوا عام طور پر دو قسم کے نوافل پڑھا کرتے تھے۔ ایک نماز اشراق (دو یا چار رکعت) جو آپ کبھی کبھی پڑھتے تھے اور دوسرے نماز تہجّد (آٹھ رکعات) جو آپ ہمیشہ پڑھتے تھے۔ سوائے اس کے کہ آپ زیادہ بیمار ہوں۔ لیکن ایسی صورت میں بھی آپ تہجّد کے وقت بستر پر لیٹے لیٹے ہی دعا مانگ لیتے تھے اور آخری عمر میں بوجہ کمزوری کے عمومًا بیٹھ کر نماز تہجّد ادا کرتے تھے۔
(سیرت المہدی جلد 1 صفحہ 3)
حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحبؓ فرماتے ہیں:
1895ء میں مجھے تمام ماہ رمضان قادیان میں گزارنے کا اتفاق ہوا اور مَیں نے تمام مہینہ حضرت صاحبؑ کے پیچھے نماز تہجّد یعنی تراویح ادا کی۔ آپؑ کی یہ عادت تھی کہ وتر اوّل شب میں پڑھ لیتے تھے اور نماز تہجّد آٹھ رکعت دو دو رکعت کرکے آخرِ شب میں ادا فرماتے تھے جس میں آپؑ ہمیشہ پہلی رکعت میں آیت الکرسی تلاوت فرماتے تھے۔ اور دوسری رکعت میں سورۃ اخلاص کی قراءت فرماتے تھے۔ اور رکوع اور سجود میں یا حی یا قیوم برحمتک استغیث اکثر پڑھتے تھے اور ایسی آواز سے پڑھتے تھے کہ آپ کی آواز میں سن سکتا تھا۔
(سیرت المہدی جلداوّل صفحہ 295)
حضرت مرزا دین محمد صاحبؓ لنگروال آپ کی ایک اور نفل نماز کا ذکر کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں:
جس دن آپ نے بٹالہ جانا ہوتا تو سفر سے پہلے آپ دو نفل پڑھ لیتے۔ (تاریخ احمدیت جلد اوّل صفحہ 76)
حضرت شیخ یعقوب علی صاحبؓ آپؑ کی خلوت کی عبادات اور دعائوں کا ذکر کرتے ہوئےفرماتے ہیں:
آپ خواہ سفر میں ہوں یاحضر میں۔ دعا کے لئے ایک مخصوص جگہ بنا لیا کرتے تھے۔ اور وہ بیت الدعا کہلاتا تھا۔ میں جہاں جہاں حضرت کے ساتھ گیا ہوں میں نے دیکھا ہے کہ آپ نے دعا کے لئے ایک الگ جگہ ضرور مخصوص فرمائی اور اپنے روزانہ پروگرام میں یہ بات ہمیشہ داخل رکھی ہے کہ ایک وقت دعا کے لئے الگ کر لیا۔ قادیان میں ابتداء میں تو آپؑ اپنے اُس چوبارہ میں ہی دعاؤں میں مصروف رہتے تھےجو آپؑ کے قیام کے لئے مخصوص تھا۔ جب اللہ تعالیٰ کی مشیتِ ازلی نے بیت الذکر بھی عام عبادت گاہ بنا دیا اور تخلیہ میسّر نہ رہا تو آپؑ نے گھر میں ایک بیت الدعاء بنایا۔ جب زلزلہ آیا اور حضورؑ کچھ عرصہ کے لئے باغ میں تشریف لے گئے تو وہاں بھی ایک چبوترہ اس غرض کیلئے تعمیر کرا لیا۔ گورداسپور مقدمات کے سلسلہ میں آپؑ کو کچھ عرصہ کے لئے رہنا پڑا تو وہاں بھی بیت الدعاء کا اہتمام تھا۔ غرض حضرتؑ کی زندگی کا یہ دستورالعمل بہت نمایاں ہے کہ آپؑ دعا کے لئے ایک الگ جگہ رکھتے تھے۔ بلکہ آخر حصہ عمر میں تو آپؑ بعض اوقات فرماتے کہ بہت کچھ لکھا گیا اور ہر طرح اتمام حجّت کیا۔ اب جی چاہتا ہے کہ میں صرف دعائیں کیا کروں۔ دعاؤں کے ساتھ آپؑ کو ایک خاص مناسبت تھی بلکہ دعائیں ہی آپؑ کی زندگی تھیں۔ چلتے پھرتے اٹھتے بیٹھتے آپؑ کی روح دعا کی طرف متوجّہ رہتی تھی۔ ہر مشکل کی کلید آپؑ دعا کو یقین کرتے تھے اور جماعت میں یہی جذبہ اور روح آپؑ پیدا کرنا چاہتے تھے کہ دعاؤں کی عادت ڈالیں۔
(سیرت حضرت مسیح موعودؑ صفحہ 504-505)
حضرت مسیح موعودؑ کے خادم حضرت حافظ حامد علی صاحبؓ نمازوں میں آپ کے خشوع و خضوع و گریہ و زاری کوبیان کرتے ہوئےفرماتے ہیں کہ:
تہجّد کے وقت حضورؑ ایسی آہستگی اور خاموشی سے اٹھتے کہ مجھے خبر نہ ہوتی۔ لیکن گاہے گاہے جب آپ کی آواز خشوع و خضوع کے سبب سے بےاختیار بلند ہوتی، مجھے خبر ہو جاتی اور مَیں شرمندہ ہو کراٹھتا… سجدہ کو بہت لمبا کرتے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اس گریہ و زاری میں آپؑ پگھل کر بہہ جائیں گے۔ (اصحاب احمد جلد 18 صفحہ 74) حضورؑ نماز میں اھدنا الصراط المستقیم کا بہت تکرار کرتے تھے اور سجدہ میں یا حی یا قیوم کا بہت تکرار کرتے۔ بار بار یہی الفاظ بولتے جیسے کوئی بڑے الحاح اور زاری سے کسی بڑے سے کوئی شے مانگے اور بار بار روتے ہوئے اپنی مطلوبہ چیز کو دہرائے۔
(الفضل 3 جنوری 1931ء )
مائی حیات بی بی صاحبہ اپنے والدفضل دین صاحب مرحوم سے زمانہ سیالکوٹ کے بارے میں روایت کرتی ہیں:
مرزا صاحب قرآنِ مجید پڑھتے پڑھتے بعض وقت سجدہ میں گر جاتے ہیں۔ اور لمبے لمبے سجدے کرتے ہیں اور یہاں تک روتے ہیں کہ زمین تر ہوجاتی ہے۔
(سیرت المہدی جلد 3 صفحہ 93)
ضلع پونچھ کے رہنے والے حضرت میاں سانولا صاحبؓ اپنے علاج کی خاطر چند ماہ قادیان میں رہے، اس دوران حضورؑ جب مسجد مبارک میں رات کو نماز پڑھنے کے لئے آتے تو وہ بھی اسی مسجد میں نماز پڑھنے کے لئے جاتے۔ انہوں نے دیکھا کہ آپؑ گھنٹے دو گھنٹے نماز میں کھڑے رہتے جب سجدہ میں جاتے تو دو دو گھنٹے سجدہ میں پڑے رہتے اور سجدہ کے وقت ان سے ایسی آواز نکلتی جیسے ابلتی ہوئی ہانڈی سے نکلتی ہے۔ سجدے کی جگہ روتے روتے تر ہو جاتی تھی۔ یہ دیکھ کر انہیں یقین آگیا کہ یہ شخص سچّا ہے۔ تب انہوں نے آپؑ کے ہاتھ پر بیعت کی۔
(تاریخ احمد یت کشمیر صفحہ 7 6)
حضرت بھائی عبدالرحمٰن صاحب قادیانیؓ کی روایت کے مطابق نماز جنازہ عموماً حضورؑ خود پڑھاتے تھے۔ (اصحاب احمد جلد 9 صفحہ 193تا 196) حضرت پیر سراج الحق صاحب نعمانیؓ نےاس بارہ میں ایک ایمان افروز واقعہ بیان کیا ہے:
حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ کا صاحبزادہ فوت ہو گیا اور اس کے جنازہ میں بہت احباب شریک تھے کہ حضرت اقدسؑ نے نماز جنازہ پڑھائی اور بڑی دیرلگی۔ بعد سلام کے آپؑ نے تمام مقتدیوں کی طرف منہ کر کے فرمایا کہ اس وقت ہم نے اس لڑکے کی نماز جنازہ ہی نہیں پڑھی بلکہ تم سب کی جو حاضر ہو اور ان کی جو ہمیں یاد آیا نماز جنازہ پڑھ دی ہے۔ ایک شخص نے عرض کیا کہ اب ہمارے جنازہ پڑھنے کی تو ضرورت نہیں رہی۔ حضرت اقدسؑ نے فرمایا کہ اگر تم میں سے کسی کو ایسا موقع نہ ملے تو یہی نماز کافی ہوگئی ہے۔ اس پر تمام حاضرین احباب کو بڑی خوشی ہوئی اور حضرت مسیح موعودؑ…… کے الفاظ اور چہرہ سے یہ معلوم ہوتا تھا کہ گویا ہم سب آپؑ کے سامنے جنازہ ہیں اور یقینًا ہماری مغفرت ہوگئی اور ہم جنّت میں داخل ہوگئے۔ اور آپؑ کی دعا ہمارے حق میں مغفرت کی قبول ہوگئی ہے اور اس میں کسی قسم کا شک و شبہ باقی نہیں رہا۔ (تذكرۃ المہدی صفحہ 79)
حضرت پیر سراج الحق صاحبؓ ہی ایک اور واقعے کا ذکر کرتے ہوئےفرماتے ہیں:
اٹھارہ بیس برس کا ایک شخص نو جوان تھا وہ بیمار ہوا اور اس کو حضرت مسیح موعودؑ کے حضور کسی گاؤں سے لے آئے… چند روز بیمار رہ کر وفات پا گیا۔ صرف اس کی ضعیفہ والدہ ساتھ تھی۔ حضرت اقدسؑ نے حسبِ عادت شریفہ اس مرحوم کی نماز جنازہ پڑھائی۔ بعض کو بباعث لمبی لمبی دعاؤں کے نماز میں دیر لگنے کے چکر بھی آ گیا اور بعض گھبرا اُٹھے….. بعد سلام کے فر مایا کہ وہ شخص جس کے جنازہ کی ہم نے اس وقت نماز پڑھی اس کے لئے ہم نے اتنی دعا ئیں کی ہیں اور ہم نے دعاؤں میں بس نہیں کی جب تک اس کو بہشت میں داخل کرا کر چلتا پھرتا نہ دیکھ لیا۔ یہ شخص بخشا گیا۔ اس کو دفن کر دیا۔ رات کو اس کی والدہ ضعیفہ نے خواب میں دیکھا کہ وہ بہشت میں بڑے آرام سے ٹہل رہا ہے اور اس نے کہا کہ حضرتؑ کی دعا سے مجھے بخش دیا اور مجھ پر رحم فرمایا اور جنّت میرا ٹھکانا کیا۔ گو کہ اس کی والدہ کو اس کی موت سے سخت صدمہ تھا لیکن اس مبشّر خواب کے دیکھتے ہی وہ ضعیفہ خوش ہوگئی اور تمام صدمہ اور رنج وغم بھول گئی۔
(تذکرۃالمہدی صفحہ 79-80)
الغرض حضرت مسیح موعود کا وہ سفر جونہایت چھوٹی عمر میں دعا کر کہ خدا میرے نماز نصیب کرے سے شروع ہوا، کیسے اپنے کمال کو پہنچا۔ حضرت مفتی صاحب کے الفاظ میں ملاحظہ فرمائیں:
آپ کا آخری کام بھی دنیا میں عبادتِ الٰہی ہی تھا۔ آپ کی وفات کے وقت مَیں حضورؑ کے قدموں میں حاضر تھا۔ جب تک آپؑ بول سکتے تھے۔ سوائے اس کے کوئی لفظ آپ کے منہ پر نہ تھا کہ اے میرے پیارے اللہ! اے میرے پیارے اللہ! آخری نصف شب اس حالت میں گزری۔ یہاں تک کہ گلے کی خشکی کے سبب بولنا دشوار ہوگیا۔ جب کمرے میں فجر کی کچھ روشنی آپ نے دیکھی تو فرمایا نماز! اس وقت یہ عاجز حضور کے پاؤں دبا رہا تھا اور حضرت صاحبزادہ مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحبؓ خلیفۃالمسیح نے جو سرہانے کے قریب بیٹھے تھے، یہ سمجھا مجھے فرماتے ہیں کہ نماز کا وقت ہوگیا نماز پڑھ لو۔ انہوں نے عرض کی مَیں نماز پڑھ چکا ہوں۔ آپؑ نے دوبارہ فرمایا نماز! اور ہاتھ سینے پر باندھ کر نماز پڑھنی شروع کی۔ اس کے بعد حضور نے پھر کوئی کلمہ نہیں بولا۔ یہاں تک کہ آٹھ بجے کے قریب حضور کا وصال اپنے حقیقی معبود اور محبوب کے ساتھ ہوگیا۔ پس آپؑ کا آخری فعل بھی اس دنیا میں عبادت ہی تھا۔ خلوت میں بھی عبادت الٰہی میں مصروف رہتے تھے اور جلوت میں بھی آپؑ عبادت الٰہی میں لگے رہتے تھے۔ آپؑ کا جینا بھی عبادتِ الٰہی میں تھا اور آپؑ کا فوت ہونا بھی عبادتِ الٰہی میں ہوا۔
(الفضل 3 جنوری 1931ء)

متعلقہ مضمون

  • جلسہ سالانہ کی اہمیت

  • فیصلہ جات مجلس شوریٰ جماعت احمدیہ جرمنی 2024

  • تیری مدد وہ لوگ کریں گے جن کے دلوں میں ہم اپنی طرف سے الہام کریں گے

  • خلافت اور جماعت کے باہمی پیار کا تعلّق