(تحقیق: مکرم شیخ عبدالحنان صاحب، ممبر تاریخ کمیٹی جرمنی)

 

جرمن ترجمہ قرآن کے بارے میں ایک تفصیلی مضمون اخبار احمدیہ جرمنی کے اگست 2021ء کے شمارے میں شائع ہو چکا ہے۔ لہٰذا س موقع پر ان شائع شدہ تفصیلات سے قطعِ نظر اس ترجمہ قرآن کے بارے میں مختلف علماء اور ماہرین کے تبصرے ہدیۂ قارئین کئے جاتے ہیں جو ہالینڈ، جرمنی اور سوئٹزرلینڈ کے مقامی اخبارات میں شائع ہوئے تھے۔ محترم چودھری عبداللطیف صاحب مبلغ جرمنی کا کیا ہوا اردو تراجمہ وکالت تصنیف تحریکِ جدید ربوہ نے اخبار الفضل ربوہ میں شائع کرایا تھا۔
ان تبصروں سے اس ترجمہ کے مستند ہونے ساتھ ساتھ اس کی مقبولیت کا بھی اندازہ کیا جا سکتا ہے۔

Freies Volk Berlin

جرمنی کے ایک مؤقر جریدہ Freies Volk Berlin نے اپنی اشاعت مؤرخہ 30 اپریل 1954ء میں جو ریویو لکھا اس کا اردو ترجمہ درج ذیل کیا جاتا ہے۔
قرآنِ کریم مسلمانوں کی مقدس کتاب ہے۔ اس کاایک نیا جرمن ترجمہ حال ہی میں ہمارے پاس پہنچا ہے۔ یہ غیر معمولی سستا اور مختصر ایڈیشن ہے۔ ترجمہ کے ساتھ اصل عربی متن دیا گیا ہے جو اگرچہ ہمارے نزدیک عجیب مگر کتاب کی بنیادی خوبصورتی کا حامل ہےکہ قرآنِ کریم نہ صرف مسلمانوں کے لئے لائحہ تعلیم و عمل ہے بلکہ اس لحاظ سے بھی خاص اہمیت رکھتا ہے کہ اس سے مشرق قریب کے خیالات و افکار کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ محمد(ﷺ) کی کتاب مسلمانوں کے لیے صرف بنیادی لٹریچر ہی نہیں جیسا کہ بائیبل کو سمجھا جاتا ہے۔ موجودہ ایڈیشن کے دیباچہ سے یہ امر روشن ہے کہ اس کے ناشرین، جماعت احمدیہ نے جو مسلمانوں کا ایک ممتاز فرقہ ہے اپنی توجہات کو تبلیغی امور پر مذکور کیا ہے۔ ہمارے نزدیک اسلام اور عیسائیت کے اختلافات کو جو اس دیباچہ کا اصل موضوع ہیں، ایسے رنگ میں پیش کیا گیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ عیسائیوں کے مذہب و کلچر کو اچھی طرح نہیں سمجھا گیا جس کے باعث بہت سی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں۔ بایں ہمہ بعض اعتراضات جو عیسائیت کی موجودہ حالت کے باعث اٹھائے گئے ہیں کسی حد تک حقیقت پر مبنی ہیں۔ لیکن قابلِ تسلیم دلائل کی تعداد بہت محدود ہے کیونکہ اکثر دلائل کی بنیاد عیسائیت کی تنقیض پر ہے جنہیں ناقابلِ تردید رنگ میں پیش کرنےکی کوشش کی گئی ہے۔ یا ان کے استدلال کی خامی تاریخی واقعات سے لاعلمی کے باعث عیاں ہے۔ جماعت احمدیہ کے اس دعوےٰ کے باوجود کہ وہ تبلیغی میدان میں امن و رواداری کی علمبردار ہے، ان کی کتاب اور اس کے رویہ کو دیکھ کر ہم اس اظہارِ یقین میں کوئی باک محسوس نہیں کرتے کہ یہ بہت کم رواداری کی حامل ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ رواداری اسلام سے بھی اتنی ہی بعید ہے جتنی کہ انتہائی متعصب کیتھولک عیسائیوں سے (نقل مطابق اصل)
اس مفہوم کے مطابق دیباچہ اور قرآنِ کریم ایسی نشاندہی کرتے ہیں جو مغرب اور اسلامی دنیا کو ایک دوسرے کے مسائل کے سمجھنے میں ممد ہوسکتی ہے اور ہمیں مشرق و مغرب کے بنیادی اور مختلف نظریات حیات اور ان کے نتیجہ میں پیدا شدہ سیاسی اور ثقافتی تاریخ کا پتہ دیتے ہیں۔
(روزنامہ الفضل لاہور 04 ستمبر 1954ء صفحہ 2)

National Zeitung Basel

سوئٹزرلینڈ کے شمالی شہر Basel کے اخبار National Zeitung نے اپنی اشاعت 22 مئی 1954ء میں مندرجہ ذیل تبصرہ شائع کیا ہے۔
جھوٹے نبی محمد(ﷺ) کے قلعوں کو مسمار کردو پچاس سال سے ہم یہ الفاظ سنتے آئے ہیں۔ ہر اتوار کی صبح مارٹن چرچ کے منبر سے ہمارا بوڑھا پادری ایکلن ترکیہ کی مذہبی جنگوں کے واقعات پڑھ کر سناتا ہے آج تک اس طریق عبادت کا جواب کسی گوشہ سے نہیں آیا تھا۔ لیکن اب ہیمبرگ سے لے کر زیورخ تک۔ اسلامی فرقہ جماعت احمدیہ کے امام نے اپنی خلافت کا سکہ منوایا ہے۔ آپ کا آخری معرکہ دو زبانوں عربی اور جرمن میں مسلمانوں کی کتاب مقدس کی اشاعت ہے۔ جس کی صحت کے اقرار کی ذمہ وار Harrassowitz فرم ہے۔ عمدہ طباعت اور عام فہم زبان کے ساتھ یہ ہلکی پھلکی کتاب ہر عربی دان یا عربی زبان کے طالبعلم کے لئے بیش قیمت تحفہ ہے۔ یہ کتاب ان خطبات کا مجموعہ ہے جن کے ذریعہ حضرت محمدؐ(ﷺ) نے مکہ اور مدینہ کے لوگوں کو خطاب اور جس کی تدوین و ترتیب آپ کے ایک معتمد کے ہاتھوں ہوئی۔ یہ کتاب 114 حصوں یا سورتوں پر مشتمل ہے۔ جو ایک دوسرے کے بعد مقدار کے مطابق ترتیب دی گئی ہیں۔ سورۃ فاتحہ کے علاوہ جو ’’ہمارے باپ‘‘ کی دعا کے مطابق معلوم ہوتی ہے، باقی سورتوں میں سے لمبی سورتوں کو پہلے اور چھوٹی کو بعد میں دکھایا گیا ہے۔ ہر سورت کا نام کسی ایسے لفظ پر رکھا گیا ہے جسے اس سورۃ میں نمایاں حیثیت حاصل ہے۔
قرآنِ کریم کے متعلق گوئٹے یوں رقمطراز ہے:
بے ضرورت تکرار اور بار بار کے احکام جو اس پاک کتاب کی تشکیل کی بنیاد ہیں۔ اس کثرت سے مشاہدہ میں آتے ہیں کہ جونہی ہم اس کتاب کا مطالعہ کرتے جاتے ہیں ہمیں مایوسی ہوتی جاتی ہے۔ لیکن آہستہ آہستہ یہ کتاب ہمارے دل پر اثر کرتی، حیرانی میں ڈالتی اور بالآخر ہماری دلی عقیدت کو کھینچنے میں کامیاب ہوجاتی ہے۔ اس وقت کوئی ایسا خطرہ تو محسوس نہیں ہوتا کہ یہ کتاب بائیبل پر کامیابی حاصل کرکے دوکانداروں کے ہاں اس کا مقام حاصل کر لے گی لیکن عیسائیت اور یہودیت کے متعلق مصنفین کے تنقیدی تبصروں کے باعث اس جانب سے مذہبی اختلافات کی خلیج وسیع ہونے کی توقع ضرور ہے۔
دیباچہ سے ہمیں جماعت احمدیہ کی تاریخ کا بھی علم حاصل ہوتا ہے۔ جسے پہلے تو ایک ہندوستانی تحریک کا مقام حاصل تھا۔ لیکن اب ان کے مشن بیس سے زیادہ ممالک میں پھیلے ہوئے ہیں۔ اسی دیباچہ سے ہمیں یہ علم حاصل ہوتا ہے کہ اس جماعت کے بانی حضرت مرزا غلام احمد (1835-1908) اور آپ کے موجودہ جانشین آپ کے فرزند مرزا محمود احمد خلیفۃالمسیح الثانیؓ ہیں۔
مشن کے انچارج اپنے ایک تعارفی خط میں ہمیں اطلاع دیتے ہیں کہ وہ قرآنِ کریم کا ایک نسخہ پریذیڈنٹ آف سویز کانفیڈریشن کی خدمت میں پیش کرنے والے ہیں۔ ان کے نزدیک جرمن زبان میں قرآنِ کریم کا یہ پہلا جامع ترجمہ ہے۔جامعیت کی بحث سے گریز کرتے ہوئے ہم یہ ذکر کرنا پسند کریں گے کہ 1828ء میں مسٹر ویلز(Wales) نے اور 1901ء میں مسٹر ہیننگ (Hanning) نے بھی قرآنِ کریم کا ترجمہ کیا تھا۔
(روزنامہ الفضل لاہور 07 ستمبر 1954ء صفحہ5)

Geopolitik

جرمن ترجمۃالقرآن پر جرمنی کے ایک مشہور علمی و ادبی ماہوار رسالہ Geopolitik کے اگست 1954ء کے نمبر میں انڈونیشیا میں جرمنی کے سفیر Dr.Otto von Hentigکے قلم سے ریویو شائع ہوا ہے۔ اس کا اردو ترجمہ محترم چوہدری عبداللطیف صاحب مبلغ جرمنی نے فرمایا ہے۔ جو درج ذیل کیا جاتا ہے۔
دوسری جنگِ عظیم کے خاتمہ کے بعد سے قرآن کریم کے مستند جرمن ترجمہ کی ضرورت شدت سے محسوس ہوتی رہی ہے۔ جرمنی کے Near اور Middle Eastern ممالک سے دوبارہ تعلقات کے قیام کی وجہ سے جرمن پبلک میں قرآنِ کریم کے مطالعہ کا شوق بڑھ رہا ہے۔ احمدیہ جماعت کے زیورک اور ہیمبرگ کے مشنوں نے Oriential and Religions Publicashing Corporation LTD,Rabwah (Pakistan) کی طرف سے قرآنِ کریم کے مستند جرمن ترجمہ کی کمی کو پورا کرنے کی سعی کی ہے۔ قرآنِ کریم کا یہ ترجمہ صاف ستھرے باریک کاغذ پر ہالینڈ میں چھپا ہے اور اس کے دائیں طرف اصل عربی متن محنت اور پوری احتیاط کے ساتھ ایک ماہر تحریر کے ہاتھ سے لکھا ہوا ہے اور اپنی تحریر کی خوبی کی وجہ سے اس ترجمہ کو کتابی متاع (Precionsness) کا موجب بناتی ہے۔ جرمن ترجمہ ہر صفحہ پر بائیں طرف درج کیا گیا ہے۔ ہر سورت کے شروع میں سورت کا عربی نام اور اس کے نزول کا مقام (مکہ یا مدینہ) آیت کا نمبر اور رکوع درج کیا گیا ہے۔ قرآنِ کریم کے دو زبانوں کے متنوں (جنہیں 629صفحات میں مکمل کیا گیا ہے) اسے پہلے مفصّل دیباچہ دو حصوں میں درج کیا گیا ہے۔ اس دیباچہ کے مصنف جماعت احمدیہ کے امام حضرت مرزا محمود احمد صاحبؓ ہیں۔ دیباچہ کے پہلے حصہ میں قرآنی تعلیمات کا دوسرے بڑے بڑے مذاہب، عیسائیت، یہودیت اور ہندوازم کی تعلیمات سے موازنہ کیا گیا ہے۔ دوسرے حصہ میں جمع القرآن اور اس کے نزول کی تفاصیل کے ساتھ ساتھ اس کی تعلیمات کی خصوصیات پر بحث کی گئی ہے۔ قرآنِ کریم کے اس جرمن ترجمہ کے متعلق ناشرین نے لکھا ہے کہ وہ یہ دعویٰ نہیں کرتے کہ یہ ترجمہ بہترین ہے۔ Orthodox علماء کی رائے کے مطابق قرآنِ کریم کا ترجمہ دوسری زبانوں میں محال ہے۔ اس بارہ میں تمام کوششیں تفسیر قرار دی جاسکتی ہیں۔ Orthodox مسلمانوں کے لیے یقیناً اس ترجمہ کے متعلق کہیں کہیں اعتراض کی گنجائش ہوگی۔ لیکن چونکہ اس ترجمہ کو اصل عربی متن کے ساتھ شائع کیا گیا ہے۔ اس لیے اس کو شائع کرنے والوں نے اس احتیاط اور یقین کا سامان بہم پہنچا دیا ہے۔ کہ اس کو پڑھنے والے اسلام کی صحیح تصویر حاصل کر سکیں گے۔ قرآنِ کریم کی مستند اور مشہور علماء کے ہاتھ سے لکھی ہوئی مختلف تفاسیر اس بات کو واضح طور پر ظاہر کرتی ہیں کہ قرآنِ کریم کا ایسا ترجمہ شائع کرنا جو سب کی رائے میں درست ہو کتنا مشکل کام ہے۔ اس ترجمہ کے نئے ایڈیشن کے متعلق اس امر کا اہتمام غالباً مناسب ہوگا۔ کہ ہر سورۃ کا جرمن ترجمہ بھی درج کیا جائے اور مختصر طور پر یہ بھی واضح کیا جائے کہ یہ نام کیوں تجویز کیا گیا ہے۔ جرمن پبلک کے لیے یہ بھی ضروری ہوگاکہ مشکل اور ہم آیات کا مطلب تفصیلی Foot notes کی صورت میں درج کیا جائے۔
(روزنامہ الفضل لاہور 15 اکتوبر 1954ء صفحہ 4)

Bibel und Liturgie

آسٹریا کے ایک مؤقر جریدہ Bibel und Liturgie نے اگست و ستمبر 1954ء کے شمارہ میں قرآنِ کریم کے جرمن ترجمہ پر مندرجہ ذیل ریویو کیا ہے۔
قرآنِ کریم کا نیا شائع کردہ ترجمہ عربی زبان اور اُس کے لٹریچر کو سمجھنے میں کافی مدد دینے کا موجب ہوگا۔ آسٹریا میں الٰہیات اور مشرقی علوم کے طالب علموں کو جو عربی میں ڈاکٹری کے امتحان میں شامل ہو رہے ہیں۔ ادب عربی میں مہارت پیدا کرنے کے لیے اس کتاب کا ضرور مطالعہ کرنا چاہیے۔
(روزنامہ الفضل لاہور 14 دسمبر 1954ءصفحہ5)
(جاری ہے)

متعلقہ مضمون

  • قرآنِ کریم اور کائنات

  • نُورِ ہدایت

  • ارضِ مقدّس کے حقیقی وارث

  • ارضِ مقدّس کے حقیقی وارث