تعارف کتب
مرتبّہ: محمد انیس دیالگڑھی

 

فتح اسلام کو تحریر کرتے وقت حضور نے فرمایا تھا کہ اس کے بعد دو مزید رسالے توضیح مرام اور ازالہ اوہام تالیف ہوں گے اور یہ فتح اسلام کا ہی حصہ ہوں گے۔
حضور نے حضرت مسیح کے آسمان پر جانے کے مسئلہ کو دوبارہ تفصیل سے بیان کیا اور عام فہم دلائل سے ثابت کیا کہ حضرت مسیح کے آسمان پر چڑھ جانے کا عقیدہ نیا نہیں بلکہ مذہب کی تاریخ میں اس سے قبل ایلیا اور ادریس علیہم السلام کے بارہ میں یہ خیال تھا جو آسمان پر چڑھ گئے ہیں اور پھر کسی زمانہ میں زمین پر واپس نازل ہوں گے۔ ایلیا کے بارہ میں کہا جاتا تھا کہ وہ مسیح کی آمد سے قبل نازل ہوں گے جب حضرت عیسیٰ سے یہ سوال کیا گیا کہ ایلیا کہاں ہے جس نے مسیح سے قبل آنا تھا۔ تو انہوں نے فرمایا کہ ’’یوحنا جو آنے والا تھا یہی ہے چاہو تو قبول کرو‘‘۔ یعنی حضرت یوحنا (یحیٰ) ہی ایلیا کے رنگ میں آئے ہیں۔ کہ اس مثال سے یہ مقدمہ طے پا گیا کہ آسمان سے آںے کا مطلب یہ ہے کہ کوئی اور شخص اس کے رنگ میں آئے گا۔ مگر یہودیوں نے ابھی تک حضرت عیسیٰ کو اس لئے نہیں مانا کہ وہ ایلیا جس کا آسمان سے آںا مقدر تھا وہ آسمان سے ہی آئے گا نہ کہ کوئی اور اس کی مماثلت میں۔ چنانچہ حضرت مسیح بھی واپس نہیں آئیں گے۔ خود انجیل میں لکھا ہے کہ حضرت مسیح ایک چور کو تسلی دے کر کہتے ہیں آج تو میرے ساتھ بہشت میں داخل ہوگا۔ اب عیسائیوں اور مسلمانوں کا متفقہ عقیدہ ہے کہ کوئی شخص بہشت میں داخل ہو کر اس سے نکالا نہیں جائے گا۔
اللہ جل شانہ قرآنِ کریم میں فرماتا ہے۔ وَمَا ھمۡ مِّنۡہَا بِمُخۡرَجِیۡنَ (الحجر:49)
کہ وہ بہشت سے نکالے نہیں جائیں گے۔ لہٰذا حضرت عیسیٰ بھی جنت میں داخل ہو کر وہاں سے نکالے نہیں جائیں گے

ابن مریم مر گیا حق کی قسم
داخل جنت ہوا وہ محترم

پھر آپ نے فرمایا کہ قرآن کے عقیدہ کے خلاف ہے کہ کوئی شخص آسمان پر چڑھ جائے۔ خود ہمارے نبی کریمﷺ سے یہ معجزہ مانگا گیا کہ آپ آسمان پر چڑھ کر دکھا دیں تو قرآن نے اس کا یہی جواب دیا کہ قُلْ سُبْحَانَ رَبِّی۔ یعنی خداتعالیٰ کی حکیمانہ شان اس سے پاک ہے کہ ایسے کھلے کھلے خوارق اس دارالابتلاء میں دکھاوے اور ایمان بالغیب کی حکمت کو تلف فرمائے۔ آپ نے احادیث کی رُو سے بھی ثابت کیا کہ بخاری کی حدیث میں جہاں ابن مریم کے نازل ہونے کا ذکر ہے وہاں یہ بھی ذکر ہے کہ اِمَامُکُمْ مِنْکُمْ۔ وہ تمہارا ہی امام ہوگا جو تم میں سے ہی ہوگا۔ پس یہ مت خیال کرو کہ سچ مچ مسیح ابن مریم ہی اتر آئے گا بلکہ یہ نام استعارہ کے طور پر بیان کیا گیا ہے ورنہ درحقیقت وہ تم میں سے، تمہاری ہی قوم میں سے تمہارا ایک امام ہوگا جو ابن مریم کی سیرت پر پیدا ہوگا۔
حضور نے تفصیل سے پیش گوئیوں میں استعارہ استعمال کئے جانے کی وجہ اور حکمت بتائی اور قرآنِ کریم کے لطیف اشارات اور استعارات کو بیان فرمایا ہے۔
آپؑ نے سورۃ شمس میں بیان کئے جانے والے استعارات کی تفسیر بھی فرمائی۔ آپؑ نے ملائکہ کے فرائض کی تفصیل بیان فرماتے ہوئے حضرت جبرائیل کے تین کام بیان فرمائے۔
اوّل یہ کہ جب رِحم میں ایسے شخص کے وجود کے لئے نطفہ پڑتا ہے جس کی فطرت کو اللہ جلّشانہٗ اپنی رحمانیت کے تقاضا سے جس میں انسان کے عمل کو کچھ دخل نہیں ملہمانہ فطرت بنانا چاہتا ہے تو اس پر اسی نطفہ ہونے کی حالت میں جبریلی نور کا سایہ ڈال دیتا ہے تب ایسے شخص کی فطرت منجانب اللہ الہامی خاصیت پیداؔ کر لیتی ہے اور الہامی حواس اس کو مل جاتے ہیں۔ پھر دوسرا کام جبریل کا یہ ہے کہ جب بندہ کی محبت خدائے تعالیٰ کی محبت کے زیر سایہ آپڑتی ہے تو خدائے تعالےٰ کی مربّیانہ حرکت کی وجہ سے جبریلی نور میں بھی ایک حرکت پیدا ہو کر محب صادق کے دل پر وہ نور جا پڑتا ہے یعنی اس نور کا عکس محب صادق کے دل پر پڑ کر ایک عکسی تصویر جبریل کی اس میں پیداہو جاتی ہے۔جو ایک روشنی یا ہوا یاگرمی کا کام دیتی ہے اور بطور ملکۂ الہامیہ کے ملہم کے اندر رہتی ہے۔ ایک سرا اس کا جبریل کے نور میں غرق ہوتاہے اور دوسرا ملہم کے دل کے اندر داخل ہوجاتا ہے جس کو دوسرے لفظوں میں روح القدس یا اس کی تصویر کہہ سکتے ہیں۔ تیسرا کام جبریل کا یہ ہے کہ جب خدائے تعالیٰ کی طرف سے کسی کلام کا ظہور ہو تو ہوا کی طرح موج میں آکر اس کلام کو دل کے کانوں تک پہنچا دیتا ہے یا روشنی کے پیرایہ میں افروختہ ہو کر اس کو نظر کے سامنے کر دیتا ہے یا حرارت محرکہ کے پیرایہ میں تیزی پیداکر کے زبان کو الہامی الفاظ کی طرف چلاتا ہے۔

متعلقہ مضمون

  • روئداد جلسہ دعا

  • کتاب البریہ

  • ہر مخالف کو مقابل پہ بلایا ہم نے

  • الموعود