جلسہ سالانہ سے متعلق ارشادات

سیدنا حضرت مسیحِ موعودؑ فرماتے ہیں

اس جلسہ کے اغراض میں سے بڑی غرض تو یہ ہے کہ تا ہر ایک مخلص کو بِالْمَوَاجِہ دینی فائدہ اٹھانے کا موقع ملے اور ان کے معلومات وسیع ہوں اور خداتعالیٰ کے فضل و توفیق سے ان کی معرفت ترقی پذیر ہو۔… اس ملاقات سے تمام بھائیوں کا تعارف بڑھے گا اور اس جماعت کے تعلقاتِ اُخوت استحکام پذیر ہوں گے۔ …جلسہ میں یہ بھی ضروریات میں سے ہے کہ یورپ اور امریکہ کی دینی ہمدردی کے لئے تدابیر حسنہ پیش کی جائیں۔ کیونکہ اب یہ ثابت شدہ اَمر ہے کہ یورپ اور امریکہ کے سعید لوگ اسلام کے قبول کرنے کے لئے طیار ہو رہے ہیں اور اسلام کے تفرقہ مذاہب سے بہت لرزاں اور ہراساں ہیں۔ (مجموعہ اشتہارات جلد1 صفحہ 341،340)

حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ فرماتے ہیں

میں ان دوستوں کو جو یہاں آکر بھی اس جلسہ کے موقع پر اپنا وقت ضائع کرتے ہیں اور تقریروں کے سننے میں پورا حصہ نہیں لیتے ملامت کرنا چاہتا ہوں۔ ……اس میں کوئی شک نہیں کہ لمبی دیر تک بیٹھنا گراں ہوتا ہے اور انسان دیر تک بیٹھنے سے اُکتا جاتا ہے لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ دیر تک بولنا اس سے بھی بہت زیادہ مشکل کام ہے، پھر اگر ایک شخص باوجود صحت کے نہایت کمزور ہونے اور اس عضو کے مائوف ہونے کے جس پر کام کا دارومدار ہے متواتر چھ گھنٹے تک بول سکتا ہے تو میں ہرگز یہ تسلیم نہیں کر سکتا کہ دوسرا آدمی اس سے زیادہ دیر تک سننے کی بھی قابلیت نہیں رکھتا۔ (انوارالعلوم جلد9 صفحہ 439)

حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ فرماتے ہیں

یاد رکھو کہ اجتماع پر اللہ تعالیٰ کا فیضان نازل ہوتا ہے۔ اس وقت ایک تعارف پیدا ہوتا ہے، ایک خدمت کا شریک ہوتا ہے، اپنا خرچ کیا، گھر چھوڑا، آرام چھوڑا، منجملہ اغراض کے یہ غرض بھی ہو سکتی ہے کہ اگر گھر چھوڑتے ہیں۔ احباب سے جدا ہوتے ہیں اور اپنے اغراض اور اموال کو خرچ کرتے ہیں، مشکلات بھی پیش آتی ہیں، تو اس میں تو کوئی شبہ اور کلام نہیں ہو سکتا کہ جب ہم یہ سب کچھ محض خداتعالیٰ کی رضا کے لئے برداشت کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کے مامور اور شکور خدا کی طرف سے قدر بڑھتی ہے اور یہ ایک مزدوری ہوتی ہے جس کا عظیم الشان اجر ملنے والا ہوتا ہے اور ان دعائوں سے حصہ ملتا ہے جو خداتعالیٰ کا مامور خصوصیت کے ساتھ ایسے موقع پر مانگتا ہے… پس ایسے موقعوں پر آنا چاہئے، لیکن پاک اغراض اور رضائے الٰہی کے مقصد کو ملحوظ رکھ کر، نہ کسی اور غرض اور خواہش سے۔ (الحکم 24 مئی 1904 صفحہ 6)

حضرت خلیفۃ المسیح الثالث فرماتے ہیں

ہم دعاؤں کے ساتھ اس جلسہ کو شروع کرتےہیں ہم دعائیں کرتے ہوئے اس جلسے کے ایّام کو گزارتے ہیں اور دعاؤں پر اس جلسہ کو ختم کرتے ہیں کچھ دعائیں ہیں جو مَیں شروع میں کروا دیا کرتا ہوں سب سے بڑی اور اہم دعا… یہ ہے کہ ہم بنی نوع انسان کے لئے دعا کریں۔ بھٹک گیا انسان۔ اپنے پیدا کرنے والے ربّ کریم سے دور چلا گیا انسان۔ اسے بھول چکا انسان۔ جس غرض کے لئے جس مقصد کے لئے انسان کو پیدا کیا گیا تھا وہ مقصد بھی اسے یاد نہیں رہا۔ دعائیں کریں کہ انسان جس مقصد کے لئے پیدا کیا گیا تھا اس مقصد کو سمجھنے لگے۔ (جلسہ سالانہ 1979ء، خطبات ناصر جلد دوم صفحہ 368)

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع فرماتے ہیں

ایک اہم بات جس کی طرف توجہ دلاتا رہا ہوں اور پھر اس کو زیادہ شدت کے ساتھ یاد دلانے کی ضرورت ہے وہ جلسے کے ایام میں نماز باجماعت کا قیام ہے۔ آنے والے مہمان بھی یکساں اس سے مخاطب ہیں اور یہاں خدمت کرنے والے بھی یکساں اس میں مخاطب ہیں۔ جلسے کے ہنگامے کی وجہ سے غیرشعوری طور پر بعض دفعہ خدمت کرنے والے یہ سمجھتے ہیں کہ خدمت تو ہم کر ہی رہے ہیں، نمازیں بھی ہوجائیں گی گویا نمازیں ثانوی حیثیت اختیار کر جاتی ہیں اور خدمت اوّلیت اختیار کر جاتی ہے۔ یہ وہ رُجحان ہے جسے شدّت سے توڑنے کی ضرورت ہے۔ نمازیں اوّل ہی رہتی ہیں سوائے اس کے کہ خدمت کے ایسے ہنگامے میں آئیں کہ فوری طور پر اس وقت ادا نہ کی جاسکیں۔ (خطبات طاہر جلد13 صفحہ498)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

جلسہ بھی نصیحت کرنے، یاددہانی کروانے کے لئے منعقد کیا جاتا ہے یا یہ جلسے دنیا میں ہر جگہ منعقد کئے جاتے ہیں۔ یہ بتانے کے لئے منعقد کئے جاتے ہیں کہ اس زمانے کے امام کی بیعت میں آ کر پھر اپنے عہد کو یاد کرو، اپنے عہدِ بیعت کو یاد کرو۔ اگر دنیاوی مصروفیات کی وجہ سے کچھ کمزوریاں پیدا ہو گئی ہیں تو اب نئے سرے سے نصائح سن کر علمی اور تربیتی وعظ و نصائح اور تقاریر سن کر پھر اپنی دینی حالتوں کی طرف توجہ کرو۔ اکٹھے مل بیٹھ کر ایک دوسرے کی نیکیاں جذب کرنے کی کوشش کرو اور برائیوں کو دُور کرو۔ ہمیشہ یاد رکھیں کہ جلسے کے دوران اپنی ذاتی باتوں کی طرف توجہ نہ ہو بلکہ تمام پروگرام، جتنے بھی ہیں، ان کو سننے کے دَوران بھی اور ان کے بعد بھی زیادہ تر وقت دعاوں اور ذکرِ الٰہی میں گزارنے کی کوشش ہونی چاہئے۔ یہ سوچ کر شامل ہونا چاہئے کہ ہم اس روحانی ماحول میں دو تین دن گزار کر اپنے عہدِ بیعت کی تجدید کر رہے ہیں۔ (خطباتِ مسرور۔ جلد10 صفحہ 305)