سیّدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس نے مؤرخہ 19 نومبر 2023ء کو واقفاتِ نَو جماعت احمدیہ بیلجیئم سے آن لائن ملاقات کے دوران ارضِ مقدّسہ اور خدائی وعدہ جات کے متعلق سورۃ الانبیاء اور سورۃ بنی اسرائیل کے پہلے رکوع کی منتخب آیات کی تفسیر کا مطالعہ تفسیر کبیر بیان فرمودہ حضرت خلیفۃالمسیح الثانی سے کرنے کا ارشاد فرمایا۔ اس ضمن میں سورۃ بنی اسرائیل آیت نمبر 5-6 کی تفسیر ہدیہ قارئین کی جاتی ہے۔

وَقَضَیۡنَاۤ اِلٰی بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ فِی الۡکِتٰبِ لَتُفۡسِدُنَّ فِی الۡاَرۡضِ مَرَّتَیۡنِ وَلَتَعۡلُنَّ عُلُوًّا کَبِیۡرًا۞

تفسیر: فرمایا کہ تمہارا نبی مثیل موسیٰ قراردیاگیا ہے اوراس مشابہت کو پوراکرنے کے لئے اسے بیت المقدس اوراس کے گرد کا علاقہ دیاجانے والا ہے۔ پس تم کو اس امر میں احتیاط کرنی چاہیے کہ جو کچھ بنی اسرائیل سے بعدمیں معاملہ ہوا وہ تم سے نہ ہو اوروہ واقعہ یہ بیان فرماتاہے کہ بنی اسرائیل کے متعلق ہم نے خبر دی تھی کہ دو دفعہ تم دنیا میں عظیم الشان فساد کے مرتکب ہوگے۔ اور سخت مظالم کرو گے اور تم کو اس کی سزا میں تباہ کر دیا جائے گا۔ گو سزا دینے کا یہاں لفظاً ذکر نہیں کیا گیا۔ لیکن اگلی آیت سے یہ مضمو ن ظاہر ہے۔

اس آیت سے مندرجہ ذیل امور نکلتے ہیں:

(1) اس میں قَضَیْنَا فی الْکِتٰبِ کے الفاظ ہیں۔ جن سے مراد حضرت موسیٰ کی کتاب ہے

(2) اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ بنی اسرائیل کے دو دفعہ باغی ہو کر الٰہی عذاب میں مبتلا ہونے کی خبر اس کتاب میں پہلے سے دے دی گئی تھی۔ نئے اور پرانے مفسرین نے اس آیت کی تفسیر میں دوغلطیاں کی ہیں۔

اوّل تویہ کہ بنی اسرائیل کی تباہی کے بعض واقعا ت تو درج کر دئیے ہیں۔ لیکن قرآنی الفاظ کی صداقت کے اظہار کے لئے وہ پیشگوئی درج نہیں کی۔ جس کا ذکر قرآنِ کریم نے کیا ہے۔ دوم جنہوں نے پیشگوئی بیا ن کرنے کی طرف توجہ کی ہے انہوں نے یہ نہیں سوچا کہ اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ پیشگوئی موسیٰ کی کتاب میں بیان کی گئی تھی۔ مَیں نے ان دونوں امور کو مدِّنظر رکھا ہے اور موسیٰ کی کتب سے پیشگوئیاں بیان کی ہیں اور واقعات تاریخی جمع کرکے لکھے ہیں۔

عَلَا بمعنیٰ ظلم ہے یعنی تم لوگوں کے اوپر ظلم کروگے جبر کرنے لگ جائو گے اور تکبر کرو گے اور ظلم سے کام لو گے۔ کیونکہ عَلَا (یَعْلُوْ۔عَلُوًّا) فُلَانٌ کے معنی ہوتے ہیں۔ تَکَبَّرَ وَ تَجَبَّر یعنی تکبر کیا اور ظلم سے کام لیا۔ وَعَلَا فُلَانًا بِالسَّیْفِ: ضَرَبَہٗ۔ اس کو تلوار سے مارا۔

فِی الْکِتٰبِ۔ کہہ کر یہ بتایا ہے کہ اس کا ذکر موسیٰ کی کتاب میں ہے۔ چنانچہ موسیٰ کی کتاب میں بھی اس کا ثبوت ملتا ہے استثناء باب 28۔ آیت 15 میں لکھا ہے’’لیکن اگر تُو خداوند اپنے خدا کی آواز کاشنوا نہ ہوگا کہ اس کے سارے شرعوں اور حکموں پر جو آج کے دن مَیں تجھے بتاتا ہوں دھیان رکھ کے عمل کرے تو ایسا ہوگا کہ یہ ساری لعنتیں تجھ پر اتریں گی اور تجھ تک پہنچیں گی‘‘۔ اس کے بعد ان لعنتوں کا ذکر کیا ہے جو نافرمانی کی وجہ سے ان پر اُتریں گی۔ چنانچہ فرماتا ہے ’’خداوند تجھ کواور تیرے بادشاہ کو جسے تو اپنے اوپر قائم کرےگا ایک گروہ کے درمیان جس سے تُو اور تیرے باپ دادے واقف نہ تھے لے جائے گا ‘‘۔ آیت 36۔ پھر لکھا ہے۔’’خداوند ایک گروہ دور سے زمین کی انتہاسے ایساجلد بلکہ جیسا عقاب اُڑتا ہے تجھ پر چڑھا لائے گا وہ ایک گروہ ہوگی جس کی زبان تو نہ سمجھے گا وہ ترشرو گروہ ہوگی جو نہ بوڑھے کا ادب نہ جو ان پر کرم کرے گی اور وہ تیری مواشی کا پھل اور تیری زمین کا پھل کھا جائے گی یہاں تک کہ تو ہلاک ہو جائے گا۔ اس لئے کہ غلّے اور مَے اور تیل اور تیری گائے بیل کی بڑھتی اور بھیڑ بکری کے گلّوں سے تیرے لئے کچھ نہ چھوڑے گی یہاں تک کہ وہ تجھے فنا کر دے گی اور وہ تجھے تیرے سب پھاٹکوں میں آ گھیرے گی یہاں تک کہ تیری اونچی اور محکم دیواریں جن کا تجھے اپنے سارے ملک میں بھروسا تھا گرجائیں گی اور وہ تجھے اس ساری زمین میں جسے خداوند تیرے خدا نے تجھے دیا ہے ہر ایک شہر کے سب پھاٹکوں میں آ گھیرے گی۔ اور تو اپنے ہی بدن کا پھل ہاں اپنے بیٹوں اور اپنی بیٹیوں کا گوشت جنہیں خداوند تیرے خدا نے بخشا تھا اس محاصرہ کے وقت اور اس تنگی میں جو میرے بیریوں کے سبب سے تجھ پر ہوگی کھائے گا وہ شخص جو تم میں نرم دل اور بہت ناز پروردہ ہوگا اس کی بھی نظر اپنے بھائی کی طرف اور اپنی ہمکنار جو روکی طرف اور اپنے باقی لڑکوں کی طرف جنہیں اس نے چھوڑ دیا ہوگا بری ہوگی یہاں تک کہ وہ اپنے بچوں کے گوشت میں سے جسے وہ کھائے گا انہیں ان میں سے کسی کو کچھ نہ دے گا کیونکہ اس محاصرے اور تنگی میں جو تیرے دشمنوں کے باعث سے تیرے سارے پھاٹکوں میں تجھ پر ہوگی اس کے لئے کچھ نہ باقی رہے گا وہ عورت بھی جو تمہارے درمیان نرم دل اور نہایت نازنین ہوگی ایسی کہ نزاکت اور نرمی سے اپنے پائوں کا تلوا زمین پر لگانے کی جرأت نہیں رکھتی اس کی نظر اپنے ہمکنار شوہر کی طرف اور اپنے بیٹے کی طرف اور اپنی بیٹی کی طرف بُری ہوگی‘‘۔

(آیت 49تا56)

پھر لکھا ہے: ’’اور یوں ہوگا کہ جس طرح خداوند نے تم سے خوش ہو کر تمہارے ساتھ نیکی کی اور تمہیں بہت کر دیا اسی طرح خداوند تمہاری بابت خوش ہوگا کہ تمہیں ہلاک کرے اور نیست و نابود کر ڈالے اور تو اس سرزمین سے جس کا تو مالک ہونے جاتا ہے جڑھ سے اُکھاڑ ڈالا جائے گا۔ اور خداوند تجھ کو سب قوموں کے درمیان زمین کے اس سرے سے اس سرے تک تِتربتّرکرے گا اور وہاں تُو غیر معبودوں کی جو لکڑیاں اور پتھر ہیں جس سے نہ تُو نہ تیرے باپ دادے واقف تھے پر ستش کرے گا ‘‘۔

(آیت 63 و 64)

ان آیات میں حضرت موسیٰ کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو خبردار کیا ہے کہ اگر وہ احکام الٰہی کو توڑ دیں گے تو ایک وقت ایسا آئے گا کہ ایک غیرقوم دور سے ان پر چڑھ آئے گی۔ اور ان کا محاصرہ کرے گی۔ محاصرہ کے وقت قحط اور وباء پڑیں گے۔ آخر ان کے شہروں کی فصیلیں توڑ دی جائیں گی بادشاہ قید کرکے لے جایا جائے گا۔ اور قوم جلا وطن کرکے دور علاقوں میں بھیج دی جائے گی۔ یہ پیشگوئی ان دو فسادوں میں سے جن کا قرآنِ کریم نے ذکر کیا ہے پہلے فساد کی نسبت ہے۔

یہ جو فرمایا قَضَیْنَاۤ اِلٰى بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اس کے یہ معنی ہیں کہ ہم نے ایک وحی کے ذریعہ سے بنی اسرائیل کو آئندہ آنے والی اس مصیبت سے خبر دے دی تھی مگر افسوس کہ وہ پھر بھی ہوشیار نہ ہوئے۔

دراصل پہلے بتانے سے غرض ہوشیار کرنا ہی ہوتا ہے اور ہوشیار کرنے کے دو مقصد ہوتے ہیں۔ (1) انسان کوشش کرے اور بچ جاوے۔ (2) اگر نہ بچے تو اس پر حجّت پوری ہو۔

آنحضرتﷺ نے بھی اپنی امت کے متعلق فرمایا ہے لَتَتَّبِعُنَّ سُنَنَ مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ (بخاری کتاب الاعتصام بالکتاب والسنۃ باب قول النبی لتتبعن سنن من کان قبلکم) کہ تم پہلے لوگوں کے طریقہ پر عمل کرو گے۔ اور بعض احادیث میں ہے کہ یہود و نصاریٰ کے نقش قدم پر چلو گے مگر افسوس کہ باوجود ہوشیار کر دینے کے مسلمان بھی اس آفت سے نہ بچے۔

فَاِذَا جَآءَ وَعۡدُ اُوۡلٰہُمَا بَعَثۡنَا عَلَیۡکُمۡ عِبَادًا لَّنَاۤ اُولِیۡ بَاۡسٍ شَدِیۡدٍ فَجَاسُوۡا خِلٰلَ الدِّیَارِ وَکَانَ وَعۡدًا مَّفۡعُوۡلًا ۞

اب اس پیشگوئی کے پورا ہونے کا حال بتاتا ہے اور فرماتا ہے کہ جب پہلے وعدہ کا وقت آ گیا تو اے بنی اسرائیل ہم نے تم پر ایسے لوگ غالب کر دئے جو سخت جنگ کرنے والے تھے۔ وہ آئے اور تمہارے گھروں میں گھس گھس کر انہوں نے تم کو ہلاک کر دیا۔ وَکَانَ وَعْدًا مَّفْعُوْلًا۔ وہ وعدہ ہمارا پورا ہو کر رہنے والا تھا۔ یایہ کہ ہمارا وعدہ پورا ہوہی گیا ہے۔

جن دو عذابوں کے متعلق اس آیت میں خبر دی گئی ہے اس کا ذکر قرآنِ کریم میں ایک دوسری جگہ یوں کیا گیا ہے لُعِنَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنۢ بَنی اِسْرَآءِیلَ عَلٰى لِسَانِ دَاوٗدَ وَ عِیسَى ابْنِ مَرْیَمَ (المائدۃ:79) اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک دفعہ حضرت دائودؑ کے بعد عذاب آیا اور ایک دفعہ حضرت عیسیٰؑ کے بعد آیا۔

پہلے عذاب کا حال بائبل سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ یہود حضرت موسیٰؑ کے بعد طاقتور ہوگئے تھے۔ حتّٰی کہ حضرت دائودؑ کے زمانہ میں ایک زبردست حکومت کی بنیاد پڑگئی جو ان کے بعد بھی ایک عرصہ تک قائم رہی اور آخر آہستہ آہستہ کمزور ہوتی گئی اور آخری زمانہ میں بابل کے شمال کے علاقہ میں بسنے والی اشوری قوموں نے ان کو شکست دی یہ قوم نینوا کی بادشاہ تھی۔ انہوں نے یہود کو اپنا باجگذار بنا لیا اس کے بعد ‘‘نیکو’’ ایک مصر کا شہزادہ تھا۔ اس نے اسوریوں کو شکست دی اور وہ نینوا کی بجائے مصریوں کے باجگذار بن گئے۔ 600سال قبل مسیح کے قریب اور حضرت دائود سے قریباً 400سال بعد یرمیاہ نبی کی معرفت ان کو ان کی خرابیوں پراللہ تعالیٰ نے پھر متنبہ کیا۔ اور ان کے گناہو ں پر انہیں پھر تنبیہہ کی اور فرمایا کہ اگر اب بھی توبہ کر لو تو وہ جو تمہارے لئے جلا وطنی کی پیشگوئی تھی ٹلا دی جائے گی مگر وہ باز نہ آئے۔

(یرمیاہ باب 7)

آخر اللہ تعالیٰ نے بابلیوں کو ان کے عذاب کے لئے مسلّط کیا۔ یہ واقعہ بائبل کی کتا ب 2 سلاطین باب 25 میں یوں لکھا ہے’’شاہِ بابل نبو کدنضر نے اور اس کی ساری فوج نے یروشلم پر چڑھائی کی‘‘۔ آیت1۔ اور اس کامحاصرہ کرلیا۔ یہ محاصرہ بہت دیر تک رہا۔ اس وقت یروشلم کا بادشاہ صدقیاہ تھا۔ جب محاصرہ نے طول پکڑا تو شہر کے اندر غلّہ کم ہوگیا۔ لکھا ہے ’’تب شہر ٹوٹا‘‘آیت 4 یعنی بابل کی فوج نے فصیل توڑ دی۔ آخر لوگ ایک طرف کا دروازہ کھول کر بھاگے صدقیاہ بادشا ہ بھی بھاگا مگر پکڑا گیا اس کی آنکھیں نکالی گئیں اور آنکھیں نکالنے سے پہلے اس کے بیٹوں کو اس کے سامنے ہلاک کر دیا گیا پھر اس کے پائوں میں بیڑیاں ڈال کر اسے بابل لے گئے آیت 4 تا 7۔ اس کے بعد شاہِ بابل نے اپنے ایک افسر بنو زردان کو یروشلم بھجوایا۔ اس نے آکر’’خداوند کاگھراوربادشاہ کا قصر (محل) اور یوروشلم کے سارے گھر ہاں ہر ایک رئیس کا گھر جلا دیا۔ اور کُسدیوں کے سار ے لشکر نے جو جلوداروں کے سردار کے ہمراہ تھا ان دیواروں کو جو یروشلم کے گردا گردتھیں گرا دیا اور باقی لوگوں کو جو شہر میں چھوڑے گئے تھے اور ان کو جنہوں نے اپنوں کو چھو ڑکے شاہِ بابل کی پناہ لی تھی تمام جماعت کے بقیّہ کے ساتھ بنوزردان جلوداروں کا سردار پکڑ کرلے گیا‘‘۔

(آیت 9 تا 11)

نحمیاہ نبی کی کتاب سے معلوم ہوتا ہے کہ اس تباہی کا ایک بڑا باعث سبت کی بےحرمتی تھی۔ چنانچہ لکھا ہے ’’ تب مَیں نے یہوداہ کے شریف لوگوں سے تکرار کرکے کہا کہ یہ کیا بُرا کام ہے جو تم کرتے ہو کہ سبت کے دن کو مقدّس نہیں جانتے ہو کیا تمہارے باپ دادوں نے ایسا نہیں کیا اور ہمارا خدا ہم پر اور اس شہر پر یہ سب آفتیں نہیں لایا؟ تب بھی تم سبت کے دن کو پاک نہ مان کے اسرائیل پر زیادہ غضب بھڑکاتے ہو؟ ‘‘۔

(باب 13آیت 17۔ 18)

اسی طرح حزقیل نبی نے بھی اس وقت یہود کو ڈرایا تھا۔ انہوں نے ان کے بہت سے گناہوں کا ذکر کرتے ہوئے ان میں سے ایک گناہ یہ گنایا ہے کہ ’’  تُو نے میرے مقدّسوں کو ناچیز جانا ہے اور میرے سبتوں کو ذلیل کیا ہے‘‘ حزقیل باب 22آیت8۔ پھر باب 23آیت 38 میں ہے’’اس کے سوا انہوں نے مجھ سے یہ کیا ہے کہ اسی دن انہوں نے میرے مقدّس کو ناپاک کیا اور میرے سبتوں کو حرمت نہ دی ‘‘۔

مَیں نے سبت کی بےحرمتی کے حوالے اس لئے دئے ہیں کہ اس جگہ صرف سخت عذاب کی خبر بتائی گئی ہے مگر درحقیقت اشارہ سورئہ نحل کی آیات کی طرف ہے جن میں کہا گیا تھا کہ اِنَّمَاجُعِلَ السَّبْتُ عَلی الَّذِیْنَ اخْتَلَفُوْا فِیْہِ (النحل:125) یعنی سبت کا عذاب ان لوگوں پر نازل کیا گیا تھا جنہوں نے الٰہی کلام میں اختلاف کرکے دین کو نقصان پہنچایا تھا۔ قرآنِ کریم کے مضامین کی ترتیب کی اس آیت میں ایک زبردست شہادت ہے کہ سورہ نحل جو بعد میں اُتری ہے اس میں سبت کا ذکر ہے سورئہ بنی اسرائیل اس سے پہلے کی نازل شدہ ہے اور اس کے مضامین سورئہ نحل سے اس طرح چسپاں ہو جاتے ہیں گویا سورئہ نحل پہلے کی ہے اور اِسراء بعد کی۔ اور اس میں سورئہ نحل کے مضامین کے جواب دیئے گئے ہیں اور ان کی تکمیل کی گئی ہے۔

تاریخ سے بابلیوں کی اس چڑھائی کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ جب یہود کمزور ہوگئے تو اسوریوں نے فلسطین کو فتح کرکے اپنا تابع کرلیا۔ لیکن اس کے بعد ایک مصری بادشاہ فرعون نیکو (Pharaoh Necho) نامی نے اسورین حکومت کو تباہ کر دیا۔ اور فلسطین اسوریوں کی حکومت سے نکل کر مصر کی حکومت تلے آگیا۔ فرعون مصر نے یوسیاہ کے بیٹے الیاقیم (اس کا نام یہویقیم کردیا گیا)Eliakim کو وہاں کا بادشاہ بنا دیا۔ لیکن اس دوران میں اسورین کی حکومت کی تباہی کو دیکھ کر اس کے ہمسایہ کلدانی (Chaldean) بادشاہ نے اپنے بیٹے نبوکدنضر (Nebuchadnezzar)کو نِیکو کے مقابلہ کے لئے بھیجا۔ اور نبوکدنضر نے مصر کو فتح کرلیا۔ اور فلسطین بابلیوں کے زیرِ اثر آگیا۔ مگر فلسطین کا بادشاہ یہویقیم مصر کی طرف مائل رہا۔ اس پر نبوکدنضر نے اس پر چڑھائی کی (یہ چڑھائی نبوکدنضر کے جرنیل نے کی 587۔ ق۔ م۔ جس کانام بنوز رآدم تھا) مگر اس کے لشکر پہنچنے سے پہلے بادشاہ یہویقیم مَر گیا۔ اس کا بیٹا یہویکین (Jehoiachin) تابِ مقابلہ نہ لا کر معافی کا طلبگار ہوا۔ اسے بابل بلا لیا گیا۔ اور صدقیاہ (Zedekiah) یہ یہویقیم کا بھائی تھا اور اس کا اصل نام متنیاہ Mattaniah تھا) کو فلسطین کا بادشاہ بنا دیا گیا۔ مگر اس نے بھی مصر کے بادشاہ حوفرا (Hophra) کی طرفداری کی۔ اس پر بابلیوں نے 588 قبل المسیح میں فلسطین کے دارالخلافہ کا محاصرہ کر لیا۔ آخر 586قبل مسیح میں شہر کی دیوار توڑ دی گئی۔ صدقیاہ بھاگا۔ مگر گرفتار کر لیا گیا۔ اور بادشاہ کے حکم سے قید کرکے بابل پہنچایا گیا۔ بابلیوں نے یہود کی مقدّس عمارات کو جلا دیا۔ اور فصیل کو گرا دیا۔ اور شہر برباد کر دیا۔

(اخبار احمدیہ جرمنی، شمارہ جنوری 2024ء صفحہ 15)

متعلقہ مضمون

  • قرآنِ کریم اور کائنات

  • اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد

  • نُورِ ہدایت

  • ارضِ مقدّس کے حقیقی وارث